چیف جسٹس کی سندھ حکومت کی کارکردگی پر شدید تنقید وزیر اعلیٰ کیلئے لمحہ فکریہ
جو کام حکومتوں کو کرنے چاہیئں وہ عدالت عظمیٰ خود کر رہی ہے۔
چیف جسٹس آ ف پاکستان جسٹس گلزار احمد نے سپریم کورٹ کراچی رجسٹری میں مختلف کیسوں کی سماعت کے دوران اپنے ریمارکس میں سندھ حکومت کو آڑے ہاتھوں لیا ہے۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کے پاس ایک ہی منصوبہ ہے بد سے بدتر بناؤ، سوائے سندھ کے پورے ملک میں ترقی ہو رہی ہے، سندھ میں حکومت ہے ہی نہیں ۔ تھرپارکر میں آج بھی لوگ پانی کی بوند کیلئے ترس رہے ہیں، ایک آر او پلانٹ نہیں لگا، پندرہ سو ملین روپے خرچ ہوگئے، حکومت کے پاس کیا منصوبہ ہے ؟ صوبہ میں ایک تعلیم کا پروجیکٹ 2600 بلین روپے کا 2014 میں شروع ہوا ۔ 2017 میں ختم ہوا ، ان پیسوں سے دنیا کی بہترین یونیورسٹی بنائی جا سکتی تھی۔
سپریم کورٹ نے کراچی میں پاکستان ریلوے کو تمام زمینوں کی فروخت، ٹرانسفر اور لیز دینے سے روکتے ہوئے کہا کہ ریلوے کی ایک انچ زمین فروخت کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔ سپریم کورٹ نے کڈنی ہل پارک، کشمیر روڈ پر کے ڈی اے افسر و دیگر تعمیرات اور الہ دین واٹر پارک سے متصل شاپنگ سینٹر اور کلب سمیت تمام تجاوزارت بھی ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے میری اطلاع کے مطابق کلب اب بھی چل رہا ہے ۔ الہ دین پر بھی کوئی کلب بنا دیا گیا ہے ۔ یہ کے ڈی اے کلب کیا ہوتے ہیں؟ ہم نے بچپن میں ان سب میدانوں میں کھیلا ہے۔
کیا کشمیر روڈ پر سب ختم کر دیا ؟ وہاں ملبہ کیوں چھوڑ دیا ؟ تجاوزات اب بھی ہیں تو بچے کیسے کھیلیں گے ۔ کیا سپریم کورٹ خود جا کر تجاوزات کا خاتمہ کرے ۔کراچی میں نالوں پر تجاوزات کے خلاف بھی بڑا حکم جاری کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اس حوالے سے تمام حکم امتناعی ختم کر دیئے اور دوبارہ آپریشن شروع کرنے کی ہدایت کی۔
عدالت عظمیٰ نے کہاکہ سپریم کورٹ نے اصل لیز سے متعلق حکم دیا نہ کہ جعلی لیز والوں کو، ایسے تو پورا کراچی معاوضے کے لیے آجائے گا ۔ ایک اور کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے شہر میں پانی کی عدم فراہمی پر ریمارکس دیئے کہ واٹر بورڈ صارفین کو پانی کیوں نہیں دیتا، ختم کریں ایسا ادارہ، چیف جسٹس نے ایم ڈی کو جھاڑ پلاتے ہوئے کے فور منصوبے کے سلسلے میں چیئرمین واپڈا کو عدالت طلب کر لیا ۔ سپریم کورٹ میں کے فور منصوبے کی تفصیلی رپورٹ بھی طلب کر لی گئی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی کے مسائل کے حل کے حوالے سے جاری کیے جانے والے حکم نامے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ۔ جو کام حکومتوں کو کرنے چاہیئں وہ عدالت عظمیٰ خود کر رہی ہے ۔ اس کو ہم منتخب حکومتوں کی ناکامی کہہ سکتے ہیں ۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے دوران سماعت جس طرح سندھ حکومت کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہ اس کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔ پیپلزپارٹی صوبے میں 12سال سے اقتدار میں ہے لیکن کراچی سمیت پورے سندھ میں مسائل جوں کے توں ہیں ۔ سپریم کورٹ کے متحرک ہو جانے کے بعد عوام کے اندر امید جاگی ہے کہ ان کے بنیادی نوعیت کے مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔ حکومت سندھ کو چاہیے کہ وہ عدالتی احکامات پر من و عن عمل کرے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے ۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کے دورہ کراچی کے بعد وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان ایک مرتبہ پھر لفظی جنگ شروع ہو گئی ہے۔ فواد چوہدری کا کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سندھ حکومت کوئی پیسہ عوام پر بھی لگا دے، 1990 سے کراچی میں رینجرز ہے، سندھ حکومت اپنی پولیس نہیں بنا سکی، کراچی کے لوگ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں، سندھ میں مقامی حکومتوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، آرٹیکل 148 کا نفاذ نہیں ہو رہا ہے۔
جوابی پریس کانفرنس میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ سندھ پر کوئی آرٹیکل نہیں لگ سکتا، صوبوں کو کوئی کچل نہیں سکتا ہے، وفاقی وزیر یہاں آ کر صوبے کی توہین نہیں کر سکتے ہیں، میں کبھی نہیں کہتا کہ کراچی کے حالات بہتر ہیں لیکن کراچی کو بنانے والے وسائل ہمارے پاس نہیں ہیں اور اسی وجہ سے وفاقی اور بین الاقوامی امداد کا تقاضا کرتے ہیں۔ وفاق نے سندھ کو 742 ارب روپے دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب کم کر کے 680 ارب روپے کردیے ہیں اور کہا گیا کہ 62 ارب روپے بھول جاؤ ۔ وزیراطلاعات سندھ سید ناصر شاہ کا اپنے ردعمل میں کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کو آئین، قانون اور جمہوری روایات کا کچھ پتا نہیں۔
پی ٹی آئی کے وزرا جو منہ میں آتا ہے وہ بول دیتے ہیں۔ سیاسی مبصرین کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے درمیان فاصلوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دونوں حکومتیں ایک دوسرے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ سندھ میں گورننس کے حوالے سے وفاق کو تحفظات ہیں ۔
اسی طرح سندھ حکومت الزام لگاتی ہے کہ وفاقی حکومت پانی سمیت دیگر ایشوز پر صوبے کے ساتھ زیادتی کر رہی ہے۔ سنجیدگی کا تقاضا تو یہ ہے کہ دونوں حکومتیں مذاکرات کی میز پر آئیں اور دونوں اطراف کے وزراء پریس کانفرنسوں اور ٹی وی شوز میں ایک دوسرے پر تنقید کرنے کی بجائے مسائل کے حل کیلئے قابل عمل تجویز پیش کریں بصورت دیگر صورت حال کی جوں کی توں ہی رہے گی اور الفاظ کی جنگ کا یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا ۔
حکومتی پابندیوں کے باعث صوبہ سندھ میں بھی کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ صوبائی کورونا ٹاسک فورس کے اجلاس میں وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ سندھ میں کوویڈ 19 کے مریضوں کی تشخیص کی شرح 4.5 فیصد پر آگئی ہے، اسپتالوں پر بھی اب کچھ دباؤ کم ہوا ہے ، جس کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ سندھ میں ہفتے میں 2 دن کے بجائے ایک دن کاروبار بند کیا جائے گا۔
سندھ حکومت نے کورونا وبا میں کمی کے بعد صوبے بھر میں چھٹی سے آٹھویں تک تدریسی عمل بھی شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے جبکہ کورونا کی صورتحال میں بہتری کی صورت میں پرائمری کی کلاسز 21 جون سے کھولی جائیں گی ۔ اسکولوں کے سارے عملے کے لیے ویکسینیشن ہونا لازمی ہو گا ۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بظاہر حکومت کی جانب سے عائد کی گئیں پابندیاں عوام کے لیے تکلف دہ تھیں لیکن اس کے مثبت نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں ۔ عوام کو چاہیے کہ وہ فی الفور ویکسی نیشن کرائیں تاکہ کورونا وائرس کے خطرے سے مکمل نجات مل سکے۔
نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ پر پیپلزپارٹی کی شدید تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ملازموں کا تیار کردہ بجٹ غور کیے بغیر جوں کا توں پیش کر دیا گیا ۔ عام آدمی کے استعمال کی ہر شے پر اربوں روپے کا بالواسطہ ٹیکس لگا دیا گیا ہے جس کے بعد ملک میں مہنگائی کا ایک نیا سونامی آنے والا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ کمپنیاں خام تیل اور ایل این جی پر 17 فیصد سیلز ٹیکس دیں گی تو پیٹرول اور گیس کی قیمتیں بڑھیں گی اور اس بالواسطہ ٹیکس کا بوجھ عوام بھگتیں گے، کورونا وائرس سے بچنے کیلئے عوام نے آن لائن خریداری شروع کی تو عمران خان نے اس پر بھی سیلزٹیکس لگا دیا ، عام آدمی آخر جائے تو کہاں جائے ۔ دوسرے معاشی ماہرین سمیت تاجرو و صنعتکار کی اکثریت وفاقی بجٹ کو متوازن قرار دے رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کورونا کی صورت حال میں اس سے بہتر بجٹ پیش کرنا ممکن نہیں تھا۔ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کے لیے اقدام کرے ۔ دوسری جانب وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ سندھ کے نئے مالی سال کے بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کے لیے کئی اقدام کیے گئے ہیں۔
ان کا کہنا تھا کہ سندھ حکومت کے پاس ایک ہی منصوبہ ہے بد سے بدتر بناؤ، سوائے سندھ کے پورے ملک میں ترقی ہو رہی ہے، سندھ میں حکومت ہے ہی نہیں ۔ تھرپارکر میں آج بھی لوگ پانی کی بوند کیلئے ترس رہے ہیں، ایک آر او پلانٹ نہیں لگا، پندرہ سو ملین روپے خرچ ہوگئے، حکومت کے پاس کیا منصوبہ ہے ؟ صوبہ میں ایک تعلیم کا پروجیکٹ 2600 بلین روپے کا 2014 میں شروع ہوا ۔ 2017 میں ختم ہوا ، ان پیسوں سے دنیا کی بہترین یونیورسٹی بنائی جا سکتی تھی۔
سپریم کورٹ نے کراچی میں پاکستان ریلوے کو تمام زمینوں کی فروخت، ٹرانسفر اور لیز دینے سے روکتے ہوئے کہا کہ ریلوے کی ایک انچ زمین فروخت کرنے کی اجازت نہیں دیں گے ۔ سپریم کورٹ نے کڈنی ہل پارک، کشمیر روڈ پر کے ڈی اے افسر و دیگر تعمیرات اور الہ دین واٹر پارک سے متصل شاپنگ سینٹر اور کلب سمیت تمام تجاوزارت بھی ختم کرنے کا حکم دیا ہے۔
چیف جسٹس نے ریمارکس دیئے میری اطلاع کے مطابق کلب اب بھی چل رہا ہے ۔ الہ دین پر بھی کوئی کلب بنا دیا گیا ہے ۔ یہ کے ڈی اے کلب کیا ہوتے ہیں؟ ہم نے بچپن میں ان سب میدانوں میں کھیلا ہے۔
کیا کشمیر روڈ پر سب ختم کر دیا ؟ وہاں ملبہ کیوں چھوڑ دیا ؟ تجاوزات اب بھی ہیں تو بچے کیسے کھیلیں گے ۔ کیا سپریم کورٹ خود جا کر تجاوزات کا خاتمہ کرے ۔کراچی میں نالوں پر تجاوزات کے خلاف بھی بڑا حکم جاری کرتے ہوئے سپریم کورٹ نے اس حوالے سے تمام حکم امتناعی ختم کر دیئے اور دوبارہ آپریشن شروع کرنے کی ہدایت کی۔
عدالت عظمیٰ نے کہاکہ سپریم کورٹ نے اصل لیز سے متعلق حکم دیا نہ کہ جعلی لیز والوں کو، ایسے تو پورا کراچی معاوضے کے لیے آجائے گا ۔ ایک اور کیس کی سماعت کے دوران چیف جسٹس نے شہر میں پانی کی عدم فراہمی پر ریمارکس دیئے کہ واٹر بورڈ صارفین کو پانی کیوں نہیں دیتا، ختم کریں ایسا ادارہ، چیف جسٹس نے ایم ڈی کو جھاڑ پلاتے ہوئے کے فور منصوبے کے سلسلے میں چیئرمین واپڈا کو عدالت طلب کر لیا ۔ سپریم کورٹ میں کے فور منصوبے کی تفصیلی رپورٹ بھی طلب کر لی گئی ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ سپریم کورٹ کی جانب سے کراچی کے مسائل کے حل کے حوالے سے جاری کیے جانے والے حکم نامے انتہائی اہمیت کے حامل ہیں ۔ جو کام حکومتوں کو کرنے چاہیئں وہ عدالت عظمیٰ خود کر رہی ہے ۔ اس کو ہم منتخب حکومتوں کی ناکامی کہہ سکتے ہیں ۔
چیف جسٹس آف پاکستان نے دوران سماعت جس طرح سندھ حکومت کی کارکردگی کو تنقید کا نشانہ بنایا ہے وہ اس کے لیے لمحہ فکریہ ہے ۔ پیپلزپارٹی صوبے میں 12سال سے اقتدار میں ہے لیکن کراچی سمیت پورے سندھ میں مسائل جوں کے توں ہیں ۔ سپریم کورٹ کے متحرک ہو جانے کے بعد عوام کے اندر امید جاگی ہے کہ ان کے بنیادی نوعیت کے مسائل حل ہو سکتے ہیں ۔ حکومت سندھ کو چاہیے کہ وہ عدالتی احکامات پر من و عن عمل کرے تاکہ عوام کو ریلیف مل سکے ۔
وفاقی وزیر اطلاعات و نشریات فواد چوہدری کے دورہ کراچی کے بعد وفاق اور سندھ حکومت کے درمیان ایک مرتبہ پھر لفظی جنگ شروع ہو گئی ہے۔ فواد چوہدری کا کراچی میں صحافیوں سے گفتگو کرتے ہوئے کہنا تھا کہ سندھ حکومت کوئی پیسہ عوام پر بھی لگا دے، 1990 سے کراچی میں رینجرز ہے، سندھ حکومت اپنی پولیس نہیں بنا سکی، کراچی کے لوگ شکوہ کرتے نظر آتے ہیں، سندھ میں مقامی حکومتوں کی سب سے زیادہ ضرورت ہے، آرٹیکل 148 کا نفاذ نہیں ہو رہا ہے۔
جوابی پریس کانفرنس میں وزیراعلیٰ سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ سندھ پر کوئی آرٹیکل نہیں لگ سکتا، صوبوں کو کوئی کچل نہیں سکتا ہے، وفاقی وزیر یہاں آ کر صوبے کی توہین نہیں کر سکتے ہیں، میں کبھی نہیں کہتا کہ کراچی کے حالات بہتر ہیں لیکن کراچی کو بنانے والے وسائل ہمارے پاس نہیں ہیں اور اسی وجہ سے وفاقی اور بین الاقوامی امداد کا تقاضا کرتے ہیں۔ وفاق نے سندھ کو 742 ارب روپے دینے کا وعدہ کیا تھا لیکن اب کم کر کے 680 ارب روپے کردیے ہیں اور کہا گیا کہ 62 ارب روپے بھول جاؤ ۔ وزیراطلاعات سندھ سید ناصر شاہ کا اپنے ردعمل میں کہنا تھا کہ پی ٹی آئی حکومت کو آئین، قانون اور جمہوری روایات کا کچھ پتا نہیں۔
پی ٹی آئی کے وزرا جو منہ میں آتا ہے وہ بول دیتے ہیں۔ سیاسی مبصرین کا اس ضمن میں کہنا ہے کہ پی ٹی آئی اور پیپلزپارٹی کے درمیان فاصلوں میں اضافہ ہوتا جا رہا ہے۔ دونوں حکومتیں ایک دوسرے کو قبول کرنے کے لیے تیار نہیں ہیں ۔ سندھ میں گورننس کے حوالے سے وفاق کو تحفظات ہیں ۔
اسی طرح سندھ حکومت الزام لگاتی ہے کہ وفاقی حکومت پانی سمیت دیگر ایشوز پر صوبے کے ساتھ زیادتی کر رہی ہے۔ سنجیدگی کا تقاضا تو یہ ہے کہ دونوں حکومتیں مذاکرات کی میز پر آئیں اور دونوں اطراف کے وزراء پریس کانفرنسوں اور ٹی وی شوز میں ایک دوسرے پر تنقید کرنے کی بجائے مسائل کے حل کیلئے قابل عمل تجویز پیش کریں بصورت دیگر صورت حال کی جوں کی توں ہی رہے گی اور الفاظ کی جنگ کا یہ سلسلہ کبھی ختم نہیں ہوگا ۔
حکومتی پابندیوں کے باعث صوبہ سندھ میں بھی کورونا وائرس کے پھیلاؤ میں نمایاں کمی واقع ہوئی ہے۔ صوبائی کورونا ٹاسک فورس کے اجلاس میں وزیر اعلی سندھ سید مراد علی شاہ کا کہنا تھا کہ سندھ میں کوویڈ 19 کے مریضوں کی تشخیص کی شرح 4.5 فیصد پر آگئی ہے، اسپتالوں پر بھی اب کچھ دباؤ کم ہوا ہے ، جس کو دیکھتے ہوئے فیصلہ کیا گیا ہے کہ سندھ میں ہفتے میں 2 دن کے بجائے ایک دن کاروبار بند کیا جائے گا۔
سندھ حکومت نے کورونا وبا میں کمی کے بعد صوبے بھر میں چھٹی سے آٹھویں تک تدریسی عمل بھی شروع کرنے کا اعلان کردیا ہے جبکہ کورونا کی صورتحال میں بہتری کی صورت میں پرائمری کی کلاسز 21 جون سے کھولی جائیں گی ۔ اسکولوں کے سارے عملے کے لیے ویکسینیشن ہونا لازمی ہو گا ۔ طبی ماہرین کا کہنا ہے کہ بظاہر حکومت کی جانب سے عائد کی گئیں پابندیاں عوام کے لیے تکلف دہ تھیں لیکن اس کے مثبت نتائج آنا شروع ہوگئے ہیں ۔ عوام کو چاہیے کہ وہ فی الفور ویکسی نیشن کرائیں تاکہ کورونا وائرس کے خطرے سے مکمل نجات مل سکے۔
نئے مالی سال کے وفاقی بجٹ پر پیپلزپارٹی کی شدید تنقید کا سلسلہ جاری ہے۔ پارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹو کا کہنا ہے کہ آئی ایم ایف کے ملازموں کا تیار کردہ بجٹ غور کیے بغیر جوں کا توں پیش کر دیا گیا ۔ عام آدمی کے استعمال کی ہر شے پر اربوں روپے کا بالواسطہ ٹیکس لگا دیا گیا ہے جس کے بعد ملک میں مہنگائی کا ایک نیا سونامی آنے والا ہے ۔
ان کا کہنا تھا کہ کمپنیاں خام تیل اور ایل این جی پر 17 فیصد سیلز ٹیکس دیں گی تو پیٹرول اور گیس کی قیمتیں بڑھیں گی اور اس بالواسطہ ٹیکس کا بوجھ عوام بھگتیں گے، کورونا وائرس سے بچنے کیلئے عوام نے آن لائن خریداری شروع کی تو عمران خان نے اس پر بھی سیلزٹیکس لگا دیا ، عام آدمی آخر جائے تو کہاں جائے ۔ دوسرے معاشی ماہرین سمیت تاجرو و صنعتکار کی اکثریت وفاقی بجٹ کو متوازن قرار دے رہی ہے۔
ان کا کہنا ہے کہ کورونا کی صورت حال میں اس سے بہتر بجٹ پیش کرنا ممکن نہیں تھا۔ وفاقی حکومت کو چاہیے کہ وہ عوام کو مہنگائی سے نجات دلانے کے لیے اقدام کرے ۔ دوسری جانب وزیراعلی سندھ مراد علی شاہ کا کہنا ہے کہ سندھ کے نئے مالی سال کے بجٹ میں عوام کو ریلیف دینے کے لیے کئی اقدام کیے گئے ہیں۔