حالات شاندار حد تک خراب ہیں
گزشتہ دنوں برِصغیر کے سرکردہ مارکسسٹ مفکر اور ادیب سجاد ظہیر کی صاحبزادی نور ظہیر پاکستان آئیں۔
گزشتہ دنوں برِصغیر کے سرکردہ مارکسسٹ مفکر اور ادیب سجاد ظہیر کی صاحبزادی نور ظہیر پاکستان آئیں۔ ان کے اعزاز میں کراچی ، لاہور اور اسلام آباد میں کئی نشستیں بھی ہوئیں۔ نور کا جتنا تعلق ہندوستان سے ہے اتنا ہی پاکستان سے بھی ہے۔اس اعتبار سے کہ ان کے والد سجاد ظہیر نہ صرف کیمونسٹ پارٹی آف انڈیا کے ابتدائی ارکان میں سے تھے بلکہ تقسیم کے بعد کیمونسٹ پارٹی آف پاکستان کے پہلے سیکریٹری جنرل بھی بنے۔پھر راولپنڈی سازش کیس میں جنرل اکبر خان اور فیض صاحب وغیرہ کے ساتھ پکڑے بھی گئے اور سن چون میں بھارت بھیج دیے گئے۔سجاد ظہیر انجمن ترقی پسند مصنفین کے ہراول دستے میں بھی تھے۔ان کی اہلیہ رضیہ بھی اسی دستے کا حصہ تھیں۔تقسیم کے بعد یہ انجمن بھی دو حصوں میں بٹ گئی۔بعد ازاں ایفرو ایشیائی ادیبوں کی انجمن کے توسط سے جانبین کا ایک دوسرے سے ربط ضبط برقرار رہا۔سجاد ظہیر سن تہتر میں اور رضیہ سجاد چار بیٹیوں کی نشانی چھوڑ کے اناسی میں دنیا سے رخصت ہوئیں۔ نور اپنے تخلیقی ڈی این اے کا ثبوت مائی گاڈ از اے وومین (ناول ) ،میرے حصے کی روشنی ، سرخ کارواں کے ہمسفر ( سفری رپورتاژ) اور ریت پر خون ( افسانوی مجموعہ ) جیسی تخلیقات دے چکی ہیں۔
لہذا نور ظہیر جب بھی پاکستان آتی ہیں تو ماضی کے نوجوان ترقی پسند کچھ دیر کے لیے اپنی بابائیت فراموش کرکے اس گم گشتہ آسمان کو تکنے لگتے ہیں جہاں منشی پریم چند ، کرشن چندر ، احمد علی ، رشید جہاں ، بیدی ، عصمت ، ملک راج آنند ، حسرت ، جوش، فراق ، مجنوں ، مخدوم ، مجاز ، امرتا ، ساحر ، تاثیر ، فیض ، اختر حسین رائے پوری ، علی سردار ، کیفی ، مجروح ، علی عباس حسینی ، منظور حسین شور ، احمد ندیم قاسمی ، احتشام حسین ، ممتاز حسین ، ظ انصاری ، فراز ، فارغ بخاری اور خاطر غزنوی سمیت بیسیوں ٹمٹماتے ستارے بابوں کی یادوں ، امیدوں اور نیم جاں امنگوں کو آج بھی منعکس کررہے ہیں۔
شائد اسی لیے ایسی ہر تقریب میں یہ بات ضرور اٹھتی ہے کہ ترقی پسند تحریک کو دوبارہ فعال کیا جائے ، اس میں نیا خون لایا جائے۔ٹھیک ہے زمانہ بدل گیا ہے مگر مسائل کی جڑ تو وہی اور وہیں ہے۔اگر انیسویں صدی میں پروگریسو کا یہ مطلب تھا کہ ایسے لوگ جو محکوموں کے لیے بہتر مستقبل چاہتے ہیں اور سماجی ترقی کے جدید طریقے اپنا کر سوسائٹی کو آگے لے جانا چاہتے ہیں تو آج بھی پروگریسو کا یہی مطلب ہے اور کل بھی یہی ہوگا۔لیکن پتہ نہیں آج کے نوجوان یہ بات کیوں نہیں سمجھتے اور ترقی پسندی کا جھنڈا کیوں نہیں اٹھاتے اور یہ کہ کون کہتا ہے کہ نظریاتی کش مکش ختم ہوگئی بلکہ یہ تو وقت کے ساتھ ساتھ اور سفاک ہوتی چلی جارہی ہے وغیرہ وغیرہ وغیرہ۔۔۔
حالانکہ مجھے بابوں کے مذکورہ دلائل سے مکمل اتفاق ہے۔پھر بھی جب جب میں اس طرح کی باتیں سنتا ہوں توذہن میں اپنے اکہتر سالہ ماموں مولوی بقا الدین فنا کا چہرہ گھوم جاتا ہے۔بچپنے سے براستہ جوانی ادھیڑ عمری کے پلیٹ فارم پر اترتے اترتے میری کنپٹیاں سفید ہوگئیں مگر ماموں بقا الدین فنا کا وعظ وہیں کا وہیں ہے کہ آج کی نسل کو دوبارہ دین کی طرف راغب کرنے کی ضرورت ہے۔آج پھر ایک محمود عزنوی اور محمد بن قاسم اور صلاح الدین ایوبی اور طارق بن زیادہ چاہیے جو اس سوئی ہوئی قوم کو بیدار کردے اور اسے اس کا فرض یاد دلائے۔آج پھر اسلامی نشاتہ ثانیہ کی بحالی کے لیے اس پیغام کے احیا کی ضرورت ہے جو جوانوں کو اقبال کا شاہین بنا دے اور وہ پلٹ کر جھپٹیں اور جھپٹ کر پلٹیں اور طاغوتی انا اور ظلم کے ضابطوں کو '' فاڑ ''کے رکھ دیں۔ماموں بقا کی جلالی جھنجھلاہٹ ہمیشہ کی طرح سر آنکھوں پر مگر امی بتاتی ہیں کہ ماموں بقا نے گھر اور دفتر میں ہمیشہ افسری کی اور مجال ہے کہ کبھی اٹھ کر پانی پیا ہو۔۔۔۔۔۔۔
ایسی تقاریب میں اسی فیصد شرکا وہ ہوتے ہیں جو اپنی عملی عمر گذار چکے۔جو اکا دکا متجسس نوجوان ان تقاریب میں دکھ جاتے ہیں، وہ بھی اکثر سوال و جواب کے چکر میں پڑنے کے بجائے بہ سبب تعظیم بابوں کی بات پر سر ہلا دیتے ہیں۔کیونکہ جیسے بابے یہ سمجھتے ہیں کہ آج کی ڈیجیٹل نسل ان کی بات نہیں سمجھ رہی، اسی طرح نوجوان بھی یہی سمجھتے ہیں کہ بابوں سے بحث کا کوئی فائدہ نہیں کیونکہ یا تو وہ بات نہیں سمجھیں گے یا اپنی بات پر اٹل رہیں گے یا ہوسکتا ہے قائل ہونے کی نوبت آنے سے پہلے پہلے حفظِ ماتقدم کے طور پر ڈانٹ پھٹکار بھی دیں اور پھر چمکارتے ہوئے اپنی سرپرستی میں لے لیں کہ بیٹا جی تم جب پیدا بھی نہیں ہوئے تھے تو ہم ایوب خانی آمریت کے خلاف نعرے لگا رہے تھے اور اپنے سروں پر ملک امیر محمد خان کی لاٹھیاں روک رہے تھے۔تمہاری طرح ایک ہاتھ میں برگر اور دوسرے ہاتھ میں موبائل فون لے کے پیدا نہیں ہوئے تھے۔۔۔۔۔چنانچہ جنریشن گیپ سے خوامخواہ پیدا ہونے والی اس مخاصمانہ فضا میں ڈائیلاگ شروع ہونے سے پہلے ہی نوزائدگی میں مر جاتا ہے۔
کیا وجہ ہے کہ بابے نوجوانوں کی ترقی پسند تحریک سے بے التفاتی کا مرثیہ کہتے رہتے ہیں اور لڑکے بالے ان کی باتوں سے زرا بھی متاثر نہیں لگتے ؟
شائد ایک وجہ یہ ہو کہ نوآبادیاتی نظام،برطانوی سامراجی دور اور پھر سرد جنگ کے زمانے کے امریکی سامراج اور پھر سن پچاس اور ساٹھ کے عشرے کے کالے انگریزوں کی مزاحمت و مذمت کے جن فارمولوں کے بابے لوگ عادی ہیں، وہ فارمولے بھی کہیں بے مصرف اور فرسودہ ہو کر ارتقائی بگولوں میں کھو گئے۔یا شائد یہ وجہ ہو کہ بدلی دنیا میں جب چین اور روس ہی بدل گئے تو بابوں کو پوری نظریاتی کائنات ہی تلپٹ نظر آئی اور انھوں نے لاشعوری طور پر طے کرلیا کہ
نہ وہ غزنوی میں تڑپ رہی نہ وہ خم ہے زلفِ ایاز میں۔
یا پھر انھیں ایسا محسوس ہوتا ہو کہ چونکہ اب ویسی لاٹھی گولی نہیں چلتی جیسی پچیس تیس برس پہلے چلتی تھی۔چونکہ اب سیاسی قیدیوں سے جیلیں بھرنے کا رواج بہت کم رہ گیا ہے (اکثر پہلے ہی غائب یا پھڑکا دیے جاتے ہیں )۔چونکہ اب انڈر گراؤنڈ رہنے اور انڈر گراؤنڈ پمفلٹ اور مطبوعات نکالنے کا فیشن بھی آؤٹ آف فیشن ہو چکا ہے۔چونکہ اب کوئی کسی کو کامریڈ اللہ دتہ یا ساتھی کمال الدین کہنے کے بجائے صرف سنی اور ہنی کہہ کے بلاتا ہے۔چونکہ اب جدی پشتی شجرہ یافتہ کلاسیکل ٹریڈ یونین ازم بھی غتربود ہوچکا۔ چونکہ نہ اب مجاز ہے ، نہ فیض نہ جالب اور نہ ہی فراز لہذا دل و دماغ بھی ویسے نہیں گرماتے جیسے ساڈے زمانے وچ گرماندے سن۔۔۔۔۔لہٰذا ترقی پسندی بھی رخصت ہو ئی تیمور کے گھر سے۔
لیکن اب میں بابوں کو مزید روہانسا نہیں دیکھ سکتا۔میں انھیں کہنا چاہتا ہوں کہ ٹھیک ہے ترقی پسند تحریک کی روایتی شیروانی ، کھلا پاجامہ اور چپل پھٹ چکی ہے لیکن یہ اس لیے ہے کہ ترقی پسندی جینز ، جیکٹ اور جوگرز میں پہلے سے تیز دوڑ رہی ہے۔جو کام انڈر گراؤنڈ رہے بغیر ممکن نہ تھا وہ اب سوشل میڈیا کی اسکرین اور موبائل نے سنبھال لیا ہے۔آج کی ریشمی رومال تحریک فیس بک ہے۔آج کا پندرہ روزہ سرخ پرچم ایس ایم ایس ، آج کا ماہانہ سوشلسٹ انٹرنیشنل ای میل اور آج کے انڈر گراؤنڈ کامریڈ کا نام وائبر ہے۔سامراج مردہ باد کے نعرے کی جگہ وال اسٹریٹ پر قبضہ کرو کے نعرے نے لے لی ہے۔طمنچہ بردار اینٹی امپیریلیسٹ دادا کا پوتا عرب اسپرنگ میں لیپ ٹاپ سے مسلح گھوم رہا ہے۔
اس سپرسانک مواصلاتی دور نے یہ کلاسیکی چلن بھی ختم کردیا ہے کہ جہاں تین کامریڈ جمع ہوں گے وہاں ضرور پانچ کیمونسٹ پارٹیاں بنیں گی۔اب نئی ٹیکنولوجی نے چہروں اور نظریاتی نقاب میں چھپی شخصی انا کی اہمیت ٹکے سیر کردی ہے۔نیا انقلابی رہنما بنا چہرے کا الیکٹرونک اور ڈجیٹل پیغام ہے۔موبائل اور کمپیوٹر اسکرین پر صرف وقت اور مقام فلیش ہوتا ہے اور ہزاروں لوگ جمع ہوجاتے ہیں اور ردِعمل بھی ظاہر کرتے ہیں۔ حکومتیں بھی آپ کے زمانے کے مقابلے میں زیادہ خوفزدہ رہتی ہیں۔اور جس طرح آپ لوگوں کی پکڑ دھکڑ ہوا کرتی تھی اسی طرح آج حکومت دشمن ویب سائٹس کی پکڑ دھکڑ ہوتی ہے۔آپ کے زمانے میں جو کام سادہ لباس والے آپ کی صفوں میں گھس کے کرتے تھے، اب وہی کام ہیکرز کرتے ہیں۔لیکن جیسے آپ کے زمانے میں کالعدم گروہ نئے نام سے آجاتا تھا بالکل ویسے ہی آج نئی ویب سائٹ ، نیا فیس بک پیج اور یو ٹیوب میں نیا اپ لوڈ گماشتے ہیکرز کو جل دے کر ترنت وجود میں آجاتا ہے اور یہ اسی آنکھ مچولی کی جدید شکل ہے جس کے آپ عادی تھے۔
یقین کیجیے ہندوستانی کیمونسٹوں کا نظریاتی کریا کرم ہونے سے کوئی خاص فرق نہیں پڑا کیونکہ کرپشن اور سرمایہ دارانہ نا انصافی کے خلاف لڑائی سول سوسائٹی اور کیجری وال جیسے نئے لڑکوں بالوں نے سنبھال لی ہے۔ویسے آپ چاہیں تو اپنی تالیفِ قلب کے لیے سول سوسائٹی کو نئے دور کی پرولتاریہ بھی کہہ سکتے ہیں۔
ہاں اگر کوئی فرق آیا ہے تو یہ کہ جیسے اسپین میں لیفٹ کا انٹرنیشنل بریگیڈ فاشزم کے خلاف لڑا تھا، اب فاشزم القاعدہ کے نام سے انٹرنیشنل بریگیڈ میں تبدیل ہوچکا ہے اور اس نے امریکی سامراج مردہ باد کا نعرہ بھی ہائی جیک کرلیا ہے۔لیکن آپ کو بالکل ٹینشن لینے کی ضرورت نہیں۔نہ سارا وقت دھوپ رہتی ہے نہ چھاؤں۔۔۔آج کل کے لونڈے اتنے ہی تیز اور جگاڑو ہیں، جتنے آپ کے دور میں آپ ہوا کرتے تھے۔یقین کیجیے نئے زمانے کی رگوں میں نیا خون ہی دوڑ رہا ہے لہذا کم ازکم اس تعلق سے اپنا خون مت جلائیے۔چیرمین ماؤ کا یہ مقولہ آج پہلے سے زیادہ بامعنی ہے۔
There is great chaos under heaven-The situation is excellent.
( وسعت اللہ خان کے دیگر کالم اور مضامین پڑھنے کے لیے bbcurdu.comپر کلک کیجیے )