نفتالی سے بھی خیر کی امید نہیں رکھیے
نفتالی اپنے سابق باس نیتن یاہو سے بھی زیادہ مذہبی جنونی ہے
ان ہی صفحات پر ماضی میں خاکسار نے عرض کیا تھا کہ اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو جلد ہی کرپشن سمیت دیگر الزامات پر فارغ ہوسکتے ہیں۔ ایسا ہی ہوا ہے اور اِن ہاؤس چینج کے نتیجے میں اسرائیلی وزیراعظم نیتن یاہو کو فارغ کردیا گیا ہے۔ تاہم پارلیمنٹ میں اقتدار کی تبدیلی کا یہ عمل اتنا بھی سادہ اور آسان ہرگز نہیں تھا۔
120 ارکان پر مشتمل پارلیمنٹ نے 59-60 سے فیصلہ کیا، یعنی یہاں صرف ایک ووٹ کا فرق نظر آیا۔ فیصلہ آنے پر نیتن یاہو نے نئے آنے والے وزیراعظم نفتالی بینیٹ سے گرم جوشی سے مصافحہ بھی کیا۔ نیتن یاہو نے کل 15 سال اسرائیل پر حکومت کی ہے اور آخری 12 سال سے مستقل یاہو ہی مسند اقتدار پر براجمان تھا۔ محض ایک ووٹ کے فرق سے اقتدار سے باہر ہونے والا یاہو، آنے والے وزیراعظم نفتالی کےلیے ایک سنجیدہ خطرے کے طور پر تلوار کی مانند لٹکتا تو رہے گا۔ اگر اس پر کرپشن اور اقربا پروری کے الزامات ثابت ہوجاتے ہیں تو پھر اس کو شاید جیل بھی جانا پڑے۔ سردست ہم یہ دیکھتے ہیں کہ نفتالی بینیٹ کون ہے؟ یہ سیاست میں کیا کررہا ہے؟ اس کے فلسطینیوں کے بارے میں کیا خیالات ہیں؟
نفتالی بینیٹ 1972 کو اسرائیل میں پیدا ہوا تھا۔ اس کے والدین 1947 میں امریکا سے اسرائیل کے صحراؤں میں آئے تھے۔ نفتالی کی عمر اب 49 سال ہے ۔ یہ آج سے 8 سال پہلے سیاست میں آیا اور محض ایک دہائی سے بھی کم عرصے میں نفتالی 13 جون کو اسرائیل کا تیرہواں وزیراعظم بن گیا۔ نفتالی کی اپنی سوچ یہی ہے کہ فلسطین ایک خودمختار ریاست کے طور پر وجود میں نہیں آنی چاہیے اور یہ کہ یہودیوں کو بستیاں بسانے کا حق حاصل ہے، یہ ان کے آبا کی زمین ہے اور فلسطینی اس زمین پر قابض ہیں، لہٰذا اس قبضے کو چھڑوانا ایمان کا حصہ ہے۔
مغربی کنارے کی جانب، جہاں امریکی کٹھ پتلی کی حکومت قائم ہے، وہاں جب اسرائیلی یہودی بستیاں بسائی جاتی تھیں تو نفتالی اپوزیشن کا اہم رکن ہونے کے باوجود بھی ان کی حمایت کیا کرتا تھا۔ نفتالی بنیادی طور پر متشدد مذہبی یہودی ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ میں اس وقت نفتالی کی پارٹی کی 120 میں سے صرف 7 نشستیں ہیں اور آپ اس چالاک اور شاطر ذہنیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ محض 7 نشستوں کے ساتھ نفتالی اب وزیراعظم ہے۔
ابتدائی تعلیم حیفہ میں حاصل کرنے کے بعد نفتالی نے 1990 قانون کے مطابق آئی ڈی ایف یعنی اسرائیل ڈیفنس فورس میں شمولیت اختیار کی اور وہاں 6 سال کام کیا۔ اس دوران اس نے لبنان کے پاس اقوام متحدہ کے پناہ گزین کمپاؤنڈ پر بھاری اسلحے سے حملہ کیا، جس میں 106 لبنانی شہید ہوئے، جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی سیکڑوں میں تھی۔ یہ خبر انٹرنیشنل میڈیا پر جنگل میں آگ کی طرح سے پھیلی اور اسرائیل کو اپنا آپریشن متعین وقت سے پہلے ہی ختم کرنا پڑا۔ بعد ازاں داخلی تحقیقات میں نفتالی کو یہ کہتے ہوئے بے گناہ قرار دے دیا گیا کہ اس نے یہ حملہ جان بوجھ کر نہیں کیا تھا۔ نفتالی نے اس کے بعد آئی ڈی ایف سے فراغت لی لیکن ریزرو فورس کےلیے کام جاری رکھا، جہاں اس نے میجر کے عہدے تک ترقی حاصل کی۔ اس کے بعد اس نے اسرائیل کی ایک جامعہ سے قانون کی ڈگری لی اور پھر یہ امریکا چلا گیا، جہاں اس نے سافٹ ویئر کمپنی قائم کی۔ یہ کمپنی بعد میں 1995 میں 145 ملین ڈالر کی فروخت ہوئی۔ نفتالی کی آج بھی امریکا کے سافٹ ویئر سیکٹر میں خطیر سرمایہ کاری ہے۔
نفتالی سابق وزیراعظم نیتن یاہو کا چیف آف اسٹاف بھی رہا ہے۔ 2006 سے 2008 میں اس عہدے پر کام کرنے کے بعد جنوری 2010 میں نفتالی کو یوشیٰ کونسل کا ڈائریکٹر جنرل لگا دیا گیا، جہاں اس نے جنوری 2012 تک خدمات سر انجام دی۔ اس کے بعد نفتالی نے ری جیویش ہوم کو جوائن کیا اور پارٹی کے داخلی انتخابات میں 67 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ اسی سال اس کی پارٹی نے عام انتخابات میں 12 نشستیں جیت لیں۔ الیکشن سے قبل نفتالی نے امریکی شہریت ترک کردی۔ مارچ 2013 میں نفتالی کو وزیر برائے تعلیم لگایا گیا۔ اس کے بعد کی 7 سالہ سیاست میں نفتالی کو مختلف پورٹ فولیو تھمائے جا تے رہے اور یہ بھی ایک جگہ سے مستعفیٰ ہوکر دوسری جگہ انٹری دیتا رہا۔
پارلیمانی سیاست میں اس وقت نفتالی کی 7 نشستیں ہیں اور اب اس نے کمال ہوشیاری سے اسرائیلی تاریخ سے لمبے عرصے تک وزیراعظم رہنے والے نیتن یاہو کی چھٹی کروا دی ہے اور خود وزیراعظم بن گیا ہے۔
اگر ہم نفتالی کی نفسیات کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ متشدد مزاج اور موقع پرست سیاست دان نظر آتا ہے۔ اس میں صبر کی کمی بھی ہے اور یہ جلد بازی میں بڑے فیصلے انجام سے بے پرواہ ہوکر لیتا ہے۔ ایسا شخص اس عہدے کےلیے زیادہ خطرناک ہے۔ یہ اپنے سابق باس سے زیادہ مذہبی جنونی بھی ہے۔ نفتالی اسرائیل کی تاریخ کا وہ پہلا وزیراعظم ہوگا جو سر پر مخصوص یہودی ٹوپی جس کو کیفہ کہتے ہیں، وہ رکھے گا اور اس اتحاد کی سربراہی کرے گا جو زیادہ تر لبرل اور سیکولر یہودیوں پر مشتمل ہے۔
نفتالی کے خیالات فلسطین کے حوالے سے نیک تو ہرگز نہیں ہیں بلکہ ہم اوپر یہ بتا چکے ہیں کہ وہ کیا خیالات رکھتا ہے۔ اس کا ثبوت نفتالی کی جانب سے ابھی دوبارہ سے غزہ پر فضائی حملے کرنے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ نفتالی کو اس وقت معیشت کی بحالی کا سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے۔ اس کے ساتھ اس کو حماس کی پالیسیوں سے بھی نمٹنا ہے۔ فی الوقت تجزیہ ہمیں یہی بتاتا ہے کہ اسرائیل میں کوئی بھی وزیراعظم ہو، وہ فلسطین کا خیرخواہ نہیں ہوسکتا۔ تاہم، نفتالی اس وقت نیتین یاہو سے زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔ کتنا زیادہ خطرناک؟ یہ مستقبل ہی بتائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
120 ارکان پر مشتمل پارلیمنٹ نے 59-60 سے فیصلہ کیا، یعنی یہاں صرف ایک ووٹ کا فرق نظر آیا۔ فیصلہ آنے پر نیتن یاہو نے نئے آنے والے وزیراعظم نفتالی بینیٹ سے گرم جوشی سے مصافحہ بھی کیا۔ نیتن یاہو نے کل 15 سال اسرائیل پر حکومت کی ہے اور آخری 12 سال سے مستقل یاہو ہی مسند اقتدار پر براجمان تھا۔ محض ایک ووٹ کے فرق سے اقتدار سے باہر ہونے والا یاہو، آنے والے وزیراعظم نفتالی کےلیے ایک سنجیدہ خطرے کے طور پر تلوار کی مانند لٹکتا تو رہے گا۔ اگر اس پر کرپشن اور اقربا پروری کے الزامات ثابت ہوجاتے ہیں تو پھر اس کو شاید جیل بھی جانا پڑے۔ سردست ہم یہ دیکھتے ہیں کہ نفتالی بینیٹ کون ہے؟ یہ سیاست میں کیا کررہا ہے؟ اس کے فلسطینیوں کے بارے میں کیا خیالات ہیں؟
نفتالی بینیٹ 1972 کو اسرائیل میں پیدا ہوا تھا۔ اس کے والدین 1947 میں امریکا سے اسرائیل کے صحراؤں میں آئے تھے۔ نفتالی کی عمر اب 49 سال ہے ۔ یہ آج سے 8 سال پہلے سیاست میں آیا اور محض ایک دہائی سے بھی کم عرصے میں نفتالی 13 جون کو اسرائیل کا تیرہواں وزیراعظم بن گیا۔ نفتالی کی اپنی سوچ یہی ہے کہ فلسطین ایک خودمختار ریاست کے طور پر وجود میں نہیں آنی چاہیے اور یہ کہ یہودیوں کو بستیاں بسانے کا حق حاصل ہے، یہ ان کے آبا کی زمین ہے اور فلسطینی اس زمین پر قابض ہیں، لہٰذا اس قبضے کو چھڑوانا ایمان کا حصہ ہے۔
مغربی کنارے کی جانب، جہاں امریکی کٹھ پتلی کی حکومت قائم ہے، وہاں جب اسرائیلی یہودی بستیاں بسائی جاتی تھیں تو نفتالی اپوزیشن کا اہم رکن ہونے کے باوجود بھی ان کی حمایت کیا کرتا تھا۔ نفتالی بنیادی طور پر متشدد مذہبی یہودی ہے۔ موجودہ پارلیمنٹ میں اس وقت نفتالی کی پارٹی کی 120 میں سے صرف 7 نشستیں ہیں اور آپ اس چالاک اور شاطر ذہنیت کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ محض 7 نشستوں کے ساتھ نفتالی اب وزیراعظم ہے۔
ابتدائی تعلیم حیفہ میں حاصل کرنے کے بعد نفتالی نے 1990 قانون کے مطابق آئی ڈی ایف یعنی اسرائیل ڈیفنس فورس میں شمولیت اختیار کی اور وہاں 6 سال کام کیا۔ اس دوران اس نے لبنان کے پاس اقوام متحدہ کے پناہ گزین کمپاؤنڈ پر بھاری اسلحے سے حملہ کیا، جس میں 106 لبنانی شہید ہوئے، جبکہ زخمیوں کی تعداد بھی سیکڑوں میں تھی۔ یہ خبر انٹرنیشنل میڈیا پر جنگل میں آگ کی طرح سے پھیلی اور اسرائیل کو اپنا آپریشن متعین وقت سے پہلے ہی ختم کرنا پڑا۔ بعد ازاں داخلی تحقیقات میں نفتالی کو یہ کہتے ہوئے بے گناہ قرار دے دیا گیا کہ اس نے یہ حملہ جان بوجھ کر نہیں کیا تھا۔ نفتالی نے اس کے بعد آئی ڈی ایف سے فراغت لی لیکن ریزرو فورس کےلیے کام جاری رکھا، جہاں اس نے میجر کے عہدے تک ترقی حاصل کی۔ اس کے بعد اس نے اسرائیل کی ایک جامعہ سے قانون کی ڈگری لی اور پھر یہ امریکا چلا گیا، جہاں اس نے سافٹ ویئر کمپنی قائم کی۔ یہ کمپنی بعد میں 1995 میں 145 ملین ڈالر کی فروخت ہوئی۔ نفتالی کی آج بھی امریکا کے سافٹ ویئر سیکٹر میں خطیر سرمایہ کاری ہے۔
نفتالی سابق وزیراعظم نیتن یاہو کا چیف آف اسٹاف بھی رہا ہے۔ 2006 سے 2008 میں اس عہدے پر کام کرنے کے بعد جنوری 2010 میں نفتالی کو یوشیٰ کونسل کا ڈائریکٹر جنرل لگا دیا گیا، جہاں اس نے جنوری 2012 تک خدمات سر انجام دی۔ اس کے بعد نفتالی نے ری جیویش ہوم کو جوائن کیا اور پارٹی کے داخلی انتخابات میں 67 فیصد ووٹ حاصل کیے۔ اسی سال اس کی پارٹی نے عام انتخابات میں 12 نشستیں جیت لیں۔ الیکشن سے قبل نفتالی نے امریکی شہریت ترک کردی۔ مارچ 2013 میں نفتالی کو وزیر برائے تعلیم لگایا گیا۔ اس کے بعد کی 7 سالہ سیاست میں نفتالی کو مختلف پورٹ فولیو تھمائے جا تے رہے اور یہ بھی ایک جگہ سے مستعفیٰ ہوکر دوسری جگہ انٹری دیتا رہا۔
پارلیمانی سیاست میں اس وقت نفتالی کی 7 نشستیں ہیں اور اب اس نے کمال ہوشیاری سے اسرائیلی تاریخ سے لمبے عرصے تک وزیراعظم رہنے والے نیتن یاہو کی چھٹی کروا دی ہے اور خود وزیراعظم بن گیا ہے۔
اگر ہم نفتالی کی نفسیات کا تجزیہ کرتے ہیں تو یہ متشدد مزاج اور موقع پرست سیاست دان نظر آتا ہے۔ اس میں صبر کی کمی بھی ہے اور یہ جلد بازی میں بڑے فیصلے انجام سے بے پرواہ ہوکر لیتا ہے۔ ایسا شخص اس عہدے کےلیے زیادہ خطرناک ہے۔ یہ اپنے سابق باس سے زیادہ مذہبی جنونی بھی ہے۔ نفتالی اسرائیل کی تاریخ کا وہ پہلا وزیراعظم ہوگا جو سر پر مخصوص یہودی ٹوپی جس کو کیفہ کہتے ہیں، وہ رکھے گا اور اس اتحاد کی سربراہی کرے گا جو زیادہ تر لبرل اور سیکولر یہودیوں پر مشتمل ہے۔
نفتالی کے خیالات فلسطین کے حوالے سے نیک تو ہرگز نہیں ہیں بلکہ ہم اوپر یہ بتا چکے ہیں کہ وہ کیا خیالات رکھتا ہے۔ اس کا ثبوت نفتالی کی جانب سے ابھی دوبارہ سے غزہ پر فضائی حملے کرنے کی صورت میں سامنے آیا ہے۔ نفتالی کو اس وقت معیشت کی بحالی کا سب سے بڑا چیلنج درپیش ہے۔ اس کے ساتھ اس کو حماس کی پالیسیوں سے بھی نمٹنا ہے۔ فی الوقت تجزیہ ہمیں یہی بتاتا ہے کہ اسرائیل میں کوئی بھی وزیراعظم ہو، وہ فلسطین کا خیرخواہ نہیں ہوسکتا۔ تاہم، نفتالی اس وقت نیتین یاہو سے زیادہ خطرناک ثابت ہوگا۔ کتنا زیادہ خطرناک؟ یہ مستقبل ہی بتائے گا۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔