قومی میزانیہ…مضمرات
بجٹ اجلاس جاری ہے، اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ عوام کے مفاد میں اپنی تجاویز اجلاس میں پیش کرے۔
قومی میزانیہ پیش کرنا ہر حکومت کے لیے ایک چیلنج اور امتحان ہوتا ہے کہ ہر خاص و عام اسے اپنی ضرورتوں اور خواہشوں کی عینک لگا کر دیکھتا اور اپنی مرضی کی چیزیں اور سہولتیں وآسانیاں تلاش کرتا ہے۔
سرکاری ملازمین سے لے کر عام مزدور تک ، طالب علم سے لے کر اعلیٰ تعلیمی اداروں تک ، تاجر سے لے کر چھوٹے دکاندار تک ، ریاستی اداروں سے لے کر عام صنعتوں تک اور معاشی استحکام سے لے کر سماجی ضرورتوں کی تکمیل تک غرض ہر شعبہ ہائے زندگی کے حوالے سے قومی میزانیے میں کچھ نہ کچھ '' اچھا '' یا '' برا '' ضرور موجود ہوتا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے تیسرا بجٹ پیش کرتے ہوئے بتایا کہ اس کا حجم 18487 ارب روپے ہے جس میں مجموعی خسارہ 3990 ارب اور وصولیوں کا ہدف 5829 ارب رکھا گیا ہے۔
ترقی کا ہدف 4.8 فیصد مقررکیا گیا ہے۔ مجموعی طور پر 382 ارب روپے کے نئے ٹیکس لگائے گئے ہیں اور 119 ارب روپے کی مراعات دی گئی ہیں۔ سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن میں 10 فیصد اضافہ کیا گیا ہے۔
ہر خاندان کے لیے صحت کارڈ اور ہر شہری گھرانے کے لیے 5 لاکھ بلا سود قرضہ فراہم کیا جائے گا۔ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین نے پوسٹ بجٹ کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے دعویٰ کیا ہے کہ کوئی منی بجٹ نہیں آئے گا ، حکومت نے گروتھ والا بجٹ دیا ہے۔ معاشی ترقی کے ثمرات غریب آدمی تک پہنچائیں گے ، ہمارا ہدف حکومتی نظام کو 1960 کی دہائی جیسا بنانا ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ کے بقول آئی ایم ایف نے بجلی کے نرخوں میں سو فیصد اور انکم ٹیکس میں پچاس فیصد اضافے کا مطالبہ کیا تھا جو حکومت نے تسلیم نہیں کیا ، انھوں نے امید ظاہرکی کہ ستمبر تک آئی ایم ایف سے معاملات طے ہو جائیں گے۔
وزیر اعظم عمران خان کا دعویٰ ہے کہ یہ بجٹ خوشحالی لائے گا۔ پہلے دو سال مشکل تھے عوام کو سہولت نہ دے سکے لیکن اب ہم ترقی کی طرف جا رہے ہیں، کمزور طبقے کی طرف بھرپور توجہ ہے کہ اسے سہولیات فراہم کرسکیں۔ کسان ہماری ترجیح اور معیشت کے تمام اشاریے مثبت جا رہے ہیں، وزیر اعظم نے اپنے مشیران و معاونین اور وزرا کو ٹاسک دیا ہے کہ وہ عوام میں حکومتی کامیابیوں کو اجاگرکریں اور اپوزیشن کو ٹف ٹائم دیں۔
وزیر اعظم سے لے کر حکومتی ترجمانوں اور وزیروں تک ہر ایک قومی میزانیے کے دفاع میں رطب اللسان ہیں۔ قومی میزانے کی تعریف و توصیف میں سرکاری زعما زمین و آسمان کے قلابے ایسے ملا رہے ہیں کہ جیسے ملک کی 72 سالہ تاریخ میں ایسا '' سنہری بجٹ '' پہلی مرتبہ پیش کیا گیا ہے جس کے نافذ العمل ہونے سے ملک کے طول و ارض میں دودھ اور شہد کی نہریں بہنے لگیں گی ، فاقہ مستوں کے دن پھر جائیں گے،کوئی غربت کا نام لیوا نہ ہوگا ، بے روزگاروں کے پیچھے نوکریوں کی قطار لگی ہوگی، صحت کارڈ کے طفیل بیماریوں کا خاتمہ ہو جائے گا ، پانچ لاکھ کا مقروض آدمی یک دم فیکٹری کا مالک بن جائے گا اور سرکاری ملازمین کی تنخواہوں و پنشن میں دس فیصد اضافے سے گویا ان کی زندگی میں ایسی خوشحالی آئے گی کہ سنبھالے نہیں سنبھلے گی۔
یہی خوش گمانیاں اور خوش خیالیاں ہیں کہ حکومت قومی میزانیے پر شاداں و رقصاں ہے۔ وفاقی وزیر خزانہ شوکت ترین کا قومی معیشت کے بارے میں چند ہفتے قبل دیا جانے والا یہ تجزیہ کہ پی ٹی آئی کی حکومت نے آئی ایم ایف کی ڈکٹیشن پرگزشتہ دو بجٹوں میں جو سخت پالیسیاں اختیار کی تھیں وہ معاشی تباہی کا سبب بنیں، یک دم معاشی ترقی کی نوید بن گیا اور وزیر خزانہ قلم دان سنبھالتے ہی حکومت کے بیانیے کا حصہ بن گئے اب ''سب اچھا ہے۔''
بجا کہ بعض معاشی ماہرین و تجزیہ کار اور تاجر برادری کے ترجمان قومی میزانیے کو تقریباً متوازن قرار دے کر ایک موہوم سی امید بھی باندھ رہے ہیں۔ تاہم حکومت نے درجنوں اشیا پر سیلز ٹیکس کی جو چھوٹ ختم کی ہے اس سے مہنگائی کے ایک نئے سونامی کے خدشات بھی ظاہر کیے جا رہے ہیں۔
بجٹ میں انڈے، کھانے کے تیل ، گھی ، نمک ، مختلف اقسام کے اناج ، دودھ ، کریم ، مکھن ، دیسی گھی ، دہی، پنیر، گوشت، اچار اور روزمرہ استعمال کی دوسری بہت سی اشیا پر سیلز ٹیکس کی چھوٹ ختم ہونے سے گرانی بڑھنے اور عام آدمی کی دسترس سے جس کی قوت خرید پہلے ہی بری طرح متاثر ہو چکی ہے، باہر ہونے کے امکانات ناقابل فہم نہیں۔ قومی میزانیہ جب پارلیمنٹ سے منظور ہوکر ایکٹ بنے گا تو مذکورہ اشیا پر سیلز ٹیکس نافذ ہوجائے گا ، جاری اور امکانی مہنگائی کے پیش نظر سرکاری ملازمین اور پنشنرز نے تنخواہوں اور پنشن میں دس فی صد اضافے کو مسترد کردیا ہے اور مطالبہ کیا ہے۔ مہنگائی کے تناسب سے ان کی تنخواہوں اور پنشن میں بھی اضافہ کیا جائے جو یقینا قابل فہم ہے، حکومت کو ان کے مطالبات پر سنجیدگی سے غورکرنا چاہیے۔
بجٹ اجلاس کے دوران اپوزیشن نے حسب روایت احتجاج کا بازار گرم رکھا۔ نعرے ، ہنگامہ ، پلے کارڈ اور شور شرابے سے کان پڑی آواز سنائی نہ دیتی تھی لیکن وزیر خزانہ نے ''سانس'' لیے بغیر اپنی بجٹ تقریر مکمل کی۔ وزیر اعظم عمران خان اپنی نشست سے اٹھ کر ان کے قریب گئے اور مبارک باد دی۔ آپ گزشتہ حکومتوں کے بجٹ اجلاس کی تاریخ دیکھ لیں۔ ہر حکومت کی اپوزیشن نے کسی بجٹ کو آج تک نہ تسلیم کیا اور نہ ہی کبھی سراہا۔ بجٹ پر تنقید ہر اپوزیشن کی سیاست کا خاصہ رہا ہے۔ یہی کچھ آج ہو رہا ہے۔
بلاول بھٹو سے لے کر شہباز شریف تک اور فضل الرحمن سے لے کر سراج الحق تک اپوزیشن کا ہر سیاسی رہنما اور اس کی جماعت کے ترجمان موجودہ بجٹ کو اعداد و شمار کا گورکھ دھندا قرار دے رہے ہیں۔ قائد حزب اختلاف شہباز شریف کا کہنا ہے کہ حکومت نے بجٹ میں غلط اعداد و شمار دیے ہیں اور جھوٹے دعوے کیے ہیں۔ غریب مر رہا ہے اسے ایک وقت کی روٹی میسر نہیں اور حکومت کا دعویٰ ہے کہ معیشت ترقی کر رہی ہے۔ بلاول بھٹو کا موقف ہے کہ عمران خان نے عام آدمی کے استعمال کی ہر شے پر ٹیکس لگا دیا ہے۔ انھوں نے ٹیکس لگانے کے عمل کو ظالمانہ اقدام قرار دیا۔
بجٹ اجلاس جاری ہے، اپوزیشن کو چاہیے کہ وہ عوام کے مفاد میں اپنی تجاویز اجلاس میں پیش کرے اور حکومت کو بھی اپوزیشن کی مثبت تجاویزکا خیرمقدم کرنا چاہیے اور بجٹ کے بعد عوامی مفاد کی تجاویز کو بجٹ کا حصہ بنانا چاہیے۔ حکومت نے بجٹ میں جو ''خوش کن'' اعلانات کیے ہیں وہ بجا سہی لیکن دیکھنا یہ ہے کہ حکومتی دعوؤں کے مطابق اگر معیشت میں استحکام آ رہا ہے تو اس کے ثمرات عام آدمی تک بھی پہنچنے چاہیئیں۔
بجٹ اخراجات پورے کرنے کے لیے مالیاتی وسائل کہاں سے حاصل کیے جائیں گے؟ اپوزیشن کے تنقیدی سوالات کا تسلی بخش جواب کیا ہوگا؟ کیا واقعی ''منی بجٹ'' نہیں آئے گا؟ بجٹ سے معیشت مستحکم اور آدمی کو فیض نہ پہنچا تو اپوزیشن کا بیانیہ مضبوط اور حکومت کا بیانیہ کمزور پڑ جائے گا جس کا نقصان حکومت کو آیندہ انتخابات میں اٹھانا پڑے گا۔