بھارت کی نئی سیاسی قوت ’’عام آدمی پارٹی‘‘

کل کی سی بات لگتی ہے جب بھارت کے سیاسی افق پر صرف ایک ہی سیاسی جماعت چھائی ہوئی تھی اور وہ تھی انڈین ...


Shakeel Farooqi January 20, 2014
[email protected]

کل کی سی بات لگتی ہے جب بھارت کے سیاسی افق پر صرف ایک ہی سیاسی جماعت چھائی ہوئی تھی اور وہ تھی انڈین نیشنل کانگریس۔ بہرحال ہندوستان کی آزادی کے بعد کانگریس وہ واحد سیاسی جماعت تھی جس کا کوئی ثانی اور مدمقابل نہ تھا۔ چنانچہ پورے ہندوستان میں صرف اسی کا طوطی بولتا تھا۔ جب تک گاندھی جی زندہ رہے تب تک وہی اس کے سرکردہ رہنما رہے۔ہندوستان کی آزادی کو ابھی زیادہ دن نہ گزرے تھے کہ ناتھورام گوڈسے نامی ایک انتہا پسند ہندو نے جس کا تعلق ہندوؤں کی شدت پسند جماعت راشٹریہ سوئم سیوک سنگھ سے بتایا جاتا ہے گاندھی جی کو قتل کردیا جس کے بعد کانگریس کی باگ ڈور مکمل طور پر دوسرے نمبر کے قائد پنڈت جواہر لعل نہرو کے ہاتھوں میں آگئی جو ہندوستان کے اولین وزیر اعظم بنے اور عرصہ دراز تک تادم آخر ہندوستان پر بلاشرکت غیرے راج کرتے رہے۔اس میں کوئی شک نہیں کہ پنڈت نہرو ہندوستان کی سب سے مقبول شخصیت ثابت ہوئے جس کی بدولت کانگریس پارٹی کو دیگر سیاسی جماعتوں پر بالکل واضح برتری اور نمایاں سبقت حاصل رہی۔ کانگریس کے اس سنہری دور کو ہم نے اپنی آنکھوں سے دیکھا ہے۔

کانگریس کی برتری کا یہ سنہری دور بنیادی طور پر پنڈت نہرو کی عوامی مقبولیت کا مرہون منت تھا۔ ان کی شخصیت میں ایک مقناطیسی کشش تھی جس کا اعتراف نہ کرنا حقیقت سے انکار کے مترادف ہوگا۔ کسانوں میں ان کی مقبولیت سب سے زیادہ تھی جس کا سبب ہندوستان میں زمیندارانہ اور جاگیر دارانہ نظام کا خاتمہ تھا۔ چناں چہ کانگریس کا انتخابی نشان بیلوں کی جوڑی قرار پایا اور عرصہ دراز تک ہندوستان کی انتخابی مہموں میں صرف ایک ہی نعرہ دیگر تمام نعروں پر حاوی رہا اور یہ تھا کانگریس کا مقبول عام عوامی نعرہ ''کانگریس نے دی آزادی' زنجیر غلامی کی توڑی۔ ووٹ ہمارا وہیں پڑے گا جہاں بنی بیلوں کی جوڑی''۔آزاد ہندوستان کی سیاست پر ایک طویل مدت تک جواہر لعل نہرو اور ان کی سیاسی جماعت کانگریس کی حکمرانی رہی اور نہرو ہندوستان کے بے تاج بادشاہ بنے رہے۔ لیکن قدرت کا یہ نظام ہے کہ ہر کمال کا ایک نہ ایک دن زوال ضرور ہوتا ہے۔ 1962 میں چین کے ساتھ جنگ مول لینے کا سودا پنڈت نہرو کو بڑا مہنگا پڑا جس کے نتیجے میں نہ صرف ان کی صحت کو بلکہ ان کی ساکھ کو بھی ناقابل تلافی نقصان پہنچا اور بالآخر اقتدار پر سے کانگریس کی گرفت ڈھیلی پڑنے کا آغاز ہوگیا۔

البتہ بھارت کی چین سے محاذ آرائی وطن عزیز پاکستان کے حق میں نیک فال ثابت ہوئی۔ یہ اور بات ہے کہ پاکستان کی اس وقت کی قیادت بھارت چین جنگ سے فائدہ نہ اٹھا سکی اور اس نے یہ سنہری اور تاریخی موقع اپنے ہاتھوں سے گنوا دیا ورنہ شاید کشمیر کا تنازعہ ہمیشہ کے لیے حل ہوچکا ہوتا۔ کانگریس پارٹی کی پرانی قیادت کے پاس ترپ کا سب سے بڑا پتہ ان مسلم رائے دہندگان کی حمایت کی صورت میں تھا جن کے پاس تقسیم ہند کے بعد سیکولرزم کی دعویدار جماعت کانگریس کا ساتھ دینے کے علاوہ اور کوئی چارہ کار باقی نہ تھا کیونکہ یہ بے چارے نہ تو لادین کمیونسٹ پارٹی کا ساتھ دے سکتے تھے اور نہ ہی انتہا پسند ہندو جماعتوں کا جو کھلم کھلا اسلام اور مسلمانوں کی ازلی دشمن ہیں۔ اس وقت ہمیں ہندوستان کی ایک اور سیاسی جماعت ستونتر پارٹی یاد آ رہی ہے ۔ یہ پارٹی ساٹھ کی دہائی میں اس وقت ابھری تھی جب کانگریس کے زوال کے ہلکے ہلکے آثار ظاہر ہونے لگے تھے۔ اس سیاسی جماعت کی بنیاد ہندوستان کے جانے مانے سیاسی رہنما سی راج گوپال آچاریا نے رکھی تھی جنھیں آزاد ہندوستان کا دوسرا مگر بحیثیت ہندوستانی پہلا گورنر جنرل بننے کا اعزاز حاصل ہوا تھا۔ ہمیں اس شام کا منظر یاد ہے جب ہندوستان کی راجدھانی دلی کے مشہور کمپنی باغ کے ایک عوامی جلسے سے خطاب کے آغاز میں ڈھلتے ہوئے سورج کی جانب اشارہ کرتے ہوئے راجا جی (سی راج گوپال آچاریہ) نے انگریزی زبان میں یہ پیش گوئی کی تھی"See! The sun is setting similarly the sun of congress will set soon"

ترجمہ: دیکھیے! سورج غروب ہو رہا ہے، اسی طرح کانگریس کا سورج عنقریب غروب ہوجائے گا''۔

آج جب کہ ہندوستان کے آیندہ عام انتخابات کے انعقاد میں لگ بھگ تین چار ماہ ہی باقی رہ گئے ہیں کانگریس پارٹی کی نیا بری طرح سے ڈول رہی ہے۔ اس کے اقتدار کا سورج ماضی کی طرح ایک مرتبہ پھر غروب ہونے کے خدشے سے دوچار ہے۔ گاندھی اور نہرو کی اس جماعت کی بعد کی قیادت نے جو فصل تاریخی بابری مسجد کی شہادت جیسے مسلم کش واقعات اور معاملات کی صورت میں بوئی تھی اسے کاٹنے کا وقت قریب سے قریب آ رہا ہے۔ راجدھانی دلی میں تیزی کے ساتھ ابھرتی ہوئی نئی مقبول عام سیاسی جماعت نے نہ صرف اس کا صفایا کردیا ہے بلکہ دیگر پارٹیوں بشمول انتہا پسند ہندو جماعتوں کے دانت بھی کھٹے کردیے ہیں۔ بھارت کے روایتی سیاسی نظام میں زلزلہ برپا کردینے والی یہ وہ سیاسی جماعت ''عام آدمی پارٹی'' ہے جس کا تذکرہ اپنے ایک پچھلے کالم میں ہم نے آپ سے کچھ عرصہ پہلے کیا تھا اور جس نے آج ہندوستان کی دیگر تمام سیاسی پارٹیوں کی صفوں میں کھلبلی پیدا کردی ہے۔

عام آدمی کی امنگوں سے ہم آہنگ اور عوام کی اندھیری زندگیوں میں امید کی روشن کرن بن کر ابھرنے والی اس ولولہ انگیز اور عوام دوست نئی سیاسی جماعت کی مقبولیت ہندوستان میں جنگل کی آگ کی طرح پھیل رہی ہے۔ عام آدمی پارٹی کی طوفانی رفتار سے گھبرا کر صرف کانگریس والے ہی نہیں بلکہ انتہا پسند ہندو جماعتوں آر ایس ایس اور بی جے پی کے مسلمانوں کے خون کے پیاسے نریندر مودی جیسے موذی اور درندہ صفت نیتا بھی اب بری طرح بوکھلا کر Back Foot پر جاتے ہوئے نظر آ رہے ہیں۔ اور تو اور خود وطن عزیز میں نام نہاد جمہوریتوں کے ڈسے ہوئے عوام جن کی روز افزوں مہنگائی اور بے روزگاری نے کمر توڑ دی ہے اور لاقانونیت اور بجلی و گیس کی لوڈ شیڈنگ نے زندگی اجیرن کرکے رکھ دی ہے اب حسرت و یاس کی کیفیت میں اس خواہش کا اظہار کرنے لگے ہیں کہ کاش وطن عزیز میں بھی کوئی عام آدمی پارٹی ابھر کر سامنے آئے اور یہاں کے مظلوم عوام کو نجات دلائے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔