بجٹ ترجیحات اور عوامی توقعات
پاکستانی عوام کو کرپشن سے کوئی غرض نہیں، انہیں صرف مہنگائی سے مسئلہ ہے، انہیں دو وقت کی روٹی چاہیے
وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے کہا ہے کہ موبائل فون کالز، انٹرنیٹ اور ایس ایم ایس پر ٹیکس نہیں لگا رہے ، اس حوالے سے وزیراعظم اور کابینہ نے اس کی مخالفت کی اور منظوری نہیں دی ، بجٹ کے تمام اہداف حاصل ہونگے اور کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا، پوسٹ بجٹ پریس کانفرنس کرتے ہوئے انھوں نے مزید کہا کہ گروتھ والابجٹ پیش کیا ہے ، آئی ایم ایف کے ساتھ بات چیت جاری ہے ، ستمبر تک معاملات طے ہوجائیں گے۔ بجٹ میں غریب عوام کا احساس کیا گیا ہے ، معاشی ترقی کے ثمرات غریب تک پہنچائیں گے ۔
بلاشبہ اس وقت ملک میں موضوع سخن وفاقی بجٹ ہی ہے ،حکومت کی معاشی پالیسیوں کے باعث معاشی انڈیکیٹربہتر ہو رہے ہیں، جیسے اب گروتھ ریٹ 3.94 بتایا جا رہا ہے اور اگر اسی رفتار سے ملک چلتا رہا تو آنے والے برسوںمیں گروتھ ریٹ 6 فیصد تک جا سکتا ہے۔
اس وقت حکومت کو جو سب سے بڑا چیلنج ہے وہ ہے افراط زرکا، مہنگائی کا، یعنی گروتھ اچھی ہونے کے باوجود مہنگائی کم نہیں ہو رہی تو عام آدمی پر اس کا منفی اثر پڑے گا۔ اب حکومت کو سارا زور مہنگائی کم کرنے پر لگانا ہوگا، مہنگائی کی وجوہات تلاش کرنا ہوں گی کہ آیا اشیا ذخیرہ تو نہیںہو رہی ہیں یا ڈیمانڈ اینڈ سپلائی میں فرق تو نہیںپڑ رہا ہے، یہ سب دیکھنا ہوگا، طلب و رسد کو بہتر بنانا ہو گا۔حکومت سمجھتی ہے کہ ملک میں معاشی استحکام آرہا ہے، مشکل وقت دیکھ چکے،اب آگے آسانیاں ہی آسانیاں ہیں،جب کہ عوام الناس کو اس بات کی فکر لاحق ہے کہ بجٹ میں نئے ٹیکسوں کا بوجھ کہیں ان کے کندھے پر ہی نہ آ جائے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین کا بھی یہی کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ملک کو 6یا 7 فیصد سے گرو کرنا ہو گا، تبھی اس کے فوائد عوام تک پہنچیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بجٹ میں ترقیاتی بجٹ زیادہ رکھا جائے گا،ٹیکس بڑھائے جائینگے چونکہ شرح سود کم ہے اس لیے پرائیویٹ سیکٹر کی گروتھ مزید بڑھے گی،اگرچہ حکومت کے ناقدین اور ذرایع ابلاغ میں 3.94 کی جی ڈی پی گروتھ موضوع بحث ہے اور ناقدین اس گروتھ ریٹ پر قائل نہیں ہو پا رہے، لیکن حکومت اور ناقدین کے پاس اپنے اپنے دلائل موجود ہیں۔یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں تیزی آئی ہے اور رئیل اسٹیٹ کے علاوہ کاروباری سرگرمیوں میں موجودہ حکومت کے اس دورانیے میں کچھ بہتری نظر آنا شروع ہوئی ہے۔پہلے حکومتی بیانات میں جوش نہیں ہوتا تھا لیکن اب ان کے چہروں سے صاف لگ رہا ہے وہ مطمئن ہیں ان کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ مختلف منصوبوں کا افتتاح ہو رہا ہے،بیتے دو برس تک تو حکومتی ٹیم پچھلی حکومتوں پر تنقید کرنے میں لگی رہی،اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوامی کام شروع کردیا گیا ہے۔
اب وزیر اعظم سمیت سب کا فوکس معاشی ترقی پر لگا ہوا ہے جو خوش آیند ہے۔ایک موقع پر وزیر اعظم نے کہا کہ پہلے دو سال بہت مشکل تھے اگر اپوزیشن حکومت گرانے میں سنجیدہ ہوتی اور واقعی عوام کے لیے نکلتی تو وہ حکومت گرا سکتی تھی لیکن اپوزیشن صرف اپنے کیس ختم کرانے اور اپنے لیے ریلیف کے لیے نکلی تھی اس لیے حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ اب تو ویسے ہی حکومت مستحکم ہو گئی ہے اب انھیں کوئی خطرہ نہیں۔ ایک غیر ملکی سروے کے مطابق پاکستانی عوام کا اصل مسئلہ کرپشن نہیں، مہنگائی ہے یعنی پاکستانی عوام کو کرپشن سے کوئی غرض نہیں، انھیں صرف مہنگائی سے مسئلہ ہے، انھیں دو وقت کی روٹی چاہیے۔
بجٹ میں عوام کو ریلیف فراہم کرتے وقت اس امر کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے کہ پرائیویٹ اسکولوں کو فیسوں کی من مانی شرح ازخود مقرر کرنے اور بڑھانے کے اختیار کو کسی قانون کے تابع کیا جائے اور اس حوالے سے قانون سازی یقینی بنائی جائے۔کورونا کی وجہ سے اسکول کالج تو بند رہے لیکن حکومت پرائیویٹ اسکولوں کی مینجمنٹ سے فیس کم کروانے میں تو کجا ان کی وصولی کو بھی نہیں رکوا سکی۔
کسی بھی پرائیویٹ اسکول نے فیسیں کم نہیں کیں جب کہ لاکھوں کی فیسوں پر وکلاء کو ہائر کرکے اور اعداد و شمار کی جادوگری ہوئی اور بادی النظر میں فیسیں کم ہونے کے بجائے مزید بڑھا دی گئیں جب کہ پرائیویٹ اسکولوں نے کورونا وباء کے دوران ورچوئل ایجوکیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا نصف اسٹاف فارغ کردیا اور طالب علموں سے پوری فیسیں وصول کیں اور اسی طرح اپنی بھر پور کمائی اور بچت کی۔ دوسری جانب ادویات کی قیمتوں کے حوالے سے ملک میں کوئی بھی پالیسی موجود نہیں۔کورونا کے ہنگامی حالات میں ادویات کی قیمتوں میں کمی تو دور کی بات ہے بلکہ ایک ہی دوائی یا انجکشن ایک جگہ سے فرض کریں چار ہزار کا مل رہا ہے، تو دوسری کیمسٹ شاپ پر وہی چھ ہزار کا فروخت ہو رہا ہے۔
وفاقی مشیر خزانہ شوکت ترین کی میڈیا پر گفتگو سے بظاہرلگتا ہے کہ وہ برآمدات،زرعی پیداوار،نئی ٹیکس بیس بڑھانے اور صنعتی سیکٹر کے فروغ،بجلی اور گیس کی قیمتوں کو محدود کرنے کا عزم رکھتے ہیں،اگر حکومت واقعی زراعت کو فروغ دینا چاہتی ہے تو زرعی ادویات کی قیمتوں پر بھی کنٹرول کرے۔کھاد کی جو بوری گزشتہ سال3800 روپے کی تھی، وہ آج 5600 سو کی ہے جب کہ یہی کھاد دو سال قبل2300 روپے کی تھی۔یوریا کھاد کی بوری جو دو سال پہلے1350کی تھی آج دو ہزار روپے کی فروخت ہو رہی ہے اور سب سے بڑھ کر ناقص بیجوں کی وجہ سے نہ صرف اوسط پیداوار کم ہے بلکہ زمیندار و کاشتکار کا منافع بھی اتنا ہی کم ہے کہ وہ بمشکل گزارہ کر رہا ہے۔حکومت کاشتکاروں کو جو کھادوں پر سبسڈی دیتی ہے،اس کا عشر عشیر بھی کاشتکاروں اور کسانوں تک نہیں پہنچتا۔کسان کھاد پرسبسڈی کے ٹوکن لیے مارے مارے پھرتے رہے، جو ری کیش نہیں ہوتے۔
حکومت زراعت کی ترقی میں سنجیدہ ہے تو زرعی مشینری کی درآمد کی اجازت دے، ڈیوٹیز کم کرے جب کہ ملک میں تیار ہونے والے ٹریکٹرز اور مشینری پر سبسڈی دے۔ گزشتہ چار ماہ کے دوران صرف ٹریکٹر کی قیمتوں میں چار لاکھ روپے اضافہ ہوا ہے اور یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ ملک میں چند کمپنیوں کی اجارہ داری ہے۔
بہر حال نئے مشیر خزانہ اور حکومتی مالیاتی ٹیم سے توقع ہے کہ جب ان کے اپنے دعوؤں کے مطابق معیشت ٹیک آف کرچکی ہے ،ایسے حالات میں تعلیم ،صحت ، زراعت،صنعت و کاروبار، عوامی بہبود' تنخواہ دار طبقے کا بھی خیال رکھا جائیگا اور عوام یہ امید رکھنے میں بجا ہونگے کہ بجٹ میں نئے ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کرنے کے بعد آیندہ ہر سہ ماہی میں ٹیکسوں کی بھر مار نہیں ہوگی اور اگر مہنگائی کم نہ بھی ہو،اسی سطح پر رک جائے جو اس وقت 11 فیصد کی نا قابلِ برداشت حد پر ہے۔
وفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین نے کہا کہ کاشت کار کو ہر فصل کا ڈیڑھ لاکھ روپیہ دیں گے، شہری علاقوں میں خاندان کے ایک شخص کو 5 لاکھ کا قرض دیں گے تاکہ وہ کاروبار کر لے،انھوں نے کہا کہ غریب کسان کو 5 لاکھ روپے تک بلا سود قرضہ دیں گے، ہر غریب گھرانے کو چھت فراہم کی جائے گی، صحت کارڈ ہیلتھ انشورنس ہے، ہر جگہ جو ہنر درکار ہے وہاں وہ ہنر سکھائیں گے، ہمارا چیلنج ہے کہ گروتھ کو مستحکم کرنا ہے، ہم نے گروتھ بجٹ پیش کیا ہے۔
بجٹ میں ٹیکس کم لگائے گئے ہیں اور گروتھ پر توجہ دی گئی ہے جوں جوں تفصیلات اورجزئیات کی پرتیں کھلتی جائیں گی توں توں بجٹ کے خدوخال واضح ہوں گے، بہرحال اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت نے کسی حد تک اپنی سمت ضرور درست کر لی ہے۔ بجٹ میں مثبت اور منفی دونوں چیزیں موجود ہیں حکومت معیشت بحال کرنے اور منی بجٹ نہ لانے میں کامیاب ہوئی تو یہ اطمینان کا باعث امر ہو گا، اخراجات پر قابو پانے اور درآمدات و برآمدات میں توازن، غیر ملکی سرمایہ کاری کا حصول، بدعنوانی کا خاتمہ اور ترقیاتی منصوبوں کی فراہمی جیسے معاملات ضروری ہیں جن پر بجٹ اور بعداز بجٹ پورا مالی سال مسلسل توجہ اور عمل کی ضرورت ہے شب و روز جدوجہد اور دیانتدارانہ طرز عمل شرط ہے۔
وفاقی میزانیہ اور ملکی معاشی صورتحال اقتصادی حالات کورونا سے پیدا شدہ مشکل صورتحال جیسے معاملات کے حقائق کو مد نظر رکھا جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مقروض ملک اور آئی ایم ایف کے قرضوں کی وصولی کی شرائط اور آئی ایم ایف کی مرضی و منشاء کی رعایت رکھنے کی مجبوری کے ساتھ عوام دوست اور فلاحی بجٹ پیش کرنے کی توقع حقیقت پسندانہ امر نہ ہو گا،اگر ہم بجٹ کا ان حقائق کی روشنی میںجائزہ لیں تو حکومت کی مشکلات کو سمجھنے عوامی توقعات پر پورا نہ اترنے کو پرکھنے اور تنقید کرنے والوں کو درست یا خلاف حقیقت گرداننے کا فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گی۔
معاشی ترقی کا فائدہ بہرحال عوام کو ہونا چاہیے اور عوام آج کل مہنگائی سے سخت پریشان ہیں۔ ایک طرف وزیر اعظم معاشی ترقی سے مطمئن اور خوش ہیں تو دوسری طرف عوام مہنگائی سے پریشان ہیں اور کہتے ہیں کہ '' مہنگائی کی وجہ سے انھیں راتوں کو نیند نہیں آتی'' جس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ وزیراعظم کو مہنگائی کے باعث عام آدمی کی کسمپرسی کا بخوبی اندازہ ہے،وزیر اعظم عمران خان گاہے بگاہے عوام سے براہ راست ٹیلی فون پر بات کرتے رہتے ہیں،وہاں بھی انھیں زیادہ کالیں مہنگائی پر آتی ہیں۔وزیر اعظم پر امید ہیں کہ آنے والے وقتوں میں مہنگائی پر بھی قابو پا لیا جائے گا۔
ان کے لہجہ سے لگتا ہے، انھیں واقعی مہنگائی پر پریشانی ہے اور وہ اسے کم کرنے کے لیے اقدامات کر بھی رہے ہیں۔ اب یہ نئے وفاقی وزیر خزانہ اور ان کی معاشی ٹیم کا کڑا امتحان ہے کہ وہ کس طرح ملکی معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے میں کامیابی حاصل کرتے ہیں ، عوام حکومت کے بارے میں خوش گمان ہیں اور بہتری کی توقع رکھتے ہیں اب یہ آنیوالا وقت بتائے گا کہ حکومت کا موجودہ بجٹ کس حدتک عوامی توقعات پر پورا اترتا ہے۔
بلاشبہ اس وقت ملک میں موضوع سخن وفاقی بجٹ ہی ہے ،حکومت کی معاشی پالیسیوں کے باعث معاشی انڈیکیٹربہتر ہو رہے ہیں، جیسے اب گروتھ ریٹ 3.94 بتایا جا رہا ہے اور اگر اسی رفتار سے ملک چلتا رہا تو آنے والے برسوںمیں گروتھ ریٹ 6 فیصد تک جا سکتا ہے۔
اس وقت حکومت کو جو سب سے بڑا چیلنج ہے وہ ہے افراط زرکا، مہنگائی کا، یعنی گروتھ اچھی ہونے کے باوجود مہنگائی کم نہیں ہو رہی تو عام آدمی پر اس کا منفی اثر پڑے گا۔ اب حکومت کو سارا زور مہنگائی کم کرنے پر لگانا ہوگا، مہنگائی کی وجوہات تلاش کرنا ہوں گی کہ آیا اشیا ذخیرہ تو نہیںہو رہی ہیں یا ڈیمانڈ اینڈ سپلائی میں فرق تو نہیںپڑ رہا ہے، یہ سب دیکھنا ہوگا، طلب و رسد کو بہتر بنانا ہو گا۔حکومت سمجھتی ہے کہ ملک میں معاشی استحکام آرہا ہے، مشکل وقت دیکھ چکے،اب آگے آسانیاں ہی آسانیاں ہیں،جب کہ عوام الناس کو اس بات کی فکر لاحق ہے کہ بجٹ میں نئے ٹیکسوں کا بوجھ کہیں ان کے کندھے پر ہی نہ آ جائے۔ وزیر خزانہ شوکت ترین کا بھی یہی کہنا ہے کہ پاکستان جیسے ملک کو 6یا 7 فیصد سے گرو کرنا ہو گا، تبھی اس کے فوائد عوام تک پہنچیں گے۔
ان کا کہنا تھا کہ اس بجٹ میں ترقیاتی بجٹ زیادہ رکھا جائے گا،ٹیکس بڑھائے جائینگے چونکہ شرح سود کم ہے اس لیے پرائیویٹ سیکٹر کی گروتھ مزید بڑھے گی،اگرچہ حکومت کے ناقدین اور ذرایع ابلاغ میں 3.94 کی جی ڈی پی گروتھ موضوع بحث ہے اور ناقدین اس گروتھ ریٹ پر قائل نہیں ہو پا رہے، لیکن حکومت اور ناقدین کے پاس اپنے اپنے دلائل موجود ہیں۔یہ حقیقت بھی اپنی جگہ موجود ہے کہ اسٹاک مارکیٹ میں تیزی آئی ہے اور رئیل اسٹیٹ کے علاوہ کاروباری سرگرمیوں میں موجودہ حکومت کے اس دورانیے میں کچھ بہتری نظر آنا شروع ہوئی ہے۔پہلے حکومتی بیانات میں جوش نہیں ہوتا تھا لیکن اب ان کے چہروں سے صاف لگ رہا ہے وہ مطمئن ہیں ان کے اعتماد میں اضافہ ہوا ہے۔ مختلف منصوبوں کا افتتاح ہو رہا ہے،بیتے دو برس تک تو حکومتی ٹیم پچھلی حکومتوں پر تنقید کرنے میں لگی رہی،اب ایسا محسوس ہوتا ہے کہ عوامی کام شروع کردیا گیا ہے۔
اب وزیر اعظم سمیت سب کا فوکس معاشی ترقی پر لگا ہوا ہے جو خوش آیند ہے۔ایک موقع پر وزیر اعظم نے کہا کہ پہلے دو سال بہت مشکل تھے اگر اپوزیشن حکومت گرانے میں سنجیدہ ہوتی اور واقعی عوام کے لیے نکلتی تو وہ حکومت گرا سکتی تھی لیکن اپوزیشن صرف اپنے کیس ختم کرانے اور اپنے لیے ریلیف کے لیے نکلی تھی اس لیے حکومت کا کچھ نہیں بگاڑ سکی۔ اب تو ویسے ہی حکومت مستحکم ہو گئی ہے اب انھیں کوئی خطرہ نہیں۔ ایک غیر ملکی سروے کے مطابق پاکستانی عوام کا اصل مسئلہ کرپشن نہیں، مہنگائی ہے یعنی پاکستانی عوام کو کرپشن سے کوئی غرض نہیں، انھیں صرف مہنگائی سے مسئلہ ہے، انھیں دو وقت کی روٹی چاہیے۔
بجٹ میں عوام کو ریلیف فراہم کرتے وقت اس امر کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جانا چاہیے کہ پرائیویٹ اسکولوں کو فیسوں کی من مانی شرح ازخود مقرر کرنے اور بڑھانے کے اختیار کو کسی قانون کے تابع کیا جائے اور اس حوالے سے قانون سازی یقینی بنائی جائے۔کورونا کی وجہ سے اسکول کالج تو بند رہے لیکن حکومت پرائیویٹ اسکولوں کی مینجمنٹ سے فیس کم کروانے میں تو کجا ان کی وصولی کو بھی نہیں رکوا سکی۔
کسی بھی پرائیویٹ اسکول نے فیسیں کم نہیں کیں جب کہ لاکھوں کی فیسوں پر وکلاء کو ہائر کرکے اور اعداد و شمار کی جادوگری ہوئی اور بادی النظر میں فیسیں کم ہونے کے بجائے مزید بڑھا دی گئیں جب کہ پرائیویٹ اسکولوں نے کورونا وباء کے دوران ورچوئل ایجوکیشن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے اپنا نصف اسٹاف فارغ کردیا اور طالب علموں سے پوری فیسیں وصول کیں اور اسی طرح اپنی بھر پور کمائی اور بچت کی۔ دوسری جانب ادویات کی قیمتوں کے حوالے سے ملک میں کوئی بھی پالیسی موجود نہیں۔کورونا کے ہنگامی حالات میں ادویات کی قیمتوں میں کمی تو دور کی بات ہے بلکہ ایک ہی دوائی یا انجکشن ایک جگہ سے فرض کریں چار ہزار کا مل رہا ہے، تو دوسری کیمسٹ شاپ پر وہی چھ ہزار کا فروخت ہو رہا ہے۔
وفاقی مشیر خزانہ شوکت ترین کی میڈیا پر گفتگو سے بظاہرلگتا ہے کہ وہ برآمدات،زرعی پیداوار،نئی ٹیکس بیس بڑھانے اور صنعتی سیکٹر کے فروغ،بجلی اور گیس کی قیمتوں کو محدود کرنے کا عزم رکھتے ہیں،اگر حکومت واقعی زراعت کو فروغ دینا چاہتی ہے تو زرعی ادویات کی قیمتوں پر بھی کنٹرول کرے۔کھاد کی جو بوری گزشتہ سال3800 روپے کی تھی، وہ آج 5600 سو کی ہے جب کہ یہی کھاد دو سال قبل2300 روپے کی تھی۔یوریا کھاد کی بوری جو دو سال پہلے1350کی تھی آج دو ہزار روپے کی فروخت ہو رہی ہے اور سب سے بڑھ کر ناقص بیجوں کی وجہ سے نہ صرف اوسط پیداوار کم ہے بلکہ زمیندار و کاشتکار کا منافع بھی اتنا ہی کم ہے کہ وہ بمشکل گزارہ کر رہا ہے۔حکومت کاشتکاروں کو جو کھادوں پر سبسڈی دیتی ہے،اس کا عشر عشیر بھی کاشتکاروں اور کسانوں تک نہیں پہنچتا۔کسان کھاد پرسبسڈی کے ٹوکن لیے مارے مارے پھرتے رہے، جو ری کیش نہیں ہوتے۔
حکومت زراعت کی ترقی میں سنجیدہ ہے تو زرعی مشینری کی درآمد کی اجازت دے، ڈیوٹیز کم کرے جب کہ ملک میں تیار ہونے والے ٹریکٹرز اور مشینری پر سبسڈی دے۔ گزشتہ چار ماہ کے دوران صرف ٹریکٹر کی قیمتوں میں چار لاکھ روپے اضافہ ہوا ہے اور یہ صرف اس وجہ سے ہے کہ ملک میں چند کمپنیوں کی اجارہ داری ہے۔
بہر حال نئے مشیر خزانہ اور حکومتی مالیاتی ٹیم سے توقع ہے کہ جب ان کے اپنے دعوؤں کے مطابق معیشت ٹیک آف کرچکی ہے ،ایسے حالات میں تعلیم ،صحت ، زراعت،صنعت و کاروبار، عوامی بہبود' تنخواہ دار طبقے کا بھی خیال رکھا جائیگا اور عوام یہ امید رکھنے میں بجا ہونگے کہ بجٹ میں نئے ٹیکس نہ لگانے کا اعلان کرنے کے بعد آیندہ ہر سہ ماہی میں ٹیکسوں کی بھر مار نہیں ہوگی اور اگر مہنگائی کم نہ بھی ہو،اسی سطح پر رک جائے جو اس وقت 11 فیصد کی نا قابلِ برداشت حد پر ہے۔
وفاقی وزیرخزانہ شوکت ترین نے کہا کہ کاشت کار کو ہر فصل کا ڈیڑھ لاکھ روپیہ دیں گے، شہری علاقوں میں خاندان کے ایک شخص کو 5 لاکھ کا قرض دیں گے تاکہ وہ کاروبار کر لے،انھوں نے کہا کہ غریب کسان کو 5 لاکھ روپے تک بلا سود قرضہ دیں گے، ہر غریب گھرانے کو چھت فراہم کی جائے گی، صحت کارڈ ہیلتھ انشورنس ہے، ہر جگہ جو ہنر درکار ہے وہاں وہ ہنر سکھائیں گے، ہمارا چیلنج ہے کہ گروتھ کو مستحکم کرنا ہے، ہم نے گروتھ بجٹ پیش کیا ہے۔
بجٹ میں ٹیکس کم لگائے گئے ہیں اور گروتھ پر توجہ دی گئی ہے جوں جوں تفصیلات اورجزئیات کی پرتیں کھلتی جائیں گی توں توں بجٹ کے خدوخال واضح ہوں گے، بہرحال اندازہ ہوتا ہے کہ حکومت نے کسی حد تک اپنی سمت ضرور درست کر لی ہے۔ بجٹ میں مثبت اور منفی دونوں چیزیں موجود ہیں حکومت معیشت بحال کرنے اور منی بجٹ نہ لانے میں کامیاب ہوئی تو یہ اطمینان کا باعث امر ہو گا، اخراجات پر قابو پانے اور درآمدات و برآمدات میں توازن، غیر ملکی سرمایہ کاری کا حصول، بدعنوانی کا خاتمہ اور ترقیاتی منصوبوں کی فراہمی جیسے معاملات ضروری ہیں جن پر بجٹ اور بعداز بجٹ پورا مالی سال مسلسل توجہ اور عمل کی ضرورت ہے شب و روز جدوجہد اور دیانتدارانہ طرز عمل شرط ہے۔
وفاقی میزانیہ اور ملکی معاشی صورتحال اقتصادی حالات کورونا سے پیدا شدہ مشکل صورتحال جیسے معاملات کے حقائق کو مد نظر رکھا جائے اور سب سے بڑھ کر یہ کہ مقروض ملک اور آئی ایم ایف کے قرضوں کی وصولی کی شرائط اور آئی ایم ایف کی مرضی و منشاء کی رعایت رکھنے کی مجبوری کے ساتھ عوام دوست اور فلاحی بجٹ پیش کرنے کی توقع حقیقت پسندانہ امر نہ ہو گا،اگر ہم بجٹ کا ان حقائق کی روشنی میںجائزہ لیں تو حکومت کی مشکلات کو سمجھنے عوامی توقعات پر پورا نہ اترنے کو پرکھنے اور تنقید کرنے والوں کو درست یا خلاف حقیقت گرداننے کا فیصلہ کرنے میں آسانی ہو گی۔
معاشی ترقی کا فائدہ بہرحال عوام کو ہونا چاہیے اور عوام آج کل مہنگائی سے سخت پریشان ہیں۔ ایک طرف وزیر اعظم معاشی ترقی سے مطمئن اور خوش ہیں تو دوسری طرف عوام مہنگائی سے پریشان ہیں اور کہتے ہیں کہ '' مہنگائی کی وجہ سے انھیں راتوں کو نیند نہیں آتی'' جس سے یہی عندیہ ملتا ہے کہ وزیراعظم کو مہنگائی کے باعث عام آدمی کی کسمپرسی کا بخوبی اندازہ ہے،وزیر اعظم عمران خان گاہے بگاہے عوام سے براہ راست ٹیلی فون پر بات کرتے رہتے ہیں،وہاں بھی انھیں زیادہ کالیں مہنگائی پر آتی ہیں۔وزیر اعظم پر امید ہیں کہ آنے والے وقتوں میں مہنگائی پر بھی قابو پا لیا جائے گا۔
ان کے لہجہ سے لگتا ہے، انھیں واقعی مہنگائی پر پریشانی ہے اور وہ اسے کم کرنے کے لیے اقدامات کر بھی رہے ہیں۔ اب یہ نئے وفاقی وزیر خزانہ اور ان کی معاشی ٹیم کا کڑا امتحان ہے کہ وہ کس طرح ملکی معیشت کو مستحکم بنیادوں پر استوار کرنے میں کامیابی حاصل کرتے ہیں ، عوام حکومت کے بارے میں خوش گمان ہیں اور بہتری کی توقع رکھتے ہیں اب یہ آنیوالا وقت بتائے گا کہ حکومت کا موجودہ بجٹ کس حدتک عوامی توقعات پر پورا اترتا ہے۔