اسمبلی ایک اکھاڑا
عوام کے منتخب نمائندے ایوانوں میں بیٹھ کر ایسی بازاری زبان استعمال کرتے ہیں جس کو دہرایا بھی نہیں جاسکتا
مضمون کا عنوان کسی کے نزدیک تھوڑا مزاحیہ اور کسی کے مطابق تھوڑا عجیب تو ہوسکتا ہے لیکن غیر حقیقی ہرگز نہیں ہے۔ کیونکہ ہماری اسمبلی ہر اہم موضوع پر اجلاس کے دوران ایک قانونی اور سیاسی فورم کے بجائے بہترین اکھاڑے کا منظر پیش کرتی ہے، جو پوری دنیا اپنے ٹی وی کی اسکرین پر دیکھتی ہے۔ ہماری قوم بھی دیکھتی آنکھوں اور سنتے کانوں اپنے منتخب کردہ پہلوانوں کی کارکردگی دیکھ کر پھولے نہیں سماتی کہ کیا لعل چن کر ہم نے اسمبلی میں بھیجے ہیں تاکہ وہ ہماری خدمت کرسکیں۔
بجٹ اجلاس جب سے شروع ہوا ان سب لوگوں نے اپنی زبانیں تیز کرلیں اور پہلوانی رنگ دکھانے کےلیے آستینیں اوپر چڑھا لیں تاکہ اس نیک کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکیں اور اپنے قائدین کی نظر میں سرخرو ٹھہریں۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ اس کار خیر میں حکومتی اراکین اور اپوزیشن کے اراکین دونوں برابر ہیں، کسی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
اگر یہ اسمبلی ہے تو یہاں دلیل اور قانون سے بات کرنے کے بجائے اپنی میٹھی زبان کے نشتر اور زور بازو سے دشمن کو زیر کرنے کے کیا معنی ہیں؟ ایسا منظر تو کسی بھی مہذب معاشرے میں قابل ہضم نہیں ہے۔ زیادہ حیرانی اس بات پر ہے کہ اسپیکر صاحب بھی آئیں بائیں اور شائیں کرتے رہے، کسی نے ان کی ایک نہ سنی۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی تقریر کی دوران جب معاملے نے قانونی اور سیاسی بحث سے نکل کر پہلوانی انداز اختیار کیا تو اسمبلی کے اندر سیکیورٹی (سارجنٹ ایٹ آرم) بھی ہمارے بپھرے پہلوانوں کو قابو نہ کرسکی اور ہمارے مہذب نمائندوں نے اسمبلی کو وہ اکھاڑا بنایا جس نے اصلی اکھاڑے کو بھی مات دے دی۔
اس ساری بے شرمی، بدتمیزی اور بدتہذیبی کے بعد دونوں گروپ (حکومت اور اپوزیشن) خود کو بالکل معصوم اور دودھ میں دھلا ثابت کرنے جبکہ فریق مخالف کو اس سب صورتحال کا ذمے دار قرار دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ حقیقت حال یہ ہے کی کسی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہاں ہر بار جب صدر مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتا ہے اپوزیشن والے نہیں سنتے اور شور شرابہ کرتے ہیں، ڈیسک اور سیٹیاں بجاتے ہیں۔ ہر بجٹ اجلاس میں یہی کچھ ہوتا آیا ہے۔ نہ اپوزیشن والے بجٹ تقریر سنتے ہیں، نہ حکومت والے بجٹ پر بحث کے حوالے سے اپوزیشن کی تقریر سنتے ہیں۔ یہ اسمبلی نہیں اکھاڑا ہے کیونکہ یہاں نہ ملک کا وزیراعظم تقریر کرسکتا ہے اور نہ ہی اپوزیشن لیڈر کچھ آرام سے بول سکتا ہے۔ یعنی نہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے۔ عوام جائے بھاڑ میں۔ کیونکہ ان لوگوں کو اس طرح کے کوئی مسائل ہیں ہی نہیں جن سے کیڑے مکوڑوں جیسی عوام کو واسطہ ہے۔
جن لوگوں کو ہم نے ووٹ دے کر بڑے بڑے ایوانوں میں پہنچا دیا ہے، جہاں گرمیوں میں ٹھنڈک اور سردیوں میں گرمائش ہوتی ہے، جہاں ایک کرسی کی قیمت عام لوگوں کے گھروں کے پورے فرنیچر سے بھی شاید زیادہ ہوگی۔ جہاں کی کینٹین میں کھانا ڈسکاؤنٹ پر ملتا ہے۔ جہاں کے ملازم بھی سوٹڈ بوٹڈ ہیں اور جہاں عام آدمی تو کیا کسی چڑیا کو بھی پر مارنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایسے ایوانوں میں بیٹھ کر وہ وہاں ایسی بازاری زبان استعمال کرتے ہیں جس کو دہرایا بھی نہیں جاسکتا۔ وہاں بیٹھ کر وہ عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنی قابلیت کے ایسے مظاہرے دکھاتے ہیں کہ ہمارا سر اٹھنے کے بجائے شرم سے جھک جاتا ہے۔ اس میں زیادہ پریشانی والی بات ہے کہ ہر آنے والے وقت میں اس صورتحال میں شدت آتی جارہی ہے اور اس میں پہلوانی عنصر زیادہ ہوتا جارہا ہے۔ اس سارے سلسلے میں ہمارے بھولے عوام یہ بات ضرور یاد رکھیں کہ یہ سارا کچھ وزیراعظم عمران خان اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی آشیرباد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس لیے یہ دونوں اتنے سادہ نہ بنیں کہ وہ تو بالکل معصوم ہیں اور سارا کچھ ان کے جذباتی نمائندوں نے خود ہی کیا ہے۔
اس ساری صورتحال میں ہم حکومت وقت اور دیگر مقتدر اداروں کے سامنے صرف تین تجاویز رکھنا چاہتے ہیں کہ اگر ان میں سے کسی ایک پر بھی عمل ہوجائے تو ہماری اسمبلی میں ایسا کوئی تماشا نہیں لگے گا جو اب آئے دن کا معمول بن چکا ہے اور یہ سارے نمائندے آسمان سے اترے ہوئے نہیں کہ انہیں پاکستان کے عوام سے الگ مخلوق تصور کرکے ہمارے سروں پر بٹھا دیا جائے۔
1۔ اسمبلی کا جو ممبر بھی اپنے عقلی اور سیاسی دلائل کو ایک طرف رکھ کر پہلوانی انداز اختیار کرتا ہے، اسے اسمبلی سے فارغ کرکے کسی حقیقی پہلوان کے اکھاڑے میں اتار دیا جائے تاکہ اس کے ہائی بلڈ پریشر کا شافی علاج ممکن ہو اور اگر اس کا دماغ ٹھکانے آجائے تو دوبارہ اسمبلی میں بٹھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن دوبارہ شرط وہی رکھی جائے کہ اگر طبیعت خراب ہوئی تو وہی علاج ہوگا۔
2۔ اگر اسمبلی کو قانونی سازی اور سیاسی مباحثوں کی جگہ ہے تو کوئی ٹھوس قانون بنائیں کہ کوئی بھی نمائندہ اس سے ہٹ کر وہاں دھونس دھاندلی، گالم گلوچ اور پہلوانی کے جوہر نہ دکھا سکے۔ اگر کوئی ایسا کرے تو وہاں ایسا انتظام ضرور رکھیں جو اسمبلی کا ماحول خراب نہ ہونے دے اور شرارتی نمائندے کو پکڑ کر یا زیادہ بہتر ہے گھسیٹ کر وہاں سے باہر لے جائے اور پھر اسمبلی کی کارروائی جاری کرا دی جائے۔ دونوں طرف کی تقاریر کے دروان مخالف فریق کو نعروں اور بدتمیزی کو کسی صورت معاف نہ کیا جائے۔ ایجنڈے اور بجٹ کی کاپیاں کسی صورت پھاڑنے کی اجازت نہ ہو۔ جو ایسا کرے اس کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ جس طرف سے بھی ایسا کچھ ہو اس کے لیڈر کو بھی اس سے بری الذمہ قرار نہ دیا جائے۔ جو اراکین زیادہ گرم مزاج ہیں ان کو آئندہ اسمبلی کا رکن بننے سے روکنے کےلیے قانون سازی کی جائے تاکہ اسمبلی مستقبل میں اکھاڑے کا منظر پیش کرنے سے قاصر رہے۔
3۔ تیسری اور آخری تجویز یہ ہے کہ پہلے والی دونوں تجاویز قابل عمل نہیں ہیں تو پھر حکومت کو چاہیے کہ اسمبلی کو باقاعدہ ایک اکھاڑے کی شکل دے دی جائے۔ وہاں سے قیمتی کرسیاں اٹھا لی جائیں اور وہاں ریت اور مٹی بچھا دی جائے۔ اس کے ساتھ اسمبلی میں پہلوانوں کےلیے چند نشستیں ضرور مختص ہونی چاہئیں تاکہ صرف کام کے نہیں بلکہ نام کے بھی پہلوان اسمبلی میں موجود ہوں۔ اس سے اسمبلی کے رعب میں بھرپور اضافہ ہوگا۔ ان منتخب پہلوانوں میں کچھ ایسے بھی ہونے چاہئیں جن کو زبان پر مکمل عبور حاصل ہو تاکہ وہ بدتمیزی، گالم گلوچ اور دھکم پیل کے بھی ماہر ہوں۔ اگر ایسی اسمبلی معرض وجود میں آجائے تو بل اور بجٹ پاس ہونے میں دیر نہیں لگے گی، کیونکہ جو طاقت ور ہوگا فریق مخالف کی ہڈی پسلی ایک کرکے فوری کارروائی مکمل کرلے گا۔ مہینوں کا کام دنوں میں اور دنوں کا گھنٹوں میں مکمل ہوجائے گا۔ نہ لمبی بحث اور نہ لمبی چوڑی تقریریں۔
اس کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے اور کیا لکھا جاسکتا ہے۔ ہم ہر آنے والے دن پہلے سے کم تر کیوں ہوتے جارہے ہیں۔ ہماری تعلیمی اور اخلاقی طاقت غیر ضروری اور غیر مناسب کاموں میں کیوں ضائع ہورہی ہے۔ ہمیں کرنا کیا چاہیے اور کر کیا رہے ہیں۔ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کیا سبق دے رہے ہیں۔ کل کے معمار کیا اسی نہج پر ملک کو آگے لے کر جائیں گے۔ اس بارے میں ہم سب کو سوچنا ہے اور فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے اسمبلی کو اکھاڑا بنانا ہے یا اسمبلی ہی رہنے دینا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
بجٹ اجلاس جب سے شروع ہوا ان سب لوگوں نے اپنی زبانیں تیز کرلیں اور پہلوانی رنگ دکھانے کےلیے آستینیں اوپر چڑھا لیں تاکہ اس نیک کام میں بڑھ چڑھ کر حصہ لے سکیں اور اپنے قائدین کی نظر میں سرخرو ٹھہریں۔ یہاں یہ بات ذہن میں رہے کہ اس کار خیر میں حکومتی اراکین اور اپوزیشن کے اراکین دونوں برابر ہیں، کسی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی۔
اگر یہ اسمبلی ہے تو یہاں دلیل اور قانون سے بات کرنے کے بجائے اپنی میٹھی زبان کے نشتر اور زور بازو سے دشمن کو زیر کرنے کے کیا معنی ہیں؟ ایسا منظر تو کسی بھی مہذب معاشرے میں قابل ہضم نہیں ہے۔ زیادہ حیرانی اس بات پر ہے کہ اسپیکر صاحب بھی آئیں بائیں اور شائیں کرتے رہے، کسی نے ان کی ایک نہ سنی۔ اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی تقریر کی دوران جب معاملے نے قانونی اور سیاسی بحث سے نکل کر پہلوانی انداز اختیار کیا تو اسمبلی کے اندر سیکیورٹی (سارجنٹ ایٹ آرم) بھی ہمارے بپھرے پہلوانوں کو قابو نہ کرسکی اور ہمارے مہذب نمائندوں نے اسمبلی کو وہ اکھاڑا بنایا جس نے اصلی اکھاڑے کو بھی مات دے دی۔
اس ساری بے شرمی، بدتمیزی اور بدتہذیبی کے بعد دونوں گروپ (حکومت اور اپوزیشن) خود کو بالکل معصوم اور دودھ میں دھلا ثابت کرنے جبکہ فریق مخالف کو اس سب صورتحال کا ذمے دار قرار دینے میں لگے ہوئے ہیں۔ حقیقت حال یہ ہے کی کسی میں کوئی فرق نہیں ہے۔ یہاں ہر بار جب صدر مشترکہ اجلاس سے خطاب کرتا ہے اپوزیشن والے نہیں سنتے اور شور شرابہ کرتے ہیں، ڈیسک اور سیٹیاں بجاتے ہیں۔ ہر بجٹ اجلاس میں یہی کچھ ہوتا آیا ہے۔ نہ اپوزیشن والے بجٹ تقریر سنتے ہیں، نہ حکومت والے بجٹ پر بحث کے حوالے سے اپوزیشن کی تقریر سنتے ہیں۔ یہ اسمبلی نہیں اکھاڑا ہے کیونکہ یہاں نہ ملک کا وزیراعظم تقریر کرسکتا ہے اور نہ ہی اپوزیشن لیڈر کچھ آرام سے بول سکتا ہے۔ یعنی نہ کھیلیں گے اور نہ کھیلنے دیں گے۔ عوام جائے بھاڑ میں۔ کیونکہ ان لوگوں کو اس طرح کے کوئی مسائل ہیں ہی نہیں جن سے کیڑے مکوڑوں جیسی عوام کو واسطہ ہے۔
جن لوگوں کو ہم نے ووٹ دے کر بڑے بڑے ایوانوں میں پہنچا دیا ہے، جہاں گرمیوں میں ٹھنڈک اور سردیوں میں گرمائش ہوتی ہے، جہاں ایک کرسی کی قیمت عام لوگوں کے گھروں کے پورے فرنیچر سے بھی شاید زیادہ ہوگی۔ جہاں کی کینٹین میں کھانا ڈسکاؤنٹ پر ملتا ہے۔ جہاں کے ملازم بھی سوٹڈ بوٹڈ ہیں اور جہاں عام آدمی تو کیا کسی چڑیا کو بھی پر مارنے کی اجازت نہیں ہے۔ ایسے ایوانوں میں بیٹھ کر وہ وہاں ایسی بازاری زبان استعمال کرتے ہیں جس کو دہرایا بھی نہیں جاسکتا۔ وہاں بیٹھ کر وہ عوامی خدمت کے جذبے سے سرشار ہوکر اپنی قابلیت کے ایسے مظاہرے دکھاتے ہیں کہ ہمارا سر اٹھنے کے بجائے شرم سے جھک جاتا ہے۔ اس میں زیادہ پریشانی والی بات ہے کہ ہر آنے والے وقت میں اس صورتحال میں شدت آتی جارہی ہے اور اس میں پہلوانی عنصر زیادہ ہوتا جارہا ہے۔ اس سارے سلسلے میں ہمارے بھولے عوام یہ بات ضرور یاد رکھیں کہ یہ سارا کچھ وزیراعظم عمران خان اور اپوزیشن لیڈر شہباز شریف کی آشیرباد کے بغیر ممکن نہیں ہے۔ اس لیے یہ دونوں اتنے سادہ نہ بنیں کہ وہ تو بالکل معصوم ہیں اور سارا کچھ ان کے جذباتی نمائندوں نے خود ہی کیا ہے۔
اس ساری صورتحال میں ہم حکومت وقت اور دیگر مقتدر اداروں کے سامنے صرف تین تجاویز رکھنا چاہتے ہیں کہ اگر ان میں سے کسی ایک پر بھی عمل ہوجائے تو ہماری اسمبلی میں ایسا کوئی تماشا نہیں لگے گا جو اب آئے دن کا معمول بن چکا ہے اور یہ سارے نمائندے آسمان سے اترے ہوئے نہیں کہ انہیں پاکستان کے عوام سے الگ مخلوق تصور کرکے ہمارے سروں پر بٹھا دیا جائے۔
1۔ اسمبلی کا جو ممبر بھی اپنے عقلی اور سیاسی دلائل کو ایک طرف رکھ کر پہلوانی انداز اختیار کرتا ہے، اسے اسمبلی سے فارغ کرکے کسی حقیقی پہلوان کے اکھاڑے میں اتار دیا جائے تاکہ اس کے ہائی بلڈ پریشر کا شافی علاج ممکن ہو اور اگر اس کا دماغ ٹھکانے آجائے تو دوبارہ اسمبلی میں بٹھانے میں کوئی مضائقہ نہیں ہے۔ لیکن دوبارہ شرط وہی رکھی جائے کہ اگر طبیعت خراب ہوئی تو وہی علاج ہوگا۔
2۔ اگر اسمبلی کو قانونی سازی اور سیاسی مباحثوں کی جگہ ہے تو کوئی ٹھوس قانون بنائیں کہ کوئی بھی نمائندہ اس سے ہٹ کر وہاں دھونس دھاندلی، گالم گلوچ اور پہلوانی کے جوہر نہ دکھا سکے۔ اگر کوئی ایسا کرے تو وہاں ایسا انتظام ضرور رکھیں جو اسمبلی کا ماحول خراب نہ ہونے دے اور شرارتی نمائندے کو پکڑ کر یا زیادہ بہتر ہے گھسیٹ کر وہاں سے باہر لے جائے اور پھر اسمبلی کی کارروائی جاری کرا دی جائے۔ دونوں طرف کی تقاریر کے دروان مخالف فریق کو نعروں اور بدتمیزی کو کسی صورت معاف نہ کیا جائے۔ ایجنڈے اور بجٹ کی کاپیاں کسی صورت پھاڑنے کی اجازت نہ ہو۔ جو ایسا کرے اس کے خلاف سخت ایکشن لیا جائے۔ جس طرف سے بھی ایسا کچھ ہو اس کے لیڈر کو بھی اس سے بری الذمہ قرار نہ دیا جائے۔ جو اراکین زیادہ گرم مزاج ہیں ان کو آئندہ اسمبلی کا رکن بننے سے روکنے کےلیے قانون سازی کی جائے تاکہ اسمبلی مستقبل میں اکھاڑے کا منظر پیش کرنے سے قاصر رہے۔
3۔ تیسری اور آخری تجویز یہ ہے کہ پہلے والی دونوں تجاویز قابل عمل نہیں ہیں تو پھر حکومت کو چاہیے کہ اسمبلی کو باقاعدہ ایک اکھاڑے کی شکل دے دی جائے۔ وہاں سے قیمتی کرسیاں اٹھا لی جائیں اور وہاں ریت اور مٹی بچھا دی جائے۔ اس کے ساتھ اسمبلی میں پہلوانوں کےلیے چند نشستیں ضرور مختص ہونی چاہئیں تاکہ صرف کام کے نہیں بلکہ نام کے بھی پہلوان اسمبلی میں موجود ہوں۔ اس سے اسمبلی کے رعب میں بھرپور اضافہ ہوگا۔ ان منتخب پہلوانوں میں کچھ ایسے بھی ہونے چاہئیں جن کو زبان پر مکمل عبور حاصل ہو تاکہ وہ بدتمیزی، گالم گلوچ اور دھکم پیل کے بھی ماہر ہوں۔ اگر ایسی اسمبلی معرض وجود میں آجائے تو بل اور بجٹ پاس ہونے میں دیر نہیں لگے گی، کیونکہ جو طاقت ور ہوگا فریق مخالف کی ہڈی پسلی ایک کرکے فوری کارروائی مکمل کرلے گا۔ مہینوں کا کام دنوں میں اور دنوں کا گھنٹوں میں مکمل ہوجائے گا۔ نہ لمبی بحث اور نہ لمبی چوڑی تقریریں۔
اس کے علاوہ کیا کہا جاسکتا ہے اور کیا لکھا جاسکتا ہے۔ ہم ہر آنے والے دن پہلے سے کم تر کیوں ہوتے جارہے ہیں۔ ہماری تعلیمی اور اخلاقی طاقت غیر ضروری اور غیر مناسب کاموں میں کیوں ضائع ہورہی ہے۔ ہمیں کرنا کیا چاہیے اور کر کیا رہے ہیں۔ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کیا سبق دے رہے ہیں۔ کل کے معمار کیا اسی نہج پر ملک کو آگے لے کر جائیں گے۔ اس بارے میں ہم سب کو سوچنا ہے اور فیصلہ کرنا ہے کہ ہم نے اسمبلی کو اکھاڑا بنانا ہے یا اسمبلی ہی رہنے دینا ہے۔
نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ blog@express.com.pk پر ای میل کردیجیے۔