بُک شیلف

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔

جانیے دلچسپ کتابوں کے احوال۔ فوٹو : فائل

'آپ مانیں یا نہ مانیں!'

کہانیوں، افسانوں اور فلموں کے ساتھ سینہ بہ سینہ چلنے والے پراسرار اور مافوق الفطرت واقعات کا بھی اپنا ایک سلسلہ ہوتا ہے، جنھیں سائنسی قطعیت پر یقین کرنے والے بہت آسانی سے کوئی واہمہ، نفسیاتی مرض اور منطق کی دیگر توجیہات کے ذریعے جھٹلا دیتے ہیں۔ ایسے ناقابل یقین اور غیر معمولی واقعات میں انسانی دل چسپی فطری ہے، یہی وجہ ہے کہ مختلف نجی ٹی وی چینل باقاعدہ اس طرز کے پروگرام ترتیب دیتے ہیں اور بہت سے ایک بات کا بتنگڑ بنا کر بھی سنسنی خیز طریقے سے یہ چیزیں اپنے ناظرین تک پہنچاتے ہیں۔

ایسے ہی اب ہر خاص وعام کے ہاتھ میں 'سماجی ذرایع اِبلاغ' کا ایک ''جھنجھنا'' آگیا ہے، اس لیے اب شاید ایسے واقعات کی صحت پر کوئی سنجیدگی سے غور بھی نہیں کرتا، لیکن راشد اشرف نے 'حیرت کدہ' (حصہ دوم) میں مختلف رسائل و جرائد میں شایع ہونے والے ایسے مافوق الفطرت واقعات چُنے ہیں، جو اس اعتبار سے بھی اہم ہیں کہ یہ مختلف مشہور شخصیات کے ساتھ پیش آنے والے واقعات ہیں۔

اس میں انھوں نے علامہ نیاز فتح پوری کے 1930ء میں شایع ہونے والے شمارے ''جن'' کے تمام 12 پرچوں سے استفادہ کیا، مختلف کتابوں کے علاوہ 'اردو ڈائجسٹ' اور 'سیارہ ڈائجسٹ' سے بھی ایسے مواد کو اکٹھا کیا اور اُسے با حوالہ اس کتاب کا حصہ بنایا۔

یہ کتاب اسی طرح کی ترتیب ہے جیسے راشد اشرف نے 'ڈائجسٹ کہانیوں' کی چار جلدوں میں مختلف زمانوں میں شایع ہونے والا بہترین مواد اکٹھا کیا تھا۔ اس کتاب کے پہلے حصے میں شامل 30 مضامن مختلف رسائل وجرائد سے منتخب کیے گئے ہیں، جب کہ دوسرے حصے میں مختلف خود نوشتوں، یادداشتوں اور خاکوں وغیرہ سے ایسے حیران کر دینے والے واقعات جمع کیے گئے ہیں، جب کہ تیسرے حصے میں آٹھ عنوانات ماہ نامہ ''جن'' سے لیے گئے ہیں۔ تحیر اور اچنبھے کا باب بنی ہوئی یہ دل چسپ کتاب 'اٹلانٹس پبلی کیشنز' (0300-2472238, 021-32581720) سے شایع ہوئی ہے، صفحات 536 اور قیمت 690 روپے ہے۔

تاریخ کے راہی کی کچھ تلخ یادیں

'کاروانِ حیات' ریاست حیدر آباد (دکن) کے پاکستان میں پہلے اور آخری ایجنٹ نواب مشتاق احمد خان کی خود نوشت ہے اور یہ آپ بیتی کیا ہے، ہماری تاریخ کا المیہ ہے۔۔۔ کہ کس طرح وہ سقوط حیدر آباد کے بعد بھی یہاں اُس ریاست کا عَلم لہرائے رہے، تاوقتے کہ انھیں ہماری سرکار نے باقاعدہ اس سے روک نہیں دیا۔۔۔ یہ امر ان کے لیے نہایت تکلیف کا باعث ہوا۔۔۔ وہ بہتیرا کہتے رہے، لیکن شاید تب وقت بدل چکا تھا، زمینی حقائق اور 'ریاستی مفادات' کے کھاتوں میں 'وقت کے تقاضے' کا کوئی عنوان استوار تھا، انھیں چاروناچار اس نمائندگی سے دست بردار ہونا پڑا۔

ایک یہی نہیں اس سے پہلے اُن کے ساتھ 'مقامی آقاؤں' کا رویہ اور یہاں کچھ 'اپنوں' کے گھاؤ انھیں پریشان کیے رہے۔۔۔ کراچی کی 'حیدرآباد کالونی' کی آباد کاری کے بعد وہاں کے مکینوں پر کیسے بے دخلی کی تلوار لٹکتی رہی اور سرکاری ایوانوں میں کس طرح ان کے لیے فقرے اچھالے جاتے تھے، یہ اور اس جیسے سارے تلخ وترش مشاہدات اور تجربات مشتاق احمد خان کے حساس دل نے اپنی خودنوشت کے ذریعے تاریخ کے سپرد کر دیے۔۔۔ ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ سقوط حیدر آباد ریاست کی کوئی تحقیق ان کے اِس بیان اور گواہی کے بغیر مکمل نہ ہو سکے گی۔۔۔

بالخصوص جب پاکستان کے کردار کا تذکرہ ہوگا، تو یہ کتاب اس تحقیق اور موضوع کا سنگ بنیاد بنے گی، کیوں کہ انھوں نے یہاں رہتے ہوئے وہاں ہونے والے واقعات کا مشاہدہ کیا اور اس کا حصہ بنے۔ راشد اشرف کے زیر اہتمام یہ دستاویز فضلی سنز (021-32629724, 021-32633887) سے شایع کی گئی ہے۔ قیمت 650 روپے ہے۔

جس کے لیے الطاف فاطمہ نے جینا چاہا!

ہم نے اس کتاب کی ورق گردانی شروع کی تو پایا کہ اِسے جہاں سے پڑھنا شروع کیجیے، یہ اپنے سحر میں جکڑے لیتی ہے۔۔۔ لفظوں کی بُنت اور اسلوب کی چاشنی سیدھا قاری کے قلب پر اثر کرتی ہے، جیسا کلاسیکی اردو کا سا کوئی باب ہو۔۔۔ یا شاید آج کل 'سطحی ادب' جس طرح عام ہوا ہے، ایسے میں ہم نے طویل عرصے بعد کوئی ایسا ادب پارہ پڑھا، جس میں ایک پلاٹ پر بُنی گئی سپاٹ سی کہانی نہیں ہے، بلکہ اس میں ایسی گہرائی اور گیرائی ہے کہ قاری اسے پڑھتے ہوئے خود اس کا حصہ بن جاتا ہے۔۔۔ طاہرہ اقبال کے ناول 'گراں' کے بارے میں ہمارا یہ تاثر قائم ہو چکا تھا۔۔۔ پھر اس ناول کے ابتدا میں ممتاز ادیبہ الطاف فاطمہ کے الفاظ پڑھے تو یقین ہوگیا کہ ہم جیسے طالب علم کی رائے بالکل بھی غلط نہ تھی۔



کیوں کہ الطاف فاطمہ نے نہ صرف طاہرہ اقبال کے ذخیرۂ الفاظ پر رشک کا اظہار کیا ہے، بلکہ 'کولاژ' میں شایع ہونے والے اس قسط وار ناول کی تکمیل تک حیات رہنے کی خواہش بھی ظاہر کی۔ کلاسیکی اردو کے تاثر کے ساتھ اس میں گاہے گاہے در آنے والے پنجابی مکالمے اور لوک گیتوں کا بگھار ایک منفرد چیز ہے، کیوں کہ آج کل ادب میں بالکل سپاٹ زبان کا چلن بڑھ گیا ہے، جس میں وہ زبان زدِ عام ہونے والے ایسے فقرے اور بھونڈے روزمرہ شامل کر کے یہ طے کر لیتے ہیں کہ وہ دراصل ادب کو آج کے زمانے سے جوڑ رہے ہیں۔

ہمارے خیال میں ادب صرف اسی خواص کا نام تو نہیں ہے۔ طاہرہ اقبال نے اردو ادب کے قاری کو قدیم چاشنی اور لطف لیے ہوئے آج کے زمانے کی ایک نئی کہانی پیش کی ہے، ایک اسی وصف کو ہی سامنے رکھا جائے، تو اس ناول کی انفرادیت کے لیے بہت ہے۔ اس میں در آنے والے مقامی زبان کے بہت سے الفاظ بھی شامل ہیں، جن میں سے بہت سے لفظوں کے اردو معنی قوسین میں دیے گئے ہیں۔ 'دوست پبلی کیشنز' (051-4102784-85) اسلام آباد سے شایع شدہ اس کتاب کے صفحات264 کی قیمت 550روپے ہے۔

'ملا کے خاک میں ذکرِ کمال کرتے ہیں'

1961ء میں پہلی بار شایع ہونے والی ضیا الدین برنی کی 'عظمت رفتہ' کو مشہور سلسلے 'زندہ کتابیں' نے گویا طبعی جِلا بخشی ہے، جس میں مولانا ابو الکلام آزاد، محمد علی جناح، موہن داس گاندھی، جگرمراد آبادی، جمشید نسروانجی، علامہ شبلی نعمانی، مولوی محمد اسحق رام پوری، میر باقر علی داستان گو، مولانا محمد علی جوہر، مولانا شوکت علی، مولانا ظفر علی خان، سر ابراہیم ہارون جعفر، مفتی کفایت اللہ، گاما پہلوان سمیت 93 مختلف شخصیات کے خاکے شامل ہیں۔ مصنف لکھتے ہیں کہ 'اس میں صرف دو اشخاص ایسے ہیں کہ جن سے میری ایک بار بھی ملاقات نہیں ہوئی۔

بعض سے ایک اور بعض سے کچھ زیادہ، لیکن بیش تر سے برسوں کے تعلقات ہیں۔' اس کتاب میں 'ضمیمے' بھی شامل ہیں، جس میں مولانا ظفر علی خان کا مولوی محمد حسین کے بارے میں شذرہ اور حسرت موہانی کا وہ مضمون جس پر انھیں پہلی بار قید کی سزا ہوئی، شامل ہے۔ کتاب کے صفحات 450، قیمت 700 روپے اور ناشر فضلی سنز (021-32629724, 021-32633887) ہیں۔ پیش لفظ مولانا عبدالماجد دریاآبادی نے تحریر کیا ہے۔ ضیا الدین احمد برنی کے مطابق انھوں نے شخصیات کے مرتبے کو سامنے رکھتے ہوئے اس کتاب کا عنوان 'عظمت رفتہ' رکھا ہے اور یہ کتاب ''چند ہم عصر'' اور ''گنج ہائے گراں مایہ'' کے طرز پر لکھی ہے۔ انھوں نے 'تمہید' میں مولانا احتشام الحق تھانوی کی خواہش پوری کرتے ہوئے یہ شعر درج کیا ہے؎


یہ منزلت بھی غنیمت ہے اہل دنیا کی

ملا کے خاک میں ذکرِ کمال کرتے ہیں

'زندہ کتابیں' میں اب تک ایک بہت بڑی تعداد خاکوں کی کتابیں شایع ہو چکی ہیں۔ اس کتاب کی ورق گردانی کرتے ہوئے ہمارے ذہن میں یہ خیال کوندا کہ کیا ہی اچھا ہو کہ ایسی کتابیں بھی ترتیب دی جائیں، جس میں ایک ہی شخصیت پر مختلف لوگوں کے لکھے گئے خاکے جمع کیے گئے ہوں، تاکہ اگر کوئی قاری کسی شخصیت کے بارے میں پڑھنا چاہے، تو اسے ایک جلد میں وہ بیش بہا مواد دست یاب ہو جائے۔

'افسانے سے زیادہ حیرت انگیز حقیقت'

محمد اکرم صدیقی کی ''قید یاغستان'' 108 سال پہلے شایع ہونے والی ایک مقبول اور شاہ کار کتاب ہے۔ ''ہمایوں'' کے مدیر بشیر احمد نے 1937ء میں اس کتاب کے دیباچے میں لکھا تھا کہ اگر میں اکرم صاحب سے نہ ملا ہوا ہوتا اور یہ کتاب پڑھتا، تو میں اسے کسی افسانوی ذہن کا کمال شاہ کار سمجھتا۔ وہ کہتے ہیں کہ انگریزی مقولہ ہے کہ ''حقیقت افسانے سے زیادہ حیرت انگیز ہوتی ہے۔'' یہ کہانی اس بات کی تصدیق کرتی ہے۔ کتاب میں مصنف کے چار پیش لفظ کے ساتھ چھٹے ایڈیشن میں مصنف کی صاحب زادی عارفہ محمود کا پیش لفظ بھی شامل ہے۔



ورق الٹیے تو اغوا برائے تاوان کے 45 دن اردو ادب میں ایک سنسنی خیز، تحیر انگیز اور ایک ایسی لاجواب کتاب کا پیش خیمہ بن گئے، جس پر بڑے بڑے مشاہیر اَش اَش کر اٹھتے ہیں، کہ اُسے مولانا ابوالکلام آزاد کی 'غبارِ خاطر' کی صف میں شمار کرتے ہیں۔ قید سے فرار کی یہ افسانوی سی دستاویز 400 سے زائد صفحات تک دراز ہے، زیر نظر اشاعت میں اس کے ساتھ 150 صفحات مزید نتھی ہیں، جس میں مصنف کی صاحب زادی عارفہ محمود نے بہت خوب صورتی سے اپنے والد کا مفصل خاکہ کھینچا ہے۔

یہی نہیں اس سے پہلے ''قید یاغستان'' ادبی دنیا کی نظر میں کے عنوان تلے مولانا غلام رسول مہر، ڈاکٹر سید عبداللہ، چراغ حسن حسرت، سید وقار عظیم، ابواللیث صدیقی، میرزا ادیب اور دیگر کے گہرے مضامین بھی شامل کیے گئے ہیں۔ آخری صفحات میں یادداشت کے لیے صفحات بھی دیے گئے ہیں اور چند تاریخی تصاویر بھی زیبائش کا باعث ہیں۔ 'اٹلانٹس' (0300-2472238, 021-32581720) سے شایع ہونے والی اس کتاب کی قیمت 700 روپے ہے۔

فلموں میں اہل قلم کے تانے بانے

عام طور پر ہندوستانی فلموں کو 'ہندی' کے خانے میں ڈال دیا جاتا ہے، جب کہ کچھ حلقے اِسے 'ہندوستانی' کہہ کر ذرا فاصلہ کرتے ہیں، لیکن برا ہو برصغیر کی تنگ نظری کا کہ اُسے ببانگ دہل اردو فلمیں کہنے کا جگرا کم ہی کسی نے پایا ہوگا۔۔۔ جب کہ فلموں میں تحریر کا استعمال شاذونادر ہی کسی منظر میں آجاتا ہے، البتہ فلم کے عنوان میں کبھی 'رومن' کے ساتھ اردو اور ہندی رسم الخط کا تکلف بھی کر لیا جاتا ہے، لیکن بولتے ہوئے اردو یا ہندی میں تفریق کرنا ہمارے خیال میں ناممکن ترین امر ہے، کیوں کہ ہم یہی الفاظ ہندوستان میں بولیں تو ہندی کہلائیں اور اِدھر پڑھیں تو اردو مانے جائیں گے۔

الّا یہ کہ تحریر نہ کر دیے جائیں اور ہم اسے رسم الخط کی وجہ سے اردو اور ہندی قرار دیں۔ بہرحال فلموں کی زبان کو اردو یا ہندی قرار دینے کی بحث تو شاید تاریخ میں کبھی طے نہ ہو، البتہ ان فلموں میں حصہ ڈالنے والے، گیت اور کہانیاں دینے والے، اس کے مکالموں میں رواں اور حقیقت سے قریب تر لفظ جَڑنے والوں پر یہ دستاویز ضرور اس حوالے سے فیصلہ کرنے میں مدد دے گی، جس میں اس حصے داری کا سلسلہ امیر خسرو سے شروع ہوتا ہے اور میر، غالب اور ٹیگور سے ہوتا ہوا حسرت، جوش، منٹو، کرشن چندر، کیفی اعظمی، امرت لال ناگر، گلزار اور جاوید اختر تک 'ادب سے فلم تک' نامی اس ضخیم کتاب میں ہر قابل ذکر لکھاری کے ہندوستانی فلم میں حصے کو سمو دیا گیا ہے۔۔۔ ان شعرا کے مختلف فلموں کے لیے لکھے گئے یا بعد میں فلموں میں شامل کیے جانے والے گیتوں سے لے کر فلم کی کہانی اور مکالموں تک، سب کچھ اختصار کے ساتھ قارئین کے سامنے پیش کر دیا گیا ہے۔

یہ کتاب بھوپال (ہندوستان) سے 2017ء میں شایع ہوئی، پاکستانی قارئین کے لیے اِسے راشد اشرف نے اپنے سلسلے 'زندہ کتابیں' میں شایع کیا ہے، وہ لکھتے ہیں کہ 'فلم نے اہل قلم کے یافت کے اس سلسلے کو قائم کرنے میں مدد دی، جو بادشاہت کے خاتمے کے بعد ختم ہو گیا تھا۔۔۔' فاروق احمد فلم کو داستان گوئی کی ہی برقی اور جدید شکل گردانتے ہیں۔۔۔ اس اہم حوالہ جاتی دستاویز کی قیمت 1980 روپے اور ناشر اٹلانٹس پبلی کیشنز (021-32581720, 03002472238) ہیں۔

اہل سندھ کی بے چینیوں کا ایک عنوان

سندھ کے تشخص اور وحدانیت کا نقطۂ نظر لیا ہوا عبدالمومن کا یہ ناول ''بغاوت تک'' اپنی زمین کا مقدمہ لڑتا ہوا نظر آتا ہے۔۔۔ اس میں ممکن ہے کہ تاریخ، سیاسیات، عمرانیات اور فلسفے سے دل چسپی نہ رکھنے والوں کو یہ یک سر خشک معلوم ہو، کیوں کہ اس میں سندھ اور سندھ کے فرزندانِ زمین کے حوالے سے ایسے ہی طویل مکالمے اور اظہار خیال دکھائی دیتے ہیں۔

مصنف لکھتے ہیں کہ اس سے پہلے وہ سندھی اور اردو کی کوئی 40 کتابیں رقم کر چکے ہیں اور اس کتاب کے ذریعے انھوں نے موجودہ نسل کو آگاہ کرنے کی کوشش کی ہے کہ دراصل ہو کیا رہا ہے۔ ناول کا ایک کردار گویا ہے ''خاتم النبیا کے عہدِ مبارک میں ہی آفاقی دین پر ایمان کی دولت سے بہرہ مند ہونے کے باوجود تیرہ سو برس تک اپنی قوی شناخت کے ساتھ ہم مسلمان رہے۔

اچانک لندن کے چرخ نادرہ فن سے ہمالیہ کی ترائیوں میں ایک مسیحا اترا، جس نے میری قومی شناخت کو بھی کلمہ پڑھا کر 'مسلمان' بنا دیا اور ہمیں قوم سے اٹھا کر 'ملت' میں گم کر دیا اور ارضِ سندھ 'پاک سرزمین' کا اٹوٹ حصہ بن گئی۔'' یہی نہیں اس کتاب میں مذہبیت کا رنگ بھی ہے، تو اپنے تئیں 'روشن خیالی' کی صدا بھی، لیکن اس کے ساتھ ساتھ کراچی سے کشمور تک 'انجینئرنگ' کے ساتھ 'مقدس قبیلے' کے لوگوں کو بسائے جانے کا تذکرہ بھی ہے، جنھیں آکٹوپس کی طرح پنجے گاڑے ہوئے بتایا جاتا ہے۔

ساحلی وسائل دھرتی کے بیٹوں کے لیے اجنبی اور تجارتی مراکز میں فرزندانِ زمین پر بند ہونے کا ذکر بھی موجود ہے۔ ایک جگہ درج ہے ''وہ جنھیں دراصل کلمۂ طیبہ سے کوئی سروکار نہ تھا، نہ اب ہے، یہاں آگئے۔'' ناول میں اگرچہ فارسی اشعار کا سہارا لیا گیا ہے، لیکن زبان بالکل سادہ ہے۔

اس کا انتساب سابق وزیراعظم بے نظیر بھٹو کے نام کیا گیا ہے۔ مہتاب اکبر راشدی لکھتی ہیں کہ ''میں عبدالمومن کو مبارک باد دیتی ہوں کہ انھوں نے اپنے اندر کے فلسفی اور ادیب کو بلآخر تلاش کر لیا ہے۔ اس طرح کی فکر اور فلسفہ رکھنے والے لوگ کچھ زیادہ نہیں ملتے۔ ہمیں ان کی قدر کرنی چاہیے۔'' ناول کا 'مقدمہ' بہ عنوان 'آزادی کی سیڑھیاں' امجد علی شاکر (لاہور) نے رقم کیا ہے۔ فضلی سنز (021-32629724, 021-32633887) سے شایع ہونے والے اس مجلد ناول کی ضخامت167 اور قیمت 450 روپے ہے۔
Load Next Story