دھرابی جھیل اور کلہرہار

سیاحت کے خوب صورت مراکز، جہاں دل کش نظاروں کے ساتھ تاریخ بھی سیاحوں کی منتظر ہے


سیاحت کے خوب صورت مراکز، جہاں دل کش نظاروں کے ساتھ تاریخ بھی سیاحوں کی منتظر ہے۔ فوٹو: فائل

نئی حکومت کے ساتھ ہی آغاز ہوا سیاحت کے میدان میں شان دار اقدامات کا۔ سیاحت کی انڈسٹری نے زور پکڑا اور پاکستان کو نمبر ون ٹورسٹ ڈیسٹینیشن قرار دیا جانے لگا۔ لیکن پھر دنیا کو کرونا کی عفریت نے آ لیا۔

آج ڈیڑھ سال بعد ہم نے کرونا کے ساتھ جنگ کافی حد تک جیت لی ہے۔ ویکسینیشن کے عمل کا آغاز ہو چکا ہے اور اس کے ساتھ ہی حکومت نے سیاحت کو بھی کھول دیا ہے۔ حکومت پنجاب نے بھی تمام ایس او پیز کے ساتھ سیاحت کو کھولنے کا فیصلہ کیا اور ضلع چکوال کے پوشیدہ اور خوب صورت مقامات کو سامنے لانے اور اس علاقے میں ماحول دوست سیاحت کو فروغ دینے کے لیے دھرابی جھیل و کلرکہار میں دو دن کے واٹرسپورٹس و فیملی گالا کے ایونٹ کا انعقاد کیا۔

یہ پروگرام حکومتِ پنجاب کے ادارے ٹورزم ڈیویلپمنٹ کارپوریشن پنجاب (ٹی ڈی سی پی) کی میزبانی میں خصوصی طور پر میڈیا پرسنز، بلاگرز، ٹور آپریٹرز اور وی لاگرز کے لیے رکھا گیا تھا، جس میں ناچیز نے بھی بطور ٹی ڈی سی پی، ایکسپلور پنجاب میگزین کے ٹریول و فیچر رائٹر کے شرکت کی اور حکومت کی میزبانی میں چکوال کی خوب صورت جگہوں کو سیاحتی نقطۂ نظر سے دیکھا۔

دو دن کے اس بہترین سفر میں دھرابی ڈیم اور جھیل، کلرکہار، تخت بابری، کلرکہار جھیل اور میوزیم میں حکومتِ پنجاب کی طرف سے مختلف نوعیت کی سرگرمیاں کروائی گئیں جن میں وزیراعظم عمران خان کے ویژن کے تحت شجرکاری سرفہرست تھی۔

سفر کا آغاز لاہور ڈبل ڈیکر بس ٹرمینل سے ہوا جہاں چیئرمین ڈاکٹر سہیل ظفر چیمہ بھی موجود تھے۔ اس کے بعد تمام مہمانوں کو حکومت کی جانب سے ماسک اور سینیٹائزر دیے گئے۔ تمام مہمان دو بسوں پر سوار ہو کہ لاہور سے براستہ بھیرہ، کلرکہار پہنچے۔ وہاں ٹی ڈی سی پی ریزارٹ میں ایک پرتکلف ظہرانے کے بعد ہمیں کچھ دور واقع دھرابی جھیل لے جایا گیا جہاں ایونٹ کی بہت سی سرگرمیوں کے انتظامات کیے گئے تھے۔

ان سرگرمیوں کا محور ضلع چکوال تھا جو پنجاب اور پوٹھوہار کا اہم ضلع ہے جس کی پانچ تحصیلوں میں کلرکہار، تلہ گنگ، چواسیدن شاہ، لاوہ اور چکوال شامل ہیں۔

چکوال کو پنجاب کا ''لیک ڈسٹرکٹ'' یعنی ''جھیلوں کا ضلع'' بھی کہا جاتا ہے۔ یہاں کلرکہار، دھرابی، لکھوال ڈیم جھیل، ڈھوک تالیاں، تھرپال ڈیم جھیل، کٹاس مندر کی راما جھیل اور نیل واہن سمیت بہت سی چھوٹی بڑی جھیلیں اور تالاب بکھرے ہوئے ہیں۔ حکومت پنجاب اس ضلع میں واٹر اسپورٹس کو فروغ دینے کے لیے کوشاں ہے تاکہ ان جھیلوں کو ایک بہترین پکنک اسپاٹ بنایا جا سکے۔

دھرابی جھیل، دریائے دھراب پر زرعی بند باندھ کر بنائی گئی ایک خوب صورت جھیل ہے جو دھرابی نامی قصبے کے پاس موٹروے کے بلکسر انٹرچینج سے صرف چار کلومیٹر دور ہے۔ دریائے دھراب، دریائے سواں کا ایک چھوٹا معاون دریا ہے جو آگے جا کر سواں کے ذریعے دریائے سندھ میں مل جاتا ہے۔

دھرابی ڈیم ریزروائر کو ضلع چکوال کا سب سے بڑا آبی ذخیرہ کہا جاتا ہے جو زرعی اراضی کو سیراب کرنے کے ساتھ ماحولیات پر بھی خوش گوار اثرات مرتب کر رہا ہے۔ اس جھیل کے کنارے ٹی ڈی سی پی ریزارٹ بنایا گیا ہے جہاں تمام مہمانوں کے لیے ایک تقریب کا اہتمام کیا گیا تھا۔ تقریب کا افتتاح وزیرِاعلیٰ پنجاب کے مشیر برائے سیاحت جناب آصف محمود نے پودا لگا کر کیا۔ باقی مہمانوں نے بھی اپنے اپنے حصے کے پودے لگائے جو محکمۂ جنگلات چکوال کی طرف سے فراہم کیے گئے تھے۔ خوش قسمتی سے اس دن عالمی ماحولیات کا دن بھی تھا اور اسلام آباد میں ماحویات کی کانفرنس جاری تھی۔

پھر مہمانوں کو کشتیوں پر دھرابی جھیل کی سیر کروائی گئی جب کہ نئی قسم کی سائیکل بوٹس بھی یہاں موجود تھیں۔ ماحولیات اور ایکو ٹوارزم پر بریفنگ کے بعد محفل موسیقی شروع ہوئی جس میں مظہر راہی سمیت چکوال کے دیگر لوک فن کاروں نے اپنے فن کے جوہر دکھائے۔

ٹی ڈٰی سی پی کی جانب سے ایک بڑے پروجیکٹر پر نندنہ قلعے پر بنائی گئی بہترین ڈکومینٹری دکھائی گئی اور ساتھ ہی چکوال و پنجاب کی سیاحت پر ایک کوئز مقابلہ بھی ہوا۔ پُرتکلف عشائیے کے بعد آسمان میں مصنوعی لالٹین چھوڑے گئے جس سے آسمان جگمگا اٹھا۔ ایونٹ کے بعد مہمان تو واپس کلرکہار آگئے لیکن ٹی ڈی سی پی کے ٹوارزم آفیسر جناب اشفاق خان صاحب نے وہاں رک کر تمام کچرا صاف کروایا اور ایک بہترین پاکستانی ہونے کا ثبوت دیا۔اگلے دن ناشتے کے بعد مہمانوں کو کلرکہار میوزیم کا دورہ کروایا گیا۔ اتوار کے روز یہ میوزیم خصوصاً ہمارے لیے کھلوایا گیا تھا جس پر میں عابد شوکت صاحب اور سعید صاحب کا شکرگزار ہوں۔

کلرکہار میوزیم سات سال کی تاخیر کے بعد اپریل 2021 میں عوام کے لیے کھولا گیا تھا۔ یہ عجائب گھر اس علاقے کے لیے انتہائی ضروری تھا کیوںکہ ہزاروں سال پرانی تاریخ رکھنے والا پوٹھوہار و وادیٔ سون کا علاقہ کسی بھی سرکاری عجائب گھر سے محروم تھا۔ سالٹ رینج یعنی کوہِ نمک کا علاقہ جانوروں اور درختوں کے رکاز (فاسلز) کے بہترین ذخیرے کے طور پر جانا جاتا ہے نیز ساتویں سے دسویں صدی عیسوی میں

تعمیر ہونے والے قدیم ہندو مندر بھی اس علاقے کا خاصہ ہیں جہاں سے ماہرین کو بہت سی نادر اشیاء ملی ہیں۔ کلرکہار میوزیم میں تین مختلف گیلریاں بنائی گئی ہیں۔

پہلی گیلری رکاز یا فاسلز گیلری ہے جہاں چکوال کے علاقے بن امیر خاتون سے ملنے والے بھیڑ بکریوں سے لے کر ہاتھی جیسے قوی الجُثہ جانوروں کے رکاز تک نمائش کے لیے رکھے گئے ہیں۔ ان کے علاوہ یہاں قدیم درختوں، گھونگوں اور ارضیات سے متعلق دیگر فاسلز بھی ملتے ہیں۔دوسری گیلری وادیٔ سندھ و گندھارا تہذیب سے متعلق ہے جہاں آپ سرخ تراشیدہ پتھر، برتن، سکے، سجاوٹی اشیاء، لکڑی کے کندہ دروازے اور گوتم بدھا کے مجسمے دیکھ سکتے ہیں۔تیسری گیلری میں متفرق اشیاء رکھی گئی ہیں جن میں روایتی ہتھیار، آلاتِ موسیقی، بُت، برتن ، زیورات اور جوتے شامل ہیں۔

کلرکہار آنے والے یا وادیٔ سون جانے والے سیاحوں کو یہ میوزیم لازمی دیکھنا چاہیے۔

اس کے بعد ہم نے تخت بابری کا رُخ کیا جو لوکاٹ کے باغات کے وسط میں موجود ایک چٹان پر بنا ہے۔ اس جگہ کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ شہنشاہ بابر جب کابل سے اپنی فوجیں لے کر دہلی فتح کرنے نکلا تو اس جگہ اس کی فوج نے ایک تخت بنایا جہاں کھڑے ہو کہ بابر نے اپنی فوج سے خطاب کیا۔یہ ایک بڑی چٹان ہے جس کی اوپری سطح کو ہموار کیا گیا ہے اور اس تک پہنچنے کے لیے سیڑھیاں بھی بنائی گئی ہیں۔ اس باغ میں میٹھے پانی کے علاوہ گندھک آمیز پانی کا چشمہ بھی ہے۔اسی تخت سے کچھ اوپر اسسٹنٹ کمشنر کلرکہار کا گھر اور ایک خوب صورت ریسٹ ہاؤس بھی ہے۔

آخر میں ہم نے پہاڑی پر موجود حضرت آہو باہو سرکارؒ (کچھ لوگ ہو باہو بھی کہتے ہیں) کے مزار پر حاظری دی جنہیں مقامی موراں والی سرکار کے نام سے جانتے ہیں۔

یہاں دو مزار واقع ہیں۔ بڑا مزار ہشت پہلو ہے جسے کوئی تیسری بار تعمیر کیا جا رہا ہے جس کی وجہ نہیں معلوم ہوسکی۔ کہتے ہیں کہ یہ مزار حضرت سخی محمد یعقوبؒ اور حضرت سخی محمد اسحٰقؒ کا ہے جو شہنشاہِ بغداد حضرت شیخ عبدالقادر جیلانیؒ کے پوتے ہیں۔ اسی کے ساتھ ایک بہترین جامع مسجد زیرتعمیر ہے۔

مقامی روایات کے مطابق جب یہاں کفر کا غلبہ تھا تو ایک بی بی جن کا نام سکینہ تھا، کی دعا پر حضرت شیخؒ نے اپنے دونوں پوتوں کو ان کی مدد کے لیے کلرکہار روانہ کیا۔ راستے میں آپ کے استاد حضرت سخی سید فاضل بغدادی حسنی حسینیؒ بھی آپ کے ہمراہ ہولیے جن کی بغل میں موروں کا ایک جوڑا تھا۔ انہی موروں کی نسل آج بھی مزار کے اطراف میں پائی جاتی ہے جس کی وجہ سے صاحبِ مزار کو ''موراں والی سرکار'' کہا جاتا ہے۔

کلرکہار پہنچنے پر مائی سکینہ سے مل کر آپ نے لنگر تقسیم کیا۔ ادھر کفار کے راجا کو جب یہ پتا چلا تو اس نے آْپ کے ساتھ جنگ کی جس میں دونوں شہزادوں نے جامِ شہادت نوش کیا اور ایک پہاڑی پر آپ دونوں کو سپردِخاک کیا گیا۔ ایک ہفتے بعد آپ کے استادِ محترم نے بھی شہادت پائی اور بالکل سامنے والی پہاڑی پر دفن ہوئے۔

کہتے ہیں کہ کافی عرصے تک ان پہاڑوں پر کوئی نہیں پہنچا۔ پھر یہاں سلطان العارفین حضرت سخی سلطان باہوؒ کے قدم مبارک پڑے تو آپ نے اس جگہ کو فیض بخشا۔ ان شہزادوں کو آہو باہو کا لقب دیا اور آگے چلے گئے۔ اس دن سے آج تک لوگوں کی آمد جاری ہے۔

یہاں ایک غار بھی موجود ہے جسے حضرت سلطان باہوؒ کی چلہ گاہ کہا جاتا ہے لیکن تاریخی روایات کے مطابق اصل میں وہ ان کے ساتھ آئے ایک غلام فقیر کی قیام گاہ تھی۔

اس کے بعد ہم ایک ڈولی میں بیٹھے جو ایک طرح کی دیسی لفٹ تھی۔ اس نے ہمیں دوسری پہاڑی پر موراں والی سرکار حضرت سید فاضل بغدادیؒ کے مزار پر اتارا۔ یہاں پہاڑی سے کلرکہار شہر و جھیل کا حسین نظارہ دیکھنے کو ملا۔ فاتحہ کے بعد ہم نے کلرکہار کا مقامی بازار دیکھا اور واپس ریزورٹ کی راہ لی۔ دوپہر کے کھانے کے بعد ہم نے اپنے تاثرات قلم بند کیے اور ٹی ڈی سی پی کا شکریہ ادا کیا۔ بے شک اس ادارے نے ایک بہترین ایونٹ کا انعقاد کیا تھا۔

ٹی ڈی سی پی برسوں سے پنجاب کی سیاحت میں نت نئے مقامات متعارف کروا رہا ہے اور اس ادارے نے یہ ثابت کر دکھایا ہے کہ پنجاب بھی باقی صوبوں کی طرح سیاحت کی بھرپور استطاعت رکھتا ہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں