بجٹ بحث شہباز شریف کا ڈیری مصنوعات درآمدی گیس و مشینری پر ٹیکس ختم کرنے کا مطالبہ
آج لوگ پوچھ رہے ہیں کہ بجٹ میں کہاں ہیں ایک کروڑنوکریاں اور 50 لاکھ گھر؟، قائد حزب اختلاف
قومی اسمبلی میں قائد حزب اختلاف شہباز شریف نے کہا ہے کہ حکومت نے مہنگائی کے طوفان میں ملک کو برباد کردیا.
قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ عوام نے ہمیں امید لگا کر قانون سازی کے لیے اسمبلی بھیجا، گزشتہ چند روز سے ایوان میں جو کچھ ہوا وہ انتہائی تشویشناک تھا۔ اس ایوان کی کارروائی کا ہر روز کا خرچہ کروڑوں روپے ہے جو عوام کی دولت سے خرچ ہوتی ہے۔ ہم یہاں پر لوگوں کے دکھوں پر مرہم رکھنے آئے ہیں، ہم پاکستان کو اس کا کھویا ہوا مقام دلانے آئے ہیں، ہم یہاں، مزدور ، کسان ، یتیم اور بیوی کی بات کرنے کے لیے آئے ہیں، ہمارا فیصلہ تھا کہ ہماری بات سنی جائے گی تو ہم ان کی بات بھی سنیں، جو کچھ ہوا اس سے ناصرف پاکستان بلکہ پورہی دنیا میں بہت غلط پیغام گیا ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ حالیہ دنوں میں جو قانون سازی ہوئی ہے وہ آئین اور قانون کے مطابق نہیں، قانون سازی میں کئی خامیاں ہیں لیکن ہماری بات نہیں سنی گئی، ہم نے سینیٹ میں اپنا کردار ادا کیا اور اسے روکا۔ اس حوالے سے کمیٹی تشکیل دی جائے۔ جس پر اسپیکر نے رولنگ دی کہ حکومت اور اپوزیشن ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو قانونی سازی کے عمل کا جائزہ لے گی۔
قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ 66 صفحات پر مشتمل تقریر کی گئی اور ہر صفحے پر مہنگائی ، غربت اور بد حالی کا ذکر تھا ملک میں 3 برسوں میں جو کچھ ہوا وہ سب نے دیکھ لیا، ہم سمجھتے ہیں کہ اگر غریب لوگوں کی جیب خالی ہے تو بجٹ جعلی ہے، گزشتہ 3 برسوں کے دوران ٹیکسوں کی بھرمار کی گئی اس کے باوجود محصولات نہیں بڑھے، بچوں کے اسکول چھوٹ گئے، غریب کو آدھی روٹی بھی نہیں مل رہی، یہ بجٹ مزید بدحالی لائے گا۔ جولائی 2018 میں جب ہم نے حکومت چھوڑی تو اس وقت جی ڈی پی 5.8 فیصد تھی، 3 برسوں میں 1952 کے بعد ملکی تاریخ کی سب سے کم معاشی ترقی رہی، ان 3 برسوں میں 2 کروڑ لوگ غربت کی سطح سے نیچے چلے گئے۔ مزدور کی آمدنی 3 برسوں میں 18 فیصد کم ہوئی ہے۔
صدر (ن) لیگ نے کہا کہ حکومت نے مہنگائی کی طوفان میں ملک کو برباد کردیا، ہم پوری طرح احساس کے باوجود عوام کے دل تک نہیں پہنچ سکتے، سرکاری ملازمین کی بھی بڑی تعداد خط غربت سے نیچے جاچکی ہے۔ عوام پوچھ رہے ہیں کہ بجٹ تقریر کے 66 صفحوں میں ایک کروڑ نوکریاں کہاں ہیں۔ اس سے بڑا دھوکا کیا ہوسکتا ہے کہ ایک اینٹ تک نہیں لگی، یہ ان منصوبوں پر اپنی تختیاں لگاتے ہیں جو نواز شریف کی حکومت میں مکمل ہوئے، اس وقت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر بے روزگاری ہے۔ اس وقت ہر پاکستانی نے پونے دو لاکھ قرض کا وزن اٹھائے ہوئے ہے، ہاتھ پھیلانے والا خود فیصلہ کرہی نہیں سکتا۔
شہباز شریف نے کہا کہ کوئی سوچ سکتا ہے کہ ریاست مدینہ کے دعوے کرکے عملی طور پر دامن خالی ہو۔ یہ کہنا کہ ہم نیا پاکستان بنائیں گے۔ مہنگائی ،غربت ، بےروزگاری اور مسائل میں اگر نئے پاکستان کی بات ہوتی ہے تو حیرت ہے، اس سے تو پرانا پاکستان بہتر تھا، جس میں ماضی کی حکومتیں کچھ نہ کچھ کرکے پاکستان کو آگے لے کر گئیں، بجٹ عوام دوست نہیں ،عوام دشمن ہے، صوبوں کے درمیاں جتنی آج بداعتمادی ہے ، آج صوبوں اور وفاق میں اتفاق نہیں, اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔
قومی اسمبلی میں بجٹ پر بحث کا آغاز کرتے ہوئے شہباز شریف نے کہا کہ عوام نے ہمیں امید لگا کر قانون سازی کے لیے اسمبلی بھیجا، گزشتہ چند روز سے ایوان میں جو کچھ ہوا وہ انتہائی تشویشناک تھا۔ اس ایوان کی کارروائی کا ہر روز کا خرچہ کروڑوں روپے ہے جو عوام کی دولت سے خرچ ہوتی ہے۔ ہم یہاں پر لوگوں کے دکھوں پر مرہم رکھنے آئے ہیں، ہم پاکستان کو اس کا کھویا ہوا مقام دلانے آئے ہیں، ہم یہاں، مزدور ، کسان ، یتیم اور بیوی کی بات کرنے کے لیے آئے ہیں، ہمارا فیصلہ تھا کہ ہماری بات سنی جائے گی تو ہم ان کی بات بھی سنیں، جو کچھ ہوا اس سے ناصرف پاکستان بلکہ پورہی دنیا میں بہت غلط پیغام گیا ہے۔
شہباز شریف نے کہا کہ حالیہ دنوں میں جو قانون سازی ہوئی ہے وہ آئین اور قانون کے مطابق نہیں، قانون سازی میں کئی خامیاں ہیں لیکن ہماری بات نہیں سنی گئی، ہم نے سینیٹ میں اپنا کردار ادا کیا اور اسے روکا۔ اس حوالے سے کمیٹی تشکیل دی جائے۔ جس پر اسپیکر نے رولنگ دی کہ حکومت اور اپوزیشن ارکان پر مشتمل ایک کمیٹی تشکیل دی جائے گی جو قانونی سازی کے عمل کا جائزہ لے گی۔
قائد حزب اختلاف کا کہنا تھا کہ 66 صفحات پر مشتمل تقریر کی گئی اور ہر صفحے پر مہنگائی ، غربت اور بد حالی کا ذکر تھا ملک میں 3 برسوں میں جو کچھ ہوا وہ سب نے دیکھ لیا، ہم سمجھتے ہیں کہ اگر غریب لوگوں کی جیب خالی ہے تو بجٹ جعلی ہے، گزشتہ 3 برسوں کے دوران ٹیکسوں کی بھرمار کی گئی اس کے باوجود محصولات نہیں بڑھے، بچوں کے اسکول چھوٹ گئے، غریب کو آدھی روٹی بھی نہیں مل رہی، یہ بجٹ مزید بدحالی لائے گا۔ جولائی 2018 میں جب ہم نے حکومت چھوڑی تو اس وقت جی ڈی پی 5.8 فیصد تھی، 3 برسوں میں 1952 کے بعد ملکی تاریخ کی سب سے کم معاشی ترقی رہی، ان 3 برسوں میں 2 کروڑ لوگ غربت کی سطح سے نیچے چلے گئے۔ مزدور کی آمدنی 3 برسوں میں 18 فیصد کم ہوئی ہے۔
صدر (ن) لیگ نے کہا کہ حکومت نے مہنگائی کی طوفان میں ملک کو برباد کردیا، ہم پوری طرح احساس کے باوجود عوام کے دل تک نہیں پہنچ سکتے، سرکاری ملازمین کی بھی بڑی تعداد خط غربت سے نیچے جاچکی ہے۔ عوام پوچھ رہے ہیں کہ بجٹ تقریر کے 66 صفحوں میں ایک کروڑ نوکریاں کہاں ہیں۔ اس سے بڑا دھوکا کیا ہوسکتا ہے کہ ایک اینٹ تک نہیں لگی، یہ ان منصوبوں پر اپنی تختیاں لگاتے ہیں جو نواز شریف کی حکومت میں مکمل ہوئے، اس وقت ملکی تاریخ کی بلند ترین سطح پر بے روزگاری ہے۔ اس وقت ہر پاکستانی نے پونے دو لاکھ قرض کا وزن اٹھائے ہوئے ہے، ہاتھ پھیلانے والا خود فیصلہ کرہی نہیں سکتا۔
شہباز شریف نے کہا کہ کوئی سوچ سکتا ہے کہ ریاست مدینہ کے دعوے کرکے عملی طور پر دامن خالی ہو۔ یہ کہنا کہ ہم نیا پاکستان بنائیں گے۔ مہنگائی ،غربت ، بےروزگاری اور مسائل میں اگر نئے پاکستان کی بات ہوتی ہے تو حیرت ہے، اس سے تو پرانا پاکستان بہتر تھا، جس میں ماضی کی حکومتیں کچھ نہ کچھ کرکے پاکستان کو آگے لے کر گئیں، بجٹ عوام دوست نہیں ،عوام دشمن ہے، صوبوں کے درمیاں جتنی آج بداعتمادی ہے ، آج صوبوں اور وفاق میں اتفاق نہیں, اس کی مثال تاریخ میں نہیں ملتی۔