ٹف ٹائم
اب حد ہوگئی ہے سزا جزا کا حال یہی رہا تو عوام کا قانون اور انصاف سے اعتبار اٹھ جائے گا۔
KARACHI:
اپوزیشن بیتے تین برسوں سے عوام کو سڑکوں پر لانے کی کوشش کر رہی ہے، لیکن ابھی معاملہ آگے نہیں بڑھ رہا۔ اس نے ایک مسئلہ ڈھونڈ لیا ہے اور وہ ہے ملازمین کی تنخواہوں میں 30 فیصد اضافے کا مطالبہ جس کا ذکر ہم نے کردیا ہے۔
سرکاری ملازمین کی تنخواہوں میں ہر سال بجٹ کے موقع پر اضافہ کیا جاتا ہے ہمیشہ کی طرح اس سال بھی تنخواہوں میں 10 فیصد اضافہ کردیا گیا ہے۔ اپوزیشن کا مطالبہ ہے کہ اس سال تنخواہوں میں 30 فیصد اضافہ کیا جائے۔ غریب ملازمین کی تنخواہ اتنی کم ہوتی ہے کہ ان کا گزارا مشکل ہوجاتا ہے۔
اس صورتحال میں تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ غیر منصفانہ نہیں ہے لیکن اس بجٹ میں عوامی بھلائی کے اتنے پروگرام رکھے گئے ہیں کہ شاید کسی حکومت نے ماضی میں اتنے پروگرام نہ رکھے ہوں مثلاً چالیس لاکھ غریب خاندانوں کو سستے قرضے فراہم کیے جائیں گے۔
ہمارے ملک میں کسانوں کی مدد کسی حکومت نے نہیں کی، بجٹ میں اعلان کیا گیا کہ کاشتکارکو ہر فصل پر ڈیڑھ لاکھ روپے دیے جائیں گے جس سے کسان اپنی فصلیں بہتر بنانے کے لیے استعمال کرے گا۔ یہ ایک منفرد اقدام ہے جس سے کسانوں کو بہت فائدہ ہوگا۔ کیا ہماری اپوزیشن نے ماضی میں عوام کو اس قسم کی سہولتیں دی تھیں؟
اصل مسئلہ یہ ہے کہ حکومت کو اپوزیشن ٹف ٹائم دینا چاہتی ہے تنخواہوں میں اضافے کا مطالبہ اسی ٹف ٹائم کا حصہ ہے۔ دوسری جانب حکومت تو ٹف ٹائم سے نکل رہی ہے۔ ہم دورکیوں جائیں قومی دولت کی لوٹ مار کا جو بازار گرم تھا اس کا سلسلہ کسی نہ کسی شکل میں ابھی تک جاری ہے۔ اگر اپوزیشن حکومت کو ٹف ٹائم دینا چاہتی ہے تو اس کی مرضی، لیکن اگرحکومت عقل مندی سے کام لے تو اپوزیشن کے حربے ناکام بنا سکتی ہے۔
عوام حکومت کی عوام دوستی کے قائل ہوچکے ہیں وہ اب حکومت کے خلاف کسی بات کو ماننے کے لیے تیار نہیں اس حوالے سے اصل مسئلہ یہ ہے کہ اپوزیشن حکومت پر کرپشن کا ایک الزام نہیں لگا سکی۔ اب ان کے پاس سوائے تنخواہیں بڑھانے کے مطالبے کے کچھ نہیں رہا۔ وہ گھوم پھر کر ملازمین کی تنخواہ میں 30 فیصد اضافے کی بات کرتی ہے۔ حکومت نے 10 فیصد اضافہ کیا ہے۔ ہو سکتا ہے وہ دس کی بجائے پندرہ فیصد اضافہ کرکے اس مسئلے کو حل کر لے ، اس کے بعد کیا رہ جاتا ہے ، اس پر غور کرنے کی ضرورت ہے۔
اپوزیشن کو عوامی مسائل سے کوئی دلچسپی نہیں ہے وہ حکومت کو ٹف ٹائم دینے کے حوالے سے اس قسم کے مطالبے رکھ رہی ہے۔ مطالبات کرنا عوام کا حق ہے لیکن ہمارے ملک میں چونکہ نیابتی حکومت یا جمہوریت ہے لہٰذا اپوزیشن کے مطالبات عوام کی بھلائی کے مطالبات نہیں ہوتے بلکہ نیابتی جمہوریت کے شاہوں کے مطالبات ہوتے ہیں ، اگر اپوزیشن عوام کی ہمدرد ہوتی تو ایسے مطالبات حکومت کے سامنے رکھتی جن کا پورا کرنا حکومت کے لیے بھی ممکن ہو۔ مطالبات برائے مطالبات کے فلسفے پر عمل نہیں کیا جاتا۔
پچھلے دس سالوں میں اشرافیہ نے اربوں روپوں کی کرپشن کی۔ اپوزیشن یہ مطالبہ کرتی کہ لوٹ مار کے مال کی تحقیق کی جائے اور مجرموں کو سخت سزائیں دی جائیں، اس کے علاوہ بلاتفریق حکومت اور اپوزیشن یہ مطالبہ بھی کیا جاسکتا تھا کہ اپوزیشن اور حکومت کے وزرا کے اثاثوں کی تحقیق کی جائے جس کے اثاثے اس کی آمدنی سے زیادہ نکلیں اس کے خلاف کارروائی کی جائے۔ ماضی میں منی لانڈرنگ کے حوالے سے کئی بااثر لوگوں کو پکڑا گیا لیکن اب تک اس حوالے سے کوئی ٹھوس کارروائی نہیں کی گئی۔
جب احتساب کی صورت حال یہ ہو تو مجرموں کو سزا کون دے گا کیسے دے گا؟ یہ ایک ایسا سوال ہے جس کا جواب سارے متعلقہ اداروں کو دینا چاہیے لیکن... اس لیکن کے بعد کچھ نہیں۔ اس حوالے سے دلچسپ بات یہ ہے کہ اس قسم کے کئی کیس ہیں اور ملزمان آزادی کے ساتھ دوسرے ملکوں میں گھوم رہے ہیں اگر صورتحال یہ ہو تو انصاف کا حشر کیا ہوگا۔
ہم نے بات بجٹ کے حوالے سے شروع کی تھی لیکن بات منی لانڈرنگ تک پہنچ گئی ، اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ ایک پورا قبیلہ ہے جو ابتدا سے لوٹ مار میں لگا ہوا ہے اور ہمیشہ سزا سے بچتا آ رہا ہے۔
لیکن اب حد ہوگئی ہے سزا جزا کا حال یہی رہا تو عوام کا قانون اور انصاف سے اعتبار اٹھ جائے گا اور ملک اور معاشرہ انارکی کا شکار ہو کر رہ جائے گا۔ ہمارے ملک میں یہ ایک روایت بن گئی ہے کہ اشرافیہ کو بارہ خون معاف ہوتے ہیں اور غریب طبقات قانون کی گرفت میں اس طرح آتے ہیں کہ یا تو پاگل ہو جاتے ہیں یا موت سے ہم آغوش ہو جاتے ہیں۔
ہماری جیلوں میں عام قیدیوں کے ساتھ ایسا سلوک کیا جاتا ہے کہ قیدی پاگل ہو جاتے ہیں جن کے لیے چریا وارڈ کے نام سے ایک الگ وارڈ بنا دیا جاتا ہے جہاں یہ قانون کے مارے موت کے انتظار میں زندگی گزارتے ہیں۔ یہ ایک المیہ ہے 30 فیصد تنخواہوں میں اضافے کی ڈیمانڈ کرنے والے ان باتوں سے کہاں واقف ہوتے ہیں؟