کربلا سے دمشق تک آخر ی قسط
جو لکھنے والا اس حقیقت کو نہ سمجھے اس کا حشر بھی یہی ہوتا ہے کہ اس کا بدن بدترین تشدد کا نشانہ بنتا ہے۔
25اکتوبر 890ء سے بہت دنوں تک تاریخ کے مظلوموں کے بارے میں خاموشی چھائی رہی اور اسی پر کیا منحصر ہے، قبل مسیح اور بعد مسیح کے سیکڑوں اور ہزاروں مظلوم ہیں جنھیں ان کے قاتلوں نے ظالم ، باغی اور غدار بنا کر پیش کیا۔ یہ تو بعدکی بات ہے جب عوامی حافظے نے اور باہمت مورخوں نے ان مظلوموں کے چہرے سچ کے پانی سے دھوئے اور انھیں اجال کر دنیا کے سامنے پیش کیا۔
25 اکتوبر 890ء کے جھلستے ہوئے دن جب زینب ؑ بنت علی ؑ نے امام مسجد کو للکارا تھا تو امام مسجد نے کہا تھا: ''ہمارا خلیفہ اسلام کا محافظ اور ہمارے نبی اکرم مقدس ہمارے دلوں میں رہتے ہیں۔ تم سب کفارکا ٹولہ ہو! ہمارے خلفیہ کی دس ہزار کی فوج میں ایک بھی کافر نہیں ہے۔ لیکن تمہارے بھائی کے لشکر کے 72 مردوں میں کرسچن اور ہندو... تھے۔''
''ہم اہل بیت نبی کریم ہیں'' زینب نے اس کی بات کو کاٹ کر کہا۔''قرآن ہمیں حق کے علمبردار کہہ کر عزت دیتا ہے۔''
امام نے رد کرتے ہوئے کہا، ''خلیفہ کا تقرر اﷲ کے سوا کوئی نہیں کرتا ، جو خلیفہ کو للکارتا ہے وہ اﷲ کا دشمن ہے۔ چاہے اس کا تعلق اہل بیت سے ہی کیوں نہ ہو۔ اب مجھے بتانے دو قرآن کے تیسرے پارے کی آیت 26 اور 27 میں اﷲ کیا کہتا ہے...''
قتل حسین ؑ پر اور ان کے اہل بیت کی اسیری پر صدیاں گزرگئیں ، لیکن آج بھی ہر اقتدار مخالف ، حق گوئی کا علمبردار اور عوام کو سچ بتانے والا کافر ہے ، غدار ہے ، تاریخ کو سر کے بل کھڑا کردو ، سچ کو جھوٹ اور جھوٹ کو سچ بنا دو ، حاکمِ وقت حکم پر ہے اور اس کا ہر مخالف کفر بکتا ہے، غداروں سے ملاہوا ہے، ملک دشمن ہے۔
صحافیوں سے زیادہ پتلی گردن کسی کی نہیں ہوتی ، جو لکھنے والا اس حقیقت کو نہ سمجھے اس کا حشر بھی یہی ہوتا ہے کہ اس کا بدن بدترین تشدد کا نشانہ بنتا ہے اور پھر اس کے تن سے زندگی کی رمق نچوڑ لی جاتی ہے۔
جگنو محسن خوش نصیبی سے بچ جاتی ہیں لیکن وہ ہدف پر ہیں۔ بے نظیر کی تیسری آمد سے ڈر لگتا تھا۔ اس لیے ان کا خون پنڈی کی ایک سبزہ زار میں بہا دیا گیا۔ نواز شریف لٹیرے، خائن اور غدار ٹہرے، پرویز رشید ، شاہد خاقان عباسی اور شیری رحمان کون ہے جو غلط نہیں ہے۔ ''کفار مکہ'' سے یہی سبق ملتا ہے کہ ہزاروں برس سے غلط کو درست اور درست کو غلط کہنا ہمارے حکمرانوں کا وتیرہ ہے۔ ایسے میں صحافت کیا کرے اور صحافی کہاں جائیں۔
یہ ناول جو انگریزی میں لکھا گیا اور جسے عامر حسینی نے اردو میں ترجمہ کیا ، لاہور سے ''عکس'' پبلیکشنز نے چھاپا، پڑھنے والے کو حیران کرتا ہے۔ اس کا آغاز قتل حسینؑ سے ہوتا ہے اور پھر یہ 26 دسمبر 2007 کو بہ مقام راولپنڈی آجاتا ہے۔ صدیوں کا فاصلہ چشم زدن میں طے ہوتا ہے اور قتل بے نظیرکا اسٹیج سج جاتا ہے۔
یہ خواب دیکھنے والے چند نوجوانوں کا قصہ ہے۔ یہ ان لوگوں کا معاملہ ہے جنھیں عام قبرستانوں میں دفن ہونے کی اجازت نہیں اور اگر غلطی سے کسی مسلمان قبرستان میں سپرد خاک کردیے جائیں تو زمین سے نکال لیے جاتے ہیں۔ اس ناول کا ایک کردارکہتا ہے کہ ہمارے یہاں انقلاب ممکن نہیں۔ دارا کی اس بات پر کسی نے دھیان نہیں دیا۔ آج وہ بالکل ٹھیک ثابت ہوا ہے۔
ہم عجیب لوگ ہیں ہم نے ہمیشہ جمہوریت پسندوں اور اصلاح پسندوں کوکچلا اور آمروں اور جابروں کے قصیدے پڑھے۔ ہمارا سماج بہت ہی بناوٹی اور ظاہری لش پش رکھنے والا ہے اور ... آج تاریخ نے اپنے آپ کو پھر دہرایا ہے۔ ایک ہزار سال پہلے ، منصور حلاج کو اسٹیٹس کو ،کو چیلنج کرنے پر کچل دیا گیا تھا۔ آج اس کے پیروکاروں کوکچل دیا گیا ہے۔ جبر و ظلم ایک بار پھر فتح یاب ہوگیا... اور پھر بے نظیر بھٹو کے قتل کے منظر دکھائے جانے لگے۔
داراشکوہ نے دیوار پر لگی ٹی وی کی طرف دیکھا جہاں ایک آدمی کو بے نظیر پر گولی چلاتے دکھایا جا رہا تھا۔ وہ بولنا چاہتا تھا، لیکن اس کے نرخرے کا درد ناقابل برداشت ہوگیا تھا۔ اس نے اپنے آپ کو سنبھالا اور جو رمیش کمارکہہ رہا تھا اس پر توجہ مرکوزکی۔
...کیلیں اڑتی ہوئی پروفیسر عمرکے گلے میں دھنس گئیں، لیکن یہ لالین تھیں جو بری طرح سے زد میں آئی تھی... وہ لازمی خود کش بمبار کے بہت قریب تھی جو شوٹر کے ساتھ آیا تھا۔ تیز اور کاٹ دار خولوں نے اسے کاٹ کر رکھ دیا تھا... اس کا ہینڈ بیگ کہیں کھو گیا تھا۔ میں نے صحافیوں کو پروفیسر عمر کی شناخت کرائی جو وہاں پر چلے آئے تھے۔ میں نے محمد علی کی لاش کو بے نظیر کی جیپ کے پاس پایا۔ اس کی کھوپڑی اڑ گئی تھی... پھر اچانک فوجی نمودار ہوئے اور وہ جانوروں کی طرح سب کو دھکیل کر وہاں سے دور کرگئے۔ اب تم دیکھ سکتے ہو کہ انھوں نے ہمیں کیوں دورکیا... تاکہ فارنزک ثبوت کے لیے ہر طرح کے شواہد کو دھویا جاسکے۔
لیکن خون کے دھبے بھلا کب دھلتے ہیں۔ تاریخ میں پچھلے قدموں چلتے جائیں، سقراط کے زہر کے پیالے سے ٹپکے ہوئے زہر کے قطرے ہوں، حسینؑ کا لہو ہو، بے نظیر کا قتل ہو، ہزاروں خونِ ناحق ہیں جن سے انسانیت کا دامن تربتر ہے۔
یہ بات کہ خلیفہ کو خدا چنتا اور مقرر کرتا ہے خدا کے کسی بھی فیصلے کے خلاف آواز اٹھانے والا گمراہ ہے ، کافر ہے ، غدار ہے واجب القتل ہے۔ مسلم معاشروں میں یہ جملہ پتھر پرکھنچی ہوئی لکیر ہے اور اسی لکیر سے مسلمانوں کے تمام انسانی حقوق پر خط تنسیخ کھینچ دی جاتی ہے۔ خلافت و ملوکیت اور آمرانہ طرز حکمرانی کچھ بھی ہو ''حاکم وقت ظل اﷲ ہے ، خدا کا سایہ ہے اور اس سائے کے خلاف آواز بلند کرنا دراصل خدا کے احکامات سے روگردانی ہے۔''
عباس زیدی نے اپنے ناول کا تانا بانا عام لوگوں کے خوابوں اور ان کی خواہشوں سے بُنا ہے۔ بے نظیر کے قتل کے ساتھ ہی وہاں ہونے والا خود کش دھماکا خواب دیکھنے والی سیکڑوں آنکھیں لے گیا اور خوبصورت خواہشیں رکھنے والے ذہن لے گیا۔ بقول فیض
کہیں نہیں،کہیں بھی نہیں ہے لہوکا سراغ
نہ صرف خدمت شاہاں کہ خوں بہا دیتے
نہ دیں کی نذرکہ بیعانۂ جزا دیتے
پکارتا رہا بے آسرا یتیم لہو
کسی کو بہر سماعت نہ وقت تھا نہ دماغ
نہ مدعی نہ شہادت حساب پاک ہوا
یہ خونِ خاک ِنشیناں تھا رزقِ خاک ہوا
عباس زیدی نے کمال ہنر مندی سے سیکڑوں برس پہلے بہنے والے خونِ ناحق کو آج کے تناظر میں دیکھا ہے اور یہ بتایا ہے کہ ''خون پھر خون ہے، ٹپکے گا تو جم جائے گا۔'' کاش حکمرانوں کی یہ سمجھ میں آجائے۔