راج سے تاراج ہونے تک
تاریخ قدیم نہیں ہواکرتی۔تہذیب کو کبھی زنگ نہیں لگتا۔وراثت کبھی شکستہ نہیں ہوتی،مگر ان سب پہلوؤں کو محسوس کرنے...
تاریخ قدیم نہیں ہواکرتی۔تہذیب کو کبھی زنگ نہیں لگتا۔وراثت کبھی شکستہ نہیں ہوتی،مگر ان سب پہلوؤں کو محسوس کرنے کے لیے مہذب ہونا شرط ہے۔ہمارے پاس نہ تہذیب رہی اور نہ لحاظ،یہی وجہ ہے کہ تاریخ سے ہم ناتا توڑ بیٹھے ہیں۔تہذیب ہمارے دامن پر پڑا ہوا داغ ہے ،جسے ہم غفلت کے پانی سے دھوئے جا رہے ہیں۔کیا بے حسی ہے،اپنی تاریخ اورتہذیب کے بھی دشمن ہم خود ہوئے بیٹھے ہیں۔
گزشتہ دنوں مجھے لاہور جانے کا اتفاق ہوا۔میری رہائش گاہ لاہور کے مضافاتی علاقے شاہدرہ میں مقبرہ ٔ نورجہاں سے قریب تھی۔میں جب بھی کہیں جانے کے لیے نکلتا یا کہیں سے میری واپسی ہوتی،اس مقبرے پر میری نظر ضرور پڑتی،اس عمارت کی بے سروسامانی میرے دل کو کچوکے لگاتی ،میں اپنی توجہ کو کسی اورجانب مبذول کرنے کی سعی کرتا۔میں نے متعدد بار یہ چاہا ،میری نظر اس زوال زدہ عمارت پر نہ پڑے،مگر نظر پر کس کو اختیار ہوتا ہے اور پھر وہ نظر، جس میں تاریخ روشن باب بن کر رہی ہو،جسے اپنے خطے کی تہذیب وتاریخ سے والہانہ عشق ہو۔
مغل خاندان کی آبرو اورچہیتی ملکہ نورجہاں پر اب تک جتنا لکھاگیا،موجودہ عہد میں اس سے زیادہ اس کے مقبرے کی زبوں حالی پر لکھا گیا،مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔بہروں کو آوازیں اورجوئیں تنگ نہیں کیاکرتیں ہم مجموعی حیثیت میں شاید بہرے ہوچکے ہیں ۔اس مقبرے سے چند قدم کے فاصلے پر پاکستان اورترکی کے تعاون سے تعمیر کیاگیا میٹروبس کا عالیشان ٹرمینل ہے۔اس کی روشنیوں کو برقرار رکھنے کے لیے جنریٹر کا انتظام بھی ہے اوریہ انتظام وانصرام صرف ایک ٹرمینل تک محدود نہیں ،بلکہ تمام بس اسٹاپ اس سہولت سے آراستہ ہیں۔حکومت کو چند فرلانگ کے فاصلے پر، شاہدرہ میں مقبرہ نور جہاں ،آصف جاہ اورجہانگیر کے مقبرے پر بھی توجہ دینی اور ان مظلوم عمارتوں کی تاریکیاں ختم کرنا چاہیے۔
مغل خاندان کے اس گھرانے کے ساتھ ہر کسی نے اپنی بساط میں ظلم ڈھایا۔خاندان کی چشمک سے ایک دوسرے کو دکھ دینے والے مغلوں کو بعد ازمرگ بھی لوگوں نے نہیں بخشا۔جہانگیر،آصف جاہ اورنورجہاں کے مقبروں اور باغات کو انگریزوں نے ریلوے لائن بچھا کر کاٹ دیا۔مغل ملکہ مہرالنسا نے زندگی کی کئی دہائیاں اس انتظار میں کاٹ دیں کہ جان دوں گی تو شوہر کے پہلو میں دفن ہوںگی،مگر انگریزوں کی جہالت نے اس کی چاہت کا صحن کاٹ دیا۔اس باغیچے کے پھول بھی نوچے گئے۔
پوری دنیا میں آثارقدیمہ کی حفاظت کے ٹھیکے داروں سے کسی نے نہیں پوچھا کہ تاریخ سب کی سانجھی ہوتی ہے تو یہ بدتہذیبی کیونکر ہوئی۔سکھوں نے کسی خفیہ خزانے کے لالچ میں نورجہاں کے مقبرے کو تقسیم کرکے نورجہاں کی خواہش کو پامال کیا۔وہ مرکر بھی اپنے محبوب شوہر کے پہلو میں نہ رہ سکی۔اب جس تیزی سے یہ مقبرہ اجڑا ہے،اس سے لگتاہے کہ ہم سب بھی بہت باقاعدگی سے قیام پاکستان کے بعد اس پامالی میں برابر اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
سارے جہاں کا نور کہلانے والی مہرالنسا کا مقبرہ اب تاریکی کا ڈیرہ ہے،اس کے عقب سے ریلوے لائن پر ٹرینیں گزرتی رہتی ہیں۔آس پاس کی آبادیوں کا ہجوم سڑکوں پر رواں دواں ہے۔کچھ دور میٹرو بس میں سوار ہونے کے خواہش مند قطار میں کھڑے ہوتے ہیں۔ان سب سرگرمیوں کے شور میں مقبروں کی فریاد کسے سنائی دیتی ہے۔ہماری تاریخ کے ان کرداروں پرخاک پڑی ہوئی ہے۔جب یونیسکو جیسے عالمی ادارے کا کوئی نمایندہ آتا ہے،تو عموماً اس کی آمد مالی امداد سے مشروط ہوتی ہے۔اس کو چند جگہیں دکھا کر جیب گرم کرلی جاتی ہے۔
مینار پاکستان کے چاروں اطراف دھول اوردھواں چھایاہوا ہے۔ یادگار،جسے آزادی چوک بھی کہا جاتا ہے،وہاں شہر کے چاروں اطراف بشمول جی ٹی روڈ اور موٹر وے کا ٹریفک آکر اکٹھا ہو جاتا ہے،وہاں فلائی اوور تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔دریائے راوی جہاں سے راولپنڈی، جہلم،گو جرانوالہ، سیالکوٹ، شیخوپورہ اورفیصل آباد سے آنے والا ٹریفک لاہور شہر میں داخل ہوتا ہے اوراس کے لیے بھی مرکزی پل ایک ہی ہے۔ایک نیا پل دریائے راوی پر بھی تعمیر کیا جائے،تو دیگر شہروں سے آنے والا ٹریفک بھی اس سے مستفید ہو سکتا ہے۔بادشاہی مسجد اورشاہی قلعہ کی حالت زار بھی بیان سے باہر ہے۔اہل لاہور اس ناقدری سے اچھی طرح واقف ہیں۔
گزشتہ بیس برس سے مینار پاکستان پر جھاڑو اورصفائی ستھرائی کاکام کرنے والے ایک بزرگ ملازم کاکہنا ہے ''پہلے لوگوں میں شعور تھا،وہ یہاں آتے تھے،تو وہ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوا کرتے تھے۔ان کے دل میں اس مقام کے لیے احترام تھا۔اب تو یہ گیٹ سے داخل ہوتے ہی گندگی پھیلانا شروع کرتے ہیں اور جب تک واپس نہیں چلے جاتے،اس عمل کو جاری رکھتے ہیں۔شرم کا لفظ ان کی لغت میں ہی نہیں ہے۔''شاید اب یہ مقام صرف جلسے کرنے کے لیے رہ گیا ہے۔
مینار پاکستان کو مکمل روشن ہونے کی بھی سہولت دستیاب نہیں،کیونکہ اسے کسی کا تعاون درکار نہیں۔جن کے تعاون کی یادگار یہ مقام ہے،وہ اس ملک کے بننے کے بعد دنیاسے چلے گئے،جو موجود ہیں،انھیں اب کچھ یاد نہیں،کچھ بھی نہیں۔تمام سیاسی جماعتیں، حب الوطنی کے راگ الاپنے والے اپنے گھر میں لگے آئینے میں اپنی صورت دیکھیں اورہم عوام بھی کسی سے پیچھے نہیں۔جہالت کا مظاہرہ کرنے میں برابر کے شریک ہیں۔
لاہور شہر کے ایک بہت باذوق صحافی نے رات گھر کے کھانے پہ مدعو کیا،انھوں نے مجھ سے میری لاہور یاترا کے بارے میں دریافت کیا۔میں نے اپنی مصروفیت کے بارے میں بتایا اور تہذیب کا نوحہ بھی سنایا۔وہ کہنے لگے۔''کون سی تہذیب اور ثقافت،اب صرف جہالت ہمارے مقدر میں رہ گئی ہے۔''واقعی ایسا ہی لگتا ہے،اس جہالت کے فروغ میںکیا ان پڑھ اورکیا پڑھے لکھے سب ہی شامل ہیں۔راوی چین لکھتا ہے،مگر لاہور کا راوی ان دکھوں کے ہاتھوں خشک ہو چلاہے۔اپنے دامن میں اس دریا نے کیسے شاندار عہد سمیٹے ہیں اور اب عہد جہالت سے نبردآزما ہے اورجہالت بھی ایسی ،جس کی خبر تک نہیں ان کو ،جن کی یہ میراث ہے،اگر ضمیر کبھی ملامت کرنے بھی لگے،دلیل اورڈھکوسلے سے کام چلا لیتے ہیں۔
دنیا نے کتابوں ،ڈاکیومنٹریز اورفلموں کے ذریعے اپنی تہذیب وثقافت کو نہ صرف محفوظ کیا،بلکہ اس کے فروغ کے لیے بھی کام کیا۔ہمارے ہاں اس کے برعکس ہے۔ایک ایک کرکے سارے تاریخی مقامات کھنڈرات میں تبدیل ہورہے ہیں۔مقبرہ نورجہاں کے اردگرد باغات کانام ونشان مٹ چکا،اب وہاں شام میں بچے کرکٹ کھیلتے ہیں۔رات کو اداسی ماتم کرتی ہے۔آصف جاہ کے مقبرے پر کوے اورچیلیں منڈلاتی ہیں،اس کامرکزی دروازہ عرصہ دراز سے مقفل ہے،ہمارے دلوں کی طرح،جس کی بانہیں اب کسی کے لیے نہیں کھلتیں۔جہانگیر کامقبرہ ان دونوں عمارتوں سے قدرے بہتر ہے،مگر یہ بھی تیزی سے زوال پذیر ہے۔
لاہور کے تاریخی مقامات ہوں یاٹیکسلا،ہڑپہ اورموہنجوداڑو کے آثارقدیمہ،سب کاحال کم وبیش ایک جیسا ہی ہے۔جن تاریخی مقامات کے لیے غیرملکی امداد ملتی ہے،ان کی حالت کچھ بہتر ہے،مگر وہ بھی صرف امداد کی فراہمی تک۔ان مقامات کی زبوںحالی کا تذکرہ بھی صرف بناوٹی بیانات اورخبروں تک محدود رہتا ہے،عملی طور پر ایک طویل عرصے سے کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ان مقامات کے لیے کچھ نہیں کیاگیا۔
تاریخ بذات خود کوئی شے نہیں ہے،یہ ایک روئیے کا نام ہے۔مثبت سوچ اور رویے کے حامل لوگ اپنے خطے کی تاریخ کو محفوظ کرتے ہیں۔قومیں لاوارث رہنا پسند نہیں کیاکرتیں،مگر میں قوموں کی بات کررہاہوں۔لاہور کا ہر گھر گیس اور بجلی کے ہاتھوں تاریکی کا مزار بنا ہوا ہے۔مہنگائی کے ذریعے عوام کی زندگی خواہشوں کے مقبرے میں تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ہر گھر میں کئی کئی گھنٹے تاریکی کاراج ہے ،ایسے میں ملکہ نورجہاں کے مقبرے کو روئیے تاراج کر رہے ہیں،اس میں کون سی حیرت کی بات ہے۔
پڑوسی ملک جودھا اکبر،بھگت سنگھ،منگل پانڈے،ملکا سنگھ جیسی تاریخی شخصیات پر فلمیں بناتا ہے۔نئی نسل سے ان کو متعارف کرواتا ہے،صرف نصابی کتابوں تک انھیں محدود نہیں رکھتا اور ایک ہم ہیں،اپنی تاریخی شخصیات کا تعارف نئی نسل سے کیا کروائیں گے،ان کی نشانیوں کو تو سنبھال کر رکھ نہیں سکتے۔ویسے بھی ہمارے ہاں ثقافت کو دوسرے درجے کی چیز سمجھ لیا گیا ہے۔اس کو کبھی سنجیدہ نہیں لیاگیا،یہی وجہ ہے کہ ادبی ادارے ہوں،یا پھر تاریخی عمارتیں،روزبروز اپنے زوال کو سینے سے لگا رہی ہیں۔ہمارے مایہ ناز موسیقار، گلوکار، شاعر، ادیب، مصور اوردیگر فنون سے وابستہ شخصیات کی اکثریت دامن میں دکھ لیے یہاں سے رخصت ہوئی۔ہم کیسے لوگ ہیں،کیا ہم ایسے ہی رہیں گے؟
ملکہ نورجہاں نے اپنے شوہر کی موت کے بعد کئی برس تک اس جدائی کے موسم کو برداشت کیا۔اپنی موت سے پہلے اپنا مقبرہ اپنے شوہر کی آخری آرام گاہ کے قریب تعمیر کروایا۔اس مقبرے پر کنندہ اس کاا پنا ایک شعر اس کے ماضی اورحال کی عکاسی کررہا ہے اورصوبہ پنجاب کے محکمہ آثارقدیمہ کے لیے نقارہ بھی ہے۔اس فارسی شعرکی تشریح یوں ہے ۔''ہم غریبوں کے مزار پر نہ چراغ ہے،نہ پھول ہیں،نہ پروانے اپنے پر جلاتے ہیں ،نہ بلبل کی صدا آتی ہے۔''
گزشتہ دنوں مجھے لاہور جانے کا اتفاق ہوا۔میری رہائش گاہ لاہور کے مضافاتی علاقے شاہدرہ میں مقبرہ ٔ نورجہاں سے قریب تھی۔میں جب بھی کہیں جانے کے لیے نکلتا یا کہیں سے میری واپسی ہوتی،اس مقبرے پر میری نظر ضرور پڑتی،اس عمارت کی بے سروسامانی میرے دل کو کچوکے لگاتی ،میں اپنی توجہ کو کسی اورجانب مبذول کرنے کی سعی کرتا۔میں نے متعدد بار یہ چاہا ،میری نظر اس زوال زدہ عمارت پر نہ پڑے،مگر نظر پر کس کو اختیار ہوتا ہے اور پھر وہ نظر، جس میں تاریخ روشن باب بن کر رہی ہو،جسے اپنے خطے کی تہذیب وتاریخ سے والہانہ عشق ہو۔
مغل خاندان کی آبرو اورچہیتی ملکہ نورجہاں پر اب تک جتنا لکھاگیا،موجودہ عہد میں اس سے زیادہ اس کے مقبرے کی زبوں حالی پر لکھا گیا،مگر کسی کے کان پر جوں تک نہ رینگی۔بہروں کو آوازیں اورجوئیں تنگ نہیں کیاکرتیں ہم مجموعی حیثیت میں شاید بہرے ہوچکے ہیں ۔اس مقبرے سے چند قدم کے فاصلے پر پاکستان اورترکی کے تعاون سے تعمیر کیاگیا میٹروبس کا عالیشان ٹرمینل ہے۔اس کی روشنیوں کو برقرار رکھنے کے لیے جنریٹر کا انتظام بھی ہے اوریہ انتظام وانصرام صرف ایک ٹرمینل تک محدود نہیں ،بلکہ تمام بس اسٹاپ اس سہولت سے آراستہ ہیں۔حکومت کو چند فرلانگ کے فاصلے پر، شاہدرہ میں مقبرہ نور جہاں ،آصف جاہ اورجہانگیر کے مقبرے پر بھی توجہ دینی اور ان مظلوم عمارتوں کی تاریکیاں ختم کرنا چاہیے۔
مغل خاندان کے اس گھرانے کے ساتھ ہر کسی نے اپنی بساط میں ظلم ڈھایا۔خاندان کی چشمک سے ایک دوسرے کو دکھ دینے والے مغلوں کو بعد ازمرگ بھی لوگوں نے نہیں بخشا۔جہانگیر،آصف جاہ اورنورجہاں کے مقبروں اور باغات کو انگریزوں نے ریلوے لائن بچھا کر کاٹ دیا۔مغل ملکہ مہرالنسا نے زندگی کی کئی دہائیاں اس انتظار میں کاٹ دیں کہ جان دوں گی تو شوہر کے پہلو میں دفن ہوںگی،مگر انگریزوں کی جہالت نے اس کی چاہت کا صحن کاٹ دیا۔اس باغیچے کے پھول بھی نوچے گئے۔
پوری دنیا میں آثارقدیمہ کی حفاظت کے ٹھیکے داروں سے کسی نے نہیں پوچھا کہ تاریخ سب کی سانجھی ہوتی ہے تو یہ بدتہذیبی کیونکر ہوئی۔سکھوں نے کسی خفیہ خزانے کے لالچ میں نورجہاں کے مقبرے کو تقسیم کرکے نورجہاں کی خواہش کو پامال کیا۔وہ مرکر بھی اپنے محبوب شوہر کے پہلو میں نہ رہ سکی۔اب جس تیزی سے یہ مقبرہ اجڑا ہے،اس سے لگتاہے کہ ہم سب بھی بہت باقاعدگی سے قیام پاکستان کے بعد اس پامالی میں برابر اپنا حصہ ڈال رہے ہیں۔
سارے جہاں کا نور کہلانے والی مہرالنسا کا مقبرہ اب تاریکی کا ڈیرہ ہے،اس کے عقب سے ریلوے لائن پر ٹرینیں گزرتی رہتی ہیں۔آس پاس کی آبادیوں کا ہجوم سڑکوں پر رواں دواں ہے۔کچھ دور میٹرو بس میں سوار ہونے کے خواہش مند قطار میں کھڑے ہوتے ہیں۔ان سب سرگرمیوں کے شور میں مقبروں کی فریاد کسے سنائی دیتی ہے۔ہماری تاریخ کے ان کرداروں پرخاک پڑی ہوئی ہے۔جب یونیسکو جیسے عالمی ادارے کا کوئی نمایندہ آتا ہے،تو عموماً اس کی آمد مالی امداد سے مشروط ہوتی ہے۔اس کو چند جگہیں دکھا کر جیب گرم کرلی جاتی ہے۔
مینار پاکستان کے چاروں اطراف دھول اوردھواں چھایاہوا ہے۔ یادگار،جسے آزادی چوک بھی کہا جاتا ہے،وہاں شہر کے چاروں اطراف بشمول جی ٹی روڈ اور موٹر وے کا ٹریفک آکر اکٹھا ہو جاتا ہے،وہاں فلائی اوور تعمیر کرنے کی ضرورت ہے۔دریائے راوی جہاں سے راولپنڈی، جہلم،گو جرانوالہ، سیالکوٹ، شیخوپورہ اورفیصل آباد سے آنے والا ٹریفک لاہور شہر میں داخل ہوتا ہے اوراس کے لیے بھی مرکزی پل ایک ہی ہے۔ایک نیا پل دریائے راوی پر بھی تعمیر کیا جائے،تو دیگر شہروں سے آنے والا ٹریفک بھی اس سے مستفید ہو سکتا ہے۔بادشاہی مسجد اورشاہی قلعہ کی حالت زار بھی بیان سے باہر ہے۔اہل لاہور اس ناقدری سے اچھی طرح واقف ہیں۔
گزشتہ بیس برس سے مینار پاکستان پر جھاڑو اورصفائی ستھرائی کاکام کرنے والے ایک بزرگ ملازم کاکہنا ہے ''پہلے لوگوں میں شعور تھا،وہ یہاں آتے تھے،تو وہ حب الوطنی کے جذبے سے سرشار ہوا کرتے تھے۔ان کے دل میں اس مقام کے لیے احترام تھا۔اب تو یہ گیٹ سے داخل ہوتے ہی گندگی پھیلانا شروع کرتے ہیں اور جب تک واپس نہیں چلے جاتے،اس عمل کو جاری رکھتے ہیں۔شرم کا لفظ ان کی لغت میں ہی نہیں ہے۔''شاید اب یہ مقام صرف جلسے کرنے کے لیے رہ گیا ہے۔
مینار پاکستان کو مکمل روشن ہونے کی بھی سہولت دستیاب نہیں،کیونکہ اسے کسی کا تعاون درکار نہیں۔جن کے تعاون کی یادگار یہ مقام ہے،وہ اس ملک کے بننے کے بعد دنیاسے چلے گئے،جو موجود ہیں،انھیں اب کچھ یاد نہیں،کچھ بھی نہیں۔تمام سیاسی جماعتیں، حب الوطنی کے راگ الاپنے والے اپنے گھر میں لگے آئینے میں اپنی صورت دیکھیں اورہم عوام بھی کسی سے پیچھے نہیں۔جہالت کا مظاہرہ کرنے میں برابر کے شریک ہیں۔
لاہور شہر کے ایک بہت باذوق صحافی نے رات گھر کے کھانے پہ مدعو کیا،انھوں نے مجھ سے میری لاہور یاترا کے بارے میں دریافت کیا۔میں نے اپنی مصروفیت کے بارے میں بتایا اور تہذیب کا نوحہ بھی سنایا۔وہ کہنے لگے۔''کون سی تہذیب اور ثقافت،اب صرف جہالت ہمارے مقدر میں رہ گئی ہے۔''واقعی ایسا ہی لگتا ہے،اس جہالت کے فروغ میںکیا ان پڑھ اورکیا پڑھے لکھے سب ہی شامل ہیں۔راوی چین لکھتا ہے،مگر لاہور کا راوی ان دکھوں کے ہاتھوں خشک ہو چلاہے۔اپنے دامن میں اس دریا نے کیسے شاندار عہد سمیٹے ہیں اور اب عہد جہالت سے نبردآزما ہے اورجہالت بھی ایسی ،جس کی خبر تک نہیں ان کو ،جن کی یہ میراث ہے،اگر ضمیر کبھی ملامت کرنے بھی لگے،دلیل اورڈھکوسلے سے کام چلا لیتے ہیں۔
دنیا نے کتابوں ،ڈاکیومنٹریز اورفلموں کے ذریعے اپنی تہذیب وثقافت کو نہ صرف محفوظ کیا،بلکہ اس کے فروغ کے لیے بھی کام کیا۔ہمارے ہاں اس کے برعکس ہے۔ایک ایک کرکے سارے تاریخی مقامات کھنڈرات میں تبدیل ہورہے ہیں۔مقبرہ نورجہاں کے اردگرد باغات کانام ونشان مٹ چکا،اب وہاں شام میں بچے کرکٹ کھیلتے ہیں۔رات کو اداسی ماتم کرتی ہے۔آصف جاہ کے مقبرے پر کوے اورچیلیں منڈلاتی ہیں،اس کامرکزی دروازہ عرصہ دراز سے مقفل ہے،ہمارے دلوں کی طرح،جس کی بانہیں اب کسی کے لیے نہیں کھلتیں۔جہانگیر کامقبرہ ان دونوں عمارتوں سے قدرے بہتر ہے،مگر یہ بھی تیزی سے زوال پذیر ہے۔
لاہور کے تاریخی مقامات ہوں یاٹیکسلا،ہڑپہ اورموہنجوداڑو کے آثارقدیمہ،سب کاحال کم وبیش ایک جیسا ہی ہے۔جن تاریخی مقامات کے لیے غیرملکی امداد ملتی ہے،ان کی حالت کچھ بہتر ہے،مگر وہ بھی صرف امداد کی فراہمی تک۔ان مقامات کی زبوںحالی کا تذکرہ بھی صرف بناوٹی بیانات اورخبروں تک محدود رہتا ہے،عملی طور پر ایک طویل عرصے سے کوئی تبدیلی نہیں ہوئی۔ان مقامات کے لیے کچھ نہیں کیاگیا۔
تاریخ بذات خود کوئی شے نہیں ہے،یہ ایک روئیے کا نام ہے۔مثبت سوچ اور رویے کے حامل لوگ اپنے خطے کی تاریخ کو محفوظ کرتے ہیں۔قومیں لاوارث رہنا پسند نہیں کیاکرتیں،مگر میں قوموں کی بات کررہاہوں۔لاہور کا ہر گھر گیس اور بجلی کے ہاتھوں تاریکی کا مزار بنا ہوا ہے۔مہنگائی کے ذریعے عوام کی زندگی خواہشوں کے مقبرے میں تبدیل ہوتی جارہی ہے۔ہر گھر میں کئی کئی گھنٹے تاریکی کاراج ہے ،ایسے میں ملکہ نورجہاں کے مقبرے کو روئیے تاراج کر رہے ہیں،اس میں کون سی حیرت کی بات ہے۔
پڑوسی ملک جودھا اکبر،بھگت سنگھ،منگل پانڈے،ملکا سنگھ جیسی تاریخی شخصیات پر فلمیں بناتا ہے۔نئی نسل سے ان کو متعارف کرواتا ہے،صرف نصابی کتابوں تک انھیں محدود نہیں رکھتا اور ایک ہم ہیں،اپنی تاریخی شخصیات کا تعارف نئی نسل سے کیا کروائیں گے،ان کی نشانیوں کو تو سنبھال کر رکھ نہیں سکتے۔ویسے بھی ہمارے ہاں ثقافت کو دوسرے درجے کی چیز سمجھ لیا گیا ہے۔اس کو کبھی سنجیدہ نہیں لیاگیا،یہی وجہ ہے کہ ادبی ادارے ہوں،یا پھر تاریخی عمارتیں،روزبروز اپنے زوال کو سینے سے لگا رہی ہیں۔ہمارے مایہ ناز موسیقار، گلوکار، شاعر، ادیب، مصور اوردیگر فنون سے وابستہ شخصیات کی اکثریت دامن میں دکھ لیے یہاں سے رخصت ہوئی۔ہم کیسے لوگ ہیں،کیا ہم ایسے ہی رہیں گے؟
ملکہ نورجہاں نے اپنے شوہر کی موت کے بعد کئی برس تک اس جدائی کے موسم کو برداشت کیا۔اپنی موت سے پہلے اپنا مقبرہ اپنے شوہر کی آخری آرام گاہ کے قریب تعمیر کروایا۔اس مقبرے پر کنندہ اس کاا پنا ایک شعر اس کے ماضی اورحال کی عکاسی کررہا ہے اورصوبہ پنجاب کے محکمہ آثارقدیمہ کے لیے نقارہ بھی ہے۔اس فارسی شعرکی تشریح یوں ہے ۔''ہم غریبوں کے مزار پر نہ چراغ ہے،نہ پھول ہیں،نہ پروانے اپنے پر جلاتے ہیں ،نہ بلبل کی صدا آتی ہے۔''