نظریہ ضرورت

ہماری سیاست میں نظریہ ضرورت کے مفروضے نے اپنے ایک معنی پائے، اس سے ہٹ کے اس قانونی تھیوری کے...


جاوید قاضی January 20, 2014
[email protected]

ہماری سیاست میں نظریہ ضرورت کے مفروضے نے اپنے ایک معنی پائے، اس سے ہٹ کے اس قانونی تھیوری کے بانی کی اس سے کیا مراد تھی۔ لیکن جب قانون پر عمل ہو رہا ہوتا ہے تو اس کی بھی وجوہات ہوتی ہیں اور جب قانون پر عمل نہیں ہو رہا ہوتا تو اس کی بھی کچھ وجوہ ہوتی ہیں۔ نظریہ ضرورت ان محرکات کو ایک Pendulum کی شکل میں دیکھتا ہے اور بہت سی عدالتیں اس نظریے کا استعمال حقیقی طور پر راستہ نکالنے کے لیے کرتی ہیں اور بہت سی کورٹس بہانہ بنانے کے لیے ۔ان دونوں صورتوں میں سچ یہ ہوتا ہے کہ وہ قانون یا وہ آئین یا اس کا ایک مخصوص حصہ کسی غیرقانونی طاقت کے سامنے جب چل نہیں پاتا تو نظریہ ضرورت کے تحت اس کے گھٹنے ٹیکنے کے راستے ہموار کیے جاتے ہیں ۔ قانون کی پاسداری کورٹس کا کام ہے، وہ اس پر عملدرآمد کروا سکتی ہیں جب تک لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے ہیں ، مگر جب نہیں ہوتے اور ایسا موقع آتا ہے کہ غاصب بیٹھ جاتا ہے تو بہت سارے شہر والے جج چلے جاتے ہیں ، کچھ نہیں بھی جاتے اور پھر کچھ نئے بھی آجاتے ہیں۔

نظریہ ضرورت ، کتنی بھی مضبوط جمہوریت کیوں نہ ہو، کسی نہ کسی شکل میں رہتا ہے۔ اب سمجھدار سیاستداں کی اس پر نظر رہتی ہے وہ اس کو بڑھنے نہیں دیتا، بلکہ اس کو دبا کے رکھتا ہے۔

مجھے لگ رہا ہے کہ آج کل یہ دوبارہ پر تول رہا ہے اور خاص کرکے مشرف آئین شکنی کیس نے اس میں اور جان ڈال دی ہے۔ کچھ لوگ سمجھتے ہیں کہ مشرف کو اگر سزا ہوئی بھی تو اس پر عمل نہیں ہوسکے گا ۔اس لیے کہ قوم بٹی ہوئی ہے یہ بھی حقیقت ہے کہ جب جسٹس منیر نے ایوب خان کے مارشل لا کو Validity نظریہ ضرورت کے تحت دی تھی تو اس وقت قوم شاید سو رہی تھی۔بہرکیف قوم بٹی ہوئی ہو یا سو رہی ہو، دونوں صورتوں میں نظریہ ضرورت اپنی جگہ بناتا ہے۔

اس سے پہلے کہ ہم اس بحث کو آگے بڑھائیں، تھوڑا سا اس Law of Necessity کو اس کے ٹھوس میرٹ پر بھی دیکھیں۔ امریکا کی عدالت نے ایک کیس میں جو Twin Case کے نام سے جانا جاتا ہے۔ ایک بچے کے قتل کی اجازت دے دی اور وہ بھی نظریہ ضرورت کے تحت کیوں کہ نہ کوئی قانون نہ آئین اس کی اجازت دیتا تھا۔

یہ کیس دنیا کے کیسوں کی تاریخ میں چند گنے چنے Hard Cases میں سے ایک تھا۔ ہوا یوں کہ دو مولود بچوں کے جسم آپس میں کچھ اس طرح سے ملے ہوئے تھے کہ ان کو جدا کرنا ضروری تھا۔ ورنہ دونوں مرجاتے۔ مگر جدا کرنے سے ایک بچ جاتا اور دوسرا کو مرجانا تھا۔ اس طرح سے یہ بھی ہوا کہ کورٹ نے ایک قتل کو قانونی قرار دے دیا۔

ہمارے پاس جو نظریہ ضرورت ہے وہ سیاسی پس منظر میں استعمال ہوا ہے۔ ہم اس کی اخلاقیات یا غیر اخلاقیات والے پہلو میں نہیں جائیں گے۔ انتہائی غیر جانبدار ہو کے اس کو اس کی حرکیات Dynamics میں دیکھیں گے، ان وجوہات کو دیکھیں گے جس کی وجہ سے ماضی میں اس نے قانونی اقتدار اعلیٰ کو رول بیک کروایا اور کورٹس سے اپنے قانونی ہونے کا ٹھپہ لگوایا اور آگے جاکے ''مٹی پاؤ'' کے اصولوں پر پارلیمنٹ نے بھی ان کو توثیق دینے کے لیے آئین کا حصہ بنایا۔

1947 سے لے کر 1957 تک جو ناعاقبت اندیشاں سیاستدانوں نے دکھائیں وہ وہاں نہرو اور اس کی کانگریس نے تو نہ دکھائیں۔ انھوں نے وہاں آئین بھی دے دیا اور ہم نے کچھ بھی نہیں۔ پھر کیا نظریہ ضرورت تو آنا تھا۔ یہاں کون سا برلا اور ٹاٹا تھا۔ سب گماشتہ سرمایہ دار تھے اور جاگیردار تھے۔ انگریزوں کے زمانے سے وہ ایک اعتبار سے نظریہ ضرورت سے بہ خوبی واقف تھے۔ ''جس کی لاٹھی اس کی بھینس'' ۔ پہلے وہ انگریز سامراج کے ایجنٹ تھے اور پھر آمر کے جب کہ آمر امریکا کا چہیتا تھا۔ سرد جنگ کا زمانہ تھا۔ ہمارے سیاستدان نااہل بھی تھے اور کمزور، ان کو بہانہ ملا اور وہ آگئے۔ جاگیرداروں اور ان گماشتہ سرمایہ داروں کا اقتدار میں رہنا مجبوری تھی۔

بھٹو صاحب صحیح جا رہے تھے، ایک تو وہ امریکا سے آخری ٹکر نہ لیتے تاکہ وہ ہمارے نظریہ ضرورت کی حالتوں سے گٹھ جوڑ نہ کرتے اور پھر ان کو 77 کے انتخابات میں اپنی کرائی ہوئی دھاندلیاں، دو تہائی کی اکثریت سے جیتنا گلے میں پڑگیا۔ ''عزیز ہم وطنو!'' آگئے نظریہ ضرورت کا ٹھپہ لگ گیا۔

پھر نظریہ ضرورت کے پیچھے بیٹھی ہوئی سیاسی طاقتیں 58(2)(B) کے اندر بیٹھ گئیں۔ پھر ایک بھاری مینڈیٹ آیا، پنجاب سے وزیر اعظم نے 58(2)(B) کو ختم کیا مگر نظریہ ضرورت کو 58(2)(B) کی کوئی مجبوری نہیں تھی۔ وہ تو سیاستدانوں کی نالائقیوں سے پروان چڑھتا ہے۔ اس وقت بھی حکمران عوام کو کچھ نہیں دے پائے، آپ کے زمانے میں مہنگائی کچھ زیادہ بڑھتی ہے جب کہ پیپلز پارٹی کے زمانے میں قدر نہ کم نہ بڑھتی ہے۔ بھاری مینڈیٹ تو ان کے پاس تھا مگر جس ہذیانی انداز میں وہ مشکل میں ہاتھ ڈال بیٹھے اس کا مینڈیٹ ان کے پاس کبھی بھی نہ تھا۔ آپ گئے تو مہنگائی کے بوجھ تلے لوگ کوما میں تھے۔ اور یہ ہے وہ رات جس میں شب خون مارا جاتا ہے۔ نظریہ ضرورت آجاتا ہے۔

پانچ سال پہلے جب زرداری صاحب آئے تو پارٹی کی بہت بڑی لیڈر شہید ہو چکی تھیں ان کو اس اقتدار کے لنگڑے لولے ہونے کا بخوبی پتہ تھا۔ یہ بھی پتہ تھا کہ اسٹیبلشمنٹ کس طرح کھیل رہی ہے اور کورٹ بھی اس حکومت سے کچھ ضرورت سے زیادہ محبت کرتی تھی، اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ بری حکمرانی کی انھوں نے بھی مثالیں قائم کیں۔ طاہر القادری بتائیں کہ وہ کس کے اشارے پر آرٹیکل 62 اور آرٹیکل 63 پر اتنا کود رہے تھے کہ جس سے خود اس کے بانی ضیا الحق کی روح کو بھی پریشانی لاحق گئی ہوگی۔ ہاں مگر نواز شریف صاحب زرداری صاحب کے خلاف ہوتی ہوئی سازش کا حصہ نہ بنے۔

اور اب چھ مہینے بھی نہیں ہوئے کہ افراط زر نے لوگوں کو اور بدظن کردیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں جمہوریت ان کو کچھ بھی نہیں دے سکتی وغیرہ وغیرہ۔

کون نہیں چاہتا کہ مشرف کو سزا ہو، بلوچ کہتے ہیں وہ اکبر بگٹی کا قاتل ہے، سندھی کہتے ہیں وہ بے نظیر کا قاتل ہے، دائیں بازو کے لوگوں کو وہ اس لیے چاہیے کہ وہ امریکا کا ایجنٹ تھا وغیرہ وغیرہ۔

مگر لوگ سو رہے ہیں۔ عام غریب آدمی کو نیند آگئی ہے۔ قوم بٹی ہوئی نہیں ہے بلکہ اس کو اب اس سے غرض نہیں ہے۔ فرض کر لیجیے 12 مئی کے واقعے کے بعد مشرف پر بھی مقدمہ چلایا جاتا تو پوری قوم یکجا ہوتی اور نظریہ ضرورت کے زور پر آنے والے سیاستداں کونے سے لگے ہوئے ہوتے۔ مگر اب مشرف ٹرائل نے ایک ایسے نازک موڑ پرکھڑاکردیا اور حکمراں یہ دیکھنے سے قاصر ہیں جو عاصمہ جہانگیر کو نظر آرہا ہے کہ اگر جنرل مشرف پر ہاتھ ڈالے گئے تو پھر اس مرتبہ نظریہ ضرورت بہت سے لوگوں کو مار کے آئے گا اور آئے گا بھی بیس سال کے لیے۔

ایک طرف تو یہ حکومت طالبان کے حوالے سے مصلحت سے کام لے رہی ہے اور دوسری طرف اسٹیبلشمنٹ سے اپنے تعلقات خواہ مخواہ خراب کر رہی ہے اور لوگوں کو اس مقدمے سے دلچسپی نہیں۔ کیوں کہ سیاستدانوں نے نہ کرپشن ختم کی ہے نہ مہنگائی۔ جب سیاستدانوں کے اوپر انگلیاں اٹھتی ہوں وہاں غداری کے مقدمے نہیں چلا کرتے۔ غداری کے مقدمے اور لوگوں کا جمہوریت پر اعتماد اس لیے کہ جمہوریت لوگوں کو ڈلیورکرے، دونوں ایک ساتھ چلتے ہیں اور آئین کے غدار سولیوں پر لٹک جاتے ہیں،کیوں کہ ایسی جمہوریت کے اپنے کورٹ فیصلوں کے محافظ خود لوگ بن جاتے ہیں، جس طرح جب ہوگو شاویز کے خلاف فیصلہآیا تھا تو پوری وینزویلا باہر سڑکوں پر نکل آئی تھی اس لیے کہ ہوگو شاویز کی جمہوریت نے لوگوں کو ڈلیور کیا تھا نہ کہ اپنی تجوریاں بھر سکیں۔

نظریہ ضرورت تب دفن ہوگا جب جمہوریت ہی لوگوں کو Welfare دے گی اور عدلیہ سستا اور جلدی والا انصاف دے گی۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں