سلام شہدا ئے پاکستان
آہ۔۔۔۔جمعۃ المبارک 10 جنوری کو زخمی گھائل کراچی کے جسم پر دشمنان پاکستان نے ایک اور وار کرکے کراچی کے نڈر...
آہ۔۔۔۔جمعۃ المبارک 10 جنوری کو زخمی گھائل کراچی کے جسم پر دشمنان پاکستان نے ایک اور وار کرکے کراچی کے نڈر ایس ایس پی چوہدری اسلم کو ان کے ڈرائیور اور ایک ساتھی کے ہمراہ شہید کردیا۔ یوں تو یہ وار پاکستان کے لیے نیا نہیں ہے پاکستان کے چپے چپے پر ایسے شہیدوں کا خون پھیلا ہوا ہے اور اس کے ذمے دار پاکستان کی سالمیت و خودمختاری کے دشمن ہیں اور گزشتہ تین دہائیوں سے ایک کے بعد ایک شہر میں قیامت برپا کرتے چلے آ رہے ہیں۔
آفرین ہے ان شہدا کے لواحقین پر جو اپنے پیاروں کو ارض وطن پر قربان کر رہے ہیں اور ایسے ہی جان فروش چوہدری اسلم تھے۔ ان کی جنگ ''عوام دشمن'' طاقتوں سے تھی، بھلا ''عوام دشمن'' ان کے وجود کو کیسے برداشت کرتے اس لیے ان پر ایک کے بعد ایک وار کرتے چلے گئے۔ چار وار خالی گئے لیکن پانچواں وار جان لیوا ثابت ہوا ۔ یہ لوگ اس سے پہلے بھی ایسی بہادری کی کئی داستانیں رقم کرچکے ہیں۔ اسکولوں کو تباہ کرنا اور ڈنڈے کے زور پر اسلام نافذ کرنا ان کا مقصد ہے اور وہ تمام لوگ جو پاکستان سے پیار کرتے ہیں پاکستان کی بقا اور سالمیت کے لیے کام کرتے ہیں وہ ان ہٹ لسٹ میں ہیں چاہے وہ صحافی ہوں یا جج، سپاہی ہو یا عوام۔
افسوس صد افسوس جب سارا ملک ایک جانباز آفیسر کی موت کا سوگ منا رہا تھا تو انتہا پسندوں کے حامی لیڈران منہ پر قفل لگا کر بیٹھ گئے۔ کہاں گئی تھی وہ گھن گرج جو ڈرون حملے میں مرنے والوں کے لیے ہوتی ہے۔ جو بیگناہوں کی دردناک ہلاکتوں میں ملوث عناصر کے گھائل ہونے پر ہوتی ہے۔
یہ جو سوات میں دلیر افواج نے جانیں دیں جو شمالی وزیرستان میں لڑتے ہوئے جانباز سپاہی شہید ہوتے ہیں جو دلیر پولیس ریجنرز روز کراچی میں اپنی جانیں نچھاور کرتے ہیں کس کے لیے؟
ہمارے لیے ، آپ کے لیے، ہمارے بچوں کے لیے آپ کے بچوں کے لیے وہ سرد راتوں میں سلگتے ہوئے حالات کا نظارہ کرتے ہیں تو آپ اور ہم اپنے گھر میں سکون سے بیٹھ کر ٹی وی کی بریکنگ نیوز سن لیتے ہیں اور یہ لیڈران صرف مذاکرات کے لیے نئے دلائل تیار کرتے ہیں۔باتیں کرتے ہیں،بیانات دیتے ہیں۔ ہمیں اور ان کو امن کی زندگی دینے کی کوششیں کرنے والے ان جانبازوں کو شہدا ماننے سے بھی انکاری ہیں۔
آئیں! ذرا دیکھیے تو میرے دیس کے دشمنوں سے نبردآزما ان سپاہیوں کے گھر ان کے بغیر کیسے ہوتے ہوں گے۔ کس دل سے ان کی مائیں اپنے لخت جگر کے بغیر تہوار گزارتی ہوں گی، ان کے گھر میں چاند رات کیسی ہوتی ہوگی، رات کے تارے گنتے گنتے شاید رات کٹتی ہوگی، سورج کی پہلی کرن ایک نئی امید لاتی ہوگی۔ ان کے بچے اپنے شہید والد کے بغیر زندگی گزار رہے ہوں گے، دوسروں کے جنازے پڑھانا اور بات ہے مگر اپنے لخت جگر کو کندھا دینا یہ بڑے دل گردے کا کام ہے جو ہمارے سپاہیوں کے لواحقین دن اور رات کر رہے ہیں؟
اب جب کے پاکستان دہشت گردوں کے چنگل میں پھنسا ہوا ہے تو ہمیں ضرورت ہے ایک جان ہونے کی۔ اپنے دلیر اور جانباز سپاہیوں کی پشت پناہی کی۔ جس طرح میرے یہ سجیلے جوشیلے جانباز سپاہی دہشت گردوں سے، بھتہ مافیا سے، دہشت گردوں سے روز نبرد آزما ہیں ہمارے سکھ و چین کے لیے تو ہمیں بھی ان کو سلام پیش کرنا چاہیے۔ وہ تو اس دیس میں ہیں جہاں:
چٹھی نہ کوئی سندیس جانے وہ کون سا دیس
مگر لواحقین تو یہیں رہ جاتے ہیں، ہمیں ایسے شہدا کے رفقاؤں کو معاشرے میں نمایاں مقام دینا چاہیے، چاہے وہ کوئی معمولی سپاہی ہو یا ہمارا ایس ایس پی۔ لیاری ایکسپریس وے جہاں یہ سانحہ رونما ہوا ہے اسے ہمیں مرحوم چوہدری اسلم کے نام سے منسوب کردینا چاہیے تاکہ ہم دنیا کو بتا سکیں کہ ہم اپنے شہدا کو یاد رکھنے والی قوم ہیں۔ یہ جانبدار، جاں فروش ہمارے بھائی ہیں۔ ہمارے بیٹے ہیں ہماری امید ہیں۔ اور ان کے لیے گھر میں بیٹھ کر یہی کہہ سکتے ہیں کہ:
حوصلہ مت ہاریئے گر روشنی ناپید ہے
رات کی ظلمت کے پیچھے صبح کا خورشید ہے