ایشیا میں دل کی بیماریاں کسی وبا کی طرح پھیل رہی ہیں تحقیق

نئی تحقیق کے مطابق ایشیا میں 1990 سے 2019 تک امراضِ قلب کی شرح 39 فیصد بڑھی ہے


ویب ڈیسک June 16, 2021
دنیا بھرمیں امراضِ قلب سے اموات کے نصف واقعات ایشیا میں رونما ہورہے ہیں جو اب ایک وبا کی صورت اختیار کرچکا ہے۔ فوٹو: فائل

ایک سروے سے معلوم ہوا ہے کہ دنیا بھر میں امراضِ قلب سے سالانہ جتنی اموات ہورہی ہیں ان میں سے آدھے واقعات کا تعلق ایشیائی ممالک سے ہے، جہاں یہ مرض ایک وبا کی صورت اختیار کرچکا ہے۔

جرنل آف امریکن کالج آف کارڈیالوجی (جے اے سی سی) نے اپنی تازہ اشاعت میں اس خوفناک رحجان کو ایک وبا قرار دیا ہے جس میں کہا گیا ہے کہ ایشیا میں دل اور دل کی رگوں (کارڈیاویسکیولر) امراض کی شرح تیزی سے بڑھ رہی ہے۔ جے اے سی سی ایشیا نے زور دیا ہے کہ مقامی سطح پرامراضِ قلب کو روکنے کے لیے تمام وسائل بروئے کار لینا بہت ضروری ہے۔

1990سے 2019 کے درمیان سالانہ دل کے امراض سے مرنے کی شرح سالانہ 56 لاکھ سے ایک کروڑ آٹھ لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ یعنی اموات کی شرح 39 فیصد تک بڑھ چکی ہے اور ان میں اکثرافراد کی عمریں 70 برس سے کم ہے یعنی اکثراموات قبل ازوقت رونما ہورہی ہیں۔ یہ شرح امریکا سے بھی زائد ہے۔

ماہرین نے کہا ہے کہ ایشیائی ممالک میں بڑے پیمانے پر سماجی، معاشی، ماحولیاتی اور غذائی تبدیلیوں کی ضرورت ہے تاکہ ایک صحتمند اور امراضِ قلب سے پاک معاشرے کی بنیاد رکھی جاسکے۔ واضح رہے کہ یہ تحقیق چینی سائنسدانوں نے کی ہے جن میں بیجنگ انسٹی ٹیوٹ آف ہارٹ کے پروفیسر ڈون ژیاؤ اس رپورٹ کے مرکزی مصنف ہیں۔

رپورٹ میں کہا گیا ہے کہ امراضِ قلب کے بڑھتے ہوئے واقعات ہر لحاظ سے معاشرے پر مرض کا بوجھ بڑھا رہے ہیں۔ ان سے نبرد آزما ہونے کے لیے جنگی بنیادوں پر کام کرنے کی ضرورت ہے۔ حیرت انگیز بات یہ ہے کہ دل کے امراض مردوزن دونوں میں عام ہیں اور بلاتخصیص عمروجنس اموات کی وجہ بن رہے ہیں۔

رپورٹ کے مطابق دل کے امراض سے سب سے زیادہ اموات جارجیا میں ہورہی ہیں جہاں 810 اموات فی لاکھ ہے جبکہ سب سے کم شرح قطر میں ہیں جہاں 39 اموات فی لاکھ رونما ہوئی ہیں۔ لیکن اس ضمن میں فالج کو شامل کیا گیا ہے کیونکہ فالج بھی اموات کا بڑا حصہ بنا ہوا ہے۔

ماہرین نے کہا ہے کہ باقاعدہ ورزش،غذائی احتیاط، تمباکونوشی سے انکار، ذیابیطس کے مؤثر علاج اور بلڈ پریشر قابو رکھ کر امراضِ قلب سے بچا جاسکتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں