خوشحالی کا بجٹ یا محبوب کی کمر
مبینہ طور پروزیراعظم صاحب کے ’خوشحالی کے بجٹ‘ دیئے جانے کے دعوے پر یقیناً سبھی عوام چونک گئے ہوں گے
تازہ قومی بجٹ کی پیشکاری کے موقعے پر وفاقی وزیروں، مشیروں اور لاتعداد ترجمانوں کے لاتعداد دلنشیں اور دلفریب بیانات سامنے آئے ہیں ۔وزیروں ، مشیروں کے بیانات کا اگر ایک ہی جملے میں خلاصہ کیا جائے تو کچھ یوں بنتا ہے : ایسا عوام دوست اور غریب نواز بجٹ پاکستان کی تاریخ میں پہلی بار پیش کیا گیا ہے ، اور یہ اعزاز جناب عمران خان کے نصیب میں لکھا گیا ہے۔
اقتدار کی ٹھنڈی ٹھار چھاؤں تلے بیٹھ کر ان بیانات کو داغنے کی ''حقیقت'' اور ''اصلیت'' اپنی جگہ لیکن اسی سلسلے میں جو بیان ہمارے محبوب وزیر اعظم جناب عمران خان نے ارشاد فرمایا ہے، وہ تو اپنی جگہ پر لاجواب بھی ہے اور بے مثال بھی۔ آپ نے فرمایا :'' معیشت بحال ہو چکی ہے۔ اب ہم ترقی کی طرف جارہے ہیں۔ تین سال سے جو تکالیف تھیں، ختم ہو گئی ہیں۔ پہلے دو سال مشکل بجٹ دیا۔ اب خوشحالی کا بجٹ پیش کیا ہے''۔ مبینہ طور پروزیر اعظم صاحب کے ''خوشحالی کے بجٹ'' دیے جانے کے دعوے پر یقیناً سبھی عوام چونک گئے ہوں گے۔
اگر یہ خوشحالی کا بجٹ ہے تو نجانے پھر مشکلات کا بجٹ کتنا مہیب ہوتا ہوگا !ہمیں تو وزیر اعظم صاحب کے مبینہ دلکش اور رُوح افزا بیان پر یقینِ کامل ہے لیکن اِس کم فہم اپوزیشن کا کیا کِیا جائے ؟ حزبِ اختلاف والے یک زبان اور یک جہت ہو کر جناب عمران خان کے کہے گئے خوش کُن اور سنہری الفاظ پر یقین کرنے کو ہر گز تیار نہیں ہیں ۔ ردِ عمل میں ایک وفاقی وزیر نے اپنے وزیر اعظم کے تتبع میں کہا ہے :''اِن اپوزیشن والوں کو بجٹ کے مندرجات پڑھنے کی توفیق تو ملی نہیں ہے ، بس کونے میں کھڑے ہو کر اور حکومت مخالف پلے کارڈز اُٹھا کر لا یعنی احتجاج کررہے ہیں۔ یہ اگلے دو برس بھی یونہی کونوں کھدروں میں کھڑے ہو کر احتجاج کرتے رہیں گے۔اِن کے نصیب میں بس یہی کچھ لکھا رہ گیا ہے ۔''
وفاقی وزیر کہتے تو ٹھیک ہی ہیں ۔ اپوزیشن کے مقدر میں بس یونہی بے معنی اور لایعنی احتجاج کرنا رہ گیا ہے ۔ دس جماعتی اپوزیشن کا اتحاد (پی ڈی ایم) جس طرح تنکوں کی طرح بکھر کر رہ گیا ہے ، اس نے اپوزیشن کی قسمت پر مایوسی کی مہر ثبت کر دی ہے ۔ اب تو پی ڈی ایم سمٹ سمٹا کر آٹھ جماعتی رہ گئی ہے اور اس کا بھی حال یہ ہے کہ : ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے ۔پی ڈی ایم کا انتشار و افتراق جنم نہ لیتا اگر اس کے مرکزی تین چار قائدین اپنے نجی اور گروہی مفادات کے تحت باہم دست و گریباں نہ ہوتے۔ اس باطنی تصادم نے پی ڈی ایم کی رُوح فنا کر دی ہے اور لا محالہ اس کا براہِ راست فائدہ حکومت اور خانصاحب کو پہنچا ہے ؛ چنانچہ اِس پس منظر میں حکومتی عمال ''پی ڈی ایم'' پرجو بھی پھبتی کسیں، بجا ہے ۔ متحدہ اپوزیشن کے اجزائے ترکیبی کے اندر ہی خرابی مضمر تھی ۔
اسےBuilt Inخرابی کہنا بجا ہوگا۔ اس باطنی اور فطری خرابی نے اس کی اُڑان اور حریت سلب کر لی ہے ؛ چنانچہ عوام نے اپوزیشن سے جو بھی توقعات وابستہ کر لی تھیں، زمیں بوس ہو چکی ہیں ۔ حکومتی اقدامات اور معاشی فیصلوں نے عوام کی اجتماعی زندگی اجیرن ہی نہیں، جہنم بنا رکھی ہے ۔ ایسے میں عوام نے اپوزیشن سے بجا طور پر اُمیدیں استوار کی تھیں کہ یہ اُن کے مصائب، مسائل اور دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے حکومت کے سامنے کوئی بند باندھیں گے لیکن یہ سب اُمیدیں نقش بر آب ثابت ہُوئی ہیں۔ اور ''پی ڈی ایم'' خود حکومت کے سامنے ریت کی دیوار بن کر رہ گئی ہے ۔
اِس پیش منظر میں جب عوام قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر، میاں محمد شہباز شریف ، اور پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین ، ایم این اے بلاول بھٹو زرداری، کے یہ بیانات سُنتے ہیںکہ '' ہم مل کر بجٹ منظور ہونے میں حکومت کو ٹف ٹائم دیں گے'' تو کوئی بھی ایسے بیانات پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اپوزیشن ''ٹِل'' لگا کر بھی بجٹ کو منظور ہونے سے روک نہیں سکتی ۔ بلکہ قرائن تو یہ بتا رہے ہیں کہ اپوزیشن در پردہ بجٹ پاس کروانے میں حکومت کا قدم قدم پر ساتھ دے گی۔
یہ مایوسی، بد اعتمادی یا بد گمانی نہیں ہے۔ گزشتہ ڈھائی تین برسوں کے دوران کئی ایسے واقعات گنوائے جا سکتے ہیں جو اس امر کی دلیل ہیں کہ اپوزیشن نے کہاں کہاںاور کس کس مقام پر حکومت اور اس کے بہی خواہوں کا ہنستے مسکراتے ساتھ دیا ۔ تازہ واقعہ بلکہ سانحہ تو نون لیگی سینیٹر سید مشاہد حسین صاحب مدظلہ العالی کا ہے کہ کیسے پُر اسرار حالات میں انھوں نے سینیٹ کا ایک عہدہ حکومت کے حوالے کر دیا ہے ۔ اور اب بات پھیلی ہے تو نون لیگی ایم این اے اور سابق وزیر اعظم، شاہد خاقان عباسی، گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے مصداق بیان داغ رہے ہیں کہ '' مشاہد حسین سید کو جواب تو دینا پڑے گا۔'' اِس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا۔
تو پھر اے وقت کے حاکمو، اپوزیشن کی قطعی پروا نہ کرتے ہُوئے، آپ کھل کر بجٹ کا نفاذ کیجیے ، کوئی آپکا ہاتھ روکنے والا نہیں ہے کہ آپ خود بھی اپوزیشن کے کھوکھلے نعروں سے خوب آگاہ اور واقف ہو چکے ہیں۔ رہا عوام کا ڈر َ تو یہ بھی بے معنی ہے ۔ عوام تو کالانعام ہیں۔ حکمرانوں کو عوام کے مصائب کا کتنا ادراک و احساس ہے، اس کا اندازہ اور قیافہ یوں لگا یا جا سکتا ہے کہ جس روز وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب بجٹ پیش کررہے تھے ، پورے ملک میں بجلی کی شدید لوڈ شیڈنگ نے عوام کو ناکوں چنے چبا رکھے تھے اور اب خبر آئی ہے کہ ہمارے محبوب وزیر اعظم صاحب نے گرمی سے تنگ آ کر نتھیا گلی کے ٹھنڈے مرغزاروں کا رُخ فرما لیا ہے ۔
عوام کسی حکمران کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے ۔ پاکستان کی 72سالہ تاریخ میں کوئی ایک بھی مثال ایسی پیش نہیں کی جا سکتی ہے جب عوام نے مہنگائی ، گرانی اور رُوح فرسا بے روزگاری سے تنگ آ کر کسی حکومت کو اقتدار کے ایوانوں سے نکال باہر پھینکا ہو ۔ یہ حادثہ اب بھی نہیں ہوگا۔
ذرا اپوزیشن کے تین چار اہم ترین اور مرکزی قائدین کی نجی زندگیوں پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ آیا یہ حضرات حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی اہلیت اور قابلیت رکھتے ہیں؟ کیا ان کی زندگیوں میں معاشی تنگدستی کا کوئی گزر ہے ؟ جس جہنم کی حدت کا اپوزیشن کو احساس تک نہیں ، وہ بھلا غریب عوام کے احساس سے کیوں تڑپ اُٹھے گی ؟ اس لیے سب کو خاطر جمع رکھنی چاہیے کہ بجٹ بھی اپنے وقت پر منظور ہوگا اور یہ حکومت خیر خیریت سے اگلے دو سال بھی ہنسی خوشی مکمل کرے گی۔ رہ گئی عوام کی خوشی اور بجٹ کی خوشحالی تو اس کا وجود شاعر نے اپنے محبوب کی کمر کی طرح کہیں ڈھونڈنے کی کوشش تو یقیناً کی تھی لیکن کمر کہیں نہیں ملی :تمہارے لوگ کہتے ہیں کمر ہے/ کہاں ہے؟ کس طرف کو ہے؟ کدھر ہے؟
اقتدار کی ٹھنڈی ٹھار چھاؤں تلے بیٹھ کر ان بیانات کو داغنے کی ''حقیقت'' اور ''اصلیت'' اپنی جگہ لیکن اسی سلسلے میں جو بیان ہمارے محبوب وزیر اعظم جناب عمران خان نے ارشاد فرمایا ہے، وہ تو اپنی جگہ پر لاجواب بھی ہے اور بے مثال بھی۔ آپ نے فرمایا :'' معیشت بحال ہو چکی ہے۔ اب ہم ترقی کی طرف جارہے ہیں۔ تین سال سے جو تکالیف تھیں، ختم ہو گئی ہیں۔ پہلے دو سال مشکل بجٹ دیا۔ اب خوشحالی کا بجٹ پیش کیا ہے''۔ مبینہ طور پروزیر اعظم صاحب کے ''خوشحالی کے بجٹ'' دیے جانے کے دعوے پر یقیناً سبھی عوام چونک گئے ہوں گے۔
اگر یہ خوشحالی کا بجٹ ہے تو نجانے پھر مشکلات کا بجٹ کتنا مہیب ہوتا ہوگا !ہمیں تو وزیر اعظم صاحب کے مبینہ دلکش اور رُوح افزا بیان پر یقینِ کامل ہے لیکن اِس کم فہم اپوزیشن کا کیا کِیا جائے ؟ حزبِ اختلاف والے یک زبان اور یک جہت ہو کر جناب عمران خان کے کہے گئے خوش کُن اور سنہری الفاظ پر یقین کرنے کو ہر گز تیار نہیں ہیں ۔ ردِ عمل میں ایک وفاقی وزیر نے اپنے وزیر اعظم کے تتبع میں کہا ہے :''اِن اپوزیشن والوں کو بجٹ کے مندرجات پڑھنے کی توفیق تو ملی نہیں ہے ، بس کونے میں کھڑے ہو کر اور حکومت مخالف پلے کارڈز اُٹھا کر لا یعنی احتجاج کررہے ہیں۔ یہ اگلے دو برس بھی یونہی کونوں کھدروں میں کھڑے ہو کر احتجاج کرتے رہیں گے۔اِن کے نصیب میں بس یہی کچھ لکھا رہ گیا ہے ۔''
وفاقی وزیر کہتے تو ٹھیک ہی ہیں ۔ اپوزیشن کے مقدر میں بس یونہی بے معنی اور لایعنی احتجاج کرنا رہ گیا ہے ۔ دس جماعتی اپوزیشن کا اتحاد (پی ڈی ایم) جس طرح تنکوں کی طرح بکھر کر رہ گیا ہے ، اس نے اپوزیشن کی قسمت پر مایوسی کی مہر ثبت کر دی ہے ۔ اب تو پی ڈی ایم سمٹ سمٹا کر آٹھ جماعتی رہ گئی ہے اور اس کا بھی حال یہ ہے کہ : ہر چند کہیں کہ ہے، نہیں ہے ۔پی ڈی ایم کا انتشار و افتراق جنم نہ لیتا اگر اس کے مرکزی تین چار قائدین اپنے نجی اور گروہی مفادات کے تحت باہم دست و گریباں نہ ہوتے۔ اس باطنی تصادم نے پی ڈی ایم کی رُوح فنا کر دی ہے اور لا محالہ اس کا براہِ راست فائدہ حکومت اور خانصاحب کو پہنچا ہے ؛ چنانچہ اِس پس منظر میں حکومتی عمال ''پی ڈی ایم'' پرجو بھی پھبتی کسیں، بجا ہے ۔ متحدہ اپوزیشن کے اجزائے ترکیبی کے اندر ہی خرابی مضمر تھی ۔
اسےBuilt Inخرابی کہنا بجا ہوگا۔ اس باطنی اور فطری خرابی نے اس کی اُڑان اور حریت سلب کر لی ہے ؛ چنانچہ عوام نے اپوزیشن سے جو بھی توقعات وابستہ کر لی تھیں، زمیں بوس ہو چکی ہیں ۔ حکومتی اقدامات اور معاشی فیصلوں نے عوام کی اجتماعی زندگی اجیرن ہی نہیں، جہنم بنا رکھی ہے ۔ ایسے میں عوام نے اپوزیشن سے بجا طور پر اُمیدیں استوار کی تھیں کہ یہ اُن کے مصائب، مسائل اور دکھوں کا مداوا کرنے کے لیے حکومت کے سامنے کوئی بند باندھیں گے لیکن یہ سب اُمیدیں نقش بر آب ثابت ہُوئی ہیں۔ اور ''پی ڈی ایم'' خود حکومت کے سامنے ریت کی دیوار بن کر رہ گئی ہے ۔
اِس پیش منظر میں جب عوام قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر، میاں محمد شہباز شریف ، اور پیپلز پارٹی کے نوجوان چیئرمین ، ایم این اے بلاول بھٹو زرداری، کے یہ بیانات سُنتے ہیںکہ '' ہم مل کر بجٹ منظور ہونے میں حکومت کو ٹف ٹائم دیں گے'' تو کوئی بھی ایسے بیانات پر یقین کرنے کو تیار نہیں ہے ۔ پہلی بات تو یہ ہے کہ اپوزیشن ''ٹِل'' لگا کر بھی بجٹ کو منظور ہونے سے روک نہیں سکتی ۔ بلکہ قرائن تو یہ بتا رہے ہیں کہ اپوزیشن در پردہ بجٹ پاس کروانے میں حکومت کا قدم قدم پر ساتھ دے گی۔
یہ مایوسی، بد اعتمادی یا بد گمانی نہیں ہے۔ گزشتہ ڈھائی تین برسوں کے دوران کئی ایسے واقعات گنوائے جا سکتے ہیں جو اس امر کی دلیل ہیں کہ اپوزیشن نے کہاں کہاںاور کس کس مقام پر حکومت اور اس کے بہی خواہوں کا ہنستے مسکراتے ساتھ دیا ۔ تازہ واقعہ بلکہ سانحہ تو نون لیگی سینیٹر سید مشاہد حسین صاحب مدظلہ العالی کا ہے کہ کیسے پُر اسرار حالات میں انھوں نے سینیٹ کا ایک عہدہ حکومت کے حوالے کر دیا ہے ۔ اور اب بات پھیلی ہے تو نون لیگی ایم این اے اور سابق وزیر اعظم، شاہد خاقان عباسی، گونگلوؤں سے مٹی جھاڑنے کے مصداق بیان داغ رہے ہیں کہ '' مشاہد حسین سید کو جواب تو دینا پڑے گا۔'' اِس سادگی پہ کون نہ مرجائے اے خدا۔
تو پھر اے وقت کے حاکمو، اپوزیشن کی قطعی پروا نہ کرتے ہُوئے، آپ کھل کر بجٹ کا نفاذ کیجیے ، کوئی آپکا ہاتھ روکنے والا نہیں ہے کہ آپ خود بھی اپوزیشن کے کھوکھلے نعروں سے خوب آگاہ اور واقف ہو چکے ہیں۔ رہا عوام کا ڈر َ تو یہ بھی بے معنی ہے ۔ عوام تو کالانعام ہیں۔ حکمرانوں کو عوام کے مصائب کا کتنا ادراک و احساس ہے، اس کا اندازہ اور قیافہ یوں لگا یا جا سکتا ہے کہ جس روز وزیر خزانہ شوکت ترین صاحب بجٹ پیش کررہے تھے ، پورے ملک میں بجلی کی شدید لوڈ شیڈنگ نے عوام کو ناکوں چنے چبا رکھے تھے اور اب خبر آئی ہے کہ ہمارے محبوب وزیر اعظم صاحب نے گرمی سے تنگ آ کر نتھیا گلی کے ٹھنڈے مرغزاروں کا رُخ فرما لیا ہے ۔
عوام کسی حکمران کا کچھ بھی نہیں بگاڑ سکتے ۔ پاکستان کی 72سالہ تاریخ میں کوئی ایک بھی مثال ایسی پیش نہیں کی جا سکتی ہے جب عوام نے مہنگائی ، گرانی اور رُوح فرسا بے روزگاری سے تنگ آ کر کسی حکومت کو اقتدار کے ایوانوں سے نکال باہر پھینکا ہو ۔ یہ حادثہ اب بھی نہیں ہوگا۔
ذرا اپوزیشن کے تین چار اہم ترین اور مرکزی قائدین کی نجی زندگیوں پر نظر ڈالیں اور دیکھیں کہ آیا یہ حضرات حکومت کو ٹف ٹائم دینے کی اہلیت اور قابلیت رکھتے ہیں؟ کیا ان کی زندگیوں میں معاشی تنگدستی کا کوئی گزر ہے ؟ جس جہنم کی حدت کا اپوزیشن کو احساس تک نہیں ، وہ بھلا غریب عوام کے احساس سے کیوں تڑپ اُٹھے گی ؟ اس لیے سب کو خاطر جمع رکھنی چاہیے کہ بجٹ بھی اپنے وقت پر منظور ہوگا اور یہ حکومت خیر خیریت سے اگلے دو سال بھی ہنسی خوشی مکمل کرے گی۔ رہ گئی عوام کی خوشی اور بجٹ کی خوشحالی تو اس کا وجود شاعر نے اپنے محبوب کی کمر کی طرح کہیں ڈھونڈنے کی کوشش تو یقیناً کی تھی لیکن کمر کہیں نہیں ملی :تمہارے لوگ کہتے ہیں کمر ہے/ کہاں ہے؟ کس طرف کو ہے؟ کدھر ہے؟