جنابِ وزیرِاعظم کے ساتھ ذرا چِین تک
’’ورلڈ اکنامک فورم‘‘ سرمایہ دارانہ قوتوں اور دولتمند و ترقی یافتہ ممالک کا کلب ہے
قارئینِ کرام، جس وقت یہ سطور شایع ہو کر آپ تک پہنچیں گی، ہم چین کے شہر ''تنجن'' (Tianjin) پہنچ چکے ہوں گے۔ دراصل وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف صاحب ''ورلڈ اکنامک فورم'' میں شریک ہو رہے ہیں۔ اِس عالمی شہرت یافتہ فورم (جس میں تقریباً 90 ممالک کے سربراہانِ مملکت، وزرائے اعظم، ارب پتی صنعت کار، جدید ٹیکنالوجسٹس، عالمی شہرت یافتہ ماہرینِ معاشیات اور سائنسدان شریک ہوتے ہیں) کے سالانہ دو اجلاس ہوتے ہیں۔ موسمِ سرما کے دوران سوئٹزر لینڈ میں اور موسمِ گرما کے دوران عموماً چین کے کسی شہر میں۔
کبھی تنجن میں اور کبھی ڈلیان میں۔ موسمِ گرما کے اجلاس میں عموماً برازیل، روس، انڈیا اور چین (BRIC) مرکزی کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ تنجن میں منعقد ہونے والا ''ورلڈ اکنامک فورم'' کا یہ اجلاس سہ روزہ ہو گا۔ گیارہ ستمبر سے لے کر تیرہ ستمبر تک، جس میں شرکت کنندگان کو بہت کچھ سیکھنے سکھانے اور اپنا آپ ''ظاہر'' کرنے کے بے شمار مواقع ملیں گے۔ شرط بس یہ ہے کہ دل، دماغ، آنکھیں اور کان بند نہ ہونے پائیں۔ جناب وزیرِ اعظم پرویز اشرف کا یہ تیسرا غیر ملکی دَور ہے۔
گیلانی صاحب کی رخصتی کے بعد راجہ صاحب وزیرِ اعظم بنے تو سب سے پہلے عمرہ بھی کیا اور خادم الحرمین الشریفین کی زیارت بھی کی۔ دوسرا دَورہ کابل کا تھا کہ وہاں امریکی بھی تو ہیں۔ اب ورلڈ اکنامک فورم میں شرکت، وزیرِ اعظم کی حیثیت سے یقیناً یہ لمحات اُن کے لیے خاصی اہمیت کے حامل ہیں کہ ایکسپوژر کے زبردست لمحات میسّر آئے ہیں۔ چین کا دَورہ کرنا ویسے بھی ہمارے حکمرانوں کے لیے لازم بھی ہے کہ چین ہر مقام پر ہماری دستگیری بھی کرتا ہے اور ہمارے دشمنوں کے سامنے ڈھال بھی بنتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ بعض اوقات ہم اپنی بزدلی کی وجہ سے دشمنوں کے مقابل چین کے دیے گئے مشوروں اور تجاویز پر عمل کرنے میں ناکام رہتے ہیں یا بعض اوقات اُس جانب قدم اٹھانے سے احتراز برتتے ہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم میں پاکستان کے حق میں کوئی مثبت نتیجہ نکلنے کی قوی اُمید ہے۔ بھارت، جو آجکل ہماری قربت کا شدید خواہاں نظر آ رہا ہے، بھی ورلڈ اکنامک فورم کا عالمی میلہ لُوٹنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔
ہم چھ اخبار نویس وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف کے وفد میں شامل ہیں۔ سب کا تعلق پرائیویٹ میڈیا سے ہے۔ چند ایک لوگ سرکاری میڈیا سے بھی شامل ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ وزیرِ اعظم راجہ صاحب کے ساتھ جانے والے یہ چھ اخبار نویس اپنی نوعیت کا مختصر ترین وفد ہیں۔ ابھی تنجن میں بستر کھولیں گے تو معلوم ہو گا کہ بھارت سے کتنے صحافی کوریج کے لیے آئے ہیں۔ چند ماہ قبل جب سید یوسف رضا گیلانی صاحب وزیرِ اعظم پاکستان تھے اور وزارتِ عظمیٰ کے آخری ہلارے لے رہے تھے، تقریباً ڈیڑھ درجن صحافیوں کو وہ اپنی سنگت میں لندن لے گئے۔
اِس پر ''محرومین'' نے خوب واویلا مچایا۔ خصوصاً بعض ٹی وی اینکرز نے دُہائی دیتے ہوئے آسمان سر پر اُٹھا لیا۔ خوب لے دے ہوئی۔ ہمارا خیال ہے اِس بار راجہ پرویز اشرف نے اِس صحافتی ہا ہا کار سے بچنے کے لیے دانستہ چھ صحافیوں کو ساتھ لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ تمام ایڈیٹرز ہیں۔ ممکن ہے اِن میں کوئی جونیئر ہو اور کوئی سینئر لیکن صحافت کے میدان میں کسی کی سنیارٹی کو تسلیم کرنا بھی مشکل ہے اور ڈیفائن کرنا بھی۔
ہم نے تو اپنے ایک گزشتہ غیر ملکی دَورے میں یہ افسوسناک منظر بھی دیکھا کہ ایک سینئر اخبار نویس محض اِس بات پر پاکستانی سفیر کے درپے ہو گئے کہ اُنہیں یہ جرأت کیونکر ہوئی کہ اُنہوں نے ایک جونیئر (بقول اُن کے) جرنلسٹ کو تو وزیرِ اعظم کے لیے سجی مین ٹیبل پر بٹھا دیا لیکن اُسے نظر انداز کر دیا۔ اگر گیلانی صاحب بیچ بچائو نہ کراتے تو باہم دست و گریباں ہونے کا نظارہ ضرور جنم لے سکتا تھا۔ ہمیں یقین ہے کہ اِس مرتبہ ایسا دنگا فساد ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ہم شریف بچے بن کر ورلڈ اکنامک فورم کی سرگرمیاں دیکھنے، سننے، رپورٹ کرنے پر اکتفا کریں گے۔
تقریباً چار عشرے سے زائد عرصہ قبل ''ورلڈ اکنامک فورم'' کا وجود عمل میں آیا۔ سوئٹزر لینڈ کے ایک تعلیمی ادارے، یونیورسٹی آف جنیوا، کے ایک پروفیسر کلیس شواب (جو تجارت کا مضمون پڑھانے پر مامور تھے) نے اِس فورم کی بنیادیں رکھیں۔ ابتدا میں اِس کا نام ''یورپیئن مینجمنٹ فورم'' تھا لیکن سترہ سال بعد، جب اِس کا دائرہ کار خاصا وسیع ہو گیا تھا، اِسے ''ورلڈ اکنامک فورم'' کا نام دے دیا گیا جو صحیح معنوں میں اِسم بامسمٰی ثابت ہوا ہے، اگرچہ اِس کی مخالفت بھی خوب ہو رہی ہے۔
مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ فورم ظالم سرمایہ دارانہ نظام اور مزدوروں کا خون چُوسنے والے سرمایہ کاروں کے تحفظ کا دوسرا نام ہے، اِس کا وجود انسانیت کی فلاح کا باعث نہیں بلکہ یہ استحصال کنندہ قوتوں کے ہاتھ مضبوط کر رہا ہے۔ ہر سال کے آغاز میں فورم کے مخالف گروہ جوق در جوق سوئٹزر لینڈ میں اکٹھا ہوتے ہیں اور اپنے جذبات اور گرمجوش نعروں سے یخ بستہ فضائوں کو گرماتے ہیں۔ حیرت ہے اِس مخالفت کے باوصف ''ورلڈ اکنامک فورم'' کے قدم آگے ہی آگے بڑھتے جا رہے ہیں اور اِس کی مقبولیت میں کمی آنے کے بجائے، اضافہ ہی ہوا ہے۔
اِس کا اندازہ اِس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1971ء میں جب اِس کا اوّلین اجلاس منعقد ہوا تو شرکت کنندہ ارکان کی تعداد 444 تھی جب کہ رواں لمحوں میں ارکان کی تعداد ڈھائی ہزار سے تجاوز کر رہی ہے۔ (اگرچہ فورم کی بنیاد رکھنے والی تجارتی کمپنیوں کی تعداد صرف ایک ہزار تھی)
یہ حقیقت ہے کہ ''ورلڈ اکنامک فورم'' سرمایہ دارانہ قوتوں اور دولتمند و ترقی یافتہ ممالک کا کلب ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس نے دنیا کے بہت سے تنازعات بھی نمٹانے اور حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ بدقسمتی سے گنجلک مسئلہ کشمیر حل کرانے کی اِس فورم نے کبھی تکلیف گوارا کی ہے نہ اِس کا مضبوط الفاظ میں کبھی ذکر ہی کیا ہے۔ غالباً اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت اِس فورم پر چھایا ہوا نظر آتا ہے اور پاکستان پر مجاہدینِ اسلام کی شدید سرگرمیوں کی وجہ سے جو الزامات عائد ہو رہے ہیں، اِس نے ہمیں عقبی صفوں میں دھکیل دیا ہے۔
اِس بار ہم یہاں سے کیا حاصل کر پائیں گے، یہ اگلے چند روز میں سامنے آ جائے گا۔
رسید: ہمارے ایک کالم بعنوان ''یہ پھر ایک ہو جائیں گے'' کے ردِعمل میں تحریکِ انصاف اور جناب عمران خان سے محبت کرنے والوں میں سے کئی ایک نے بذریعہ فون اور ای میل ہم سے رابطہ کیا۔ اِن فون کالز اور ای میلز میں زیادہ تعداد نے اِس کالم میں مندرج کپتان خان کے حوالے سے بعض حقائق کی بنیاد پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
یہ ناپسندیدگی گالیوں کی شکل میں بھی آئی ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ عمران کے بارے میں اگر معلومات نہیں تھیں تو کالم کیوں لکھا گیا؟ عدنان اقبال، اسٹار رائس ملز، ٹیمی خان، فیصل عمران وغیرہ نے ای میلز میں ہماری سرزنش کرتے ہوئے جو کچھ بھی لکھا ہے، وہ تقریباً ایک جیسا موقف ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ایک ہی جگہ پر بیٹھ کر ایک ہی شخص نے ردِعمل کا اظہار کر دیا ہے۔ سب نے لکھا ہے کہ فرزندانِ عمران کو فرزندانِ نواز شریف کے مساوی رکھا جا سکتا ہے نہ دونوں میں کوئی قدرِ مشترک ہے۔
ای میلز میں اِس موقف کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ عمران صاحب کے صاحبزادگان کو قانونی بنیاد پر برطانیہ سے پاکستان نہیں لایا جا سکتا ہے جب کہ نواز شریف کے دونوں لختِ جگر تو محض اپنے کاروباری معاملات کو وسیع سے وسیع تر کرنے کے لیے لندن میں براجمان ہیں اور موجیں مار رہے ہیں۔ البتہ آسٹریلیا سے آنے والے وسیم عالم صاحب کے برقی خط میں یہ لکھا گیا ہے: ''آپ نے اپنے کالم میں عمران خان اور نواز شریف کے سیاسی و معاشی معاملات کا جو تقابل کیا ہے، اِس سے اتفاق کرتا ہوں۔
سچی بات یہ ہے کہ میَں بھی عمران خان کو مستقبل کے لیے امید کی کرن سمجھتا رہا ہوں لیکن اُنہوں نے گزشتہ کئی ایام سے نواز شریف کے خلاف الزامات کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے، اِس نے مجھے سخت مایوس کیا ہے۔ خصوصاً عمران خان کی طرف سے نواز شریف کے نام جاری کیے گئے سوالات میں سے گیارہویں سوال نے مجھے بہت تکلیف دی ہے۔ عمران صاحب کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا۔''
کبھی تنجن میں اور کبھی ڈلیان میں۔ موسمِ گرما کے اجلاس میں عموماً برازیل، روس، انڈیا اور چین (BRIC) مرکزی کردار ادا کرتے نظر آتے ہیں۔ تنجن میں منعقد ہونے والا ''ورلڈ اکنامک فورم'' کا یہ اجلاس سہ روزہ ہو گا۔ گیارہ ستمبر سے لے کر تیرہ ستمبر تک، جس میں شرکت کنندگان کو بہت کچھ سیکھنے سکھانے اور اپنا آپ ''ظاہر'' کرنے کے بے شمار مواقع ملیں گے۔ شرط بس یہ ہے کہ دل، دماغ، آنکھیں اور کان بند نہ ہونے پائیں۔ جناب وزیرِ اعظم پرویز اشرف کا یہ تیسرا غیر ملکی دَور ہے۔
گیلانی صاحب کی رخصتی کے بعد راجہ صاحب وزیرِ اعظم بنے تو سب سے پہلے عمرہ بھی کیا اور خادم الحرمین الشریفین کی زیارت بھی کی۔ دوسرا دَورہ کابل کا تھا کہ وہاں امریکی بھی تو ہیں۔ اب ورلڈ اکنامک فورم میں شرکت، وزیرِ اعظم کی حیثیت سے یقیناً یہ لمحات اُن کے لیے خاصی اہمیت کے حامل ہیں کہ ایکسپوژر کے زبردست لمحات میسّر آئے ہیں۔ چین کا دَورہ کرنا ویسے بھی ہمارے حکمرانوں کے لیے لازم بھی ہے کہ چین ہر مقام پر ہماری دستگیری بھی کرتا ہے اور ہمارے دشمنوں کے سامنے ڈھال بھی بنتا ہے۔ یہ علیحدہ بات ہے کہ بعض اوقات ہم اپنی بزدلی کی وجہ سے دشمنوں کے مقابل چین کے دیے گئے مشوروں اور تجاویز پر عمل کرنے میں ناکام رہتے ہیں یا بعض اوقات اُس جانب قدم اٹھانے سے احتراز برتتے ہیں۔
ورلڈ اکنامک فورم میں پاکستان کے حق میں کوئی مثبت نتیجہ نکلنے کی قوی اُمید ہے۔ بھارت، جو آجکل ہماری قربت کا شدید خواہاں نظر آ رہا ہے، بھی ورلڈ اکنامک فورم کا عالمی میلہ لُوٹنے کی تیاریاں کر رہا ہے۔
ہم چھ اخبار نویس وزیرِ اعظم راجہ پرویز اشرف کے وفد میں شامل ہیں۔ سب کا تعلق پرائیویٹ میڈیا سے ہے۔ چند ایک لوگ سرکاری میڈیا سے بھی شامل ہیں۔ ہمارا خیال ہے کہ وزیرِ اعظم راجہ صاحب کے ساتھ جانے والے یہ چھ اخبار نویس اپنی نوعیت کا مختصر ترین وفد ہیں۔ ابھی تنجن میں بستر کھولیں گے تو معلوم ہو گا کہ بھارت سے کتنے صحافی کوریج کے لیے آئے ہیں۔ چند ماہ قبل جب سید یوسف رضا گیلانی صاحب وزیرِ اعظم پاکستان تھے اور وزارتِ عظمیٰ کے آخری ہلارے لے رہے تھے، تقریباً ڈیڑھ درجن صحافیوں کو وہ اپنی سنگت میں لندن لے گئے۔
اِس پر ''محرومین'' نے خوب واویلا مچایا۔ خصوصاً بعض ٹی وی اینکرز نے دُہائی دیتے ہوئے آسمان سر پر اُٹھا لیا۔ خوب لے دے ہوئی۔ ہمارا خیال ہے اِس بار راجہ پرویز اشرف نے اِس صحافتی ہا ہا کار سے بچنے کے لیے دانستہ چھ صحافیوں کو ساتھ لے جانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ تمام ایڈیٹرز ہیں۔ ممکن ہے اِن میں کوئی جونیئر ہو اور کوئی سینئر لیکن صحافت کے میدان میں کسی کی سنیارٹی کو تسلیم کرنا بھی مشکل ہے اور ڈیفائن کرنا بھی۔
ہم نے تو اپنے ایک گزشتہ غیر ملکی دَورے میں یہ افسوسناک منظر بھی دیکھا کہ ایک سینئر اخبار نویس محض اِس بات پر پاکستانی سفیر کے درپے ہو گئے کہ اُنہیں یہ جرأت کیونکر ہوئی کہ اُنہوں نے ایک جونیئر (بقول اُن کے) جرنلسٹ کو تو وزیرِ اعظم کے لیے سجی مین ٹیبل پر بٹھا دیا لیکن اُسے نظر انداز کر دیا۔ اگر گیلانی صاحب بیچ بچائو نہ کراتے تو باہم دست و گریباں ہونے کا نظارہ ضرور جنم لے سکتا تھا۔ ہمیں یقین ہے کہ اِس مرتبہ ایسا دنگا فساد ہونے کا کوئی امکان نہیں ہے۔ ہم شریف بچے بن کر ورلڈ اکنامک فورم کی سرگرمیاں دیکھنے، سننے، رپورٹ کرنے پر اکتفا کریں گے۔
تقریباً چار عشرے سے زائد عرصہ قبل ''ورلڈ اکنامک فورم'' کا وجود عمل میں آیا۔ سوئٹزر لینڈ کے ایک تعلیمی ادارے، یونیورسٹی آف جنیوا، کے ایک پروفیسر کلیس شواب (جو تجارت کا مضمون پڑھانے پر مامور تھے) نے اِس فورم کی بنیادیں رکھیں۔ ابتدا میں اِس کا نام ''یورپیئن مینجمنٹ فورم'' تھا لیکن سترہ سال بعد، جب اِس کا دائرہ کار خاصا وسیع ہو گیا تھا، اِسے ''ورلڈ اکنامک فورم'' کا نام دے دیا گیا جو صحیح معنوں میں اِسم بامسمٰی ثابت ہوا ہے، اگرچہ اِس کی مخالفت بھی خوب ہو رہی ہے۔
مخالفت کرنے والوں کا کہنا ہے کہ یہ فورم ظالم سرمایہ دارانہ نظام اور مزدوروں کا خون چُوسنے والے سرمایہ کاروں کے تحفظ کا دوسرا نام ہے، اِس کا وجود انسانیت کی فلاح کا باعث نہیں بلکہ یہ استحصال کنندہ قوتوں کے ہاتھ مضبوط کر رہا ہے۔ ہر سال کے آغاز میں فورم کے مخالف گروہ جوق در جوق سوئٹزر لینڈ میں اکٹھا ہوتے ہیں اور اپنے جذبات اور گرمجوش نعروں سے یخ بستہ فضائوں کو گرماتے ہیں۔ حیرت ہے اِس مخالفت کے باوصف ''ورلڈ اکنامک فورم'' کے قدم آگے ہی آگے بڑھتے جا رہے ہیں اور اِس کی مقبولیت میں کمی آنے کے بجائے، اضافہ ہی ہوا ہے۔
اِس کا اندازہ اِس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ 1971ء میں جب اِس کا اوّلین اجلاس منعقد ہوا تو شرکت کنندہ ارکان کی تعداد 444 تھی جب کہ رواں لمحوں میں ارکان کی تعداد ڈھائی ہزار سے تجاوز کر رہی ہے۔ (اگرچہ فورم کی بنیاد رکھنے والی تجارتی کمپنیوں کی تعداد صرف ایک ہزار تھی)
یہ حقیقت ہے کہ ''ورلڈ اکنامک فورم'' سرمایہ دارانہ قوتوں اور دولتمند و ترقی یافتہ ممالک کا کلب ہے لیکن یہ بھی حقیقت ہے کہ اِس نے دنیا کے بہت سے تنازعات بھی نمٹانے اور حل کرنے کی کوشش کی ہے۔ بدقسمتی سے گنجلک مسئلہ کشمیر حل کرانے کی اِس فورم نے کبھی تکلیف گوارا کی ہے نہ اِس کا مضبوط الفاظ میں کبھی ذکر ہی کیا ہے۔ غالباً اِس کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ بھارت اِس فورم پر چھایا ہوا نظر آتا ہے اور پاکستان پر مجاہدینِ اسلام کی شدید سرگرمیوں کی وجہ سے جو الزامات عائد ہو رہے ہیں، اِس نے ہمیں عقبی صفوں میں دھکیل دیا ہے۔
اِس بار ہم یہاں سے کیا حاصل کر پائیں گے، یہ اگلے چند روز میں سامنے آ جائے گا۔
رسید: ہمارے ایک کالم بعنوان ''یہ پھر ایک ہو جائیں گے'' کے ردِعمل میں تحریکِ انصاف اور جناب عمران خان سے محبت کرنے والوں میں سے کئی ایک نے بذریعہ فون اور ای میل ہم سے رابطہ کیا۔ اِن فون کالز اور ای میلز میں زیادہ تعداد نے اِس کالم میں مندرج کپتان خان کے حوالے سے بعض حقائق کی بنیاد پر ناپسندیدگی کا اظہار کیا ہے۔
یہ ناپسندیدگی گالیوں کی شکل میں بھی آئی ہے اور یہ بھی لکھا ہے کہ عمران کے بارے میں اگر معلومات نہیں تھیں تو کالم کیوں لکھا گیا؟ عدنان اقبال، اسٹار رائس ملز، ٹیمی خان، فیصل عمران وغیرہ نے ای میلز میں ہماری سرزنش کرتے ہوئے جو کچھ بھی لکھا ہے، وہ تقریباً ایک جیسا موقف ہے۔ یوں محسوس ہوتا ہے جیسے ایک ہی جگہ پر بیٹھ کر ایک ہی شخص نے ردِعمل کا اظہار کر دیا ہے۔ سب نے لکھا ہے کہ فرزندانِ عمران کو فرزندانِ نواز شریف کے مساوی رکھا جا سکتا ہے نہ دونوں میں کوئی قدرِ مشترک ہے۔
ای میلز میں اِس موقف کا بھی اظہار کیا گیا ہے کہ عمران صاحب کے صاحبزادگان کو قانونی بنیاد پر برطانیہ سے پاکستان نہیں لایا جا سکتا ہے جب کہ نواز شریف کے دونوں لختِ جگر تو محض اپنے کاروباری معاملات کو وسیع سے وسیع تر کرنے کے لیے لندن میں براجمان ہیں اور موجیں مار رہے ہیں۔ البتہ آسٹریلیا سے آنے والے وسیم عالم صاحب کے برقی خط میں یہ لکھا گیا ہے: ''آپ نے اپنے کالم میں عمران خان اور نواز شریف کے سیاسی و معاشی معاملات کا جو تقابل کیا ہے، اِس سے اتفاق کرتا ہوں۔
سچی بات یہ ہے کہ میَں بھی عمران خان کو مستقبل کے لیے امید کی کرن سمجھتا رہا ہوں لیکن اُنہوں نے گزشتہ کئی ایام سے نواز شریف کے خلاف الزامات کا جو سلسلہ شروع کر رکھا ہے، اِس نے مجھے سخت مایوس کیا ہے۔ خصوصاً عمران خان کی طرف سے نواز شریف کے نام جاری کیے گئے سوالات میں سے گیارہویں سوال نے مجھے بہت تکلیف دی ہے۔ عمران صاحب کو ایسا نہیں کرنا چاہیئے تھا۔''