عالم دین کا اسکینڈل حل کیا ہے

مساجد کمیٹیاں، مدارس کمیٹیاں اور حکومت مل کر ایسا سسٹم بنائیں کہ ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہوسکے


مناظر علی June 19, 2021
مسجد، مدرسہ اور دین سے جڑے افراد، اساتذہ کو بھی ذمے داری کا ثبوت دینے کی ضرورت ہے۔ (فوٹو: فائل)

ایک عالم دین کی غیر اخلاقی ویڈیو منظرعام پر آنے کے بعد دینی درسگاہوں اور ان سے جڑے علما اور اساتذہ کی طرف ایک بار پھر انگلیاں اٹھ رہی ہیں۔ بہرحال معاملہ تشویشناک ہے، کیوں کہ درسگاہ دینی ہو یا دنیاوی، یہاں نوجوان نسلیں علمی پیاس بجھاتی ہیں اور کسی بھی مدرسہ یا یونیورسٹی کا ماحول اور اساتذہ علمی و اخلاقی حوالے سے اس قابل ہونے چاہئیں کہ آنے والی نسلوں کو ایسا بنادیں کہ جہاں وہ کامیاب انسان بنیں، وہیں ان میں یہ قابلیت ہو کہ وہ کسی بھی قسم کے حالات کا سامنا کرسکیں اور اپنے مذہب، ملک، معاشرے اور والدین کےلیے باعث فخر ہوں۔

اس بات سے انکار کسی صورت بھی ممکن نہیں کہ ماں کی گود کے بعد درسگاہیں ہی کردار سازی کرتی ہیں اور اس کےلیے یہ ضروری ہے کہ درسگاہیں بھی ایک ماں کی طرح بچوں سے سلوک کریں۔

مجھے یہ کہنے میں ذرا بھی عار نہیں کہ میں ایک مسلمان ہوں اور قرآن پاک سے بڑھ کر دنیا میں کوئی بڑا علم نہیں۔ اس اعتبار سے جہاں اس علم کو اگلی نسلوں میں منتقل کیا جاتا ہے وہ جگہیں بھی اسی لحاظ سے قابل احترام اور مقدس ہیں۔ قرآن و حدیث ایسے علم ہیں جن میں آپ کو دنیاوی اور دینی دونوں کی رہنمائی ملتی ہے۔ مگر افسوس کا مقام یہ ہے کہ ہم میں سے اکثر قرآن پاک، حدیث، مسجد، مدرسہ اور ان سے جڑے آئمہ، پیش امام، اساتذہ اور باعمل علما سے دور ہوتے جارہے ہیں۔

ایک سوچی سمجھی سازش کے تحت اسلام، داڑھی، مسجد، مدرسہ کو دہشت گردی سے جوڑ دیا گیا۔ عالمی میڈیا میں جب بھی دہشت گردی کی بات ہوتی ہے تو ویڈیو، تصاویر میں مسجد، مدرسہ، علما، داڑھی اور مسلمانوں کے حلیے دکھائے جاتے ہیں۔ جہاد کا لفظ تو اب مسلمان بھی بولتے ہوئے ڈرنے لگے ہیں۔ اس سارے معاملے میں ان سب چیزوں کی اہمیت سے بالکل انکار ممکن نہیں بلکہ ایک مسلمان کا اوڑھنا بچھونا ہی یہی سب کچھ ہے۔ مگر مسجد، مدرسہ اور دین سے جڑے افراد، اساتذہ کو بھی ذمے داری کا ثبوت دینے کی ضرورت ہے۔ جہاں عالم کفر سازشوں میں مصروف ہے اور یہ دشمنی آج کی نہیں، حضرت آدم کی تخلیق پر ہی ایک لعین نے دشمنی کی بنیاد رکھ دی تھی، پھر ہر زمانے میں اس نے کوشش جاری رکھی اور اللہ کے بندے مقابلہ کرتے رہے۔ یہ باتیں صرف کہنے کی حد تک نہیں، اگر کفر کا مقابلہ کرنا ہے، اگر اللہ کا بندہ بننا ہے تو پھر سب سے پہلے اچھا انسان بھی بننا پڑے گا۔ اگر مسجد، مدرسہ اور دین کی خدمت کا شوق ہے اور آپ نے یہ راہ چن لی ہے کہ میں شیطان کی پیروی نہیں بلکہ رحمان کی پیروی کروں گا تو پھر کام بھی رحمانی کرنا ہوں گے۔

جب ہم کسی عالم دین، کسی حافظ، قاری اور امام مسجد کی غلطی پر یہ کہتے ہیں کہ وہ بھی انسان ہیں، ان سے بھی غلطی سرزد ہوسکتی ہے تو ہمیں یہ سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ اساتذہ چاہے یونیورسٹی کے ہوں یا مدرسہ کے، وہ بچوں کےلیے رول ماڈل ہونے چاہئیں۔ آپ کی زبان سے نکلنے والے الفاظ سے زیادہ طاقتور اور موثر آپ کا کردار ہے۔ جیسے بچہ والدین اور گھر کے بڑوں کی نقل کرتا ہے اسی طرح جب وہ مدرسہ، اسکول، کالج، یونیورسٹی جاتا ہے تو پھر وہاں اس کے والدین اساتذہ ہیں، وہ ان کی باتیں سنے گا، ان پر عمل کرے گا، ان کے کردار کو کاپی کرے گا۔ تبھی یہ کہا جاتا ہے کہ یہ طبقہ یعنی اساتذہ عام طبقے کی طرح نہیں۔ انہیں زیادہ بہتر ہونے کی ضرورت ہے۔ انہیں اپنی گفتار، اپنا کردار دوسروں کی نسبت زیادہ بہتر رکھنے کی ضرورت ہے۔ کیوں کہ وہ ایک مقدس پیشے سے منسلک ہیں۔ یہاں میری رائے یہ ہے کہ کالج، یونیورسٹی کی نسبت کسی دینی مدرسے کے اساتذہ کو مزید بہترین انسان بننے کی ضرورت ہے۔ بہترین انسان صرف صاف ستھرے کپڑے پہننے، اچھی گھڑی، اچھا عمامہ، گاڑی، اچھی خوراک، اچھا موبائل، آنکھ میں سرمہ، داڑھی میں کنگھی کا ہی نام نہیں، بلکہ سب سے اہم کردار ہے۔ وہ ظاہری کردار بھی ہے اور باطنی بھی۔ کلاس روم، ہجرے، ہاسٹل ہر جگہ استاد کو استاد ہی رہنے کی ضرورت ہے اور یہ ذہن میں رہے کہ اساتذہ کو بھی والدین کا رتبہ دیا گیا ہے۔ پھر والدین اپنے بچوں کے ساتھ کیا برتاؤ کرتے ہیں یہ بتانے کی ضرورت نہیں۔

دینی مدرسہ کے عالم دین کی جانب سے شرمناک اور ناقابل معافی جرم کے منظر عام پر آنے کے بعد کچھ باتیں عرض کروں گا۔ ایک تو یہ ہے کہ اس واقعے کی بنیاد پر اپنے مذہب، درسگاہوں اور مساجد سے متنفر نہ ہوں کہ ہمیں اگر کوئی دین کی بات، کوئی اللہ کی طرف مائل کرنے کی تبلیغ اور کچھ ثواب کی باتیں ملتی ہیں تو وہ ان ہی مراکز سے ملتی ہیں۔ ہاں معاشرے میں ہزاروں کام ہیں، زندگی کے ہر عمل کے بدلے نیکی حاصل کی جاسکتی ہے مگر یہ مراکز معاشرے کےلیے ضروری ہیں۔ اب ان مراکز کےلیے کیا ضروری ہے، ہمیں یہ فیصلہ کرنے کی ضرورت ہے۔ مساجد کمیٹیاں، مدارس کمیٹیاں اور حکومت مل کر ایسا سسٹم بنادے کہ ایسے واقعات کی روک تھام ممکن ہوسکے۔

میری رائے کے مطابق سب سے پہلے حکومت ایک کمیٹی تشکیل دے، جس میں ایک قابل اور باشعور وزیر، ایک اپوزیشن نمائندہ، ایک ماہر قانون، ریٹائرڈ جج، چاروں صوبوں سے اعلیٰ تعلیم یافتہ اساتذہ، اگر ریٹائرڈ وائس چانسلر دستیاب ہوں تو زیادہ بہتر ہے۔ ماہر نفسیات، سیکیورٹی اداروں کے نمائندے، تمام مسالک کا ایک ایک باعمل عالم دین، ایک صحافی، سول سوسائٹی کا نمائندہ اور فائنل ایئر کے چند طلبا، جن میں یونیورسٹی اور مدارس دونوں کے طلبا شامل ہوں۔ یہ کمیٹی چند اہم اور مشکل فیصلے کرے۔

سب سے پہلا کام مدارس کے نصاب میں تبدیلی کرکے اس میں جدید علوم شامل کیے جائیں اور نصاب کو اس طرز پر تیار کیا جائے کہ ان مدارس کا یونیورسٹیز کے ساتھ الحاق کردیا جائے۔ تمام اساتذہ کے کردار اور تعلیمی قابلیت کا جائزہ لے کر ان میں اچھی یونیورسٹیز کے فارغ التحصیل اساتذہ کو بھی مقرر کیا جائے۔ جس کے بعد مدارس کی ڈگریوں پر سرکاری نوکریاں بھی دی جائیں۔ اس تبدیلی کے بعد مدارس کو یونیورسٹی طرز پر چلایا جائے۔

دوسرے نمبر پر کلاس رومز، ہاسٹلز اور اساتذہ کی رہائشگاہیں الگ کردی جائیں۔ کسی بھی استاد کو ہاسٹل اور کسی طالب علم کو اساتذہ کی رہائشگاہ میں جانے کی اجازت نہ ہو۔ استاد اور طالب علم کی ملاقات سب طلبا کے سامنے ہی کلاس روم میں ہو۔ مقامی طلبا کو ہاسٹل کی سہولت نہ دی جائے، جب کہ دوسرے شہروں کے بچوں کو یہ سہولت دی جاسکتی ہے۔ اس کے علاوہ ہر شہر کے مدرسے کو سی سی ٹی وی کیمروں کی مدد سے کنٹرول روم سے منسلک کردیا جائے اور کلاسز اور دیگر حصوں کی مانیٹرنگ کی جائے۔ اس سسٹم کے تحت طلبا کو کسی بھی پریشانی کی صورت میں انتظامیہ کو فوری شکایت کی آن لائن سہولت فراہم کی جائے اور امدادی ٹیم فوری رسپانس کرکے متعلقہ طالب علم کو اس مشکل سے بچا کر ذمے داروں کے خلاف کارروائی کرے۔ اسی طرح بچوں کو دی جانے والی خوراک کو ماہرین غذا کی مدد سے تبدیل کیا جائے اور مینو میں اس طرح کی خوراک شامل کی جائے جس میں ان کی صحت کو ملحوظ خاطر رکھا گیا ہو۔ چنے اور دیگر گرم خوراکوں کی مقدار انتہائی کم کردی جائے۔

حکومت اور مدارس انتظامیہ ان آرا پر سنجیدگی سے غور کریں تو ان مدارس کو بہترین علمی درسگاہوں میں تبدیل کرکے ان کی ساکھ بچائی جاسکتی ہے۔ بصورت دیگر ایسے واقعات ہوتے رہیں گے اور رہی سہی ساکھ بھی ختم ہوجائے گی۔ نتیجتاً ہماری اگلی نسلیں مدارس کے نام سے ہی ڈرنا شروع ہوجائیں گی۔

نوٹ: ایکسپریس نیوز اور اس کی پالیسی کا اس بلاگر کے خیالات سے متفق ہونا ضروری نہیں۔
اگر آپ بھی ہمارے لیے اردو بلاگ لکھنا چاہتے ہیں تو قلم اٹھائیے اور 500 سے 1,000 الفاظ پر مشتمل تحریر اپنی تصویر، مکمل نام، فون نمبر، فیس بک اور ٹوئٹر آئی ڈیز اور اپنے مختصر مگر جامع تعارف کے ساتھ [email protected] پر ای میل کردیجیے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں