پاکستان کا دفاعی بجٹ تقابلی جائزہ
دفاعی بجٹ، ایسے مالی اخراجات کا تخمینہ ہے جو کوئی بھی ریاست اپنی حفاظت کے لیے خرچ کرتی ہے۔
تاریخ اقوام عالم کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ دنیا میں وہی ممالک اور ریاست تادیر قائم اور مستحکم رہتی ہیں جنھوں نے ترجیحی بنیادوں پر گڈگورننس کے ساتھ طاقتور فوج رکھی ہو۔جن ممالک نے ان دونوں پہلوں کو متوازن اور حالات کے مطابق نہیں بنایا وہ نہ تو اقوام عالم میں ممتاز اور مقدم مقام حاصل کر سکی ہیں اور نہ ہی تادیر قائم رہ سکیں۔
حکومت گڈ گورننس کے تحت ملکی نظام احسن طریقے سے نبھا تی ہے جب کہ طاقتور فوج ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات کو کم کرنے یا ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔کسی بھی ملک کی مضبوط اور دیرپا عسکری طاقت کا تجزیہ اس کے دفاعی بجٹ سے بھی لگایاجاسکتاہے۔ جمہوری ممالک میں دفاعی بجٹ کو قومی بجٹ کے ایک اہم حصے کے طور پر پارلیمنٹ کی منظوری کے لیے پیش کیا جاتاہے۔
پاکستان کا سالانہ قومی بجٹ یکم جولائی سے نافذ ہوکر اگلے سال 30 جون تک کے لیے ہوتا ہے۔قومی بجٹ کی منصوبہ بندی کے وقت دفاعی اخراجات کا مجموعی تخمینہ تو لگایا جاسکتا ہے لیکن ان اخراجات کا دارومدار اس بات پر ہے کہ کیا اس عرصے کے دوران وہ ملک کسی جنگ کا شکار یا حصہ تو نہیں بنا۔ جنگ اور ناگہانی آفات ایسا عمل ہے جو ہر طرح کی مالی منصوبہ بندی کے تخمینوں کو بکھیر کر رکھ دیتا ہے۔دنیامیں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جو اپنے اقتدار اعلیٰ خودمختاری اور سالمیت کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی افواج کے دفاعی اخراجات کو ترجیحی طور پر پورا نہ کرتا ہو۔
دفاعی بجٹ، ایسے مالی اخراجات کا تخمینہ ہے جو کوئی بھی ریاست اپنی حفاظت کے لیے خرچ کرتی ہے۔ اسٹاک ہوم میں قائم بین الاقوامی تحقیقاتی ادارے سپری(SIPRI) کے مطابق دفاعی اخراجات میں تمام Capital اور رواں اخراجات کا تخمینہ لگایا جاتا ہے جن میں روایتی اور غیر روایتی دفاعی ہتھیاروں کی تیاری ان کا حصول اور دیکھ بھال سب شامل ہونے کے ساتھ ساتھ دفاعی افواج سے متعلق دوسرے سول یا عسکری اداروںکی افرادی قوت کی تنخواہیں،پنشن ان کی بہبود، تربیت،تعلیم اور طبی سہولتوں کی فراہمی اور فوجی تعمیرات کے اخراجات شامل ہوتے ہیں۔
انٹر نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز (International institute of strategic studies)نے دفاعی اخراجات کے حوالے سے دنیا کے 15 ایسے ممالک کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں جو دوسرے ممالک کے مقابلے میں زیادہ دفاعی اخراجات کرتے ہیں۔ ان میں پاکستان شامل نہیں ہیں۔ اس ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دفاعی بجٹ امریکا کا ہے، اس کے بعد چین ، تیسرے نمبر پر سعودی عرب، چوتھے پر روس اور پانچویں پر بھارت، چھٹے پر برطانیہ، ساتویں پر فرانس اور آٹھویں پر جاپان، نویں نمبر پر جرمنی، دسویں پر ساؤتھ کوریا ،گیارہویں پر برازیل، بارہویں پر آسٹریلیا، تیرویں پر اٹلی ، چوہدویں پر اسرائیل اور پندرہویں پر عراق ہیں۔
بین الاقوامی ادارے کے ان اعداد و شمار کے تجزیہ سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں رقبے آبادی اور کم دفاعی مسائل کا سامنا کرنیوالے بہت سے ممالک کا دفاعی بجٹ پاکستان سے کئی گناہ زیادہ ہے۔ایک تحقیق کے مطابق ایران کا دفاعی بجٹ پاکستان کے دفاعی بجٹ سے 2 گناہ ہے۔دفاعی بجٹ کے حوالے سے تقابل کرتے ہوئے ایک اور دلچسپ پہلو بھی سامنے آتا ہے دنیا بھر کی افواج کے جوانوں اور افسران کو جو تنخواہیں دی جاتی ہیں ان میں سب سے زیادہ تنخواہ آسٹریلین فوجیوں کی ہے دوسرے نمبر پر کینیڈا تیسرے پر برطانیہ چوتھے پر امریکی افواج پانچویں پر فرانس اور چھٹے پر جرمنی جب کہ ساتویں پر جاپان آٹھویں پر روس اور نویں نمبر پر اٹلی کی فوج ہے۔
پاکستان کو دفاعی اعتبار سے جن حالات کا سامنا ہے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔ اگر ان کا تجزیہ کیا جائے تو یہ کہنا درست ہوگا کہ قلیل ترین مالی وسائل کے باوجود پاکستان کی مسلح افواج مثالی کردار ادا کر رہی ہیں۔ پاکستان کو بھارت اور افغانستان کی سرحدوں پر جس صورتحال کا سامنا ہے وہ ہم سب کے علم میں ہے، اسی طرح سیاچن جیسے دنیا کے بلند ترین فوجی محاذ اور قبائلی علاقوں میں فوجی اخراجات کا اندازہ صرف انھی کو ہوتا ہے جو دفاع وطن کے لیے وہاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
پاکستان کو اپنے اقتدار اعلیٰ کے تحفظ کے لیے دنیا کی تیسری بڑی فوجی طاقت بھارتی فوج سے ہمہ وقت چوکس اور تیار رہنا ہے۔ پاکستان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی فوج کو جدید اسلحے کی فراہمی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ جوہری توانائی اور میزائل پروگرام( Delivery System) پر تحقیق اور اس کی پروڈکشن بھی جاری رکھے تاکہ ہمارے پاس ایسا Deterent موجو د رہے کہ بھارت پاکستان کو جارحانہ نظر سے نہ دیکھ سکے۔
جغرافیائی اعتبار سے پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں دنیا کی بڑی طاقتوں امریکا روس چین اور بھارت کے عظیم تر معاشی اور عسکری مفادات ہیں، اس حوالے سے بھی پاکستان کو اپنی سالمیت ، خودمختاری اندرونی، استحکام اور اقتدار اعلیٰ کو محفوظ بنانے کے لیے ایک پرعزم پروفیشنل فوج کی اشد ضرورت ہے۔لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کسی بھی ملک کا حقیقی دفاع محض دفاعی بجٹ کو بڑھانے سے نہیں کیا جاسکتا۔ ملک کا اصل دفاع قومی یک جہتی،سیاسی اور معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ قومی حمیت کی پاسداری میں ہے۔ اور یہ سب چیزیں ''گڈ گورننس'' کے بغیر ممکن نہیں۔
حکومت گڈ گورننس کے تحت ملکی نظام احسن طریقے سے نبھا تی ہے جب کہ طاقتور فوج ملک کو درپیش اندرونی اور بیرونی خطرات کو کم کرنے یا ختم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرتی ہے۔کسی بھی ملک کی مضبوط اور دیرپا عسکری طاقت کا تجزیہ اس کے دفاعی بجٹ سے بھی لگایاجاسکتاہے۔ جمہوری ممالک میں دفاعی بجٹ کو قومی بجٹ کے ایک اہم حصے کے طور پر پارلیمنٹ کی منظوری کے لیے پیش کیا جاتاہے۔
پاکستان کا سالانہ قومی بجٹ یکم جولائی سے نافذ ہوکر اگلے سال 30 جون تک کے لیے ہوتا ہے۔قومی بجٹ کی منصوبہ بندی کے وقت دفاعی اخراجات کا مجموعی تخمینہ تو لگایا جاسکتا ہے لیکن ان اخراجات کا دارومدار اس بات پر ہے کہ کیا اس عرصے کے دوران وہ ملک کسی جنگ کا شکار یا حصہ تو نہیں بنا۔ جنگ اور ناگہانی آفات ایسا عمل ہے جو ہر طرح کی مالی منصوبہ بندی کے تخمینوں کو بکھیر کر رکھ دیتا ہے۔دنیامیں کوئی ایسا ملک نہیں ہے جو اپنے اقتدار اعلیٰ خودمختاری اور سالمیت کو محفوظ بنانے کے لیے اپنی افواج کے دفاعی اخراجات کو ترجیحی طور پر پورا نہ کرتا ہو۔
دفاعی بجٹ، ایسے مالی اخراجات کا تخمینہ ہے جو کوئی بھی ریاست اپنی حفاظت کے لیے خرچ کرتی ہے۔ اسٹاک ہوم میں قائم بین الاقوامی تحقیقاتی ادارے سپری(SIPRI) کے مطابق دفاعی اخراجات میں تمام Capital اور رواں اخراجات کا تخمینہ لگایا جاتا ہے جن میں روایتی اور غیر روایتی دفاعی ہتھیاروں کی تیاری ان کا حصول اور دیکھ بھال سب شامل ہونے کے ساتھ ساتھ دفاعی افواج سے متعلق دوسرے سول یا عسکری اداروںکی افرادی قوت کی تنخواہیں،پنشن ان کی بہبود، تربیت،تعلیم اور طبی سہولتوں کی فراہمی اور فوجی تعمیرات کے اخراجات شامل ہوتے ہیں۔
انٹر نیشنل انسٹیٹیوٹ آف اسٹرٹیجک اسٹڈیز (International institute of strategic studies)نے دفاعی اخراجات کے حوالے سے دنیا کے 15 ایسے ممالک کے اعداد و شمار جاری کیے ہیں جو دوسرے ممالک کے مقابلے میں زیادہ دفاعی اخراجات کرتے ہیں۔ ان میں پاکستان شامل نہیں ہیں۔ اس ادارے کی رپورٹ کے مطابق دنیا بھر میں سب سے زیادہ دفاعی بجٹ امریکا کا ہے، اس کے بعد چین ، تیسرے نمبر پر سعودی عرب، چوتھے پر روس اور پانچویں پر بھارت، چھٹے پر برطانیہ، ساتویں پر فرانس اور آٹھویں پر جاپان، نویں نمبر پر جرمنی، دسویں پر ساؤتھ کوریا ،گیارہویں پر برازیل، بارہویں پر آسٹریلیا، تیرویں پر اٹلی ، چوہدویں پر اسرائیل اور پندرہویں پر عراق ہیں۔
بین الاقوامی ادارے کے ان اعداد و شمار کے تجزیہ سے بخوبی اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ پاکستان کے مقابلے میں رقبے آبادی اور کم دفاعی مسائل کا سامنا کرنیوالے بہت سے ممالک کا دفاعی بجٹ پاکستان سے کئی گناہ زیادہ ہے۔ایک تحقیق کے مطابق ایران کا دفاعی بجٹ پاکستان کے دفاعی بجٹ سے 2 گناہ ہے۔دفاعی بجٹ کے حوالے سے تقابل کرتے ہوئے ایک اور دلچسپ پہلو بھی سامنے آتا ہے دنیا بھر کی افواج کے جوانوں اور افسران کو جو تنخواہیں دی جاتی ہیں ان میں سب سے زیادہ تنخواہ آسٹریلین فوجیوں کی ہے دوسرے نمبر پر کینیڈا تیسرے پر برطانیہ چوتھے پر امریکی افواج پانچویں پر فرانس اور چھٹے پر جرمنی جب کہ ساتویں پر جاپان آٹھویں پر روس اور نویں نمبر پر اٹلی کی فوج ہے۔
پاکستان کو دفاعی اعتبار سے جن حالات کا سامنا ہے وہ کسی سے ڈھکے چھپے نہیں ۔ اگر ان کا تجزیہ کیا جائے تو یہ کہنا درست ہوگا کہ قلیل ترین مالی وسائل کے باوجود پاکستان کی مسلح افواج مثالی کردار ادا کر رہی ہیں۔ پاکستان کو بھارت اور افغانستان کی سرحدوں پر جس صورتحال کا سامنا ہے وہ ہم سب کے علم میں ہے، اسی طرح سیاچن جیسے دنیا کے بلند ترین فوجی محاذ اور قبائلی علاقوں میں فوجی اخراجات کا اندازہ صرف انھی کو ہوتا ہے جو دفاع وطن کے لیے وہاں خدمات انجام دے رہے ہیں۔
پاکستان کو اپنے اقتدار اعلیٰ کے تحفظ کے لیے دنیا کی تیسری بڑی فوجی طاقت بھارتی فوج سے ہمہ وقت چوکس اور تیار رہنا ہے۔ پاکستان کے لیے لازم ہے کہ وہ اپنی فوج کو جدید اسلحے کی فراہمی یقینی بنانے کے ساتھ ساتھ جوہری توانائی اور میزائل پروگرام( Delivery System) پر تحقیق اور اس کی پروڈکشن بھی جاری رکھے تاکہ ہمارے پاس ایسا Deterent موجو د رہے کہ بھارت پاکستان کو جارحانہ نظر سے نہ دیکھ سکے۔
جغرافیائی اعتبار سے پاکستان ایک ایسے خطے میں واقع ہے جہاں دنیا کی بڑی طاقتوں امریکا روس چین اور بھارت کے عظیم تر معاشی اور عسکری مفادات ہیں، اس حوالے سے بھی پاکستان کو اپنی سالمیت ، خودمختاری اندرونی، استحکام اور اقتدار اعلیٰ کو محفوظ بنانے کے لیے ایک پرعزم پروفیشنل فوج کی اشد ضرورت ہے۔لیکن ہمیں یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ کسی بھی ملک کا حقیقی دفاع محض دفاعی بجٹ کو بڑھانے سے نہیں کیا جاسکتا۔ ملک کا اصل دفاع قومی یک جہتی،سیاسی اور معاشی استحکام کے ساتھ ساتھ قومی حمیت کی پاسداری میں ہے۔ اور یہ سب چیزیں ''گڈ گورننس'' کے بغیر ممکن نہیں۔