پاکستان افغان طالبان اور بھارت

ہمیں امید ہے کہ اب افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونا بند ہو جائے گی۔


مزمل سہروردی June 16, 2021
[email protected]

افغانستان کی گریٹ گیم پاکستان کے لیے مثبت کے ساتھ منفی اشارے بھی لا رہی ہے۔ ایک طرف امریکا اور دیگر عالمی طاقتوں کے لیے پاکستان اہم سے اہم ترین ہوتا جا رہا ہے دوسری طرف دہشت گرد اور کالعدم تنظیموں کی جانب سے دوبارہ سر اٹھانے کے خطرات بڑھتے جا رہے ہیں۔

یہ درست ہے کہ ہمیں امید ہے کہ اب افغانستان کی سرزمین پاکستان کے خلاف استعمال ہونا بند ہو جائے گی۔ ایک امید ہے کہ بھارت کا افغانستان میں اثرو رسوخ کم ہو جائے گا۔ لیکن بھارت بھی کوشش کر رہا ہے کہ اس نے افغانستان میں جو سیٹ اپ بنایا ہے وہ قائم رہ جائے۔

کل تک بھارت جن طالبان سے بات کرنے کے لیے تیار نہیں تھا اور صدر اشرف غنی کے ساتھ کھڑا نظر آرہا تھا۔ طالبان امریکا کی ڈیل کی بھی مخالفت کی جا رہی تھی۔ ایسا لگ رہا تھا کہ اشرف غنی کی ڈوبتی کشتی کو بھارت ہی آخری سہار ادے گا۔لیکن اب بھارت نے بھی طالبان سے بات چیت شروع کر دی ہے۔ کیا افغانستان میں بھارت کی گریٹ گیم جاری رہے۔

سوال سادہ ہے کہ جس طرح امریکا کی خواہش ہے کہ افغانستان میں اس کا سیٹ اپ برقرار رہے۔ اسی طرح بھارت کی بھی خواہش ہے کہ طالبان بھی بھارت کے سیٹ اپ کو نہ چھیڑیں۔ بھارت کی خواہش ہے کہ جو سہولیات صدر اشرف غنی کی حکومت نے دی ہوئی ہیں، وہ قائم رہیں۔ ایک حد تک امریکا کی بھی یہی خواہش ہے لیکن سوال یہ ہے کہ اس بارے میں طالبان کیا فیصلہ کریں گے؟

جیسے جیسے افغانستان سے امریکی فوجوں کا انخلا ہو رہا ہے، کالعدم تنظیمیں بھی کروٹ لینے کی سازش کر رہی ہیں۔ حال ہی میں بلوچستان میں دہشت گردی کے واقعات میں اضافہ نظر آیا ہے۔ کہا جارہا ہے کہ کالعدم ٹی ٹی پی نے کے پی اور بلوچستان کے علاقوں کے لیے نگران نامزد کیے ہیں۔ اس بار صرف قبائلی علاقوں میں نامزدگیاں نہیں کی گئیں بلکہ غیر قبائلی علاقوں میں بھی نامزدگیاں سامنے آئی ہیں۔

اگر امریکی فوجوں کے انخلا کے بعد افغانستان میں دوبارہ خانہ جنگی شروع ہوتی ہے تومزید افغان مہاجرین پاکستان آسکتے ہیں۔ ایک مخصوص لابی یہ کہہ رہی ہے کہ مزید افغان مہاجرین کو پاکستان میں داخلے کی اجازت دینی چاہیے۔ میرے خیال میں ایسا کرنا پاکستان کی تباہی کے مترادف ہوگا۔

لہٰذا افغان مہاجرین کو کسی بھی صورت میں پاکستان کے اندر آنے کی اجازت نہیں دینی چاہیے۔ ہم نے افغانستان کی سرحد کے ساتھ باڑ لگا لی ہوئی ہے۔ حالات جیسے بھی ہوں ہمیں اب افغان مہاجرین کو پاکستان میں آنے کی ہرگز اجازت نہیں دینی چاہیے۔ افغان مہاجرین کو پاکستان میں لانے کے پہلے بھی کوئی اچھے نتائج سامنے نہیں آئے ہیں۔

ہم آج بھی افغان مہاجرین کے چکرمیں پھنسے ہوئے ہیں۔ کوئی بہاریوں کو کراچی میں آباد کرنے کی وکالت کرتا ہے، کوئی برمیوں، فلسطینیوں کو لانے کی باتیں کررہا ہے اور کوئی افغانوں کا حامی بنا ہوا، ایسے نام نہاد لسانی اور قوم پرست گروپ درحقیقت پاکستان کے مسائل میں اضافہ کر رہے ہیں۔ اس لیے اب کسی بھی صورت میں مزید افغان مہاجرین کو پاکستان آنے کی اجازت نہیں دی جا سکتی بلکہ پہلے سے موجود مہاجرین کو بھی واپس بھیجا جانا چاہیے یا پھر اقوام متحدہ کا مشن برائے مہاجرین انھیں کسی اور ملک کے سپرد کرکے پاکستان کا بوجھ ہلکا کرے ۔

وقت آگیا ہے کہ ریاست پاکستان اب کسی گروہ کی بلیک میلنگ میں نہ آئے اور سخت فیصلے کرے۔ پاکستان کو امریکی فوجوں کے انخلا کے ساتھ پاک افغان سرحد کو مزید سختی سے بند کرنا چاہیے۔ ہمیں یہ نہیں سوچنا ہوگا کہ پاکستان کی حمایت یافتہ حکومت آگئی ہے، اس لیے اب سرحدوں پر سختی کی ضرورت نہیں ہے۔

روس جب افغانستان سے گیا تھا تب بھی روس نے افغانستان میں اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے ایک فوج بنائی تھی لیکن روس کے جاتے ساتھ ہی یہ فوج ختم ہو گئی تھی۔ اب بھی یہی امید کی جا رہی ہے کہ اشرف غنی نے امریکا اور اس کے اتحادیوں کی مدد سے جو فوج بنائی ہوئی ہے یہ امریکا کے جاتے ہی ختم ہو جائے گی۔ ان میں سے اکثریت خود بخود طالبان کو جوائن کر لیں گے۔

ان کے پاس طالبان کو جوائن کرنے کے سوا کوئی آپشن ہی نہیں ہوگا۔ یہ الگ بات کچھ کو طالبان خود لینے سے انکارکردیں تو کیا ہوگا۔ ان کے پاس بھاگنے کے سوا کوئی آپشن نہیں ہوگا۔ اب تو شائد شمالی اتحاد بھی اس پوزیشن میں نہیں ہے کہ وہ طالبان کے مقابلے میں کوئی فوج کھڑی کر سکے۔

اس ساری بحث کا مطلب یہ ہے کہ جہاں افغانستان کی گریٹ گیم ہمارے لیے مثبت پیغام لا رہی ہے وہاں ہمارے لیے خطرے کی گھنٹیاں بھی بجا رہی ہے۔ نا ئن الیون کے بعد بھی ہمارا یہی خیال تھا کہ ہم افغانستان کی آگ سے محفوظ رہیں گے اور ہم پاک افغان سرحد کو محفوظ بنانے پر توجہ نہیں کی ، اسی کوتاہی اور غفلت کی بنا پر ہم نے دیکھا کہ ہم سب سے زیادہ غیر محفوظ ہو گئے۔ ہمارے شہر غیر محفوظ ہو گئے۔

دہشت گردی کی جو آگ ہمارے ملک میں لگی تھی، وہ آج بھی کہیں نہ کہیں سلگ رہی ہے۔ شمالی وزیر ستان آج بھی اس آگ میں جھلس رہا ہے۔ اس لیے اب بھی یہ خطرہ ہے کہ ہماری ایک غلطی سے دوبارہ وہی مسائل جنم لے سکتے ہیں۔ اس لیے ہمیں اس کی کوئی پیش بندی کرنا ہوگی۔

میں نے پہلے بھی لکھا ہے کہ ابھی تک امریکا کو بھی طالبان پر مکمل اعتماد نہیں ہے۔ کیا ہمیں مکمل اعتماد ہے؟ کیا طالبان کا بھارت سے بات کرنے کا آغاز یہ اشارہ نہیں ہے کہ سب کو اپنا مفاد عزیز ہے ۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ طالبان اپنے فیصلے کرنے میںآزاد ہیں لیکن پھر کیا ہمیں بھی یہ آزادی نہیں ہونی چاہیے کہ ہم بھی طالبان کے مخالفین کے ساتھ میل جول بڑھائیں۔ اب دیکھیں طالبان کو ہمارے امریکا کو اڈے دینے پر اعتراض ہے۔

وہ فرما رہے ہیں کہ ہم امریکا کو اس لیے اڈے نہ دیں کیونکہ یہ اڈے ان کے خلاف استعمال ہوںگے۔ سوال یہ ہے کہ کیا ہم طالبان کو یہ کہہ سکتے ہیں کہ وہ بھارت اور را کو اپنے ملک میں ہمارے خلاف کام کرنے کی اجازت نہ دیں۔ انھوں نے بھی قونصل خانوں کی شکل میں بھارت کو اڈے دیے ہوئے ہیں، وہ بند کیے جائیں۔ یک طرفہ دوستی تو کوئی دوستی نہیں ہوتی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں