وفاقی بجٹ 202122 ء مشکل حالات کے باوجود متوازن بجٹ پیش کیا گیا
ماضی کے برعکس لانگ ٹرم اور مستقل پالیسیوں کو فوکس کیا گیا، ان پر عملدرآمد یقینی بنانا ہوگا، ماہرین کی رائے
ماہرین معاشیات اور حکومتی ترجمان کا ’’ایکسپریس فورم‘‘ میں اظہار خیال
موجودہ حکومت نے مالی سال 2021-22 ء کیلئے وفاقی بجٹ پیش کر دیا ہے جس کے مختلف پہلوؤں کا جائزہ لینے کیلئے ''ایکسپریس فورم'' میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں حکومت ، ماہرین معاشیات اور بزنس کمیونٹی کے نمائندوں کو مدعو کیا گیا۔ فورم میں ہونے والی گفتگو نذر قارئین ہے۔
مسرت جمشید چیمہ
(ترجمان پنجاب حکومت)
ہمیں بدترین حالت میں ملک ملا اور پھر کورونا وائرس آگیا جس نے پاکستان سمیت دنیا بھر کو متاثر کیا مگر ان نامساعد حالات کے باوجود وزیراعظم عمران خان نے بہترین حکمت عملی کے ساتھ معاملات چلائے اور ان کی قیادت میں ایک بہترین بجٹ پیش کیا گیا۔ مسائل پر قابو پانے کیلئے ہماری سمت درست ہے اور ہم نیک نیتی کے ساتھ آگے بڑھ رہے ہیں۔
یہ درست ہے کہ تقریباََ تمام اداروں میں ہی اصلاحات کی ضرورت ہے اور ہم ہر گزرتے دن کے ساتھ ان میں بہتری لا رہے ہیں۔ عوامی حکومت پر عوام کا شدید دباؤ ہوتا ہے اور اسے ہر دن کا حساب دینا ہوتا ہے، یہی وجہ ہے کہ ماضی کی حکومتوں نے مقبول فیصلوں پر توجہ دی اور اصل کام نہیں کیا۔ مگر ہم سخت اور دیرپا فیصلے کررہے ہیں۔ ملکی آبادی میں تیزی سے اضافہ ہورہا ہے، اگر حکومت ایک ، دو یا پانچ سال کی منصوبہ بندی کربھی لے تو آبادی میں تیزی سے اضافے کی وجہ سے اقدامات کم پڑ جاتے ہیں۔
ماضی کی حکومتوں کو یہ معلوم ہونا چاہیے تھا کہ آنے والے وقت میں پانی ایک بڑا مسئلہ ہوگا اور ہمیں اتنی بڑی آبادی کی پانی کی ضرروت کو پورا کرنا ہوگا مگر اس پر توجہ ہی نہیں دی گئی جبکہ ہمارے ہمسایہ ملک بھارت نے بے شمار ڈیم تعمیر کیے۔ آج صوبے پانی پر سیاست کر رہے ہیں جو افسوسناک ہے، یہ جماعتیں خود اقتدار میں رہی اور کچھ نہیں کیا۔ ہم لانگ ٹرم پالیسیوں کو لیکر آگے بڑھ رہے ہیں، نئے ڈیم تعمیر کیے جارہے ہیں، پانی کے ذخائر بنائے جارہے ہیں اور اس کے لیے تقریباََ 91 ارب روپے رکھے گئے ہیں۔
جب پانی کا مسئلہ حل ہوجائے گا تو اس سے نہ صرف زرعی شعبے کو فائدہ ہوگا بلکہ بجلی بھی پیدا کی جاسکے گی۔انسانی ترقی کو ماضی میں نظر انداز کیا گیا مگر وزیراعظم نے اسے اپنے دل کے قریب رکھا ہے۔ صوبوں کے بجٹ میں حصے کے علاوہ وفاقی حکومت بلوچستان، کراچی، گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں لوگوں کی بہتری کیلئے اقدامات کرے گی۔
ہماری یوتھ زیادہ ہے مگر افسوس ہے کہ ماضی میں انہیں بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا مگر وزیراعظم عمران خان نے نوجوانوں کیلئے بہترین منصوبے شروع کیے ہیں، انہیں آسان قرضے دیے جا رہے ہیں، کاروبار میں معاونت، ہنر کی تعلیم دی جارہی ہے اور ان کی حالت کو بہتر بنایا جارہا ہے تاکہ ملک کا مستقبل روشن بنایا جاسکے۔حکومت تعلیم اور صحت کے شعبے پر خصوصی توجہ دے رہی ہے، ہر گھرانے میں مفت ٹیکنیکل ٹریننگ کے ساتھ ساتھ لوگوں کو صحت کارڈ بھی دیا جارہا ہے جس سے یقینا بہتری آئے گی۔
ہم اپنی لیبر کو تربیت کے ذریعے سکلڈ لیبر بنا رہے ہیں تاکہ لوگ بیرون ملک جا کر اچھی ملازمت حاصل کریں، اس سے نہ صرف ان کی اور ان کے خاندان کی حالت بہتر ہوگی بلکہ ملک کو بھی معاشی طور پر فائدہ ہوگا۔ 18 ویں ترمیم کے بعد صوبوں کو سب کچھ منتقل ہوگیا، اس کے باوجود بھی صوبائی حکومتیں اپنی غلطیوں کا الزام وفاقی حکومت پر لگا دیتی ہیں،اگر ہم ملک کی بہتری چاہتے ہیں تو اپنا قبلہ درست کرنا ہوگا۔ ہماری عدالتیں دنیا کی مہنگی ترین عدالتیں ہیں، انصاف کی فراہمی کے حوالے سے دنیا میں ہم 126 ویں نمبر پر ہیں جو افسوسناک ہے۔
جب ہم لوگوں کو انصاف نہیں دے سکیں گے تو معاشرہ کیسے بہتر ہوگا۔ اسی طرح بیوروکریسی میں بھی بے شمار مسائل ہیں، انہیں مراعات مل رہی ہیں جو عوام کا پیسہ ہے اور خزانے پر بوجھ ہے لہٰذا جب تک ہم مختلف شعبوں میں اصلاحات نہیں لائیں گے تب تک مسائل حل نہیں ہوں گے، حکومت اس پر کام کر رہی ہے جس کے بعد تمام مراعات کارکردگی کی بنیاد پر دی جائیں گی۔
ہم ملکی بہتری کیلئے ہر ممکن اقدامات کر رہے ہیں، اگر ہم اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے تو عوام کو بہت زیادہ ریلیف ملے گا۔ یہاں خوردنی تیل کے حوالے سے بات کی گئی، اگر عالمی مارکیٹ کے ساتھ موازنہ کیا جائے تو عالمی سطح پر خوردنی تیل کی قیمت میں 76 فیصد جبکہ ہمارے ہاں صرف 21فیصد اضافہ ہوا۔ اسی طرح عالمی سطح پر چینی 56 فیصد، گندم 27 فیصد اور تیل کی قیمت میں 176 فیصد اضافہ ہوا جبکہ ہمارے ہاں چینی 18 فیصد،گندم 28 فیصد اور تیل کی قیمت میں 46 فیصد اضافہ ہوا۔
حکومت نے ایگریکلچر ٹرانسفورمیشن پلان بنایا ہے جس میں زرعی شعبے سے منسلک تمام شعبوں میں اصلاحات، فوڈ سکیورٹی و دیگر پہلوؤں پر ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کیے جائیں گے۔ وزیراعظم نے فوڈ سکیورٹی کے حوالے سے ایمرجنسی ڈکلیئر کی ہے اور وہ روزانہ کی بنیاد پر اس کی رپورٹ لے رہے ہیں۔
سبزیوں کو محفوظ بنانے کیلئے ہم نوجوانوں کو قرض دے رہے ہیں کہ وہ کولڈ سٹوریج بنائیں تاکہ کسان کا نقصان نہ ہو ۔ ملک بھر میں سبزیوں کی ڈیمانڈ کے مطابق ہر علاقے کے حوالے سے منصوبہ بندی کی جارہی ہے تاکہ وہاں پر سبزیوں کی کاشت کی جائے۔ کپاس کے حوالے سے بھی کام کیا جا رہا ہے، سی پیک منصوبے کے تحت چین کے ساتھ مل کر بڑے پیمانے پر کام کیا جارہا ہے جس سے بہتری آئے گی۔
مافیاز کا گٹھ جوڑ توڑ دیا گیا ہے، اب صرف پاکستان فرینڈلی منصوبوں پر کام کیا جائے گا۔اب ایسوسی ایشنز اشیاء کے ریٹ طے نہیں کریں گی بلکہ حکومت خود پرائس کو ریگولیٹ کرے گی۔ملک میں تقریباََ 70 فیصد لوگ شعبہ زراعت سے منسلک ہیں، جب ان کی حالت بہتر ہوگی اور انہیں سہولیات ملیں گی تو ملک کو بہت فائدہ ہوگا۔
ڈاکٹر قیس اسلم
(ماہر معاشیات)
نجی شعبے، سوشل سیکٹر، بیوروکریسی اور حکومتوں سمیت معاشرے کے دیگر طبقات نے ملک کو مشکلات سے دوچار کرایا اور اس نہج تک پہنچایاجہاں مسائل سنگین شکل اختیار کرگئے۔ بدقسمتی سے ہم نے دنیا کے بدلتے حالات کو نہیں دیکھااور نہ ہی اس بات کا احساس کیا کہ ہمیں جدید تقاضوں کو مدنظر رکھتے ہوئے لانگ ٹرم منصوبہ بندی کے ساتھ آگے بڑھنا ہوگا بلکہ سب نے ایڈہاک ازم کے تحت اپنی اپنی حکومت کی۔موجودہ حکومت اس حوالے سے تعریف کی مستحق ہے کہ اس نے زمینی حقائق اور مستقبل کو مدنظر رکھتے ہوئے اقدامات کرنے کا عزم کیا ہے۔
حکومت کیلئے رکاوٹیں بہت زیادہ ہیں اورمیرے نزدیک ان رکاوٹوںاور مسائل کے ہوتے ہوئے یہ ایک اچھا بجٹ ہے۔ میرا ہمیشہ سے یہ خیال رہا ہے کہ اتنی بڑی حکومت چل نہیں سکتی اور نہ ہی ڈیلور کر سکتی ہیں۔ ہمارے ہاں آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان سمیت 6 صوبائی حکومتیں اور ایک وفاقی حکومت ہے جن کے اخراجات بہت زیادہ ہیں، اس کے علاوہ خسارے میں جانے والے اداروں کی صورت میں سفید ہاتھی بھی ہیں جو ایک بہت بڑا بوجھ ہیں، ان میں سے سٹیل ملز کو بند کردیا گیا جبکہ یوٹیلٹی سٹورز کے بارے میں خود وزیر اعظم کہہ چکے ہیں کہ 19 بلین کا خسارہ ہے ۔
اس کے حوالے سے بھی فیصلہ لینا ہوگا، یا تو اسے درست اقدامات سے منافع بخش بنایا جائے یا پھر جان چھڑا لی جائے۔حالیہ بجٹ 8.5 ٹریلین روپے کا ہے جو گزشتہ بجٹ سے 1 ٹریلین روپے زیادہ ہے مگر اس میں قرضوں کی واپسی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ اس مرتبہ بیرونی قرضے کم اور اندرونی قرضے زیادہ ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب 3 ٹریلین روپے کے قرضے واپس کر دیے جائیں گے توباقی کیا بچے گا؟ 3 ٹریلین واپس کرنا ہے، 3.5 کا خسارہ ہے لہٰذا کہیں سے پیسے نکال کر معاملات سنبھالنے کی کوشش کی جائے گی۔
ہماری ضروریات زیادہ ہیں اور مالی وسائل کم ہیں، قرضوں کی واپسی اور خسارے کی وجہ سے مہنگائی ہوگی۔ سرکاری افسران کو 10فیصد دے دیا گیا۔ میں ان کی تنخواہوں میں اضافے کے خلاف نہیں مگر مراعات کے خلاف ہوں۔ جسے مفت گھر، ملازم و دیگر سہولیات مل جائیں وہ ایئر کنڈیشنڈ کمرے میں بیٹھ کر عوام کے فیصلے کیسے کرسکتا ہے، مہنگائی، لوڈ شیڈنگ وغیرہ تو اس کا مسئلہ ہی نہیں ہے۔ امریکا دنیا کا طاقتور ترین ملک ہے مگر وہاں امریکی صدر کے علاوہ کسی اور شخص کو گھر، گاڑی، ملازم و دیگر مراعات نہیں ملتی۔ غریب ملک ہونے کے باوجود پاکستان میں بے شمار مراعات دی جارہی ہیں، ان مراعات کو کارکردگی سے مشروط کیا جائے، اچھی پرفارمنس پر اضافہ اور بری پرفارمنس پر کٹوتی کی جائے۔ پینشنرز کیلئے اضافہ خوش آئند ہے۔
کم از کم تنخواہ میں اضافہ بھی اچھا فیصلہ ہے، امید ہے اس پر عملدرآمد کا میکنزم بنا کر موثر کام کیا جائے گا۔ بجٹ انتہائی دانشمندی کے ساتھ ترقی کو مدنظر رکھتے ہوئے تیار کیا گیا ہے جس کے اثرات دو سال بعد سامنے آئیں گے کیونکہ اس میں کنسٹرکشن ہونی ہے۔ بڑے عرصے بعد ملک میں ڈیم کیلئے پیسے رکھے گئے ہیں ، جب ڈیم بنیں گے تو ملک میں پانی کی کمی کا خاتمہ ہوگا اور اس سے زراعت کو بھی فائدہ ہوگا۔ پہلی مرتبہ مختلف طریقوں سے بجلی بنانے کیلئے پیسے مختص کیے گئے ہیں جو خوش آئند ہے، اس سے تیل پر انحصار کم ہوجائے گا۔ تعمیراتی شعبے کو تو پہلے سے ہی مراعات حاصل ہیں، اب دیگر شعبوں کو بھی مراعات دے دی گئی ہیں۔
ماحول کے لیے بھی بجٹ رکھا گیا ہے اور اس بجٹ میں سمجھداری کے ساتھ مختلف معاملات پر توجہ دی گئی ہے۔ سوال یہ ہے کہ صوبائی حکومتیں ان معاملات پر کس طرح وفاقی حکومت کے ساتھ چلتی ہیں؟ صوبوں کو اپنے بجٹ میں 80فیصد سوشل سیکٹر جبکہ 20 فیصد دوسرے شعبوں پر خرچ کرنا ہوگا۔
صوبوں کو آبادی کے لحاظ سے بجٹ میں حصہ ملا ہے، اس میں ایک اہم پہلو کو بھی مدنظر رکھنا چاہیے کہ جو صوبے پیچھے ہیں اور کم ترقی یافتہ ہیں ان کی ترقی پر زیادہ خرچ کرنا چاہیے۔ گزشتہ بجٹ میں 2 ٹریلین روپے ڈائریکٹ ٹیکس ، 3 ٹریلین ان ڈائریکٹ ٹیکس جبکہ 0.5 ٹریلین دیگر ٹیکسوں سے حاصل ہونا تھا۔ حکومت نے 4.8 ٹریلین روپے کا ٹیکس اکٹھا کیا جس کا مطلب ہے کہ ڈائریکٹ ٹیکس سے صرف ایک ٹریلین اکٹھا ہوا، اس معاملے کو سنجیدگی سے دیکھنا ہوگا۔
حکومت نے کہا ہے کہ نئے ٹیکس نہیں لگائیں گے مگر نئے ٹیکس پیئرز بنائیں گے، سوال یہ ہے کہ جو ایف بی آر پرانا ٹیکس اکٹھا نہیں کرسکا وہ نیا ٹارگٹ جو پہلے سے زیادہ ہے ، کیسے اکٹھا کرے گا۔ میرے نزدیک ٹیکس کے معاملات کو دوحصوں میں کرنا ہوگا، ایک ٹیکس کا حساب لگائے اور دوسرا ٹیکس اکٹھا کرے۔بجلی کے بلوں کی طرح ٹیکس کا بل بھیجا جائے اور معاملات کو بہتر بنایا جائے۔ اس سال مہنگائی کم نہیں ہوگی، خسارہ کو کم کرنے کیلئے نئے کرنسی نوٹ چھاپنے سمیت مختلف اقدامات کرنا ہوں گے۔
حکومت کو تاجروں سے بلیک میل نہیں ہونا چاہیے بلکہ اپنی رٹ قائم کرنی چاہیے۔ مردم شماری کے مطابق 32 ملین گھرانے ہیں جن میں سے 8 ملین گھرانے ایسے ہیں جو ٹیکس نیٹ میں آسکتے ہیں جبکہ ابھی تک تقریباََ ڈھائی ملین گھرانے ٹیکس نیٹ میں شامل ہیں۔ اگر حکومت گروتھ چاہتی ہے اور ملازمتوں کے مواقع پیدا کرنا چاہتی ہے تو پھر انڈسٹری جدید تقاضوں سے ہم آہنگ کرنا ہوگا، ایس ایم ایز کو عالمی مارکیٹ سے جوڑنا ہوگا، سٹرکچرل ریفارمز لانا ہوں گی اور لانگ ٹرم اقدامات کے ذریعے معیشت کو بہتر بنانا ہوگا۔ زراعت، ٹیکسٹائل، آئی ٹی، تعلیم، ٹیکنیکل ایجوکیشن و دیگر شعبوں پر خصوصی توجہ دینا ہوگی، نوجوانوں کو جدید سکلز سکھا کر باہر بھیجنا ہوگا۔
ڈاکٹر محمد ارشد
(سابق ریجنل چیئرمین ایف پی سی سی آئی)
عوامی دباؤ کی وجہ سے ہر حکومت کوشش کرتی ہے کہ اچھا بجٹ پیش کرے ۔ حکومت کیلئے اہم ہوتا ہے کہ وہ اچھی، مثبت اور لانگ ٹرم پالیسیاں بنائے اور ان پر عملدرآمد کے ذریعے معیشت کو مستحکم کرے۔ میرے نزدیک کچھ پالیسیاں ایسی ہیں جنہیں مستقل طور پر مانیٹری پالیسی کا حصہ بنا دیا جائے تاکہ ان کیلئے کسی ایس آر او کی ضرورت نہ پڑے اور کوئی تبدیلی نہ ہوسکے۔ تعمیراتی شعبے کیلئے وزیراعظم عمران خان کی جانب سے دیا جانے والا پیکیج انتہائی خوبصورتی سے ڈیزائن کیا گیا ہے۔
یہ شاندار اور متوازن پیکیج ہے جس میں سرمایہ کاری کرنے والے سے ذرائع کا نہیں پوچھا جائے گا۔ اس میں اہم بات یہ ہے کہ 3 سال بعد جب وہ تعمیر شدہ گھر، پلازہ یا عمارت بیچے گا تو اس کے خریدار سے بھی نہیں پوچھا جائے گا کہ پیسہ کہاں سے آیا۔ کنسٹرکشن انڈسٹری سے 40 شعبے منسلک ہیں، ان سے حکومت کو بہت زیادہ ریونیو حاصل ہوگا اور معیشت بھی مستحکم ہوگی۔
اس پیکیج کو مدت سے آزاد کرکے مانیٹری پالیسی کا مستقل حصہ بنایا جائے اور دیگر شعبوں کو بھی اسی طرز کے پیکیج دیے جائیں۔ قوم میں پوٹینشل موجود ہے، اگر بہتر پالیسی بنا کر رکاوٹیں دور کی جائیں تو ملک و قوم کا فائدہ ہوگا۔ ٹیکس نیٹ میں اضافہ انتہائی ضروری ہے۔ ملک میں 6 سے 8 ملین دوکانیں ہیں جن میں 2 'اے سی' لگے ہوئے ہیں، ایسے دوکاندار کے گھر میں بھی 4 اے سی لگے ہوں گے، ان 6 ایئر کنڈیشنرز کے بجلی کے بلوں پر لیے جانے والے ود ہولڈنگ ٹیکس کا ڈیٹا مرتب کیا جائے، اس کی ریٹرن بنائی جائے اوراسے ٹیکس نیٹ میں شامل تصور کیا جائے۔ اس ود ہولڈنگ ٹیکس کے مطابق سالانہ 25 فیصد انکم ٹیکس لے لیا جائے اور دوکانوں پر چھاپے مارنے کی روش ختم کی جائے۔
حکومت کو ٹیکس مل رہا ہے، ہر شخص ٹیکس دے رہا ہے، اسے دستاویزی شکل دے کر لوگوں کو ٹیکس نیٹ میں شامل کیا جائے۔ آڈٹ کے ذریعے صرف 4 فیصد سالانہ ٹیکس کولیکشن ہوتی ہے، اگر اس 4 فیصد کے نتیجے میں 50 فیصد معیشت متاثر ہوتی ہے تو پھر ہمیں اپنی پالیسی کو بہتر بنانا ہوگا۔ کورونا کی وباء حکومت کیلئے ایک بڑا چیلنج تھا۔ وزیراعظم عمران خان نے لاک ڈاؤن کی مخالفت کی، ممکنہ نقصانات کو کم کرنے پر توجہ دی اور جو اقدامات اٹھائے وہ قابل تعریف ہیں۔ حالیہ بجٹ کی بات کریں تو یہ ایسا نہیں ہے جیسا نظر آرہا ہے، اسے سمجھنے میں لوگوں کو وقت لگے گا کہ ان کے ساتھ کیا ہوا ہے۔
حکومت کے پاس دینے کیلئے کچھ نہیں ہے اور نہ ہی ہمیں اس سے توقع کرنی چاہیے۔ خوردنی تیل ، کیٹل فیڈ انڈسٹری، پولٹری، ڈیری و دیگر صنعتوں میں دنیا بھر میں چھوٹ دی جاتی ہے، یہاں بھی 7 فیصد کی چھوٹ دی گئی تھی مگر اب ٹیکس سلیب کو 10 فیصد سے 17 فیصد کر دیا گیا ہے اور بجٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ 7 فیصد اضافہ کیا گیا ہے بلکہ یہ کہا گیا ہے کہ اس پر چھوٹ ختم کر دی گئی ہے۔اس 7 فیصد کا اثر آئے گا، کوکنگ آئل اور گھی کی قیمتوں میں 20 سے 25 روپے فی کلو اضافہ ہوگا، دیگر مذکور ہ صنعتوں پر بھی اس کا اثر پڑے گا۔
زرعی مشینری پر چھوٹ دینی چاہیے تھی مگر بجٹ میںا س پر کام نہیں کیا گیا۔ حکومت کو اب زرعی ایکسپورٹ پر خصوصی توجہ دینا ہوگی۔ روس کے ساتھ چاول کی ایکسپورٹ کا معاہدہ ہوا ہے، اس سے فائدہ ہوگا اور چاول کی فصل 75 لاکھ ٹن ہوگی۔زرعی پیداوار میں اضافے کیلئے حکومت کو بیج کو بہتر بنانے پر توجہ دینا ہوگی، اس کے کیلئے بیج پر کام کرنے والی دنیا کی 5 بہترین کمپنیوں کو پاکستان میں اجازت دی جائے، اس سے بہتری آئے گی۔