صحافت آئینہ اور کردار سازی ہے
سچ فطرت ہے مثال کے طور پر آج ملک میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے یہ سچ ہے تو کیا کوئی لکھ سکتا ہے کہ مسلم لیگ کی حکومت ہے؟
انسان اپنی تاریخ میں بہت سے ادوار سے گزر کر بھی شاید انسان کہلانے کا مستحق قرار نہیں پایا ۔ویسے تو وہ انسان ہی ہے لیکن وہ جس میں انسانیت پوری طرح زندہ ہو وہ آج بھی خال خال ہی دکھائی دیتا ہے۔
بہرحال اس سفر میں اس کا خود ساختہ جائزہ، اپنی غلطیوں کوتاہیوں پر نظر ڈالنا، انھیں ضابطۂ تحریر میں لانا، ان پر بحث و تمحیص کرنا، زندگی کے خدّوخال پر تھیٹر بنانا، بعد میں فلم، ناولز تحریر کرنا یعنی بتدریج جائزہ لینے پر معلوم ہوگا کہ انسان نے اگر کائنات سے بہت کچھ سیکھا ہے تو وہاں اس نے خود اپنے آپ سے بھی کم نہیں سیکھا وہ حادثات سے گزرتا رہا اور اپنے شعور کے اضافے کو تحریر کرتا رہا اس نے لکڑی، چمڑے، کھال، لوہے، قرطاس اور پھر کاغذ سمیت بہت سی اشیاء پر مختلف ادوار میں وہ تحریر کیا جو اس پر بیتا۔
اگر میں اس سفر کو آج کے پرنٹ میڈیا، سوشل، الیکٹرانک میڈیا تک درجہ بہ درجہ لکھوں تو ایک دفتر درکار ہوگا لیکن مختصراً یہ سفر بہت طویل رہا جو حضرت انسان نے طے کیا ۔آج صحافت کو دنیا بھر میں ریاست کا ایک مضبوط ستون قرار دیا جاتا ہے، اور یہ ایسے ہی نہیں قرار دیا گیا بلکہ خبر اور اخبار نے تجارت، مہارت، سیاست، حکومت،طاقت اور اسی نوع کے قافیہ بردار معاملات میں ایک تہلکہ مچا دیا، یہ رابطے کا سب سے بڑا ذریعہ قرار پایا۔
اس کی تفصیل بھی بہت طویل ہے لیکن میں اس میں نہیں جائوں گا میرا موضوع آج وطن عزیز میں صحافت اور صحافیوں کا مستقبل ہے ۔اور اس حقیقت کی جانب اشارہ کرنا ہے کہ صحافت پر قدغن سے ہماری روز افزوں تنزّلی میں خاطرخواہ اضافہ ہوگا اور جو نت نئی ترامیم حکومت اس ضمن میں کرانا چاہ رہی ہے وہ بھی ناکامی سے دوچار ہوں گی اس لیے کہ عوام وہ سننا اور پڑھنا چاہتے ہیں جو سچ ہے وہ کنٹرولڈ میڈیا پر کنٹرولڈ خبریں سن سن کر بیزار ہوچکے ہیں۔
اور جناب اعلیٰ اگر غور فرمائیں، تو یہی صحافی تھے یہی صحافت تھی جن کے بولے گئے سچ پر آپ کو حکومت ملی تھی لیکن وہ سچ آپ کو اس لیے پسند تھا کیونکہ وہ اس وقت کی حکومت سے متعلق تھا تب آپ اسی صحافت کے معترف تھے، اسی کے گن گایا کرتے تھے آج کا سچ آپ کے بارے میں ہے جو آپ کو سننے میں برا محسوس ہورہا ہے لیکن سچ تو سچ ہی رہتا ہے اسے بدلنے والے صحافی نہیں ہوتے تنخواہ دار ہوسکتے ہیں۔
دیکھیے آج دنیا 21ویں صدی میں داخل ہوچکی ہے انسان وہاں سے بہت دور دراز کا سفر کرچکا جہاں کبھی زبان بندی ہوا کرتی تھی، بادشاہت کا دور تھا، شہنشاہیت کا زمانہ تھا، جبر و استبداد کی حکومت تھی ۔ہم وہاں سے نکل آئے، انسان آزاد ہوچکا وہ اب سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا کے تیز ترین دور میں ہے جہاں دنیا گلوبل ولیج کی صورت میں موجود ہے ۔
آج بچے بچے کے ہاتھ میں اینڈرائیڈ فون ہے جس میں پورا کمپیوٹر موجود ہے ایک نو عمر بچہ بھی ساری دنیا کو دن میں کئی مرتبہ دیکھ لیتا ہے، تعلیم صحت، کاروبار، سب کچھ آن لائن ہے، دنیا وہاں نہیں ہے جہاں آپ پاکستان کی صحافت کو دھکیل رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس میں کامیاب بھی ہو جائیں گے ۔ ہرگز نہیں، آپ ملک کو غاروں کے زمانے میں لے کر نہیں جاسکتے آپ قوم کو یرغمال نہیں بنا سکتے یہ ہٹلری دور ہے نہ چنگیزی دور، صحافی معاشرے کے سچ کو قلم بند کرتے ہیں وہ اپنی طرف سے کچھ کہتے ہیں نہ ان کی کسی سے ذاتی دشمنی یا عناد ہوتا ہے، وہ ایک خبر کو اس کی سچائی کے ساتھ منظر عام پر لاتے ہیں اور اس راہ میں ان کی جان و مال کو حقیقی خطرات لاحق ہوتے ہیں، اب تک کتنے ہی صحافی حضرات اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے، شہید ہوچکے ۔اور انھیں معاوضہ کیا ملتا ہے؟
گنتی کے کچھ روپے!! میں مانتا ہوں کہ سارے صحافی راہ حق کے سپاہی نہیں ہوتے ظاہر ہے کہ جب معاشرے میں ہر سمت کرپشن کا دور دورا ہو تو کوئی بھی شعبہ ہائے زندگی اس کی دست برد سے محفوظ نہیں رہ پاتا لیکن اکثریت ان صحافیوں کی ہے جو سچ لکھتے ہیں، یہ بہت مشکل کام ہے جان کو جوکھوں میں ڈالنا پڑتا ہے لیکن اب سچ کی زد میں جو بھی آئے خواہ حکومت ہو یا اپوزیشن یا کوئی ادارہ چھپایا کیوں جائے ؟
لہٰذا بہت بہتر راستہ ہے اپنی اصلاح کرنا اپنی غلطیوں کو سدھار لینا نہ کہ صحافت اور صحافیوں کو سبق سکھانا ۔دیکھا گیا کہ طویل عرصے سے صحافی جان لیوا حملوں کی زد میں ہیں جن میں سے کئی ایک شہید ہوچکے لیکن ان کے قاتل آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں تو کیا اس شعبے کو ترک کردیا جائے یا سچ لکھنا چھوڑ کر خوشامدانہ طرز عمل اختیار کرلیا جائے ؟عوام کو سب اچھا دکھایا جائے یعنی کوئی انھیں لوٹ رہا ہو آٹے، چینی، اجناس کی مد میں، کوئی حکومت ان کے جمع کروائے گئے ٹیکسز کی مد میں اربوں روپے ہڑپ کر جائے تو عوام کو بتایا جائے کہ ریاست میں تو ایسا ہو ہی جاتا ہے!!
میرا آپ سے سوال ہے کہ آج کونسا ایسا ملک ہے جہاں صحافت موجود نہیں ہے ؟جہاں میڈیا نہیں ہے؟ آخر ہمارے سارے پڑوسی ممالک ہم سے آگے بلکہ بہت آ گے کیوں نکل گئے؟؟ ہمارا روپیہ دنیا میں اتنا ارزاں کیوں ہوگیا؟ ہماری جمہوریت پر اتنے سوال کیوں اٹھتے ہیں ؟؟ جانتا ہوں کہ آپ جواب ہوتے ہوئے بھی نہیں دے پائیں گے معلوم ہے کہ آپ بھی انھی خوشامد پرست لوگوں میں شامل ہیں جنھیں سب اچھا سننے کی عادت ہوتی ہے ۔لیکن یاد رہے کہ دنیا میں بہت سے آمر گزرے ہیں جنھیں یہی عادت تھی اور وہ تاریخ کے بے رحم صفحات پر آج بھی بے نام و نشان سطور میں موجود ہیں ۔
چلیے جائزہ لیتے ہیں کہ صحافتی شعبے پر سچ کیسے اثر انداز ہوتا ہے اور ایک صحافی کیسے سچ لکھنے کو اپنا دین و ایمان مانتا ہے ۔سچ فطرت ہے مثال کے طور پر آج ملک میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے یہ سچ ہے تو کیا کوئی لکھ سکتا ہے کہ مسلم لیگ کی حکومت ہے؟ تو پھر کیسے لکھ دیا جائے کہ ملک میں چینی، آٹے کا بحران نہیں ہے، مہنگائی نہیں ہے، بے روزگاری نہیں ہے، امن و امان کا مسئلہ نہیں ہے ۔لیکن یہی لکھنے پر صحافیوں کو زدوکوب کیا جاتا ہے، ان پر جھوٹی ایف، آئی آرز کٹوائی جاتی ہیں! اور اگر جواب میں وہ کچھ کہہ دیں تو غداری کا سرٹیفکیٹ تھما دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ کب تک چلے گا ؟کب تک ظلم و جبر کے ہتھیار سے ایک معاشرے کی تعمیر کو روکے رکھا جائے گا۔
کیا آپ چاہتے ہیں کہ لوگ جینا چھوڑ دیں ؟تو پھر اسکول، کالجز، یونیورسٹیز بھی بند کر دیجیے، آپ یہی چاہتے ہیں نہ کہ کسی کو کچھ معلوم نہ ہو اور آپ کا کاروبار زندگی چلتا رہے تو پھر علم کا راستہ بھی روک دیجیے اور ایک جاہل مطلق قوم کی بنیاد رکھیے جو کچھ جاننے کی پوزیشن ہی میں نہ ہو ۔بس پھر عیش ہی عیش ہوں گے ۔ورنہ جو علم رکھتا ہے وہ سوال تو کرے گا آپ چاہے کتنی ہی پابندیاں لگا لیں سوال تو ہوگا، خبر تو بنے گی اخبار تو چھپے گا حضور چاہے آپ کوئی بھی ترمیم لے آئیں، لیکن میرا آپ کو بہت صائب مشورہ یہی ہے سچ کو سننے کی ہمت پیدا کریں ورنہ تاریخ کا بے رحم سمندر آپ کو بھی بہا لے جائے گا جیسے آپ سے پہلے کے بادشاہوں کو لے گیا ۔(اب ان کی داستانیں بھی نہیں ہیں، داستانوں میں)۔
بہرحال اس سفر میں اس کا خود ساختہ جائزہ، اپنی غلطیوں کوتاہیوں پر نظر ڈالنا، انھیں ضابطۂ تحریر میں لانا، ان پر بحث و تمحیص کرنا، زندگی کے خدّوخال پر تھیٹر بنانا، بعد میں فلم، ناولز تحریر کرنا یعنی بتدریج جائزہ لینے پر معلوم ہوگا کہ انسان نے اگر کائنات سے بہت کچھ سیکھا ہے تو وہاں اس نے خود اپنے آپ سے بھی کم نہیں سیکھا وہ حادثات سے گزرتا رہا اور اپنے شعور کے اضافے کو تحریر کرتا رہا اس نے لکڑی، چمڑے، کھال، لوہے، قرطاس اور پھر کاغذ سمیت بہت سی اشیاء پر مختلف ادوار میں وہ تحریر کیا جو اس پر بیتا۔
اگر میں اس سفر کو آج کے پرنٹ میڈیا، سوشل، الیکٹرانک میڈیا تک درجہ بہ درجہ لکھوں تو ایک دفتر درکار ہوگا لیکن مختصراً یہ سفر بہت طویل رہا جو حضرت انسان نے طے کیا ۔آج صحافت کو دنیا بھر میں ریاست کا ایک مضبوط ستون قرار دیا جاتا ہے، اور یہ ایسے ہی نہیں قرار دیا گیا بلکہ خبر اور اخبار نے تجارت، مہارت، سیاست، حکومت،طاقت اور اسی نوع کے قافیہ بردار معاملات میں ایک تہلکہ مچا دیا، یہ رابطے کا سب سے بڑا ذریعہ قرار پایا۔
اس کی تفصیل بھی بہت طویل ہے لیکن میں اس میں نہیں جائوں گا میرا موضوع آج وطن عزیز میں صحافت اور صحافیوں کا مستقبل ہے ۔اور اس حقیقت کی جانب اشارہ کرنا ہے کہ صحافت پر قدغن سے ہماری روز افزوں تنزّلی میں خاطرخواہ اضافہ ہوگا اور جو نت نئی ترامیم حکومت اس ضمن میں کرانا چاہ رہی ہے وہ بھی ناکامی سے دوچار ہوں گی اس لیے کہ عوام وہ سننا اور پڑھنا چاہتے ہیں جو سچ ہے وہ کنٹرولڈ میڈیا پر کنٹرولڈ خبریں سن سن کر بیزار ہوچکے ہیں۔
اور جناب اعلیٰ اگر غور فرمائیں، تو یہی صحافی تھے یہی صحافت تھی جن کے بولے گئے سچ پر آپ کو حکومت ملی تھی لیکن وہ سچ آپ کو اس لیے پسند تھا کیونکہ وہ اس وقت کی حکومت سے متعلق تھا تب آپ اسی صحافت کے معترف تھے، اسی کے گن گایا کرتے تھے آج کا سچ آپ کے بارے میں ہے جو آپ کو سننے میں برا محسوس ہورہا ہے لیکن سچ تو سچ ہی رہتا ہے اسے بدلنے والے صحافی نہیں ہوتے تنخواہ دار ہوسکتے ہیں۔
دیکھیے آج دنیا 21ویں صدی میں داخل ہوچکی ہے انسان وہاں سے بہت دور دراز کا سفر کرچکا جہاں کبھی زبان بندی ہوا کرتی تھی، بادشاہت کا دور تھا، شہنشاہیت کا زمانہ تھا، جبر و استبداد کی حکومت تھی ۔ہم وہاں سے نکل آئے، انسان آزاد ہوچکا وہ اب سوشل میڈیا، الیکٹرانک میڈیا کے تیز ترین دور میں ہے جہاں دنیا گلوبل ولیج کی صورت میں موجود ہے ۔
آج بچے بچے کے ہاتھ میں اینڈرائیڈ فون ہے جس میں پورا کمپیوٹر موجود ہے ایک نو عمر بچہ بھی ساری دنیا کو دن میں کئی مرتبہ دیکھ لیتا ہے، تعلیم صحت، کاروبار، سب کچھ آن لائن ہے، دنیا وہاں نہیں ہے جہاں آپ پاکستان کی صحافت کو دھکیل رہے ہیں اور سمجھتے ہیں کہ اس میں کامیاب بھی ہو جائیں گے ۔ ہرگز نہیں، آپ ملک کو غاروں کے زمانے میں لے کر نہیں جاسکتے آپ قوم کو یرغمال نہیں بنا سکتے یہ ہٹلری دور ہے نہ چنگیزی دور، صحافی معاشرے کے سچ کو قلم بند کرتے ہیں وہ اپنی طرف سے کچھ کہتے ہیں نہ ان کی کسی سے ذاتی دشمنی یا عناد ہوتا ہے، وہ ایک خبر کو اس کی سچائی کے ساتھ منظر عام پر لاتے ہیں اور اس راہ میں ان کی جان و مال کو حقیقی خطرات لاحق ہوتے ہیں، اب تک کتنے ہی صحافی حضرات اپنی جانوں سے ہاتھ دھو چکے، شہید ہوچکے ۔اور انھیں معاوضہ کیا ملتا ہے؟
گنتی کے کچھ روپے!! میں مانتا ہوں کہ سارے صحافی راہ حق کے سپاہی نہیں ہوتے ظاہر ہے کہ جب معاشرے میں ہر سمت کرپشن کا دور دورا ہو تو کوئی بھی شعبہ ہائے زندگی اس کی دست برد سے محفوظ نہیں رہ پاتا لیکن اکثریت ان صحافیوں کی ہے جو سچ لکھتے ہیں، یہ بہت مشکل کام ہے جان کو جوکھوں میں ڈالنا پڑتا ہے لیکن اب سچ کی زد میں جو بھی آئے خواہ حکومت ہو یا اپوزیشن یا کوئی ادارہ چھپایا کیوں جائے ؟
لہٰذا بہت بہتر راستہ ہے اپنی اصلاح کرنا اپنی غلطیوں کو سدھار لینا نہ کہ صحافت اور صحافیوں کو سبق سکھانا ۔دیکھا گیا کہ طویل عرصے سے صحافی جان لیوا حملوں کی زد میں ہیں جن میں سے کئی ایک شہید ہوچکے لیکن ان کے قاتل آج بھی آزاد گھوم رہے ہیں تو کیا اس شعبے کو ترک کردیا جائے یا سچ لکھنا چھوڑ کر خوشامدانہ طرز عمل اختیار کرلیا جائے ؟عوام کو سب اچھا دکھایا جائے یعنی کوئی انھیں لوٹ رہا ہو آٹے، چینی، اجناس کی مد میں، کوئی حکومت ان کے جمع کروائے گئے ٹیکسز کی مد میں اربوں روپے ہڑپ کر جائے تو عوام کو بتایا جائے کہ ریاست میں تو ایسا ہو ہی جاتا ہے!!
میرا آپ سے سوال ہے کہ آج کونسا ایسا ملک ہے جہاں صحافت موجود نہیں ہے ؟جہاں میڈیا نہیں ہے؟ آخر ہمارے سارے پڑوسی ممالک ہم سے آگے بلکہ بہت آ گے کیوں نکل گئے؟؟ ہمارا روپیہ دنیا میں اتنا ارزاں کیوں ہوگیا؟ ہماری جمہوریت پر اتنے سوال کیوں اٹھتے ہیں ؟؟ جانتا ہوں کہ آپ جواب ہوتے ہوئے بھی نہیں دے پائیں گے معلوم ہے کہ آپ بھی انھی خوشامد پرست لوگوں میں شامل ہیں جنھیں سب اچھا سننے کی عادت ہوتی ہے ۔لیکن یاد رہے کہ دنیا میں بہت سے آمر گزرے ہیں جنھیں یہی عادت تھی اور وہ تاریخ کے بے رحم صفحات پر آج بھی بے نام و نشان سطور میں موجود ہیں ۔
چلیے جائزہ لیتے ہیں کہ صحافتی شعبے پر سچ کیسے اثر انداز ہوتا ہے اور ایک صحافی کیسے سچ لکھنے کو اپنا دین و ایمان مانتا ہے ۔سچ فطرت ہے مثال کے طور پر آج ملک میں پی ٹی آئی کی حکومت ہے یہ سچ ہے تو کیا کوئی لکھ سکتا ہے کہ مسلم لیگ کی حکومت ہے؟ تو پھر کیسے لکھ دیا جائے کہ ملک میں چینی، آٹے کا بحران نہیں ہے، مہنگائی نہیں ہے، بے روزگاری نہیں ہے، امن و امان کا مسئلہ نہیں ہے ۔لیکن یہی لکھنے پر صحافیوں کو زدوکوب کیا جاتا ہے، ان پر جھوٹی ایف، آئی آرز کٹوائی جاتی ہیں! اور اگر جواب میں وہ کچھ کہہ دیں تو غداری کا سرٹیفکیٹ تھما دیا جاتا ہے۔ لیکن یہ کب تک چلے گا ؟کب تک ظلم و جبر کے ہتھیار سے ایک معاشرے کی تعمیر کو روکے رکھا جائے گا۔
کیا آپ چاہتے ہیں کہ لوگ جینا چھوڑ دیں ؟تو پھر اسکول، کالجز، یونیورسٹیز بھی بند کر دیجیے، آپ یہی چاہتے ہیں نہ کہ کسی کو کچھ معلوم نہ ہو اور آپ کا کاروبار زندگی چلتا رہے تو پھر علم کا راستہ بھی روک دیجیے اور ایک جاہل مطلق قوم کی بنیاد رکھیے جو کچھ جاننے کی پوزیشن ہی میں نہ ہو ۔بس پھر عیش ہی عیش ہوں گے ۔ورنہ جو علم رکھتا ہے وہ سوال تو کرے گا آپ چاہے کتنی ہی پابندیاں لگا لیں سوال تو ہوگا، خبر تو بنے گی اخبار تو چھپے گا حضور چاہے آپ کوئی بھی ترمیم لے آئیں، لیکن میرا آپ کو بہت صائب مشورہ یہی ہے سچ کو سننے کی ہمت پیدا کریں ورنہ تاریخ کا بے رحم سمندر آپ کو بھی بہا لے جائے گا جیسے آپ سے پہلے کے بادشاہوں کو لے گیا ۔(اب ان کی داستانیں بھی نہیں ہیں، داستانوں میں)۔