آم کھپّے کھپّے

سیاست دانوں، آموں اور دانشوروں میں ایک قدرِمشترک ہے کہ تینوں کی دو بنیادی قسمیں ہوتی ہیں۔


سیاست دانوں، آموں اور دانشوروں میں ایک قدرِمشترک ہے کہ تینوں کی دو بنیادی قسمیں ہوتی ہیں۔ فوٹو : فائل

آم کی خاص بات یہ ہے کہ ...اس میں ایک بھی عام بات نہیں ہے۔ اس کا ذائقہ، اس کی خوشبو، اس کی رنگت، اس کی صورت، اس کا سائز، اس کی قیمت، سب ہی کچھ خاص بلکہ خاص الخاص ہیں۔ پہلے کہا جاتا تھا کہ آم پھلو ں کا بادشاہ ہے۔ اب جمہوری دور ہے اور ''اسٹیبلشمنٹ'' بھی مضبوط ہے لہٰذا محاورہ یوں ہوگا کہ آم پھلوں کا ''کور کمانڈر'' ہے۔

ذرا اس کی خصوصیات دیکھیے ...یہ اکیلا سب پر ''بھاری'' ہے۔ لذّت میں میٹھا لیکن قیمت میں ''کڑوا''ہے۔ ٹھیلوں سے لے کر دلوں تک راج کرتا ہے اور جیبیں خالی کراتا ہے۔ اِدھر سیزن آیا اور اُدھر ''قتلِ آم'' شروع ہوا۔ پیٹ کا یہ حال کہ بھرتا ہی نہیں بلکہ تقاضا کرتا ہے کہ ''ھل من مزید؟'' اور کھانے والا پکارتا رہتا ہے__آم کھپّے، کھپّے!

سیاست دانوں، آموں اور دانشوروں میں ایک قدرِمشترک ہے کہ تینوں کی دو بنیادی قسمیں ہوتی ہیں۔ اکثر سیاست داں اور دانشور دو قسم کے ہوتے ہیں یعنی بُرے اور زیادہ بُرے۔ اتفاق سے آم بھی دو قسم کے ہوتے ہیں۔ ان دونوں کے نام آپ کو اس واقعے میں مل جائیں گے جو کچھ عرصے قبل ہمارے ساتھ پیش آیا۔ ایک نجی محفل میں ایک دوست نے ہمارا تعارف ایک نامور صنعت کار سے کراتے ہوئے اُنھیں بتایا کہ ''یہ لکھتے ہیں۔'' اگرچہ تعارف میں پورا نام شامل تھا لیکن سیٹھ صاحب نے پھر بھی یہ پوچھنا ضروری سمجھا ـ ''آپ کس نام سے لکھتے ہو؟'' ہم نے بہ صد انکسار اپنا نام بتایا لیکن اُن کی پھر بھی تسلی نہ ہوئی۔ بولے ''یہ آپ کا قلمی نام ہے؟'' ہم نے جھنجلا کر کہا ''جی نہیں، تخمی ہے۔''

تخمی آم تو اپنی ہم زاد اور ہم قافیہ ''گُھٹلی'' کے تعاون سے عالمِ وجود میں آتا ہے لیکن قلمی آم درختوں پر قلم لگا کر حاصل کیے جاتے ہیں۔ اس ''قلم کاری'' کا جدید نام ـ''کلوننگ'' ہے جس کی ایجاد کا سہرا سائنس داں اپنے سر باندھتے ہیں جبکہ ہمارے یہاں یہ کام باغوں کے مالی سالہا سال سے کر رہے ہیں۔ سائنس دانوں کی ''قلمائی'' ہوئی بھیڑ (مسماۃ ڈولی) اب عالمِ ارواح میں ہے جبکہ قلمی آموں کے درخت ہمارے سامنے جابجا لہلہا رہے ہیں۔ ہم سیدھے سادے لوگ ہیں اس لیے ہر کام پکّا کرتے ہیں...چاہے وہ کرپشن ہی کیوں نہ ہو۔

کراچی میں لذتِ کام ودہن کی کچھ پارٹیاں بہت مقبول ہیں۔ ان کا آغاز (مرحوم) بشارت مرزا نے کیا تھا۔ ان کی دعوتِ حلیم میں ان کی سیاسی پارٹی کے ارکان سے کہیں زیادہ تعداد میں مہمان شرکت کرتے تھے۔ واضح رہے کہ پارٹی بمشکل سات آٹھ افراد پر مشتمل تھی جو سب کے سب پارٹی کے اعلیٰ عہدوں پر فائز تھے۔

پھر نہاری پارٹیوں نے رواج پایا۔ اسی دوران ایک صاحب نے پائے کی پارٹی کا ڈول ڈالا اور (پائے کے سائز کی رعایت سے) ''بڑے پائے والے'' مشہور ہوئے۔ اس کے بعد آم پارٹیاں عام ہوئیں۔ ایسی ہی ایک آم پارٹی نہایت خاص لوگوں کے لیے ایک صاحبِ ذوق تاجر اقبال راجہ ہر سال اپنے گھر پر برپا کرتے ہیں جس میں وہ حق ہمسائیگی کے تحت ہمیں بے دھڑک مدعو کر لیتے ہیں اور ہم بلاجھجک جادھمکتے ہیں۔

اس مرتبہ (غالباً مہمانوں کی کثیر تعداد کے پیشِ نظر) میزبان نے یہ ''فُول پروف'' حکمتِ عملی اپنائی کہ کھاناکارڈ پر چھپے ہوئے وقت یعنی ٹھیک شام 8:10 (حکیم سعید اسٹینڈرڈ ٹائم) پر کھول دیا۔ ہم کہ ہر سال ایک ڈیڑھ گھنٹہ انتظار کی صعوبت جھیلتے رہے ہیں اُس کو ذہن میں رکھتے ہوئے جب نو بجے جائے وقوعہ پر پہنچے تو وہاں غالبؔ کے اس شعر کا نقشہ نظر آیا ؎

داغِ فراقِ صحبتِ شب کی جلی ہوئی

اک شمع رہ گئی ہے سو وہ بھی خموش ہے

ہم نے میزبان کو مختصر کمپنی دینے کے بعد اُن سے رخصت کی اجازت چاہی جو انھوں نے فوراً اور بخوشی مرحمت فرما دی۔ جب واپس گھر آئے تو بیگم نے طنز کا پہلا تیر چھوڑا ''آج اتنی جلدی کیسے آگئے، خیریت تو رہی؟'' ہم نے جواب دیا ''آج لُوٹ مار اور لا ٹھی چارج کا خطرہ تھا، اس لیے میزبان استادی دکھا گئے۔'' موصوفہ نے بچا کھچا کھانا ہمارے سامنے پٹخ دیا۔ ہم نے پوچھا ''اور وہ جو میں کل سرولی آموں کی تھیلی لایا تھا، اس کا آخر کیا ہوا؟'' بولیں ''جو بچّوں سے بچے تھے وہ، ملازموں کو کھلا دیے۔

اور ہاں، آئندہ گھر کی چیز کو ٹھکرا کر بھاگے بھاگے باہر نہ چلے جانا۔'' صاحب، یہ شہر بھی عجیب ہے۔ کسی تقریب میں وقت پر پہنچ جاؤ تو تنہائی کا شکار بنو اور تاخیر سے جاؤ تو بھوکے پیٹ پر بیگم کی کڑوی کسیلی سنو۔ اُف اللہ، ہم تو کچھ کہہ بھی نہیں سکتے۔ اسی شہر میں ایک آم پارٹی کا اہتمام ایک نیم مذہبی، نیم سیاسی جماعت کرتی ہے۔ چونکہ یہ بڑی پارٹی ہوتی ہے اس لیے ظاہر ہے، اس میں بڑے لوگ ہی مدعو کیے جاتے ہے۔

پہلے زمانے میں لوگ پیار میں ایک دوسرے کو آموں کی پیٹیاں بھجواتے تھے۔ اب آم کو 'پی آر'، خوش آمد اور رشوت کا پالا مار گیا ہے۔ چنانچہ پیٹی اب بھی جاتی ہے لیکن ''روحِ حَلالی'' نہ رہی۔ ایک دفعہ خلوص اور پیار سے اکبرؔالٰہ آبادی نے علامہ اقبال ؔکو آموں کی ایک پیٹی بھجوائی تو انھوں نے یہ تشکر آمیز شعر کہا ؎

اثر یہ تیرے اعجازِمسیحائی کا ہے اکبرؔ

الٰہ آباد سے لنگڑا چلا لاہور تک آیا

خود اکبرؔ الٰہ آبادی آموں کے اتنے رسیا تھے کہ انھوں نے اپنے ایک دوست (منشی نثار حسین، مہتمم ''پیامِ یار'' لکھنؤ) کے نام ایک خط میں آموں کی فرمائش اِس پُرزور اور پُرلطف انداز میں کی ؎

نامہ کوئی نہ یار کا پیغام بھیجئے

اس فصل میں جو بھیجئے، بس آم بھیجئے

 

ایسے ضرور ہوں کہ انھیں رکھ کے کھاسکوں

پختہ اگر ہوں بیس، تو دس خام بھیجئے

 

معلوم ہی ہے آپ کو بندے کا ایڈریس

سیدھے الٰہ آباد مرے نام بھیجئے

 

ایسا نہ ہو کہ آپ یہ لکھیں جواب میں

تعمیل ہوگی، پہلے مگر دام بھیجئے

آم بڑا توبہ شکن پھل ہے۔ ہمارے ایک محترم دوست نے گذشتہ روز بتایاکہ ان کے بڑے بھائی ذیابیطس کے پرانے مریض ہیں لیکن آموں کے ساتھ اتنا انصاف کرتے ہیں کہ ''تحریکِ انصاف'' بھی کیا کرے گی۔ ہم نے انہیں متنبہ کیا ''وہ اپنی صحت کے ساتھ انصاف نہیں کر رہے ہیں۔'' کہنے لگے ـ ''بھائی صاحب! آم کھانے سے پہلے درودشریف پڑھ لیتے ہیں۔'' ہم نے اس پر یہ تبصرہ کیا ''تویوں کہیے نا، کہ وہ بزعمِ خود، درودشریف سے انسولین کا کام لیتے ہیں۔'' (ع اس سادگی پہ کون نہ مر جائے اے خدا !)

شاعری سے آموں کا کوئی تعلق نہیں بنتا، لیکن شاعروں سے بہت گہرا تعلق ہے۔ ویسے تو ہمارے شعرائے کرام کھانے پینے میں کسی تکلف کے روادار نہیں، مرغیوں کے کوسنے جتنے وہ رولتے ہیں شاید ہی کسی اور کے حصے میں آتے ہوں لیکن جب معاملہ آموں کا ہو تو اُن کا انہماک دیکھنے والا ہوتا ہے۔ فلم اسٹار ماہرہ خان بھی اپنی تمام تر حشر سامانیوں کے ساتھ سامنے کھڑی ہو تو یہ اُسے نظرانداز کر دیں۔

ایک آم (بشمول مشاعرہ) پارٹی میں ہم نے ایک شاعر کو جنگی بنیادوں پر آم کھاتے اور اس عمل میں اپنے کپڑے تباہ کرتے ہوئے دیکھا تو سوشل میڈیا کی ایک حالیہ پوسٹ یاد آگئی جس کے مطابق کچھ لوگ آم اس طرح کھاتے ہیں کہ گٹھلیاں بھی شرما کے بول پڑتی ہیں ''اﷲچھوڑیے نا، بس بھی کیجیے، سب لوگ دیکھ رہے ہیں۔'' ہم ان کے حال پر یہ تبصرہ کیے بغیر نہ رہ سکے کہ ''عزیزم، ع دامن کو ذرا دیکھ، ذرا بندِقبا دیکھ۔'' موصوف آموں سے فارغ ہوچکے تھے اس لیے انھوں نے ہمارا مشورہ قبول کیا اور اپنے ''گوجرنالہ ٹائپ'' سراپے کا جائزہ لیا۔ پھر یہ کہتے ہوئے مشاعرہ گاہ سے سِٹک لیے کہ ''یار، مشاعرے تو روز ہی ہوتے رہتے ہیں۔''

غالبؔ بھی آم کے متوالے تھے (اگرچہ وہ پی ایم ایل (ن) سے کوئی عَلاقہ نہیں رکھتے تھے)۔ موصوف آموں میں صرف دوخوبیاں دیکھنی چاہتے تھے یعنی میٹھے ہوں اور بہت سے ہوں۔ ڈیڑھ سو سال بعد، بات اتنی آسان نہیں رہی۔ مرزانوشہ آج زندہ ہوتے تو اپنے بیان میں یہ اضافہ کرتے کہ...سستے بھی ہوں!

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں