صوبائی حکومت ٹیکس فری بجٹ دینے کیلئے کوشاں بڑے منصوبے بھی شامل
بعض اپوزیشن ارکان وزیراعلیٰ کے قریب سمجھے جاتے ہیں جن کے حکومتی ایوانوں سے رابطے بھی ہیں۔
ISLAMABAD:
وزیراعلی خیبرپختونخوا محمود خان اوران کی ٹیم کااس وقت پورا فوکس اگلے مالی سال کے بجٹ پر ہے کیونکہ صوبائی حکومت اگلے مالی سال کے لیے ایسا بجٹ دینا چاہتی ہے کہ اس سے سیاسی طور پرفائدہ اٹھایا جا سکے اسی لیے نہ صرف یہ کہ صوبائی حکومت اگلے مالی سال کے لیے ٹیکس فری بجٹ دینے جا رہی ہے بلکہ ساتھ پہلے سے نافذ بعض ٹیکسوں میں بھی کمی کا ارادہ رکھتی ہے جس کے ساتھ ہی مرکزی حکومت کے تعاون سے بڑے منصوبوں پر بھی کام شروع کرنے کی خواہاں ہے جن میں سوات ایکسپریس وے فیز ٹوکے علاوہ دیرایکسپریس وے، پشاور، ڈی آئی خان موٹروے اور چشمہ لفٹ کنال جیسے منصوبے شامل ہیں۔
یقینی طور پر یہ ایسے منضوبے ہیں کہ جو فوری طور پر تو مکمل نہیں ہوں گے تاہم وزیراعلی اوران کی ٹیم کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی بھی یہ خواہش ہوگی کہ ان منصوبوں کو شروع کرتے ہوئے ان پر زیادہ سے زیادہ کام کر سکیں تاکہ اگر یہ منصوبے مکمل نہ بھی ہو سکیں تو یا تو تکمیل کے قریب ہوں یاپھر ان پر اس قدرکام ہو چکا ہو کہ اس کاسیاسی فائدہ لیا جا سکے ۔
یہ صورت حال یقینی طور پر اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ 2018ء کے عام انتخابات میں بھی سب پارٹیوں کو پاکستان تحریک انصاف کے ہاتھوں نقصان اٹھانا پڑا تھا لیکن اس کے باوجود اپوزیشن جماعتیں نہ تومتحد ہیں اور نہ ہی کوئی ایسی صورت حال دکھائی دی ہے کہ وہ اتحاد یا سیٹ ایڈجیسٹمنٹ کی صورت انتخابی دنگل کا حصہ بن سکیں۔
مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی جس نہج پر پہنچ چکی ہیں اسے دیکھتے ہوئے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی مخالفت کے رنگ لیے ہوئے ہی انتخابی میدان میں اتریں گی جس کا پہلا نمونہ
اس سال ستمبر، اکتوبر میں منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں دکھائی دے گا اور انہی حالات میں پیپلزپارٹی اور اے این پی کی جانب سے راہیں جدا کرنے کے بعد پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتیں سوات میں جلسہ کاانعقاد کرتے ہوئے پی ڈی ایم کی ماہ رمضان سے قبل ملتوی شدہ حکومت مخالف تحریک دوبارہ شروع کرنے جا رہی ہے۔
سوات جلسہ پیپلزپارٹی اوراے این پی کے بغیر بھی کامیاب ہی رہے گا کیونکہ سوات میں جلسہ کی کامیابی کے لیے مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر انجنیئرامیرمقام اپناپورا زور لگائیں گے کیونکہ جلسہ ان کے اپنے ڈویژن میں منعقد ہونے جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب جے یوآئی کے ورکر بھی بھرپور طریقے سے متحرک ہیں کیونکہ سوات کے بعد پی ڈی ایم کراچی اور پھر اسلام آباد میں بھی جلسوں کا انعقاد کرنے جا رہی ہے تاکہ حکومت کے لیے مشکلات پیدا کی جا سکیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پی ڈی ایم جلسے منعقد کرتے ہوئے عمران خان حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر پائے گی؟ پی ڈی ایم کے جلسے اس سے قبل بھی ملک کے مختلف شہروں میں منعقد ہوئے اوراب بھی ہونے جا رہے ہیں لیکن ان جلسوں سے حکومت کی صحت پر ٹھیک اسی طرح کوئی فرق نہیں پڑا جس طرح پی ٹی آئی کے 126روزہ دھرنے سے نوازشریف حکومت متاثرنہیں ہوئی تھی۔
یہی وجہ ہے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے بھی اپنے دورہ مردان میں مسلم لیگ سمیت پی ڈی ایم میں شامل جاعتوں سے یہ سوال پوچھاکہ جن استعفوں کو ایشو بنا کر پی ڈی ایم میں توڑپھوڑ کی گئی وہ استعفے کہاں گئے اور اب یہ جماعتیں استعفے کیوں نہیں دے رہیں؟ بلاول بھٹو زرداری کا یہ سوال یقینی طور پر جائز ہے کیونکہ اسمبلیوں سے استعفے کے معاملے پر ہی پی ڈی ایم میں توڑ پھوڑ ہوئی اوراس وقت یہ بھی کہا گیا کہ استعفوں کے بغیر لانگ مارچ اور احتجاج کوئی معنی نہیں رکھتا تو اب استعفوں کے بغیر پی ڈی ایم کے جلسے کیونکر حکومت کے لیے مسائل پیداکر پائیں گے؟
پی ڈی ایم کے حوالے سے یہ اطلاعات موجود ہیں کہ تین ماہ سے ملتوی شدہ حکومت مخالف تحریک کا دوبارہ ٹیمپو بحال کرنے کے لیے ابتدائی طور پر جلسے کیے جا رہے ہیں اور اسی تسلسل میں اسلام آباد میں بھی جلسہ کیا جا رہا ہے تاکہ حکومت کے اعصاب کا جائزہ لیا جا سکے جسے دیکھتے ہوئے ہی مستقبل کا لائحہ عمل وضع کیا جائے گا جس میں لانگ مارچ,دھرنا اور اسمبلیوں سے استعفے دینا شامل ہے جبکہ اس دوران موسم کی شدت میں قدرے کمی بھی آجائے گی کیونکہ جولائی میں عیدالاضحی اور اگست میں محرم کے باعث ویسے ہی اپوزیشن تحریک میں وقفے آتے رہیں گے اور یہ معاملہ کھنچ کرستمبر،اکتوبرتک چلا جائے گا اور تب حالات کودیکھتے ہوئے ہی پی ڈی ایم قیادت فیصلہ کرے گی کہ حکومت کے چوتھے سال میں اس کی رخصتی سے سیاسی فائدہ کسے ہو گا، حکومت کو یا اپوزیشن کو ؟
یہ معاملات وقت کے ساتھ ہی واضح ہونگے جسے دیکھتے ہوئے ہی حکومت بھی اپنی صف بندی کرے گی جو تارکین وطن پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیتے ہوئے اگلے عام انتخابات کے لیے میدان ہموارکرنے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ بہرکیف پی ٹی آئی کے لیے بھی مشکلات کچھ کم نہیں جو اسے اندرونی طور پر بھی درپیش ہیں بیرونی بھی، جبکہ بلدیاتی انتخابات کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر مزید کئی مشکلات پیدا ہونے کا الگ سے امکان ہے۔
ایسے وقت میں جب کہ پارلیمنٹ اور پنجاب اسمبلی میں اگلے مالی سال کے بجٹ پیش ہونے کے موقع پر اپوزیشن جماعتوں نے بھرپور احتجاج کرتے ہوئے حکومت کو تنگ کیا، خیبرپختونخوا کا بجٹ بھی پرسوں 18جون کوپیش ہونے جا رہا ہے اور کے پی میں بھی اپوزیشن جماعتیں، حکومت اور صوبائی وزیرخزانہ تیمور سلیم جھگڑا کو تنگ کرنے کی کوشش کریں گی کیونکہ اپوزیشن لیڈر پہلے ہی بنوں میں تجاوزات کے خلاف کاروائی کی وجہ سے حکومت سے خارکھائے بیٹھے ہیں اوراسمبلی کے گزشتہ سیشن میں وہ اس سلسلے میں بھرپور احتجاج کر بھی چکے ہیں تاہم اب چونکہ پارلیمنٹ اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں نے بھرپور اپوزیشن کا مظاہرہ کیا ہے تو ایسے میں اکرم خان درانی یا خیبرپختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن جماعتیں کیونکر اس سلسلے میں پیچھے رہ سکتی ہیں۔
اطلاعات تو یہی ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں پرسوں خیبرپختونخوا اسمبلی میں بجٹ پیش ہونے کے موقع پر بھرپور طریقے سے احتجاج کریں گی لیکن یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بعض اپوزیشن ارکان وزیراعلیٰ کے قریب سمجھے جاتے ہیں جن کے حکومتی ایوانوں سے رابطے بھی ہیں اس لیے ان کی کوشش ہوگی کہ احتجاج نہ ہو تاہم اس سلسلے میں بہرکیف حتمی فیصلہ اپوزیشن لیڈر،پارلیمانی لیڈروں کی مشاورت سے کریں گے تاہم اس بارے میں یہ بات بھی واضح رہے کہ حکومتی ارکان نے بھی اس سلسلے میں منصوبہ بندی کر رکھی ہے کہ وہ جیسے کو تیسا کی پالیسی پر عمل کریں گے ۔
وزیراعلی خیبرپختونخوا محمود خان اوران کی ٹیم کااس وقت پورا فوکس اگلے مالی سال کے بجٹ پر ہے کیونکہ صوبائی حکومت اگلے مالی سال کے لیے ایسا بجٹ دینا چاہتی ہے کہ اس سے سیاسی طور پرفائدہ اٹھایا جا سکے اسی لیے نہ صرف یہ کہ صوبائی حکومت اگلے مالی سال کے لیے ٹیکس فری بجٹ دینے جا رہی ہے بلکہ ساتھ پہلے سے نافذ بعض ٹیکسوں میں بھی کمی کا ارادہ رکھتی ہے جس کے ساتھ ہی مرکزی حکومت کے تعاون سے بڑے منصوبوں پر بھی کام شروع کرنے کی خواہاں ہے جن میں سوات ایکسپریس وے فیز ٹوکے علاوہ دیرایکسپریس وے، پشاور، ڈی آئی خان موٹروے اور چشمہ لفٹ کنال جیسے منصوبے شامل ہیں۔
یقینی طور پر یہ ایسے منضوبے ہیں کہ جو فوری طور پر تو مکمل نہیں ہوں گے تاہم وزیراعلی اوران کی ٹیم کے علاوہ پاکستان تحریک انصاف کی قیادت کی بھی یہ خواہش ہوگی کہ ان منصوبوں کو شروع کرتے ہوئے ان پر زیادہ سے زیادہ کام کر سکیں تاکہ اگر یہ منصوبے مکمل نہ بھی ہو سکیں تو یا تو تکمیل کے قریب ہوں یاپھر ان پر اس قدرکام ہو چکا ہو کہ اس کاسیاسی فائدہ لیا جا سکے ۔
یہ صورت حال یقینی طور پر اپوزیشن سیاسی جماعتوں کے لیے لمحہ فکریہ ہے کیونکہ 2018ء کے عام انتخابات میں بھی سب پارٹیوں کو پاکستان تحریک انصاف کے ہاتھوں نقصان اٹھانا پڑا تھا لیکن اس کے باوجود اپوزیشن جماعتیں نہ تومتحد ہیں اور نہ ہی کوئی ایسی صورت حال دکھائی دی ہے کہ وہ اتحاد یا سیٹ ایڈجیسٹمنٹ کی صورت انتخابی دنگل کا حصہ بن سکیں۔
مسلم لیگ ن اور پیپلزپارٹی جس نہج پر پہنچ چکی ہیں اسے دیکھتے ہوئے بالکل واضح ہو جاتا ہے کہ یہ دونوں جماعتیں ایک دوسرے کی مخالفت کے رنگ لیے ہوئے ہی انتخابی میدان میں اتریں گی جس کا پہلا نمونہ
اس سال ستمبر، اکتوبر میں منعقد ہونے والے بلدیاتی انتخابات میں دکھائی دے گا اور انہی حالات میں پیپلزپارٹی اور اے این پی کی جانب سے راہیں جدا کرنے کے بعد پی ڈی ایم میں شامل دیگر جماعتیں سوات میں جلسہ کاانعقاد کرتے ہوئے پی ڈی ایم کی ماہ رمضان سے قبل ملتوی شدہ حکومت مخالف تحریک دوبارہ شروع کرنے جا رہی ہے۔
سوات جلسہ پیپلزپارٹی اوراے این پی کے بغیر بھی کامیاب ہی رہے گا کیونکہ سوات میں جلسہ کی کامیابی کے لیے مسلم لیگ ن کے صوبائی صدر انجنیئرامیرمقام اپناپورا زور لگائیں گے کیونکہ جلسہ ان کے اپنے ڈویژن میں منعقد ہونے جا رہا ہے جبکہ دوسری جانب جے یوآئی کے ورکر بھی بھرپور طریقے سے متحرک ہیں کیونکہ سوات کے بعد پی ڈی ایم کراچی اور پھر اسلام آباد میں بھی جلسوں کا انعقاد کرنے جا رہی ہے تاکہ حکومت کے لیے مشکلات پیدا کی جا سکیں۔
لیکن سوال یہ ہے کہ کیا پی ڈی ایم جلسے منعقد کرتے ہوئے عمران خان حکومت کے لیے مشکلات پیدا کر پائے گی؟ پی ڈی ایم کے جلسے اس سے قبل بھی ملک کے مختلف شہروں میں منعقد ہوئے اوراب بھی ہونے جا رہے ہیں لیکن ان جلسوں سے حکومت کی صحت پر ٹھیک اسی طرح کوئی فرق نہیں پڑا جس طرح پی ٹی آئی کے 126روزہ دھرنے سے نوازشریف حکومت متاثرنہیں ہوئی تھی۔
یہی وجہ ہے پیپلزپارٹی کے چیئرمین بلاول بھٹوزرداری نے بھی اپنے دورہ مردان میں مسلم لیگ سمیت پی ڈی ایم میں شامل جاعتوں سے یہ سوال پوچھاکہ جن استعفوں کو ایشو بنا کر پی ڈی ایم میں توڑپھوڑ کی گئی وہ استعفے کہاں گئے اور اب یہ جماعتیں استعفے کیوں نہیں دے رہیں؟ بلاول بھٹو زرداری کا یہ سوال یقینی طور پر جائز ہے کیونکہ اسمبلیوں سے استعفے کے معاملے پر ہی پی ڈی ایم میں توڑ پھوڑ ہوئی اوراس وقت یہ بھی کہا گیا کہ استعفوں کے بغیر لانگ مارچ اور احتجاج کوئی معنی نہیں رکھتا تو اب استعفوں کے بغیر پی ڈی ایم کے جلسے کیونکر حکومت کے لیے مسائل پیداکر پائیں گے؟
پی ڈی ایم کے حوالے سے یہ اطلاعات موجود ہیں کہ تین ماہ سے ملتوی شدہ حکومت مخالف تحریک کا دوبارہ ٹیمپو بحال کرنے کے لیے ابتدائی طور پر جلسے کیے جا رہے ہیں اور اسی تسلسل میں اسلام آباد میں بھی جلسہ کیا جا رہا ہے تاکہ حکومت کے اعصاب کا جائزہ لیا جا سکے جسے دیکھتے ہوئے ہی مستقبل کا لائحہ عمل وضع کیا جائے گا جس میں لانگ مارچ,دھرنا اور اسمبلیوں سے استعفے دینا شامل ہے جبکہ اس دوران موسم کی شدت میں قدرے کمی بھی آجائے گی کیونکہ جولائی میں عیدالاضحی اور اگست میں محرم کے باعث ویسے ہی اپوزیشن تحریک میں وقفے آتے رہیں گے اور یہ معاملہ کھنچ کرستمبر،اکتوبرتک چلا جائے گا اور تب حالات کودیکھتے ہوئے ہی پی ڈی ایم قیادت فیصلہ کرے گی کہ حکومت کے چوتھے سال میں اس کی رخصتی سے سیاسی فائدہ کسے ہو گا، حکومت کو یا اپوزیشن کو ؟
یہ معاملات وقت کے ساتھ ہی واضح ہونگے جسے دیکھتے ہوئے ہی حکومت بھی اپنی صف بندی کرے گی جو تارکین وطن پاکستانیوں کو ووٹ کا حق دیتے ہوئے اگلے عام انتخابات کے لیے میدان ہموارکرنے کی کوشش کر رہی ہے کیونکہ بہرکیف پی ٹی آئی کے لیے بھی مشکلات کچھ کم نہیں جو اسے اندرونی طور پر بھی درپیش ہیں بیرونی بھی، جبکہ بلدیاتی انتخابات کے لیے ٹکٹوں کی تقسیم کے معاملے پر مزید کئی مشکلات پیدا ہونے کا الگ سے امکان ہے۔
ایسے وقت میں جب کہ پارلیمنٹ اور پنجاب اسمبلی میں اگلے مالی سال کے بجٹ پیش ہونے کے موقع پر اپوزیشن جماعتوں نے بھرپور احتجاج کرتے ہوئے حکومت کو تنگ کیا، خیبرپختونخوا کا بجٹ بھی پرسوں 18جون کوپیش ہونے جا رہا ہے اور کے پی میں بھی اپوزیشن جماعتیں، حکومت اور صوبائی وزیرخزانہ تیمور سلیم جھگڑا کو تنگ کرنے کی کوشش کریں گی کیونکہ اپوزیشن لیڈر پہلے ہی بنوں میں تجاوزات کے خلاف کاروائی کی وجہ سے حکومت سے خارکھائے بیٹھے ہیں اوراسمبلی کے گزشتہ سیشن میں وہ اس سلسلے میں بھرپور احتجاج کر بھی چکے ہیں تاہم اب چونکہ پارلیمنٹ اور پنجاب اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں نے بھرپور اپوزیشن کا مظاہرہ کیا ہے تو ایسے میں اکرم خان درانی یا خیبرپختونخوا اسمبلی میں اپوزیشن جماعتیں کیونکر اس سلسلے میں پیچھے رہ سکتی ہیں۔
اطلاعات تو یہی ہیں کہ اپوزیشن جماعتیں پرسوں خیبرپختونخوا اسمبلی میں بجٹ پیش ہونے کے موقع پر بھرپور طریقے سے احتجاج کریں گی لیکن یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ بعض اپوزیشن ارکان وزیراعلیٰ کے قریب سمجھے جاتے ہیں جن کے حکومتی ایوانوں سے رابطے بھی ہیں اس لیے ان کی کوشش ہوگی کہ احتجاج نہ ہو تاہم اس سلسلے میں بہرکیف حتمی فیصلہ اپوزیشن لیڈر،پارلیمانی لیڈروں کی مشاورت سے کریں گے تاہم اس بارے میں یہ بات بھی واضح رہے کہ حکومتی ارکان نے بھی اس سلسلے میں منصوبہ بندی کر رکھی ہے کہ وہ جیسے کو تیسا کی پالیسی پر عمل کریں گے ۔