سیاست اور بجٹ
اقتدارسنبھالے تین سال پورے ہورہے ہیں مگر وہ ابھی تک نوکریوں اورمکانوں کے وعدے تو کیا،کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کرسکی ہے۔
ہمارے ہاں سیاستدان عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنے کے لیے ایسے بڑے بڑے دل فریب وعدے کرتے نظر آتے ہیں جنھیں وہ حقیقت میں کسی بھی صورت پورا نہیں کرسکتے مگر ہمارے عوام بھی اتنے بھولے بھالے واقع ہوئے ہیں کہ وہ ان کے ہوائی وعدوں کو سچ سمجھ لیتے ہیں اور سب سے زیادہ دل کو لبھانے والے وعدے کرنیوالی سیاسی پارٹی کو ووٹ دے کر اسے کامیاب کرا دیتے ہیں مگر بعد میں جب وہ وعدے پورے نہیں ہوتے تو مایوس ہو کر اس کے خلاف احتجاج شروع کردیتے ہیں۔
ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو روٹی کپڑا مکان دینے کا وعدہ کیا تھا وہ اسے پورا نہ کرسکے اب موجودہ قیادت بھی اسی پرانے وعدے سے لبھا کر عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنا چاہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پرانے وعدوں کی عدم تکمیل کی وجہ سے ہی عوام پیپلز پارٹی سے مایوس ہوئے۔ عوام سے وعدوں کے سلسلے میں برسر اقتدار پارٹی بھی ایک بڑا مقام رکھتی ہے۔ اس نے تو عوام سے ایسے ایسے وعدے کیے تھے کہ تجزیہ کار اور دانشور حضرات بھی حیران و پریشان تھے۔
ایک کروڑ نوکریوں سے عوام کو مستفید کرنا، ایک لاکھ مکان بے گھر افراد کے حوالے کرنا ساتھ ہی مہنگائی کا گلا گھونٹنا اور ملک کو کرپشن سے پاک کرنے جیسے وعدے تو خود تحریک انصاف نے عوام سے کیے تھے۔ اب اس پارٹی کو اقتدار سنبھالے تین سال پورے ہو رہے ہیں مگر وہ ابھی تک نوکریوں اور مکانوں کے وعدے تو کیا، کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کرسکی ہے اور آگے بھی ان وعدوں کے پورا ہونے کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ کچھ دن قبل بلاول بھٹو نے پی ٹی آئی پر الزام لگایا کہ اس نے عوام سے کیے گئے وعدوں میں سے ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا ہے۔
کاش کہ وہ خود پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومتوں کی کارکردگی پر بھی نظر ڈال لیتے کہ انھوں نے عوام سے کیے گئے کتنے وعدے پورے کیے؟ جہاں تک سیاسی پارٹیوں کے وعدہ خلافی کا معاملہ ہے تو وہ ان کی مجبوری ہے اصل معاملہ ہماری معیشت کی کمزوری کا ہے۔ وہ دراصل شروع سے ہی کمزور چلی آ رہی ہے اور اس کے آگے بھی درست ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں اس لیے کہ ملک میں ماضی میں اقتدار میں آنے والی تمام ہی حکومتیں کرپشن سے پاک نہیں تھیں۔
دراصل کرپشن وہ دیمک ہے جو ملک کو اندر سے کھوکھلا کر رہی ہے مگر اس کے خاتمے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ جو بھی پارٹی اقتدار میں آنے کے لیے عوام سے بھاری بھرکم وعدے کرتی ہے تو اس زعم میں کرتی ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد معیشت کو درست کر لے گی اور جب ملکی معیشت مضبوط ہوگی تو عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنا اس کے لیے کوئی مشکل نہیں ہوگا مگر جب وہ اقتدار میں آتی ہے تو اوروں کو تو چھوڑو خود ان کے اپنے وزیر مشیر کرپشن کا ایسا بازار گرم کرتے ہیں کہ ملکی معیشت کی جڑیں ہلا دیتے ہیں۔ پھر بھلا کرپشن کی موجودگی میں کوئی معیشت کیسے مضبوط ہوسکتی ہے۔
ہمارے ملک میں کرپشن اس طرح رچ بس گئی ہے کہ اس سے نجات حاصل کرنا اب کسی حکومت کے بس کی بات نہیں رہی ہے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے کرپشن اور ہر قسم کی مالی بے ضابطگیوں کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر آج خود اس کے اپنے لوگ ان میں ملوث بتائے جاتے ہیں۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت کو مشکل میں ڈالنے والی سابقہ حکومت ہے۔ جب اقتدار سنبھالا تو خزانہ خالی تھا ادھر پرانے قرضوں کی ادائیگی کے لیے پیسے نہیں تھے چنانچہ مجبوراً آئی ایم ایف سے رابطہ کرنا پڑا اور اس کی مشکل شرائط کو بھی قبول کرنا پڑا۔
معاشی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے سے تو ضرور بچ گیا مگر مہنگائی کے علاوہ بجلی گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی روزافزوں قیمتوں نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ پھر حکومت نے اتنے بھاری بھرکم قرضے لے لیے ہیں کہ ان کی ادائیگی نہ صرف اس کے لیے بلکہ آیندہ نسلوں کے لیے وبال جان ثابت ہوگی۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس وقت ملکی معیشت ٹریک پر آچکی ہے اور معاشی اشاریے مثبت رجحان دکھا رہے ہیں۔ حزب اختلاف حکومت کے اس دعوے کو ماننے سے انکاری ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ معیشت منفی رجحان دکھاتے دکھاتے اچانک بہتری کی طرف اشارہ کرنے لگے۔
مسلم لیگ (ن) نے بجٹ کے تمام اعداد و شمار کو الفاظ کا گورکھ دھندا قرار دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ حکومت نے مہنگائی کا طوفان کھڑا کرکے غریب آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل بنا دیا ہے۔ بے روزگاری نے ملک میں چوریوں ڈاکوں اور اسٹریٹ کرائمز کی ہمت افزائی کی ہے۔ حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں نے تین سالوں میں تین کروڑ افراد کو خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس وقت وفاق کو اپنے خرچوں کو پورا کرنا مشکل ہو رہا ہے ادھر صوبائی حکومتیں اپنے ترقیاتی کاموں کے لیے زیادہ رقم طلب کر رہی ہیں خاص طور پر سندھ حکومت نے موجودہ بجٹ میں سندھ میں ترقیاتی کاموں کے لیے رکھی گئی رقم کو ناکافی قرار دیا ہے۔
وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ اب وہ ترقیاتی کاموں کی رقم سندھ حکومت کو دینے کے بجائے خود خرچ کرے گی کیونکہ سندھ کے حکمران ترقیاتی کاموں کی رقم اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس ضمن میں پی ایس پی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال نے بہترین حل پیش کیا ہے کہ ترقیاتی کاموں کی رقم بلدیاتی اور دیگر متعلقہ اداروں کو براہ راست مہیا کردی جائے تو ترقیاتی فنڈز کی خرد برد کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو سکتا ہے۔
وزیر خزانہ شوکت ترین نے بجٹ کے بارے میں حزب اختلاف کے منفی رجحان کو ملک کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نیا بجٹ آئی ایم ایف کے پروگرام اور عوام کی موجودہ مشکلات کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے۔ ان کے مطابق رواں مالی سال میں ٹیکس وصولی کا ہدف 4,700 ارب روپے سے بڑھ کر 5.8 ٹریلین کردیا گیا ہے۔ آیندہ ٹیکس بڑھائے بغیر آمدنی دوگنی کی جائے گی۔ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے ٹیکس نیٹ ورک سے دور لاکھوں چھوٹے بڑے تاجروں کو ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے گا۔
اس وقت ملکی خزانے پر سب سے بڑا بوجھ خسارے میں چلنے والے اسٹیل مل جیسے بڑے ادارے ہیں ان کی تنظیم نو یا نجکاری کی جائے گی زرعی پیداوار میں اضافہ کیا جائے گا ساتھ ہی مہنگائی کو لگام دی جائے گی۔ اس سے نہ صرف معیشت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے بلکہ عوام کی مشکلات بھی کم سے کم ہو جائیں گی۔ عوام تو یہی دعا کرتے ہیں کہ نیا بجٹ ملک کے لیے نیک فال ثابت ہو اور عوام کی مشکلات دور ہوں مگر ابھی تو اس کے پاس ہونے کا مرحلہ بھی ایک سخت امتحان ہے۔
ماضی میں ذوالفقار علی بھٹو نے عوام کو روٹی کپڑا مکان دینے کا وعدہ کیا تھا وہ اسے پورا نہ کرسکے اب موجودہ قیادت بھی اسی پرانے وعدے سے لبھا کر عوام کو اپنی جانب متوجہ کرنا چاہتی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ پرانے وعدوں کی عدم تکمیل کی وجہ سے ہی عوام پیپلز پارٹی سے مایوس ہوئے۔ عوام سے وعدوں کے سلسلے میں برسر اقتدار پارٹی بھی ایک بڑا مقام رکھتی ہے۔ اس نے تو عوام سے ایسے ایسے وعدے کیے تھے کہ تجزیہ کار اور دانشور حضرات بھی حیران و پریشان تھے۔
ایک کروڑ نوکریوں سے عوام کو مستفید کرنا، ایک لاکھ مکان بے گھر افراد کے حوالے کرنا ساتھ ہی مہنگائی کا گلا گھونٹنا اور ملک کو کرپشن سے پاک کرنے جیسے وعدے تو خود تحریک انصاف نے عوام سے کیے تھے۔ اب اس پارٹی کو اقتدار سنبھالے تین سال پورے ہو رہے ہیں مگر وہ ابھی تک نوکریوں اور مکانوں کے وعدے تو کیا، کوئی بھی وعدہ پورا نہیں کرسکی ہے اور آگے بھی ان وعدوں کے پورا ہونے کے آثار نظر نہیں آ رہے ہیں۔ کچھ دن قبل بلاول بھٹو نے پی ٹی آئی پر الزام لگایا کہ اس نے عوام سے کیے گئے وعدوں میں سے ایک بھی وعدہ پورا نہیں کیا ہے۔
کاش کہ وہ خود پیپلز پارٹی کی سابقہ حکومتوں کی کارکردگی پر بھی نظر ڈال لیتے کہ انھوں نے عوام سے کیے گئے کتنے وعدے پورے کیے؟ جہاں تک سیاسی پارٹیوں کے وعدہ خلافی کا معاملہ ہے تو وہ ان کی مجبوری ہے اصل معاملہ ہماری معیشت کی کمزوری کا ہے۔ وہ دراصل شروع سے ہی کمزور چلی آ رہی ہے اور اس کے آگے بھی درست ہونے کے کوئی آثار نہیں ہیں اس لیے کہ ملک میں ماضی میں اقتدار میں آنے والی تمام ہی حکومتیں کرپشن سے پاک نہیں تھیں۔
دراصل کرپشن وہ دیمک ہے جو ملک کو اندر سے کھوکھلا کر رہی ہے مگر اس کے خاتمے کی کوئی صورت نظر نہیں آرہی ہے۔ البتہ یہ بات ضرور ہے کہ جو بھی پارٹی اقتدار میں آنے کے لیے عوام سے بھاری بھرکم وعدے کرتی ہے تو اس زعم میں کرتی ہے کہ وہ اقتدار میں آنے کے بعد معیشت کو درست کر لے گی اور جب ملکی معیشت مضبوط ہوگی تو عوام سے کیے گئے وعدوں کو پورا کرنا اس کے لیے کوئی مشکل نہیں ہوگا مگر جب وہ اقتدار میں آتی ہے تو اوروں کو تو چھوڑو خود ان کے اپنے وزیر مشیر کرپشن کا ایسا بازار گرم کرتے ہیں کہ ملکی معیشت کی جڑیں ہلا دیتے ہیں۔ پھر بھلا کرپشن کی موجودگی میں کوئی معیشت کیسے مضبوط ہوسکتی ہے۔
ہمارے ملک میں کرپشن اس طرح رچ بس گئی ہے کہ اس سے نجات حاصل کرنا اب کسی حکومت کے بس کی بات نہیں رہی ہے۔ موجودہ حکومت نے اقتدار سنبھالنے سے پہلے کرپشن اور ہر قسم کی مالی بے ضابطگیوں کو ختم کرنے کا وعدہ کیا تھا مگر آج خود اس کے اپنے لوگ ان میں ملوث بتائے جاتے ہیں۔
عمران خان کا کہنا ہے کہ ان کی حکومت کو مشکل میں ڈالنے والی سابقہ حکومت ہے۔ جب اقتدار سنبھالا تو خزانہ خالی تھا ادھر پرانے قرضوں کی ادائیگی کے لیے پیسے نہیں تھے چنانچہ مجبوراً آئی ایم ایف سے رابطہ کرنا پڑا اور اس کی مشکل شرائط کو بھی قبول کرنا پڑا۔
معاشی تجزیہ نگاروں کا کہنا ہے کہ ملک دیوالیہ ہونے سے تو ضرور بچ گیا مگر مہنگائی کے علاوہ بجلی گیس اور پٹرولیم مصنوعات کی روزافزوں قیمتوں نے عوام کی کمر توڑ کر رکھ دی ہے۔ پھر حکومت نے اتنے بھاری بھرکم قرضے لے لیے ہیں کہ ان کی ادائیگی نہ صرف اس کے لیے بلکہ آیندہ نسلوں کے لیے وبال جان ثابت ہوگی۔
حکومت کا دعویٰ ہے کہ اس وقت ملکی معیشت ٹریک پر آچکی ہے اور معاشی اشاریے مثبت رجحان دکھا رہے ہیں۔ حزب اختلاف حکومت کے اس دعوے کو ماننے سے انکاری ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ یہ کیسے ہو سکتا ہے کہ معیشت منفی رجحان دکھاتے دکھاتے اچانک بہتری کی طرف اشارہ کرنے لگے۔
مسلم لیگ (ن) نے بجٹ کے تمام اعداد و شمار کو الفاظ کا گورکھ دھندا قرار دیا ہے۔ اس کا کہنا ہے کہ حکومت نے مہنگائی کا طوفان کھڑا کرکے غریب آدمی کے لیے دو وقت کی روٹی کا حصول مشکل بنا دیا ہے۔ بے روزگاری نے ملک میں چوریوں ڈاکوں اور اسٹریٹ کرائمز کی ہمت افزائی کی ہے۔ حکومت کی ناقص معاشی پالیسیوں نے تین سالوں میں تین کروڑ افراد کو خط غربت سے نیچے زندگی گزارنے پر مجبور کردیا ہے۔ اس وقت وفاق کو اپنے خرچوں کو پورا کرنا مشکل ہو رہا ہے ادھر صوبائی حکومتیں اپنے ترقیاتی کاموں کے لیے زیادہ رقم طلب کر رہی ہیں خاص طور پر سندھ حکومت نے موجودہ بجٹ میں سندھ میں ترقیاتی کاموں کے لیے رکھی گئی رقم کو ناکافی قرار دیا ہے۔
وفاقی حکومت کا کہنا ہے کہ اب وہ ترقیاتی کاموں کی رقم سندھ حکومت کو دینے کے بجائے خود خرچ کرے گی کیونکہ سندھ کے حکمران ترقیاتی کاموں کی رقم اپنے ذاتی مقاصد کے لیے استعمال کرتے ہیں۔ اس ضمن میں پی ایس پی کے چیئرمین مصطفیٰ کمال نے بہترین حل پیش کیا ہے کہ ترقیاتی کاموں کی رقم بلدیاتی اور دیگر متعلقہ اداروں کو براہ راست مہیا کردی جائے تو ترقیاتی فنڈز کی خرد برد کا مسئلہ ہمیشہ کے لیے حل ہو سکتا ہے۔
وزیر خزانہ شوکت ترین نے بجٹ کے بارے میں حزب اختلاف کے منفی رجحان کو ملک کے لیے خطرناک قرار دیا ہے۔ ان کا کہنا ہے کہ نیا بجٹ آئی ایم ایف کے پروگرام اور عوام کی موجودہ مشکلات کو سامنے رکھ کر بنایا گیا ہے۔ ان کے مطابق رواں مالی سال میں ٹیکس وصولی کا ہدف 4,700 ارب روپے سے بڑھ کر 5.8 ٹریلین کردیا گیا ہے۔ آیندہ ٹیکس بڑھائے بغیر آمدنی دوگنی کی جائے گی۔ اسے عملی جامہ پہنانے کے لیے ٹیکس نیٹ ورک سے دور لاکھوں چھوٹے بڑے تاجروں کو ٹیکس کے دائرے میں لایا جائے گا۔
اس وقت ملکی خزانے پر سب سے بڑا بوجھ خسارے میں چلنے والے اسٹیل مل جیسے بڑے ادارے ہیں ان کی تنظیم نو یا نجکاری کی جائے گی زرعی پیداوار میں اضافہ کیا جائے گا ساتھ ہی مہنگائی کو لگام دی جائے گی۔ اس سے نہ صرف معیشت پر خوشگوار اثرات مرتب ہوں گے بلکہ عوام کی مشکلات بھی کم سے کم ہو جائیں گی۔ عوام تو یہی دعا کرتے ہیں کہ نیا بجٹ ملک کے لیے نیک فال ثابت ہو اور عوام کی مشکلات دور ہوں مگر ابھی تو اس کے پاس ہونے کا مرحلہ بھی ایک سخت امتحان ہے۔