پیشاب کے ذریعے دماغی رسولی کا سراغ لگانے والا ٹیسٹ
یہ ٹیسٹ پیشاب میں مائیکرو آر این اے کی بنیاد پر دماغی رسولی کا 97 فیصد درستگی سے پتا چلا سکتا ہے
دماغی کینسر کی شناخت بہت مشکل ہوتی ہے۔ جب مرض جڑ پکڑ چکا ہوتا ہے تو دردِ سر، غنودگی اور بولنے میں دقت ہوتی ہے۔ اسی لیے اب پیشاب کے ایک سادہ ٹیسٹ کی بدولت دماغی رسولی کا سراغ لگانے میں غیرمعمولی کامیابی ملی ہے۔
ہم جانتے ہیں کہ سرطان کا معاملہ جتنی جلد سمجھ میں آجائے، معالجہ اتنا ہی آسان ہوجاتا ہے۔ جاپان کی ناگویا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے پیشاب کا ایک سادہ ٹیسٹ وضع کیا ہے جس کی بدولت دماغی رسولی کی بہت حد تک درست تشخیص کی جاسکتی ہے۔
اگرچہ اس سے قبل مثانے، پروسٹیٹ، پتے اور پھیپھڑے کے سرطان کےلیے پیشاب کے ٹیسٹ وضع کیے جاچکے ہیں لیکن اب جاپانی ٹیم نے خرد (مائیکرو)آراین اے کو استعمال کیا ہے جو 1993 میں دریافت ہوا تھا۔ اس میں ماہرین آراین اے کے ایسے چھوٹے ٹکڑوں کا مطالعہ کرتے ہیں جو کسی قسم کی کوڈنگ میں حصہ نہیں لیتے، تاہم سرطان کی صورت میں ان کی ظاہری ساخت اور افعال، بیماری کا پتا دیتے ہیں۔
اس کی تصدیق کےلیے ماہرین نے دماغی رسولی والے مریضوں کے بھیجے سے نمونے حاصل کئے اور ان میں مائیکروآراین اے کو دیکھا۔ اس کے بعد انہی کے پیشاب کا جائزہ لیا تو وہی مائیکروآراین اے پائے گئے۔ سائنسدانوں نے زنک آکسائیڈ کے دس کروڑ انتہائی باریک نینوتاروں پر مشتمل ایک آلہ بنایا ہے جو پیشاب میں مائیکرو آر این اے کے ذرات کو پکڑ لیتا ہے۔
تحقیق میں شامل پروفیسر آتسوشی ناتسومی نے کہا کہ انسانی پیشاب بہت سے امراض کی خبر دیتا ہے لیکن ہم نے اسے نظر انداز کررکھا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس میں سے آر این اے کو کشید کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ 'اب نئی ایجاد سے ہم یہ کام آسانی سے کرسکتے ہیں،' انہوں نے بتایا۔
اگلے مرحلے میں مائیکرو آر این اے کی مدد سے مرض کی تشخیصی ماڈل بنایا گیا تو وہ 97 فیصد درستگی سے دماغی سرطان کی خبردینے لگا۔ اگلے مرحلے میں اسے مصنوعی ذہانت کے ملاپ سے مزید طاقتور اور مؤثر بنانا ممکن ہوگا۔
ہم جانتے ہیں کہ سرطان کا معاملہ جتنی جلد سمجھ میں آجائے، معالجہ اتنا ہی آسان ہوجاتا ہے۔ جاپان کی ناگویا یونیورسٹی کے سائنسدانوں نے پیشاب کا ایک سادہ ٹیسٹ وضع کیا ہے جس کی بدولت دماغی رسولی کی بہت حد تک درست تشخیص کی جاسکتی ہے۔
اگرچہ اس سے قبل مثانے، پروسٹیٹ، پتے اور پھیپھڑے کے سرطان کےلیے پیشاب کے ٹیسٹ وضع کیے جاچکے ہیں لیکن اب جاپانی ٹیم نے خرد (مائیکرو)آراین اے کو استعمال کیا ہے جو 1993 میں دریافت ہوا تھا۔ اس میں ماہرین آراین اے کے ایسے چھوٹے ٹکڑوں کا مطالعہ کرتے ہیں جو کسی قسم کی کوڈنگ میں حصہ نہیں لیتے، تاہم سرطان کی صورت میں ان کی ظاہری ساخت اور افعال، بیماری کا پتا دیتے ہیں۔
اس کی تصدیق کےلیے ماہرین نے دماغی رسولی والے مریضوں کے بھیجے سے نمونے حاصل کئے اور ان میں مائیکروآراین اے کو دیکھا۔ اس کے بعد انہی کے پیشاب کا جائزہ لیا تو وہی مائیکروآراین اے پائے گئے۔ سائنسدانوں نے زنک آکسائیڈ کے دس کروڑ انتہائی باریک نینوتاروں پر مشتمل ایک آلہ بنایا ہے جو پیشاب میں مائیکرو آر این اے کے ذرات کو پکڑ لیتا ہے۔
تحقیق میں شامل پروفیسر آتسوشی ناتسومی نے کہا کہ انسانی پیشاب بہت سے امراض کی خبر دیتا ہے لیکن ہم نے اسے نظر انداز کررکھا ہے۔ اس کی وجہ شاید یہ ہے کہ اس میں سے آر این اے کو کشید کرنا بہت مشکل ہوتا ہے۔ 'اب نئی ایجاد سے ہم یہ کام آسانی سے کرسکتے ہیں،' انہوں نے بتایا۔
اگلے مرحلے میں مائیکرو آر این اے کی مدد سے مرض کی تشخیصی ماڈل بنایا گیا تو وہ 97 فیصد درستگی سے دماغی سرطان کی خبردینے لگا۔ اگلے مرحلے میں اسے مصنوعی ذہانت کے ملاپ سے مزید طاقتور اور مؤثر بنانا ممکن ہوگا۔