کورونا وباء اور چند اشعار
ہر پاکستانی جانتا ہے کہ ڈاکٹر، وکیل اور پٹواری کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔
ہمارے ایک بچپن کے دوست جو دس پندرہ سال قبل سول سروس سے ریٹائر ہو گئے تھے لیکن شروع کے چند سال باقاعدہ رابطے میں رہنے کے بعد وہ ایک سے دوسرے اور پھر تیسرے شہر تبادلوں کی وجہ سے رابطے میں نہ رہے تھے۔ اچانک ایک فنکشن پر مل گئے اور پھر ہم نے لاہور جمخانہ کلب میں کورونا وباء کی وجہ سے احتیاطاً اپنی کرسیاں دوسرے احباب سے ذرا فاصلے پر کر کے اسکول لائف کو یاد کرنا شروع کر دیا۔
میں نے بزنس سے ابتدا کی جب کہ دوست نے سول سروس جوائن کر لی۔ پھر ایک ہی شہر میں مقیم ہونے کی وجہ سے کوئی ہفتہ خالی نہ جاتا کہ ہماری ملاقات نہ ہوتی۔ اسی عرصہ میں تین اور کلاس فیلو مل گئے اور ہماری محفل ہر ہفتہ ایک دوسرے کے گھر منعقد ہونے لگی۔ ان تین نئے اسکول فیلوز میں ایک ڈاکٹر ، دوسرا سیاستدان اور تیسرا وکیل تھا۔ ہمارا سول سرونٹ دوست خاموش طبع تھا۔ ڈاکٹر آخر میں اظہار رائے کرتا ۔ وکیل مستقل بولتا، سیاستدان اپنی رائے کو مقدم قرار دے کر باآواز ِ بلند اپنی حتمی رائے دیتا جب کہ کاروباری ہونے کی وجہ سے میں بہت کم دخل اندازی کرتا۔
ہر پاکستانی جانتا ہے کہ ڈاکٹر، وکیل اور پٹواری کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔ ایک اچھا ڈاکٹر جس کے ہاتھ میں شفا ہو ، چاہے بھی تو پیشے سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔ اس کو تو چھوڑیئے مریض اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے اور اگر وکیل ایک بار کالا کوٹ اور ٹائی پہن لے تو وہ جج نہیں تو اس کے ریڈرسے تعلقات منقطع نہیں کرتا اور جہاں تک پٹواری کا تعلق ہے اگر وہ اپنے تحصیلدار کا بھی اُستاد بننے کی مہلت ، قابلیت اور طاقت رکھتا ہو تو ملک کا وزیر ِ اعظم بھی اس کی میزبانی کا شرف حاصل کرتا دیکھا جا سکتا ہے اور ایسا ہمارے ہاں دیکھا گیا ہے۔
دوستوں کی محفل میں کورونا وبا سے منسلک قید ِ تنہائی کا کثرت سے ذکر ہوتا لیکن چونکہ ہر کوئی اس عذاب ِ الٰہی کے آگے بے بس ہے اس لیے کوئی حتمی گفتگو نہیں ہو سکتی۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے البتہ ٹیلیوژن کی خبروں سے اجتناب کیا جا رہا تھا کیونکہ وہاں دو سیاسی گروہوں کے مابین جوتم پیزا ر والا کھیل چل رہا ہے اور اس کھیل میں اکثر لوگوں کا مزاج بگڑ کر لڑائی جھگڑے کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ اسی بنیاد پر ہمارے دوستوں نے ایک ماہر ڈرامہ نویس کے مشورے پر ڈب ہوئے معروف ٹرکش ڈرامواں کی طرف رجوع کر لیا ہے۔
ایک روز شامل گفتگو دوست نے اپنے بیگ میں سے اپنے مرحوم دوست کی مرتبہ کتاب ''تلاش'' نکال کر کہا کہ '' یہ منتخب اور ہم قافیہ وہم ردیف اشعار کی کتاب ہے جسے ہم سب کے دوست جسٹس سید جمشید علی نے مرتب کیا تھا۔ بجائے ٹی وی اینکروں اور مہمانوں کی سطحی اور بے ربط گفتگو سننے اور اخبار میں سیاسی بیانات پڑھنے کے سید جمشید کے منتخب اشعار پڑھ کر اُسے یاد کیا جائے ۔ ہم سب دوستوں نے صاحب کتاب سے اتفاق کرتے ہوئے اسے سید جمشید کی مرتبہ کتاب میں سے اشعار پڑھنے کی اجازت دیدی پھر وہ اشعار پڑھتا رہا اور ہم آنسوئوں سے تر آنکھوں سے شعر سنتے رہے۔
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال ِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
(غالبؔ)
اگر اپنی چشم نم پر مجھے اعتبار ہوتا
تو بھلا یہ راز الفت کبھی آشکار ہوتا
(یاسؔ یگانہؔ)
جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا
تم ہی مُنصفی سے کہہ دو تمہیں اعتبار ہوتا
(داغؔ)
میرا حال ہی جگرؔکیا وہ مریض عشق ہوں میں
کہ وہ زہر بھی جو دیتا مجھے سازگار ہوتا
(جگرؔ)
توبہ کیجیے اب فریب دوستی کھائیں گے کیا
آج تک پچھتا رہے ہیں اور پچھتائیں گے کیا
(قمرؔ جلالوی)
کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنج فغاں کیوں ہو
نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو
(غالبؔ)
یگانہؔ فکر حاصل کیا تم اپنا حق ادا کر دو
بلا سے تلخ گزرے زندگانی رائیگاں کیوں ہو
(یگانہؔ)
ہو گیا سلسلئہ مہر و محبت برہم
نازنین بھول گئے ناز و ادا میرے بعد
(آتشؔ)
سچ کی خاطر سر شعلہ بھی زبان رکھ دیتا
بات یہ ہے کوئی مجھ سا نہ رہا میرے بعد
خار صحرائے جنوں یوں ہی اگر تیز رہے
کوئی آئے گا نہیں آبلہ پا میرے بعد
(بہادر شاہ ظفرؔ)
عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
(غالبؔ)
میں بھی پلکوں پہ سجا لوں گا لہو کی بوندیں
تم بھی پابستئہ زنجیر حنا ہو جانا
(احمد فرازؔ)
اے جہاں ہم کو محبت سے نہیں ہے فرصت
پھر کبھی دشمن ارباب وفا ہو جانا
(قتیلؔ شفائی)
بھیجنا ہم کو بھی ہے گیسوئے جاناں کو پیام
اس طرف سے بھی ذرا باد ِ صبا ہو جانا
(عدمؔ)
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
(غالبؔ)
اے فصیل عدم حلقئہ اسرار ابھی
کتنے سر چاہئیں دیوار کو در ہونے تک
(احمد ندیمؔ قاسمی)
٭٭٭٭٭
میں نے بزنس سے ابتدا کی جب کہ دوست نے سول سروس جوائن کر لی۔ پھر ایک ہی شہر میں مقیم ہونے کی وجہ سے کوئی ہفتہ خالی نہ جاتا کہ ہماری ملاقات نہ ہوتی۔ اسی عرصہ میں تین اور کلاس فیلو مل گئے اور ہماری محفل ہر ہفتہ ایک دوسرے کے گھر منعقد ہونے لگی۔ ان تین نئے اسکول فیلوز میں ایک ڈاکٹر ، دوسرا سیاستدان اور تیسرا وکیل تھا۔ ہمارا سول سرونٹ دوست خاموش طبع تھا۔ ڈاکٹر آخر میں اظہار رائے کرتا ۔ وکیل مستقل بولتا، سیاستدان اپنی رائے کو مقدم قرار دے کر باآواز ِ بلند اپنی حتمی رائے دیتا جب کہ کاروباری ہونے کی وجہ سے میں بہت کم دخل اندازی کرتا۔
ہر پاکستانی جانتا ہے کہ ڈاکٹر، وکیل اور پٹواری کبھی ریٹائر نہیں ہوتا۔ ایک اچھا ڈاکٹر جس کے ہاتھ میں شفا ہو ، چاہے بھی تو پیشے سے دستبردار نہیں ہو سکتا۔ اس کو تو چھوڑیئے مریض اس کا پیچھا نہیں چھوڑتے اور اگر وکیل ایک بار کالا کوٹ اور ٹائی پہن لے تو وہ جج نہیں تو اس کے ریڈرسے تعلقات منقطع نہیں کرتا اور جہاں تک پٹواری کا تعلق ہے اگر وہ اپنے تحصیلدار کا بھی اُستاد بننے کی مہلت ، قابلیت اور طاقت رکھتا ہو تو ملک کا وزیر ِ اعظم بھی اس کی میزبانی کا شرف حاصل کرتا دیکھا جا سکتا ہے اور ایسا ہمارے ہاں دیکھا گیا ہے۔
دوستوں کی محفل میں کورونا وبا سے منسلک قید ِ تنہائی کا کثرت سے ذکر ہوتا لیکن چونکہ ہر کوئی اس عذاب ِ الٰہی کے آگے بے بس ہے اس لیے کوئی حتمی گفتگو نہیں ہو سکتی۔ گزشتہ کچھ عرصہ سے البتہ ٹیلیوژن کی خبروں سے اجتناب کیا جا رہا تھا کیونکہ وہاں دو سیاسی گروہوں کے مابین جوتم پیزا ر والا کھیل چل رہا ہے اور اس کھیل میں اکثر لوگوں کا مزاج بگڑ کر لڑائی جھگڑے کی شکل اختیار کر سکتا ہے۔ اسی بنیاد پر ہمارے دوستوں نے ایک ماہر ڈرامہ نویس کے مشورے پر ڈب ہوئے معروف ٹرکش ڈرامواں کی طرف رجوع کر لیا ہے۔
ایک روز شامل گفتگو دوست نے اپنے بیگ میں سے اپنے مرحوم دوست کی مرتبہ کتاب ''تلاش'' نکال کر کہا کہ '' یہ منتخب اور ہم قافیہ وہم ردیف اشعار کی کتاب ہے جسے ہم سب کے دوست جسٹس سید جمشید علی نے مرتب کیا تھا۔ بجائے ٹی وی اینکروں اور مہمانوں کی سطحی اور بے ربط گفتگو سننے اور اخبار میں سیاسی بیانات پڑھنے کے سید جمشید کے منتخب اشعار پڑھ کر اُسے یاد کیا جائے ۔ ہم سب دوستوں نے صاحب کتاب سے اتفاق کرتے ہوئے اسے سید جمشید کی مرتبہ کتاب میں سے اشعار پڑھنے کی اجازت دیدی پھر وہ اشعار پڑھتا رہا اور ہم آنسوئوں سے تر آنکھوں سے شعر سنتے رہے۔
یہ نہ تھی ہماری قسمت کہ وصال ِ یار ہوتا
اگر اور جیتے رہتے یہی انتظار ہوتا
(غالبؔ)
اگر اپنی چشم نم پر مجھے اعتبار ہوتا
تو بھلا یہ راز الفت کبھی آشکار ہوتا
(یاسؔ یگانہؔ)
جو تمہاری طرح تم سے کوئی جھوٹے وعدے کرتا
تم ہی مُنصفی سے کہہ دو تمہیں اعتبار ہوتا
(داغؔ)
میرا حال ہی جگرؔکیا وہ مریض عشق ہوں میں
کہ وہ زہر بھی جو دیتا مجھے سازگار ہوتا
(جگرؔ)
توبہ کیجیے اب فریب دوستی کھائیں گے کیا
آج تک پچھتا رہے ہیں اور پچھتائیں گے کیا
(قمرؔ جلالوی)
کسی کو دے کے دل کوئی نوا سنج فغاں کیوں ہو
نہ ہو جب دل ہی سینے میں تو پھر منہ میں زباں کیوں ہو
(غالبؔ)
یگانہؔ فکر حاصل کیا تم اپنا حق ادا کر دو
بلا سے تلخ گزرے زندگانی رائیگاں کیوں ہو
(یگانہؔ)
ہو گیا سلسلئہ مہر و محبت برہم
نازنین بھول گئے ناز و ادا میرے بعد
(آتشؔ)
سچ کی خاطر سر شعلہ بھی زبان رکھ دیتا
بات یہ ہے کوئی مجھ سا نہ رہا میرے بعد
خار صحرائے جنوں یوں ہی اگر تیز رہے
کوئی آئے گا نہیں آبلہ پا میرے بعد
(بہادر شاہ ظفرؔ)
عشرتِ قطرہ ہے دریا میں فنا ہو جانا
درد کا حد سے گزرنا ہے دوا ہو جانا
(غالبؔ)
میں بھی پلکوں پہ سجا لوں گا لہو کی بوندیں
تم بھی پابستئہ زنجیر حنا ہو جانا
(احمد فرازؔ)
اے جہاں ہم کو محبت سے نہیں ہے فرصت
پھر کبھی دشمن ارباب وفا ہو جانا
(قتیلؔ شفائی)
بھیجنا ہم کو بھی ہے گیسوئے جاناں کو پیام
اس طرف سے بھی ذرا باد ِ صبا ہو جانا
(عدمؔ)
ہم نے مانا کہ تغافل نہ کرو گے لیکن
خاک ہو جائیں گے ہم تم کو خبر ہونے تک
(غالبؔ)
اے فصیل عدم حلقئہ اسرار ابھی
کتنے سر چاہئیں دیوار کو در ہونے تک
(احمد ندیمؔ قاسمی)
٭٭٭٭٭