پہلے والے اچھے تھے
تبدیلی سرکار کو تین سال ہونے کو ہیں اور لوگ گزشتہ حکومت کو یاد کررہے ہیں کہ ’’کھاتا تھا تو لگاتا بھی تو تھا‘‘
ایک کفن چور کی خواہش تھی کہ اس کے مرنے کے بعد لوگ اس کی تعریف کریں اور اسے اچھا سمجھیں۔ مگر اس کے مکرہ دھندے کی بدولت اس کی یہ خواہش پوری ہوتی نظر نہیں آتی تھی۔ ایک دن وہ اپنی اس خواہش کو سینے میں لیے اس دار فانی سے کوچ کرگیا۔ اس کے مرنے کے بعد اس کا اکلوتا بیٹا باپ کے نقش قدم پر چل نکلا۔ اسے اس غلط کام سے روکنے کےلیے کسی نے اسے اس کے باپ کی خواہش کے بارے میں بتایا۔
کفن چور بیٹے نے کوئی اچھا کام کرنے کے بجائے اب یہ کیا کہ مردے کا کفن چوری کرنے کے بعد مردے کی بے حرمتی بھی شروع کردی۔ بات پھیلنے پر لوگ اس کے باپ کو اس انداز میں یاد کرتے کہ اس کا باپ ہی اچھا تھا جو صرف کفن چوری کرتا تھا، بے حرمتی تو نہیں کرتا تھا۔
آج پاکستانی قوم کی بھی یہی حالت ہے۔ ہم گزشتہ کم و بیش 30 سال سے یہی عمل دہرا رہے ہیں۔ 90 کی دہائی میں جب بے نظیر بھٹو بی وطن واپس آئیں تو ان کا تاریخی استقبال کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو نے الیکشن میں شاندار کامیابی حاصل کی۔ عوام کا خیال تھا کہ اب دن بدل جائیں گے۔ مگر دن بدلے تو صرف وزیروں، مشیروں اور اشرافیہ کے۔ لوگ میاں صاحب کو اس امید پر الیکشن کے ذریعے اقتدار میں لے آئے کہ اب سنہرے دن لوٹ آئیں گے۔ مگر لوگ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ پہلے والے اچھے تھے۔ لہٰذا ایک بار پھر محترمہ بے نظیر بھٹو اقتدار میں آگئیں۔ اب کی بار اپنوں اور غیروں کی مہربانیوں کی بدولت عوام کی توقعات پوری نہ ہوسکیں اور میاں نواز شریف تاریخی مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آئے۔ لیکن اب کی بار عوامی توقعات کا وہ حشر ہوا کہ پرویز مشرف کے آنے پر مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔
پرویز مشرف کے طویل اقتدار کا سورج غروب ہو ا تو زرداری کی لاٹری لگ گئی۔ پھر جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے اور عوام ایک بار پھر میاں صاحب کو ہی آزمانے پر مجبور ہوگئے۔ میاں صاحبان لاہور کو پیرس بناتے ہوئے باقی ملک کو فراموش کرگئے۔ اس بار پسے ہوئے طبقات کو خان صاحب کی صورت میں امید کی کرن نظر آئی، جن کا دعویٰ تھا کہ وہ ایسی تبدیل لائیں گے کہ دنیا یاد کرے گی۔ آج تبدیلی سرکار کو تین سال گزرنے کو ہیں اور لوگ گزشتہ حکومت کو ان الفاظ میں یاد کرتے ہیں کہ ''کھاتا تھا تو لگاتا بھی تو تھا''۔
اگر ہماری یہی حالت رہی اور ہم نے خان صاحب کو سپورٹ نہ کیا، ان کے وعدوں پر اعتبار نہ کیا، ان کے منصوبوں کی تکمیل تک ان کا ساتھ نہ دیا۔ اپنے جائز، ناجائز کام کےلیے رشوت بھی دیتے رہیں اور توقع رکھیں کہ خان صاحب کرپشن کا مکمل خاتمہ کردیں گے۔ اجناس کی معمولی سی قلت ہونے پر آنے والوں نسلوں تک کےلیے اس کو جمع کرنے کی کوشش کریں اور حکومت سے امید کریں کہ وہ قیمتوں کو کنٹرول کرے گی۔ اپنے تھانہ کچہری کے امور کےلیے ایم این اے، ایم پی اے کے پاس بھی جائیں اور توقع کریں کہ وطن عزیز میں پولیس سیاسی اثرو رسوخ سے پاک ہوجائے۔ عدالتی کرپشن کا خاتمہ ہوجائے۔ اور وہ سب کچھ جو ہماری ذمے داری ہے اگر ہم نے ادا نہ کی تو آپ لکھ لیجئے کہ کوئی ولی بھی وزیراعظم بن جائے تو ہماری حالت یہی رہے گی کہ ہم کہیں گے کہ پہلے والے اچھے تھے۔
آئیے خان صاحب کو سپورٹ کریں، سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر انہیں وقت دیں۔ اپوزیشن کے پاس اچھی تجاویز ہیں تو ایوان کو مچھلی بازار بنانے کے بجائے حکومت کو بریفنگ دیں۔ مزید برآں اگر وہ اپنا خفیہ فارمولہ جس کی بدولت وہ اقتدار میں آکر عوام کی حالت بدل دیں گے، بھی حکومت وقت کو پیش کردیں تو مسیحا کی منتظر اس قوم پر احسان عظیم ہوگا۔ اس سے نہ صرف یہ کہ انہیں اپنے اس فارمولے کی آزمائش کا موقع مل جائے گا، بلکہ وہ دنیا اور آخرت میں سرخرو بھی ہوجائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
کفن چور بیٹے نے کوئی اچھا کام کرنے کے بجائے اب یہ کیا کہ مردے کا کفن چوری کرنے کے بعد مردے کی بے حرمتی بھی شروع کردی۔ بات پھیلنے پر لوگ اس کے باپ کو اس انداز میں یاد کرتے کہ اس کا باپ ہی اچھا تھا جو صرف کفن چوری کرتا تھا، بے حرمتی تو نہیں کرتا تھا۔
آج پاکستانی قوم کی بھی یہی حالت ہے۔ ہم گزشتہ کم و بیش 30 سال سے یہی عمل دہرا رہے ہیں۔ 90 کی دہائی میں جب بے نظیر بھٹو بی وطن واپس آئیں تو ان کا تاریخی استقبال کیا گیا۔ بے نظیر بھٹو نے الیکشن میں شاندار کامیابی حاصل کی۔ عوام کا خیال تھا کہ اب دن بدل جائیں گے۔ مگر دن بدلے تو صرف وزیروں، مشیروں اور اشرافیہ کے۔ لوگ میاں صاحب کو اس امید پر الیکشن کے ذریعے اقتدار میں لے آئے کہ اب سنہرے دن لوٹ آئیں گے۔ مگر لوگ کہنے پر مجبور ہوگئے کہ پہلے والے اچھے تھے۔ لہٰذا ایک بار پھر محترمہ بے نظیر بھٹو اقتدار میں آگئیں۔ اب کی بار اپنوں اور غیروں کی مہربانیوں کی بدولت عوام کی توقعات پوری نہ ہوسکیں اور میاں نواز شریف تاریخی مینڈیٹ کے ساتھ اقتدار میں آئے۔ لیکن اب کی بار عوامی توقعات کا وہ حشر ہوا کہ پرویز مشرف کے آنے پر مٹھائیاں تقسیم کی گئیں۔
پرویز مشرف کے طویل اقتدار کا سورج غروب ہو ا تو زرداری کی لاٹری لگ گئی۔ پھر جو کچھ ہوا وہ سب کے سامنے ہے اور عوام ایک بار پھر میاں صاحب کو ہی آزمانے پر مجبور ہوگئے۔ میاں صاحبان لاہور کو پیرس بناتے ہوئے باقی ملک کو فراموش کرگئے۔ اس بار پسے ہوئے طبقات کو خان صاحب کی صورت میں امید کی کرن نظر آئی، جن کا دعویٰ تھا کہ وہ ایسی تبدیل لائیں گے کہ دنیا یاد کرے گی۔ آج تبدیلی سرکار کو تین سال گزرنے کو ہیں اور لوگ گزشتہ حکومت کو ان الفاظ میں یاد کرتے ہیں کہ ''کھاتا تھا تو لگاتا بھی تو تھا''۔
اگر ہماری یہی حالت رہی اور ہم نے خان صاحب کو سپورٹ نہ کیا، ان کے وعدوں پر اعتبار نہ کیا، ان کے منصوبوں کی تکمیل تک ان کا ساتھ نہ دیا۔ اپنے جائز، ناجائز کام کےلیے رشوت بھی دیتے رہیں اور توقع رکھیں کہ خان صاحب کرپشن کا مکمل خاتمہ کردیں گے۔ اجناس کی معمولی سی قلت ہونے پر آنے والوں نسلوں تک کےلیے اس کو جمع کرنے کی کوشش کریں اور حکومت سے امید کریں کہ وہ قیمتوں کو کنٹرول کرے گی۔ اپنے تھانہ کچہری کے امور کےلیے ایم این اے، ایم پی اے کے پاس بھی جائیں اور توقع کریں کہ وطن عزیز میں پولیس سیاسی اثرو رسوخ سے پاک ہوجائے۔ عدالتی کرپشن کا خاتمہ ہوجائے۔ اور وہ سب کچھ جو ہماری ذمے داری ہے اگر ہم نے ادا نہ کی تو آپ لکھ لیجئے کہ کوئی ولی بھی وزیراعظم بن جائے تو ہماری حالت یہی رہے گی کہ ہم کہیں گے کہ پہلے والے اچھے تھے۔
آئیے خان صاحب کو سپورٹ کریں، سیاسی وابستگی سے بالاتر ہوکر انہیں وقت دیں۔ اپوزیشن کے پاس اچھی تجاویز ہیں تو ایوان کو مچھلی بازار بنانے کے بجائے حکومت کو بریفنگ دیں۔ مزید برآں اگر وہ اپنا خفیہ فارمولہ جس کی بدولت وہ اقتدار میں آکر عوام کی حالت بدل دیں گے، بھی حکومت وقت کو پیش کردیں تو مسیحا کی منتظر اس قوم پر احسان عظیم ہوگا۔ اس سے نہ صرف یہ کہ انہیں اپنے اس فارمولے کی آزمائش کا موقع مل جائے گا، بلکہ وہ دنیا اور آخرت میں سرخرو بھی ہوجائیں گے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔