مغربی تہذیب تصویرکا دوسرا رخ
دنیا بالخصوص مغرب کی طرز سیاست میں اب اس کی نوعیت بدل گئی ہے۔
گزشتہ ماہ میری تحریر بہ عنوان مغربی تہذیب پر اعتراضات ہوئے۔ اس کی اشاعت کے دوسرے روز بھی میرے عزیز دوست عبداللطیف انصاری جو درس و تدریس کے شعبے سے وابستہ ہیں جو مجھ سے نظریاتی اختلاف رکھنے کے باوجود مجھے دل سے عزیز رکھتے ہیں۔ ان کی جانب سے ایک پرشکوہ ای میل وصول ہوئی جس میں انھوں نے تحریر پر اپنی ناپسندیدگی کا اظہار کیا۔
ان کا شکوہ تھا کہ آپ نے اپنی تحریر میں مغرب پر جو اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں آپ نے نہ صرف اس کا دفاع کیا بلکہ مغربی تہذیب کے مقابلے میں مشرقی تہذیب کو پسماندہ اور دقیانوسی قرار دیا۔ اصولی طور پر آپ کو اپنی تحریر میں سب سے پہلے اس بنیادی سوال کا جواب دیا جانا ضروری تھا کہ مغرب پر جو اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں وہ کس حد تک درست ہیں۔ لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا آپ کا یہ طرز عمل عدل و انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔
اس ای میل میں عبداللطیف انصاری نے مغربی تہذیب پر اٹھائے گئے اعتراضات کے ضمن میں دلائل کے ساتھ تفصیلی نکات پیش کیے جنھیں میں کالم کی صورت میں قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
وہ لکھتے ہیں کہ مغربی تہذیب کے حوالے سے بنیادی بات یہ ذہن میں رہے کہ مغربی تہذیب مادہ پرستانہ اور مذہب سے بے گانگی پر مبنی تہذیب ہے۔ اس کے برعکس مشرقی تہذیب میں مذہب کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اگر تہذیب مذہب سے منسلک نہیں ہے تو آپ صرف کماتے ہیں ، کھاتے ہیں ، جیتے ہیں اور مر جاتے ہیں ، جس تہذیب سے ہمارا تعلق ہے اس میں اس طرح جینا نہ جینے کے برابر ہے۔ مذہب نیک اور بد کا شعور ہے۔
ہم روح کو نظراندازکرکے مادیت پر اپنی زندگی کی عمارت تعمیر نہیں کرسکتے مذہب یا مختلف روحانی سلسلے کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ معاشرے کے اجتماعی مسائل مثلاً طبقاتی استحصال اقتصادی عدم مساوات ، معاشرتی ناانصافی کا کوئی مستقل حل پیش بھی نہ کرے تو انھیں خدا اور فرد کے نیک عمل پر چھوڑ دیتا ہے۔
فرض کریں ایک شخص دنیا کے کسی حصے میں حادثے کا شکار ہو جاتا ہے وہ ویران سڑک پر زخمی حالت میں پڑا ہے اگر کوئی شخص وہاں سے گزرا اور اس نے اس زخمی شخص کی کوئی مدد نہیں کی تو دنیا کا کوئی قانون اس کو مجرم اور سزاوار قرار نہیں دے گا۔ لیکن کسی بھی مذہب کے پیروکار کا گزر وہاں سے ہوگا اگر اس نے اس شخص کی مدد نہیں کی تو وہ اپنے مذہب کی تعلیمات کی رو سے گناہ گار یعنی مجرم تصورکیا جائے گا۔ اس لیے دنیا میں ہمیشہ ایسے نظام کی ضرورت رہتی ہے جو صرف ظاہری شکل و صورت تبدیل نہ کرے بلکہ انسان کے باطن کو تبدیل کردے۔
سیاسی نظام میں جمہوری نظام کی افادیت سے کسی ذی شعور شخص کو انکار نہیں ہے ، لیکن دنیا بالخصوص مغرب کی طرز سیاست میں اب اس کی نوعیت بدل گئی ہے۔ اب اس کا جو جواز پیش کیا جاتا تھا اب وہ نہیں رہا ہے۔ اب پورا نظام سیاست تجارتی قوتوں کے زیر اثر آگیا ہے۔ دنیا کی بیشتر سیاسی قوتیں سرمایہ داروں کے زیر اثر ہیں جنھیں سرمایہ دار میدان سیاست میں اتارکر اپنے مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں اس طرح اپنے سرمایہ کو تحفظ فراہم کرتے ہیں بلکہ اس میں اضافہ بھی کرتے ہیں۔ جمہوریت کا لفظ اب فقط نمائشی لفظ ہے ، جو عوامی ردعمل سے بچنے کے لیے بطور نعرہ استعمال ہوتا ہے۔
اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے جب مغرب کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو لبرل اور سیکولر عناصر کی جانب سے یہ بات کی جاتی ہے کہ اس پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی کیونکہ یہ ایک آزاد جمہوری معاشرے کی بنیادی اقدار میں سے ایک ہے اس کو بنیاد بنا کر مغرب میں بعض عناصر کی جانب سے مذہبی منافرت اور مذہبی شخصیات کی تذلیل کی جاتی ہے۔ جس طرح جسم پر ہر وہ حملہ جو قانون سے ماورا ہو جرم تصورکیا جاتا ہے اسی طرح روحانی وجود پر حملہ بھی ناقابل برداشت ہوتا ہے اسے بھی جرم تصور کیا جانا چاہیے۔
اس طرح کے واقعات خود مغربی فلسفہ آزادی کی نفی کرتے ہیں جرمن فلاسفر ایمانوئل کانٹ کا قول ہے کہ '' میں اپنے ہاتھ کو چھڑی کی حرکت دینے میں آزاد ہوں لیکن جہاں تمہاری ناک شروع ہوتی ہے وہاں میرے ہاتھ کی آزادی ختم ہو جاتی ہے'' یعنی فرد کو اپنا مکہ لہرانے کی پوری آزادی ہے لیکن اگر یہ مکہ کسی کے منہ پر جا لگے تو یہ جرم بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آزادی حدود سے باہر ہوجائے یا اس کا واضح تعین نہ ہو تو یہ انارکی میں بدل جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی اور ذمے داری کو لازم و ملزوم قرار دیا جاتا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کے علم برداروں کو اس نقطے پر ضرور غورکرنا چاہیے۔
آپ نے اپنی تحریر میں مغرب کی سائنسی ترقی اور صنعتی انقلاب کو قابل فخر انداز میں پیش کیا ، لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس سائنسی ترقی اور صنعتی انقلاب کے نتیجے میں دنیا میں جو بربادی آئی اس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ سائنس اور صنعتی ترقی نے انسان اور فطرت کے درمیان جو توازن تھا وہ بگاڑ دیا۔ سائنسی ترقی کے نام پر ہم نے فضا ، ہوا ، پہاڑ ، جنگل ، سمندر ، دریا اور نہریں سب کچھ آلودہ کرلیا۔ جس کے نتیجے میں نہ صرف انسان بلکہ جانور چرند و پرند اور آبی مخلوق سب متاثر ہوئے ہیں۔
مادیت ہی سب کچھ ہے کے نظریے نے انسان کو حرص، حسد اور لالچ کا پجاری بنا دیا جس کے نتیجے میں ظلم ، استحصال ، بے سکونی کے دلدل میں انسان اترتا چلا گیا ہے۔ غرض مغرب کا انسان اپنی تمام تر مادی ترقی کے باوجود بے سکون ہے اور ایسے نظام کی تلاش ہے جو اسے سکون اور مسرت فراہم کرسکے۔
آپ لکھتے ہیں کہ دنیا کی ہر تہذیب چاہے اس کا تعلق دنیا کے کسی بھی خطے سے ہو اس نے دوسری تہذیبوں سے استفادہ کیا ہے ہمیں بھی چاہیے کہ ہم مغربی تہذیب کے مثبت پہلوؤں سے استفادہ کریں۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ اگر آپ کو کتا پالنے کا شوق ہے اور آپ کتے کی دم کو ناپسند کرتے ہیں تو یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ بغیر دم کے کتے کو پال سکیں۔ تہذیب کی مثال بھی ایسی ہے جب آپ کسی دوسری تہذیب کو اپناتے ہیں تو اس کے مثبت پہلو کے ساتھ اس کے منفی پہلو بھی آپ کی تہذیب کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم مغربی تہذیب سے استفادہ کرنے کے بجائے اپنی تہذیب کی مثبت اقدار کو فروغ دیں اسی میں ہماری بقا اور خوشحالی کا راز ہے۔
انصاری صاحب کی ایم میل کا بہت شکریہ، انھوں نے مغربی تہذیب کے حوالے سے تصویر کا جو دوسرا رخ پیش کیا ہے وہ کس حد تک درست ہے اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کرسکتے ہیں۔
ان کا شکوہ تھا کہ آپ نے اپنی تحریر میں مغرب پر جو اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں آپ نے نہ صرف اس کا دفاع کیا بلکہ مغربی تہذیب کے مقابلے میں مشرقی تہذیب کو پسماندہ اور دقیانوسی قرار دیا۔ اصولی طور پر آپ کو اپنی تحریر میں سب سے پہلے اس بنیادی سوال کا جواب دیا جانا ضروری تھا کہ مغرب پر جو اعتراضات اٹھائے جاتے ہیں وہ کس حد تک درست ہیں۔ لیکن آپ نے ایسا نہیں کیا آپ کا یہ طرز عمل عدل و انصاف کے اصولوں کے منافی ہے۔
اس ای میل میں عبداللطیف انصاری نے مغربی تہذیب پر اٹھائے گئے اعتراضات کے ضمن میں دلائل کے ساتھ تفصیلی نکات پیش کیے جنھیں میں کالم کی صورت میں قارئین کی خدمت میں پیش کر رہا ہوں۔
وہ لکھتے ہیں کہ مغربی تہذیب کے حوالے سے بنیادی بات یہ ذہن میں رہے کہ مغربی تہذیب مادہ پرستانہ اور مذہب سے بے گانگی پر مبنی تہذیب ہے۔ اس کے برعکس مشرقی تہذیب میں مذہب کو بنیادی حیثیت حاصل ہے اگر تہذیب مذہب سے منسلک نہیں ہے تو آپ صرف کماتے ہیں ، کھاتے ہیں ، جیتے ہیں اور مر جاتے ہیں ، جس تہذیب سے ہمارا تعلق ہے اس میں اس طرح جینا نہ جینے کے برابر ہے۔ مذہب نیک اور بد کا شعور ہے۔
ہم روح کو نظراندازکرکے مادیت پر اپنی زندگی کی عمارت تعمیر نہیں کرسکتے مذہب یا مختلف روحانی سلسلے کی خصوصیت یہ ہے کہ وہ معاشرے کے اجتماعی مسائل مثلاً طبقاتی استحصال اقتصادی عدم مساوات ، معاشرتی ناانصافی کا کوئی مستقل حل پیش بھی نہ کرے تو انھیں خدا اور فرد کے نیک عمل پر چھوڑ دیتا ہے۔
فرض کریں ایک شخص دنیا کے کسی حصے میں حادثے کا شکار ہو جاتا ہے وہ ویران سڑک پر زخمی حالت میں پڑا ہے اگر کوئی شخص وہاں سے گزرا اور اس نے اس زخمی شخص کی کوئی مدد نہیں کی تو دنیا کا کوئی قانون اس کو مجرم اور سزاوار قرار نہیں دے گا۔ لیکن کسی بھی مذہب کے پیروکار کا گزر وہاں سے ہوگا اگر اس نے اس شخص کی مدد نہیں کی تو وہ اپنے مذہب کی تعلیمات کی رو سے گناہ گار یعنی مجرم تصورکیا جائے گا۔ اس لیے دنیا میں ہمیشہ ایسے نظام کی ضرورت رہتی ہے جو صرف ظاہری شکل و صورت تبدیل نہ کرے بلکہ انسان کے باطن کو تبدیل کردے۔
سیاسی نظام میں جمہوری نظام کی افادیت سے کسی ذی شعور شخص کو انکار نہیں ہے ، لیکن دنیا بالخصوص مغرب کی طرز سیاست میں اب اس کی نوعیت بدل گئی ہے۔ اب اس کا جو جواز پیش کیا جاتا تھا اب وہ نہیں رہا ہے۔ اب پورا نظام سیاست تجارتی قوتوں کے زیر اثر آگیا ہے۔ دنیا کی بیشتر سیاسی قوتیں سرمایہ داروں کے زیر اثر ہیں جنھیں سرمایہ دار میدان سیاست میں اتارکر اپنے مقاصد کی تکمیل کرتے ہیں اس طرح اپنے سرمایہ کو تحفظ فراہم کرتے ہیں بلکہ اس میں اضافہ بھی کرتے ہیں۔ جمہوریت کا لفظ اب فقط نمائشی لفظ ہے ، جو عوامی ردعمل سے بچنے کے لیے بطور نعرہ استعمال ہوتا ہے۔
اظہار رائے کی آزادی کے حوالے سے جب مغرب کو تنقید کا نشانہ بنایا جاتا ہے تو لبرل اور سیکولر عناصر کی جانب سے یہ بات کی جاتی ہے کہ اس پر پابندی نہیں لگائی جاسکتی کیونکہ یہ ایک آزاد جمہوری معاشرے کی بنیادی اقدار میں سے ایک ہے اس کو بنیاد بنا کر مغرب میں بعض عناصر کی جانب سے مذہبی منافرت اور مذہبی شخصیات کی تذلیل کی جاتی ہے۔ جس طرح جسم پر ہر وہ حملہ جو قانون سے ماورا ہو جرم تصورکیا جاتا ہے اسی طرح روحانی وجود پر حملہ بھی ناقابل برداشت ہوتا ہے اسے بھی جرم تصور کیا جانا چاہیے۔
اس طرح کے واقعات خود مغربی فلسفہ آزادی کی نفی کرتے ہیں جرمن فلاسفر ایمانوئل کانٹ کا قول ہے کہ '' میں اپنے ہاتھ کو چھڑی کی حرکت دینے میں آزاد ہوں لیکن جہاں تمہاری ناک شروع ہوتی ہے وہاں میرے ہاتھ کی آزادی ختم ہو جاتی ہے'' یعنی فرد کو اپنا مکہ لہرانے کی پوری آزادی ہے لیکن اگر یہ مکہ کسی کے منہ پر جا لگے تو یہ جرم بن جاتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب آزادی حدود سے باہر ہوجائے یا اس کا واضح تعین نہ ہو تو یہ انارکی میں بدل جاتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آزادی اور ذمے داری کو لازم و ملزوم قرار دیا جاتا ہے۔ اظہار رائے کی آزادی کے علم برداروں کو اس نقطے پر ضرور غورکرنا چاہیے۔
آپ نے اپنی تحریر میں مغرب کی سائنسی ترقی اور صنعتی انقلاب کو قابل فخر انداز میں پیش کیا ، لیکن کیا یہ حقیقت نہیں کہ اس سائنسی ترقی اور صنعتی انقلاب کے نتیجے میں دنیا میں جو بربادی آئی اس کو نظرانداز نہیں کیا جاسکتا۔ سائنس اور صنعتی ترقی نے انسان اور فطرت کے درمیان جو توازن تھا وہ بگاڑ دیا۔ سائنسی ترقی کے نام پر ہم نے فضا ، ہوا ، پہاڑ ، جنگل ، سمندر ، دریا اور نہریں سب کچھ آلودہ کرلیا۔ جس کے نتیجے میں نہ صرف انسان بلکہ جانور چرند و پرند اور آبی مخلوق سب متاثر ہوئے ہیں۔
مادیت ہی سب کچھ ہے کے نظریے نے انسان کو حرص، حسد اور لالچ کا پجاری بنا دیا جس کے نتیجے میں ظلم ، استحصال ، بے سکونی کے دلدل میں انسان اترتا چلا گیا ہے۔ غرض مغرب کا انسان اپنی تمام تر مادی ترقی کے باوجود بے سکون ہے اور ایسے نظام کی تلاش ہے جو اسے سکون اور مسرت فراہم کرسکے۔
آپ لکھتے ہیں کہ دنیا کی ہر تہذیب چاہے اس کا تعلق دنیا کے کسی بھی خطے سے ہو اس نے دوسری تہذیبوں سے استفادہ کیا ہے ہمیں بھی چاہیے کہ ہم مغربی تہذیب کے مثبت پہلوؤں سے استفادہ کریں۔ اس ضمن میں عرض ہے کہ اگر آپ کو کتا پالنے کا شوق ہے اور آپ کتے کی دم کو ناپسند کرتے ہیں تو یہ ممکن نہیں ہے کہ آپ بغیر دم کے کتے کو پال سکیں۔ تہذیب کی مثال بھی ایسی ہے جب آپ کسی دوسری تہذیب کو اپناتے ہیں تو اس کے مثبت پہلو کے ساتھ اس کے منفی پہلو بھی آپ کی تہذیب کا حصہ بن جاتے ہیں۔ اس لیے ہمیں چاہیے کہ ہم مغربی تہذیب سے استفادہ کرنے کے بجائے اپنی تہذیب کی مثبت اقدار کو فروغ دیں اسی میں ہماری بقا اور خوشحالی کا راز ہے۔
انصاری صاحب کی ایم میل کا بہت شکریہ، انھوں نے مغربی تہذیب کے حوالے سے تصویر کا جو دوسرا رخ پیش کیا ہے وہ کس حد تک درست ہے اس کا فیصلہ پڑھنے والے خود کرسکتے ہیں۔