عوام دوست بجٹ کا حکومتی دعویٰ مگر اپوزیشن کی شدید تنقید
آئی ایم ایف کی شرائط کے برعکس ٹیکسوں میں نہ صرف اضافہ نہیں کیاگیا بلکہ بعض شعبوں میں ٹیکسوں میں کمی اورچھوٹ دی گئی ہے
پاکستان تحریک انصاف کی حکومت کے چوتھے وزیر خزانہ نے 3 ہزار 990ارب روپے خسارے کا چوتھا وفاقی بجٹ پارلیمنٹ میں پیش کر دیا ہے اور خسارے کا بجٹ پیش کرنا بھی کوئی ہمارے لئے نئی بات نہیں ہے، جب سے پاکستان معرض وجود میں آیا ہے۔
اس وقت سے ہم تقریباً تمام بجٹ خسارے کے ہی یش کرتے چلے آرہے ہیں اور پچھلے 74 سالوں کے دوران شائد تین بجٹ ایسے ہیں جو سرپلس پیش کئے گئے ہیں جن می میں پہلا سرپلس بجٹ اس وقت کے وزیرخزانہ چوہدری محمد علی نے 1953میں دیا اور دوسرا سرپلس بجٹ 1972 میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں دیا گیا جبکہ تیسرا سرپلس بجٹ1986 میں محمد خان جونیجو کے دور میں دیا گیا اس کے علاوہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک پیش ہونے والے74 میں سے اکہتر بجٹ خسارے کے ہی پیش ہوئے ہیں۔
اس وفاقی بجٹ کا حجم 8 ہزار 487 ارب روپے، ٹیکس وصولیوں کا ہدف چوبیس فیصد گروتھ کے ساتھ پانچ ہزار آٹھ سو انتیس ارب روپے تجویز کیا گیا ہے جبکہ پسے ہوئے طبقے کو مہنگائی کے اثرات سے بچانے کیلئے سبسڈیز کا تخمینہ 682 ارب لگایا گیا ہے اب اس بجٹ پرعوامی اسمبلی اور قومی اسمبلی میں بحث جاری ہے ۔
وفاقی بجٹ کے بعد صوبائی اسمبلیوں کی طرف سے بجٹ پیش کئے جا رہے ہیں یہ سلسلہ اگلے چندروز میں مکمل ہو جائے گا اور پارلیمانی روایات کے مطابق وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں بجٹ پر بحث،کٹ موشنزاور ووٹنگ سمیت تمام تر رسوم بھرپور تیاری کے ساتھ ادا کی جائیں گی اور بجٹ پاس ہو جائیں گے۔
حکومتی و غیر حکومتی دھڑے بندیاں اور بجٹ پاس نہ ہونے دینے کے تمام دعوے ہوا ہو جائیں گے اور یہی عرصہ دراز سے ہوتا چلا آ رہا ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ماضی کی روایت کو توڑ کر پارلیمنٹ کے اندربجٹ پر صحت مند بحث ہو اور عرق ریزی کے ساتھ تجاویز پیش کی جائیں مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ بجٹ کے پیش ہوتے ہی پاکستان مسلم لیگ(ن)کے رہنما و قائد حزنب اختلاف میاں شہباز شریف ، پاکستان پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سمیت تمام اپوزیشن رہنما ایک بار پھر ایک صفحے پر دکھائی دیئے ہیں البتہ ہر رہنما کا انداز اپنا اپنا تھا۔
بجٹ کے معاملے پر پارلیمنٹ کے اندر بھی اپوزیشن ایک صفحے پر ہی معلوم ہوتی ہے اور پہلے ہی روز بحث کے آغار پر ہی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بجٹ 22-2021 میں حکومتی اعداد و شمار جعلی قرار دے دیا۔
اسمبلی اجلاس کے دوران اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں جس ترقی اور خوش حالی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا وہ بنی گالہ اور ان کے حواریوں کی ترقی ہے،کروڑوں غریب عوام کو کوئی سہارا نہیں دیا گیا۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ان کے تمام اعداد وشمار جعلی ہیں،ریاست مدینہ کی مثال دینے والے کاش یتیم و بیوہ مظلوم کا ہاتھ تھام لیتے۔ شہباز شریف کی بجٹ تقریر کے دوران حکومتی اراکین نے خوب شور شرابا کیا اور اسپیکر قومی اسمبلی کیلئے اجلاس جاری رکھنا ممکن نہ رہا جس کے باعث قائد حزب اختلاف بجٹ پر اپنی تقریر پوری نہ کر سکے، اسی طرح کی آوازیں دوسری اپوزیشن جماعتوں کے رہنماوں کی جانب سے سنائی دے رہی ہیں ۔
پارلیمنٹ میں اپوزیشن نے اگر حکومت کو ٹف ٹایم دینے کی ٹھان رکھی ہے تو کپتان بھی ہار ماننے والا نہیں ہے، کپتان نے بھی ٹیم کو پوری طرح تیار کر رکھا ہے اب تو کپتان کے کھلاڑی ٹی وی ٹالک شوز میں بھی ریسلنگ کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ ادھر پیر کو وزیراعظم عمران خان نے حکومتی ترجمانوں کا بھی اکٹھ کیا ہے۔
اس اہم اجلاس میں ملکی صورتحال خصوصاً حکومت کی جانب سے پیش کردہ عوامی ترقیاتی بجٹ ، بجٹ میں عوام کو پہنچائے جانے والے ریلیف اور خصوصاً معاشی ترقی کے عمل کو تیز کرنے کے حوالے سے اقدامات زیر غور آئے ہیں، ساتھ ہی پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کے باہر اپوزیشن کو بھرپور جواب دینے کی حکمت عملی بھی وضع کی گئی ہے ۔ اجلاس میں کپتان کا کہنا تھا موجودہ بجٹ ترقی کا بجٹ ہے جس کا مقصد معاشی استحکام کو نہ صرف مزید مستحکم کرنا ہے بلکہ معیشت کے اہم شعبوں زراعت، انڈسٹری، ہاؤسنگ وغیرہ جیسے اہم شعبوں کو فروغ دینا ہے۔
اجلا س میں پارٹی رہنماؤں نے بھی ایک متوازن ، عوام دوست اور معاشرے کے ہر طبقے کے لئے مثبت بجٹ پیش کرنے پر وزیرِ اعظم اور حکومتی معاشی ٹیم کو مبارکباد د ی جبکہ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ حکومت کی کوشش رہی کہ موجودہ بجٹ معاشرے کے ہر طبقے کیلئے امید کی کرن ثابت ہو البتہ عوامی اسمبلی میں مللا جلا ردعمل ہے کیپیٹل مارکیٹ ،ایف پی ای سی آئی سمیت دیگر تاجر تنظیموں کی جانب سے اس بجٹ کو متوازن اور گروتھ کاروبار دوست بجٹ قرار دیا جا رہا ہے البتہ کچھ حلقوں کی طرف سے تحفظات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کا شکوہ جواب شکوہ اپنی جگہ مگر یہ حقیقت ہے کہ جو بجٹ غریب کو دو وقت کی روٹی نہ دے سکے وہ کبھی بھی کامیاب بجٹ نہیں ہو سکتا ہے لہذا یہ آنے والے دنوں میں بجٹ کے ظاہر ہونے والے اثرات بتائیں گے کہ بجٹ کیسا ہے لیکن ابھی تو بجٹ پر بحث بھی پوری طرح شروع نہیں ہو سکی ہے کہ پٹرول پانچ سے سات روپے فی لیٹر مہنگا کرنے کی اطلاعات سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں ان سطور کی اشاعت تک تفصیلات سامنے آچکی ہونگی کہ سولہ جون سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے یا پھر عوامی و سیاسی ردعمل سے بچنے کیلئے قیمتیں برقرار رکھی جاتی ہیں ۔
ہر دو صورتوں میں حکومت کیلئے مشکلات میں اضافہ ہوگا ایک طرف آئی ایم ایف کا دباو ہے تو دوسری جانب عوامی دباؤ ہے ۔ ابھی بجٹ میں بھی عوامی دباو نے کام دکھایا ہے اور حکومت نے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کو نظر انداز کرکے بجٹ پیش کیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اپنے پاون پر کھڑی رہ سکے گی یا پھر آئی ایم ایف کے سامنے سرنڈر کردے گی اگرچہ وزیر خزانہ پر امید ہیں کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری ہیں اور اگر چھٹا اقتصادی جائزہ جولائی میں مکمل نہ بھی ہو سکا تو کوئی بات نہیں ستمبر میں ہو جائے گا لیکن معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے حکومت بند گلی میں ہے پہلے ہی بڑی مشکل سے آئی ایم ایف کا پروگرام واپس ٹریک پر آیا تھا جس سے اقتصادی بحالی شروع ہوئی، عالمی بینک،ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت دوسرے ڈونرز کی امداد بھی آنا شروع ہوئی۔
اب اگر دوبارہ اسی صورتحال سے دوچار ہوئے تو چین، ترکی، سعودی عرب، یو اے ای سمیت دوست ممالک سے امداد کا متبادل پلان نہ ہونے کی صورت میں مشکل بڑھ جائے گی اور اگر آئی ایم ایف کی شرائط ماننے پر مجبور ہوئے تو شوکت ترین کے منی بجٹ نہ لانے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اور پہلی نہیں تو دوسری سہہ ماہی میں منی بجٹ آجائے گا ویسے تو بجلی ،تیل و گیس کی قیمتوں میں ردوبدل کی صورت آئے روز ہی منی بجٹ آتے ہیں لیکن اب کی بار ذرا ہٹ کر ہو گا ۔
جہاں تک بجٹ کی بات ہے تو اس بجٹ میں بھاری مراعات اور غریب کے بجٹ کے حکومتی دعوے اپنی جگہ لیکن حکومت کی اپنی پیش کردہ بجٹ دستاویزات کچھ اور ہی پتہ دے رہی ہیں یہ بجٹ زمینی حقائق سے دور اور تخیل پر مبنی زیادہ دکھائی دے رہا ہے، یہی صورتحال اقتصادی سروے میں پاکستانی معیشت کے دکھائے جانے والے اشاریوں کی ہے، زمینی حقائق ان کی تصدیق نہیں کرتے۔ غربت کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ عام آدمی کی زندگی مہنگائی کی وجہ سے عذاب بن گئی ہے۔
بے روزگاری نے سماجی تانے بانے بکھیر دیئے ہیں۔ ایسے حالات میں 8487ارب روپے کے بجٹ میں آمدنی کا جو ہدف رکھا گیا ہے، اس میں یہ واضح نہیں کہ 24 فیصد یعنی 1230 ارب روپے کا اضافی ریونیو کہاں سے آئے گا ، آئی ایم ایف کی شرائط کے برعکس ٹیکسوں میں نہ صرف اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ بعض شعبوں میں ٹیکسوں میں کمی اور چھوٹ دی گئی ہے جبکہ خود فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ممبران کی ٹیم بجٹ والے دن ٹیکنیکل بریفنگ میں اس بات کا اعتراف کر چکی ہے کہ بجٹ میں کل 383 ارب روپے کے ٹیکس لگائے گئے ہیں اور 119 ارب روپے کی چھوٹ و رعایات دی ہیں۔
اس لحاظ سے اگلے بجٹ میں نئے ٹیکس اقدامات سے 264 ارب روپے کا خالص اضافی ریونیو اکٹھا کیا جائے گا اور کچھ ایسا ہی حال ترقیاتی بجٹ کا ہے اور لگ یہ رہا ہے کہ حکومت نے ابھی سے الیکشن کی تیاری شروع کر دی ہے، شائد اپوزیشن اسی لئے اس بجٹ کو الیکشن بجٹ قرار دے رہی ہے۔
اس وقت سے ہم تقریباً تمام بجٹ خسارے کے ہی یش کرتے چلے آرہے ہیں اور پچھلے 74 سالوں کے دوران شائد تین بجٹ ایسے ہیں جو سرپلس پیش کئے گئے ہیں جن می میں پہلا سرپلس بجٹ اس وقت کے وزیرخزانہ چوہدری محمد علی نے 1953میں دیا اور دوسرا سرپلس بجٹ 1972 میں ذوالفقار علی بھٹو کے دور میں دیا گیا جبکہ تیسرا سرپلس بجٹ1986 میں محمد خان جونیجو کے دور میں دیا گیا اس کے علاوہ قیام پاکستان سے لے کر اب تک پیش ہونے والے74 میں سے اکہتر بجٹ خسارے کے ہی پیش ہوئے ہیں۔
اس وفاقی بجٹ کا حجم 8 ہزار 487 ارب روپے، ٹیکس وصولیوں کا ہدف چوبیس فیصد گروتھ کے ساتھ پانچ ہزار آٹھ سو انتیس ارب روپے تجویز کیا گیا ہے جبکہ پسے ہوئے طبقے کو مہنگائی کے اثرات سے بچانے کیلئے سبسڈیز کا تخمینہ 682 ارب لگایا گیا ہے اب اس بجٹ پرعوامی اسمبلی اور قومی اسمبلی میں بحث جاری ہے ۔
وفاقی بجٹ کے بعد صوبائی اسمبلیوں کی طرف سے بجٹ پیش کئے جا رہے ہیں یہ سلسلہ اگلے چندروز میں مکمل ہو جائے گا اور پارلیمانی روایات کے مطابق وفاقی اور صوبائی اسمبلیوں میں بجٹ پر بحث،کٹ موشنزاور ووٹنگ سمیت تمام تر رسوم بھرپور تیاری کے ساتھ ادا کی جائیں گی اور بجٹ پاس ہو جائیں گے۔
حکومتی و غیر حکومتی دھڑے بندیاں اور بجٹ پاس نہ ہونے دینے کے تمام دعوے ہوا ہو جائیں گے اور یہی عرصہ دراز سے ہوتا چلا آ رہا ہے جبکہ ہونا تو یہ چاہیے کہ ماضی کی روایت کو توڑ کر پارلیمنٹ کے اندربجٹ پر صحت مند بحث ہو اور عرق ریزی کے ساتھ تجاویز پیش کی جائیں مگر ایسا ہوتا دکھائی نہیں دے رہا کیونکہ بجٹ کے پیش ہوتے ہی پاکستان مسلم لیگ(ن)کے رہنما و قائد حزنب اختلاف میاں شہباز شریف ، پاکستان پیپلز پارٹی کے بلاول بھٹو، پی ڈی ایم کے سربراہ مولانا فضل الرحمٰن سمیت تمام اپوزیشن رہنما ایک بار پھر ایک صفحے پر دکھائی دیئے ہیں البتہ ہر رہنما کا انداز اپنا اپنا تھا۔
بجٹ کے معاملے پر پارلیمنٹ کے اندر بھی اپوزیشن ایک صفحے پر ہی معلوم ہوتی ہے اور پہلے ہی روز بحث کے آغار پر ہی قومی اسمبلی میں اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بجٹ 22-2021 میں حکومتی اعداد و شمار جعلی قرار دے دیا۔
اسمبلی اجلاس کے دوران اپوزیشن لیڈر شہباز شریف نے بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے کہا کہ بجٹ میں جس ترقی اور خوش حالی کا ڈھنڈورا پیٹا گیا وہ بنی گالہ اور ان کے حواریوں کی ترقی ہے،کروڑوں غریب عوام کو کوئی سہارا نہیں دیا گیا۔ شہباز شریف کا کہنا تھا کہ ان کے تمام اعداد وشمار جعلی ہیں،ریاست مدینہ کی مثال دینے والے کاش یتیم و بیوہ مظلوم کا ہاتھ تھام لیتے۔ شہباز شریف کی بجٹ تقریر کے دوران حکومتی اراکین نے خوب شور شرابا کیا اور اسپیکر قومی اسمبلی کیلئے اجلاس جاری رکھنا ممکن نہ رہا جس کے باعث قائد حزب اختلاف بجٹ پر اپنی تقریر پوری نہ کر سکے، اسی طرح کی آوازیں دوسری اپوزیشن جماعتوں کے رہنماوں کی جانب سے سنائی دے رہی ہیں ۔
پارلیمنٹ میں اپوزیشن نے اگر حکومت کو ٹف ٹایم دینے کی ٹھان رکھی ہے تو کپتان بھی ہار ماننے والا نہیں ہے، کپتان نے بھی ٹیم کو پوری طرح تیار کر رکھا ہے اب تو کپتان کے کھلاڑی ٹی وی ٹالک شوز میں بھی ریسلنگ کرتے دکھائی دے رہے ہیں ۔ ادھر پیر کو وزیراعظم عمران خان نے حکومتی ترجمانوں کا بھی اکٹھ کیا ہے۔
اس اہم اجلاس میں ملکی صورتحال خصوصاً حکومت کی جانب سے پیش کردہ عوامی ترقیاتی بجٹ ، بجٹ میں عوام کو پہنچائے جانے والے ریلیف اور خصوصاً معاشی ترقی کے عمل کو تیز کرنے کے حوالے سے اقدامات زیر غور آئے ہیں، ساتھ ہی پارلیمنٹ اور پارلیمنٹ کے باہر اپوزیشن کو بھرپور جواب دینے کی حکمت عملی بھی وضع کی گئی ہے ۔ اجلاس میں کپتان کا کہنا تھا موجودہ بجٹ ترقی کا بجٹ ہے جس کا مقصد معاشی استحکام کو نہ صرف مزید مستحکم کرنا ہے بلکہ معیشت کے اہم شعبوں زراعت، انڈسٹری، ہاؤسنگ وغیرہ جیسے اہم شعبوں کو فروغ دینا ہے۔
اجلا س میں پارٹی رہنماؤں نے بھی ایک متوازن ، عوام دوست اور معاشرے کے ہر طبقے کے لئے مثبت بجٹ پیش کرنے پر وزیرِ اعظم اور حکومتی معاشی ٹیم کو مبارکباد د ی جبکہ وزیراعظم عمران خان کا کہنا ہے کہ حکومت کی کوشش رہی کہ موجودہ بجٹ معاشرے کے ہر طبقے کیلئے امید کی کرن ثابت ہو البتہ عوامی اسمبلی میں مللا جلا ردعمل ہے کیپیٹل مارکیٹ ،ایف پی ای سی آئی سمیت دیگر تاجر تنظیموں کی جانب سے اس بجٹ کو متوازن اور گروتھ کاروبار دوست بجٹ قرار دیا جا رہا ہے البتہ کچھ حلقوں کی طرف سے تحفظات کا بھی اظہار کیا جا رہا ہے۔
حکومت اور اپوزیشن کا شکوہ جواب شکوہ اپنی جگہ مگر یہ حقیقت ہے کہ جو بجٹ غریب کو دو وقت کی روٹی نہ دے سکے وہ کبھی بھی کامیاب بجٹ نہیں ہو سکتا ہے لہذا یہ آنے والے دنوں میں بجٹ کے ظاہر ہونے والے اثرات بتائیں گے کہ بجٹ کیسا ہے لیکن ابھی تو بجٹ پر بحث بھی پوری طرح شروع نہیں ہو سکی ہے کہ پٹرول پانچ سے سات روپے فی لیٹر مہنگا کرنے کی اطلاعات سامنے آنا شروع ہو گئی ہیں ان سطور کی اشاعت تک تفصیلات سامنے آچکی ہونگی کہ سولہ جون سے پٹرولیم مصنوعات کی قیمتوں میں اضافہ کیا جاتا ہے یا پھر عوامی و سیاسی ردعمل سے بچنے کیلئے قیمتیں برقرار رکھی جاتی ہیں ۔
ہر دو صورتوں میں حکومت کیلئے مشکلات میں اضافہ ہوگا ایک طرف آئی ایم ایف کا دباو ہے تو دوسری جانب عوامی دباؤ ہے ۔ ابھی بجٹ میں بھی عوامی دباو نے کام دکھایا ہے اور حکومت نے آئی ایم ایف کی کڑی شرائط کو نظر انداز کرکے بجٹ پیش کیا ہے۔
اب دیکھنا یہ ہے کہ حکومت اپنے پاون پر کھڑی رہ سکے گی یا پھر آئی ایم ایف کے سامنے سرنڈر کردے گی اگرچہ وزیر خزانہ پر امید ہیں کہ آئی ایم ایف سے مذاکرات جاری ہیں اور اگر چھٹا اقتصادی جائزہ جولائی میں مکمل نہ بھی ہو سکا تو کوئی بات نہیں ستمبر میں ہو جائے گا لیکن معاشی تجزیہ کاروں کا خیال ہے حکومت بند گلی میں ہے پہلے ہی بڑی مشکل سے آئی ایم ایف کا پروگرام واپس ٹریک پر آیا تھا جس سے اقتصادی بحالی شروع ہوئی، عالمی بینک،ایشیائی ترقیاتی بینک سمیت دوسرے ڈونرز کی امداد بھی آنا شروع ہوئی۔
اب اگر دوبارہ اسی صورتحال سے دوچار ہوئے تو چین، ترکی، سعودی عرب، یو اے ای سمیت دوست ممالک سے امداد کا متبادل پلان نہ ہونے کی صورت میں مشکل بڑھ جائے گی اور اگر آئی ایم ایف کی شرائط ماننے پر مجبور ہوئے تو شوکت ترین کے منی بجٹ نہ لانے کے دعوے دھرے کے دھرے رہ جائیں گے اور پہلی نہیں تو دوسری سہہ ماہی میں منی بجٹ آجائے گا ویسے تو بجلی ،تیل و گیس کی قیمتوں میں ردوبدل کی صورت آئے روز ہی منی بجٹ آتے ہیں لیکن اب کی بار ذرا ہٹ کر ہو گا ۔
جہاں تک بجٹ کی بات ہے تو اس بجٹ میں بھاری مراعات اور غریب کے بجٹ کے حکومتی دعوے اپنی جگہ لیکن حکومت کی اپنی پیش کردہ بجٹ دستاویزات کچھ اور ہی پتہ دے رہی ہیں یہ بجٹ زمینی حقائق سے دور اور تخیل پر مبنی زیادہ دکھائی دے رہا ہے، یہی صورتحال اقتصادی سروے میں پاکستانی معیشت کے دکھائے جانے والے اشاریوں کی ہے، زمینی حقائق ان کی تصدیق نہیں کرتے۔ غربت کی شرح میں غیر معمولی اضافہ ہوا ہے۔ عام آدمی کی زندگی مہنگائی کی وجہ سے عذاب بن گئی ہے۔
بے روزگاری نے سماجی تانے بانے بکھیر دیئے ہیں۔ ایسے حالات میں 8487ارب روپے کے بجٹ میں آمدنی کا جو ہدف رکھا گیا ہے، اس میں یہ واضح نہیں کہ 24 فیصد یعنی 1230 ارب روپے کا اضافی ریونیو کہاں سے آئے گا ، آئی ایم ایف کی شرائط کے برعکس ٹیکسوں میں نہ صرف اضافہ نہیں کیا گیا بلکہ بعض شعبوں میں ٹیکسوں میں کمی اور چھوٹ دی گئی ہے جبکہ خود فیڈرل بورڈ آف ریونیو کے ممبران کی ٹیم بجٹ والے دن ٹیکنیکل بریفنگ میں اس بات کا اعتراف کر چکی ہے کہ بجٹ میں کل 383 ارب روپے کے ٹیکس لگائے گئے ہیں اور 119 ارب روپے کی چھوٹ و رعایات دی ہیں۔
اس لحاظ سے اگلے بجٹ میں نئے ٹیکس اقدامات سے 264 ارب روپے کا خالص اضافی ریونیو اکٹھا کیا جائے گا اور کچھ ایسا ہی حال ترقیاتی بجٹ کا ہے اور لگ یہ رہا ہے کہ حکومت نے ابھی سے الیکشن کی تیاری شروع کر دی ہے، شائد اپوزیشن اسی لئے اس بجٹ کو الیکشن بجٹ قرار دے رہی ہے۔