میں نے بنائی ڈش۔۔۔

ٹیلی ورلڈ کے فن کاروں کا کچن میں پہلا تجربہ

کچن میں میرا پہلا تجربہ گاجر کا حلوہ بنانا تھا۔ فوٹو : ایکسپریس

ہندوستان میں ٹیلی ورلڈ کے فن کار اگر اپنی مصروفیات میں سے کچھ وقت نکال سکیں تو گھومنے پھرنے چلے جاتے ہیں یا گھر میں آرام اور نیند پوری کرتے ہیں۔

لیکن ضروری نہیں کہ ہر فن کار ایسا ہی کرے۔ یہ ذکر ہے ان میل اور فیمیل آرٹسٹوں کا جنھوں نے فرصت کے لمحات میں کچھ سیکھنے اور نیا تجربہ کرنے کی ٹھانی اور اس کے لیے کچن کا رخ کیا۔ زندگی میں پہلی بار پکوان کرنے اور اپنی بنائی ہوئی ڈش پر ہاتھ صاف کرنے سے متعلق ان کے تجربات کی بابت پوچھا گیا تو کئی دل چسپ باتیں معلوم ہوئیں جو آپ کی خدمت میں پیش ہیں۔

رتن راجپوت: میں نے پہلی مرتبہ کچن کا رخ کیا تو ارادہ تھا کہ چائینیز بناؤں گی، لیکن کسی وجہ سے وہ نہ ہو سکا۔ پھر میں نے سویاں بنائیں۔ یہ میرا کچن میں پکوان کرنے کا پہلا تجربہ تھا جو بدقسمتی سے خوش گوار ثابت نہ ہوا۔ میں نے اپنی طرف سے کوئی کسر نہیں چھوڑی تھی اور میرا خیال تھا کہ سب میری تعریف کریں گے، لیکن ایسا نہ ہوا۔ میری ایک غلطی کی وجہ سے اس ڈش کا مزہ کرکرا ہو گیا۔ دراصل میں نے حد سے زیادہ گھی شامل کر دیا تھا اور جس کی وجہ سے سویاں بدذائقہ ہو گئیں۔

سوہاسی دھامی: کسٹرڈ مجھے بہت پسند ہے اور کچن میں پہلی مرتبہ میں نے جو ڈش بنائی وہ کیریمل کسٹرڈ تھا۔ یہ کام میں نے کسٹرڈ کے پیکٹ پر درج ہدایات کے مطابق کیا اور کام یاب رہی۔ سب نے اسے بہت پسند کیا اور میری خوب تعریف ہوئی۔


نکول الویرا : مجھے اپنے گھر میں نکھٹو اور بدسلیقہ کہا جاتا ہے۔ میں کوئی کام نہیں کرتی اور اگر کرنے جاؤں تو کوئی نہ ایسی حرکت ضرور ہو جاتی ہے جس کی وجہ سے سب کچھ بگڑ جاتا ہے۔ اس لیے مجھے گھر میں پھوہڑ بھی کہا جاتا ہے۔ بس میں ''میگی'' بنانا جانتی ہوں۔ جی ہاں، یہ وہ واحد ڈش ہے جو میں جھٹ پٹ بنا لیتی ہوں۔ مجھے''میگی'' بہت پسند ہے اور کچن میں پکوان کا میرا پہلا اور آخری تجربہ یہی ہے۔

ڈیبینا بنرجی: چھے سال قبل میں نے پہلی مرتبہ ایک ڈش بنائی تھی۔ میں مہاراشٹر سے تعلق رکھتی ہوں اور بنگالی ڈشز میری کم زوری ہیں۔ اُن دنوں ممبئی میں تھی اور وہاں ہوٹلوں کے کھانوں اور فاسٹ فوڈ سے اوب چکی تھی۔ ایک روز خود پکوان کرنے کی ٹھانی اور ضروری چیزیں بازار سے لانے کے بعد اپنی والدہ کو فون کیا اور ان سے ایک بنگالی ڈش تیار کرنے کی ہدایات لیتی گئی۔ یوں میں نے پہلی مرتبہ پکوان بہت چٹ پٹا اور لذیذ کھانا پکایا۔ مجھے افسوس اس بات کا ہے کہ اس موقعے پر میری والدہ ساتھ نہیں تھیں۔ اگر وہ میرے ہاتھ کی بنی ہوئی ڈش کھاتیں تو انھیں بے حد خوشی ہوتی اور ان کی وجہ سے مجھے بہت حوصلہ ملتا۔

وشال گاندھی: میں اپنے والدین کی اکلوتی اولاد ہوں اور اپنی ماں سے بہت قریب ہوں۔ انھیں گھر کے کاموں خاص طور پر کھانا پکاتے دیکھ کر خواہش ہوتی تھی کہ میں ان کا ہاتھ بٹاؤں۔ یہ تو نہیں ہو سکتا تھا کہ میں لڑکیوں کی طرح سلائی کڑھائی بھی سیکھوں، جھاڑو پوچھا کروں، لیکن کھانا پکانا ضرور سیکھا جا سکتا تھا۔ میں نے والدہ کی مدد سے ایک روز بنگالی ڈش بنائی جو بہت خوش ذائقہ تھی۔ گھر میں اس کی تعریف ہوئی جس سے میرا حوصلہ بڑھا۔ اب بھی وقت ملے تو میں کوئی ڈش ضرور بناتا ہوں۔

انس راشد: میں نے پہلی مرتبہ پیزا اور برگر بنایا تھا۔ اس روز میرا باورچی چھٹی پر تھا۔ میں نے سوچا کہ باہر سے کچھ منگوانے کے بجائے خود کچن سنبھالا جائے۔ خوش قسمتی سے دونوں چیزیں بہت ذائقے دار بنیں اور اپنے ایک دوست کے ساتھ بیٹھ کر ہڑپ کر گیا۔ یہ میرے لیے ایک انوکھا اور دل چسپ تجربہ تھا، لیکن میں نے دوبارہ کچن میں جانے کی کوشش نہیں کی۔ میں نے پایا کہ پکوان کرنا ایک محنت طلب کام ہے اور میں اس کا عادی نہیں ہوں۔

دیپالی پنسار: کچن میں میرا پہلا تجربہ گاجر کا حلوہ بنانا تھا۔ اس کے لیے میں نے اپنی چھوٹی بہن سے مدد لی تھی۔
Load Next Story