محمد عامر نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے اپنی دستیابی ظاہر کردی
ملک سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں، مسائل حل ہوئے تو قومی ٹیم کا حصہ بننے کے لیے تیار ہوں، محمد عامر
فاسٹ بولر محمد عامر نے پاکستان کرکٹ ٹیم کے لیے اپنی دستیابی ظاہر کرتے ہوئے کہا ہے کہ ملک سے بڑھ کر کوئی چیز نہیں ہوتی، اگر میرے مسائل حل ہوئے تو قومی کرکٹ ٹیم کا حصہ بننے کے لیے تیار ہوں۔
ایک انٹرویو میں محمد عامر نے کہا کہ پی سی بی کے سی ای او وسیم خان دو مرتبہ میرے گھر پر چل کر آئے، میرے لیے یہ بہت عزت کی بات تھی، انہوں نے مجھے بہت عزت و تکریم دی، ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا، میں نے ان کے روبرو اپنے مسائل اور ایشوز رکھے اور نکات پیش کیے جس پر انہوں نے سننے کے بعد اپنی بھرپور معاونت کا اظہار کیا۔
محمد عامر نے کہا کہ مسائل حل ہونگے تو میں بھی پاکستان کے لیے دستیاب ہوں، میں باربار اس پر بات کروں گا تو لوگ کہیں گے کہ یہ جان بوجھ کر ایسا کررہا ہے اور اپنی صفائیاں پیش کر رہا ہے، ہمارا کلچر ایسا بن گیا ہے کہ لوگ ان باتوں کو منفی لیتے ہیں، اگر اپنی ذات سے متعلق از خود فیصلہ کر لیا جائے تو کہتے ہیں کہ یہ کیسے کر لیا،یہ تو ہم سے بڑھ کر ہو گیا،فیصلہ تو ہم کریں گے، ذاتی فیصلہ پر لوگ پیچھے پڑ جاتے ہیں۔
محمد عامر نے کہا کہ اس وقت پاکستان کرکٹ ٹیم کی مینجمنٹ میں موجود بعض افراد نے میرے فیصلے کی منفی عکاسی کی، ایک اچھے کپتان کی یہ ہی نشانی ہے کہ اسے اپنے کھلاڑی کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے، کپتان کی طرف سے جو پیغام جائے کھلاڑی کے لیے وہ مثبت ہونا چاہیے۔
فاسٹ بولر نے کہا کہ پاکستان میں پی ایس ایل کو کھلاڑی کے چناو کے لیے بنیادی حیثیت دے دی گئی ہے جو قطعی طور پر غلط ہے، پاکستان سے بڑا کوئی نہیں ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔
ایک انٹرویو میں محمد عامر نے کہا کہ پی سی بی کے سی ای او وسیم خان دو مرتبہ میرے گھر پر چل کر آئے، میرے لیے یہ بہت عزت کی بات تھی، انہوں نے مجھے بہت عزت و تکریم دی، ماضی میں کبھی ایسا نہیں ہوا، میں نے ان کے روبرو اپنے مسائل اور ایشوز رکھے اور نکات پیش کیے جس پر انہوں نے سننے کے بعد اپنی بھرپور معاونت کا اظہار کیا۔
محمد عامر نے کہا کہ مسائل حل ہونگے تو میں بھی پاکستان کے لیے دستیاب ہوں، میں باربار اس پر بات کروں گا تو لوگ کہیں گے کہ یہ جان بوجھ کر ایسا کررہا ہے اور اپنی صفائیاں پیش کر رہا ہے، ہمارا کلچر ایسا بن گیا ہے کہ لوگ ان باتوں کو منفی لیتے ہیں، اگر اپنی ذات سے متعلق از خود فیصلہ کر لیا جائے تو کہتے ہیں کہ یہ کیسے کر لیا،یہ تو ہم سے بڑھ کر ہو گیا،فیصلہ تو ہم کریں گے، ذاتی فیصلہ پر لوگ پیچھے پڑ جاتے ہیں۔
محمد عامر نے کہا کہ اس وقت پاکستان کرکٹ ٹیم کی مینجمنٹ میں موجود بعض افراد نے میرے فیصلے کی منفی عکاسی کی، ایک اچھے کپتان کی یہ ہی نشانی ہے کہ اسے اپنے کھلاڑی کی حوصلہ افزائی کرنا چاہیے، کپتان کی طرف سے جو پیغام جائے کھلاڑی کے لیے وہ مثبت ہونا چاہیے۔
فاسٹ بولر نے کہا کہ پاکستان میں پی ایس ایل کو کھلاڑی کے چناو کے لیے بنیادی حیثیت دے دی گئی ہے جو قطعی طور پر غلط ہے، پاکستان سے بڑا کوئی نہیں ہے اور نہ ہوسکتا ہے۔