بجٹ میں کئے وعدوں پر قائم رہنا حکومت کیلئے بڑا چیلنج ہوگا

درحقیقت حکومت نے مستقبل کی حکومتی آمدن کے غیر حتمی تخمینوں پر بجٹ تیار کیا ہے۔

درحقیقت حکومت نے مستقبل کی حکومتی آمدن کے غیر حتمی تخمینوں پر بجٹ تیار کیا ہے۔ فوٹو : فائل

وفاقی اور پنجاب حکومت اپنے بجٹ پیش کر چکی ہیں اور آئندہ چند روز میں یہ منظور بھی ہو جائیں گے، پنجاب حکومت کا دعوی ہے کہ ان کا پیش کردہ بجٹ''ٹیکس فری'' ہے جبکہ وفاقی حکومت نے بھی یہ دعوی کیا ہے کہ ان کا بجٹ عام آدمی کا بجٹ ہے۔

اپوزیشن نے بجٹ کو 'الیکشن بجٹ'' قرار دیتے ہوئے مسترد کر دیا ہے ۔ معاشی ماہرین بھی بجٹ میں پیش کیئے جانے والے اعداد وشمار کے حوالے سے ابہام اور شک کا اظہار کر رہے ہیں اور ان کی رائے کے مطابق تحریک انصاف کی حکومتوں کا یہ تیسرا بجٹ ہے اور حکومت کو بخوبی معلوم تھا کہ یہ بجٹ آئندہ الیکشن کی تیاریوں کی جانب بڑی پیش قدمی ہو گی۔

لہذا حکومت نے ہر ممکن طور پر بجٹ کو ''عوام دوست'' دکھانے کی بھرپور کوشش کی ہے۔ تحریک انصاف نے اپنے انتخابی منشور میں جنوبی پنجاب کو علیحدہ صوبہ بنانے کا وعدہ کیا تھا لیکن معلوم ہوتا ہے کہ درحقیقت یہ وعدہ صرف''جنوبی پنجاب صوبہ محاذ'' کے پلیٹ فارم پر جمع ہونے والے الیکٹ ایبلز کو تحریک انصاف میں شامل کرنے کیلئے کیا گیا تھا۔

گزشتہ تین برس میں جنوبی پنجاب میں ایک سول سیکرٹریٹ قائم کر کے ایڈیشنل چیف سیکرٹری کی سربراہی میں کچھ محکموں کے سیکرٹریز کو جنوبی پنجاب کیلئے تعینات کر کے یہ ظاہر کیا گیا کہ جنوبی پنجاب کو صوبہ بنانے کی جانب بڑی پیش رفت کی گئی ہے اور اب بجٹ میں جنوبی پنجاب کے ترقیاتی کاموں کیلئے فنڈز کی الگ کتاب شائع کر کے پھر سے ایک ''نمائشی'' اقدام کیا گیا ہے، اگر حکومت سنجیدہ ہے اور اس کے ''اختیار'' میں ہے تو پھر جنوبی پنجاب کو الگ صوبہ بنانے کیلئے نیک نیتی اور سنجیدگی کے ساتھ آئینی اقدامات کیوں نہیں کیئے جاتے ۔

جنوبی پنجاب کے عوام کے ساتھ تحریک انصاف، پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ(ن) کی جانب سے الگ صوبہ کے نام پر کئے جانے والے ''دھوکہ'' کے بارے میں آئندہ کبھی تفصیل سے تحریر کروں گا کہ اصل کھیل کیا ہے،آج کا موضوع وفاق اور پنجاب حکومت کا پیش کردہ بجٹ ہے ۔

آئی ایم ایف کے شدید دباو کے باوجود وفاقی حکومت نے8487 روپے حجم کے بجٹ میں بہت سے معاملات میں عوام کو ریلیف دینے کی کوشش کی ہے ۔ مختلف قسم کے 12 ود ہولڈنگ ٹیکس ختم کر دیئے گئے ہیں ، مزدور کی کم ازکم اجرت 20 ہزار روپے مقرر کی گئی ہے۔ شہروں میں رہنے والے خاندان کو کاروبار شروع کرنے کیلئے5 لاکھ روپے تک بلاسود قرض دینے کی سکیم متعارف کروائی گئی ہے ۔ کورونا وائرس سے نبٹنے کیلئے 100 ارب روپے مختص کئے گئے ہیں، ماحولیاتی تبدیلیوں کے حوالے سے وزیرا عظم عمران خان کی سوچ بہت واضح ہے اسی حوالے سے الیکٹرک کاروں کی قیمتوں میں کمی کرنے کے ساتھ ساتھ 850 سی سی تک کی گاڑیوں پر ٹیکس کم کیا گیا ہے ۔

وفاقی حکومت نے جو بجٹ پیش کیا ہے اس میں 3990 ارب روپے خسارہ شامل ہے ، درحقیقت حکومت نے مستقبل کی حکومتی آمدن کے غیر حتمی تخمینوں پر بجٹ تیار کیا ہے اور یہی بات زیادہ خطرناک ہے کہ اگر حکومت کو متوقع آمدن نہ ہوئی تو پھر بجٹ میں کئے وعدے کیسے پورے ہوں گے اور اگر وعدے پورے نہ ہوئے تو حکومت کی ساکھ کو جو نقصان پہنچے گا وہ ناقابل تلافی ہو گا ۔ حکومت نے آئی ایم ایف کے ساتھ معاہدہ کرتے وقت تحریری یقین دہانی کروائی ہوئی ہے کہ بتدریج اس سیکٹر میں سبسڈی کو کم کیا جائے گا ۔


مستقبل میں بجلی کی قیمت میں اضافہ کیا جاتا ہے تو یقینی طور پر مہنگائی کی ایک نئی لہر آئے گی اور تمام ضروری اشیاء کی قیمتیں بڑھیں گی ۔ پنجاب حکومت نے 2653 ارب روپے مالیت کا ''ٹیکس فری'' بجٹ پیش کیا ہے، بجٹ میں بظاہر تو کوئی نیا ٹیکس عائد نہیں کیا گیا تاہم چند ٹیکسز کی شرح میں اضافہ ضرور کیا گیا ہے، مجموعی طور پر یہ بجٹ ایک متوازن میزانیہ ہے بشرطیکہ تمام اعلان کردہ منصوبے شروع ہوں اور حکومت کو متوقع آمدن کا ہدف بھی حاصل ہو جائے ۔ پنجاب کے بجٹ میں گاڑیوں کے ٹوکن ٹیکس اور الیکٹرک گاڑیوں کی رجسٹریشن پر نمایاں رعایت دی گئی ہے۔

پراپرٹی ٹیکس کی ادائیگی دو اقساط میں کرنے کی سہولت بھی فراہم کر دی گئی ہے جبکہ موٹر سائیکلوں کی رجسٹریشن کا نیا طریقہ کار بھی متعارف کروایا گیا ہے، پنجاب حکومت کیلئے ٹیکس جمع کروانے کے تین بڑے محکمہ ہیں جن میں پنجاب ریونیو اتھارٹی، بورڈ آف ریونیو اور محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن شامل ہیں ۔ پنجاب ریونیو اتھارٹی کا رواں مالی برس کا ہدف 142 ارب روپے جبکہ بورڈ آف ریونیو کا 56 ارب روپے اور محکمہ ایکسائز اینڈ ٹیکسیشن کا30.5 ارب روپے مقرر ہے۔

آئندہ مالی سال کیلئے حکومت نے محکمہ ایکسائز کے بجٹ میں 40 فیصد، بورڈ آف ریونیو کے ہدف میں14 فیصد جبکہ پی آر اے کے ہدف میں 10 فیصد اضافہ کیا ہے۔ محکمہ ایکسائز نے رواں مالی برس کے دوران شدید ترین معاشی مشکلات کے باوجود ٹیکس وصولی میں عمدہ کارکردگی کا مظاہرہ کیا ہے ، سیکرٹری ایکسائز وقاص علی محمود اور ڈی جی ایکسائز صالحہ سعید نے اپنی ٹیم کو نیا حوصلہ بھی دیا اور سخت ترین چیک اینڈ بیلنس کا نظام بنا کر روزانہ کی بنیاد پر افسروں اور اہلکاروں کی ٹیکس وصولی بارے کارکردگی کا جائزہ بھی لیا۔

آئندہ مالی برس میں محکمہ ایکسائز نے ہائی ویز اور موٹر ویز کنارے واقع پراپرٹیز سے ٹیکس وصولی کا آغاز کرنا ہے ، اس مد میں کم ازکم دو ارب روپے کی ابتدائی ٹیکس وصولی متوقع ہے لیکن چند برس بعد یہ اس سے دوگنا بھی ہو سکتی ہے۔پنجاب کے وزیر خزانہ ہاشم جواں بخت اور ان کے سیکرٹری خزانہ افتخار سہو نے بجٹ تیای کیلئے بہت محنت کی ہے لیکن اب اس سے زیادہ محنت انہیں ریونیو اہداف کی تکمیل اور ترقیاتی منصوبوں پر بروقت کام کے آغاز کیلئے کرنا ہو گی۔ ہاشم جواں بخت حقیقت پسند سیاستدان ہیں اور معاشی امور پر انہیں عبور حاصل ہے۔

اس مرتبہ تو انہیں ڈاکٹر سلمان شاہ کا تعاون بھی حاصل تھا ۔ وزیر اعلی پنجاب سردار عثمان بزدار خوش ہیں کہ انہوں نے اپنی استعداد کے مطابق عوام دوست بجٹ بنایا ہے ،انہوں نے جنوبی پنجاب کیلئے ترقیاتی فنڈز کی وافر فراہمی پر بھی توجہ دی ہے اور لاہور، راولپنڈی، فیصل آباد جیسے بڑے شہروں کو بھی نظر انداز نہیں کیا ہے۔ حکومت کا ہر بجٹ ''سیاسی'' بھی ہوتا ہے اور''الیکشن بجٹ'' بھی ہوتا ہے لہذا اپوزیشن کی تنقید بلا جواز ہے۔ سیاسی حکومت کا ہر اقدام عوام کی خوشنودی حاصل کرنے کیلئے ہوتا ہے کیونکہ انہوں نے آئندہ الیکشن میں اپنا ووٹ بنک بڑھانا ہوتا ہے۔

صرف اس بات کو یقینی بنانے کی ضرورت ہے کہ حکومت بجٹ میں جو بھی دعوے کرے انہیں مکمل کرنے کیلئے نیک نیتی اور تمام تر استعداد کے ساتھ کوشش کرے اور یہ کوشش یا جدوجہد عوام کو دکھائی بھی دینی چاہئے، ممکن ہے کہ کچھ وعدے بعض رکاوٹوں کی وجہ سے پورے نہ ہوں لیکن عوام کو یہ اعتبار ہونا چاہئے کہ حکومت نے اپنی پوری کوشش کی ہے ۔ حکومت کے پیش کردہ بجٹ پر بعض حلقے طنز کر رہے ہیں کہ اعلان کرنے میں کون سا زور لگتا ہے اس لئے حکومت نے بنا سوچے سمجھے منصوبوں اور رعایتوں کی بھوچھاڑ کر دی ہے اور کچھ عرصہ بعد منی بجٹ لا کر اپنی مجبوریوں اور غیر ملکی اداروں کے دباو کا رونا رویا جائے گا۔

اللہ کرے کہ ایسا کچھ نہ ہو اور حکومت نے جتنے بھی وعدے بجٹ میں عوام کے ساتھ کیئے ہیں وہ تمام پورے ہوں ۔آئی ایم ایف کے ساتھ حکومت کے معاملات تناو کا شکار ہیں ،، پنجاب حکومت نے سب سے عمدہ اقدام یہ کیا ہے کہ زراعت کیلئے بجٹ میں تین گنا اضافہ کیا گیا ہے بالخصوص زرعی تحقیق پر توجہ مرکوز کی جا رہی ہے اس کے ساتھ ساتھ سستی اشیاء کی فراہمی کیلئے ماڈل بازاروں کے قیام کی خاطر اتھارٹی کا قیام بھی خوش آئند ہے ۔ابھی تک تو حکومت آئی ایم ایف کی جانب سے ٹیکس بڑھانے اور سبسڈیز کم کرنے کے مطالبے کی راہ میں ڈٹ کر کھڑی ہے لیکن ہر وقت یہ دھڑکا لگا رہتا ہے کہ ہماری حکومت موم کا پہاڑ ثابت نہ ہو ۔
Load Next Story