وقت کی قدر کریں

وقت بہت قیمتی ہے اس کا اندازہ جب ہوتا ہے کہ جب یہ گزر جاتا ہے اور ہم افسوس سے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں ایسا ہی...

shehla_ajaz@yahoo.com

وقت بہت قیمتی ہے اس کا اندازہ جب ہوتا ہے کہ جب یہ گزر جاتا ہے اور ہم افسوس سے ہاتھ ملتے رہ جاتے ہیں ایسا ہی کچھ خیبر پختونخوا کی حکومت کے ساتھ ہوا جسے عمران خان کی تحریک انصاف نے اپنے تئیں خاصے انصاف سے رکھنے کی کوشش کی تھی لیکن خان جی کے معقولات پر عمل کرنا اب اتنا ہی آسان نہیں ہے پرانے سیاسی زمانے کی کھیپ میں پھرتی پیدا کرنا۔ خیر اس طرح تو ہوتا ہے اس طرح کے کاموں میں۔ لیکن عمران خان نے متحدہ کے الطاف حسین کی طرح ذرا زیادہ صفائی سے کام لیا اور کھلے عام اپنے پارٹی والوں کو بھی نہ بخشا یہ ان کا ہی بڑا حوصلہ تھا کہ انھوں نے اتنی بے باکی سے میڈیا کے سامنے اپنے افسوس کا اظہار کردیا اور اس میں وہ حق بجانب تھے کتنی عجیب بات تھی کہ ایک سولہ سال کے شیر نے وہ کام کر دکھایا جسے کرنے میں بڑے بڑے سورما بار بار سوچتے ہیں لیکن چھوٹا سا اعتزاز بہت آگے بڑھ گیا تھا۔

پہلے اپنے تئیں حکمت عملی اختیارکی اور جب حملہ آور باز نہ آیا تو شکرا بن کر اعتزاز اس پر جھپٹ پڑا۔ آفرین ہے اس ماں پر کہ جس کا اتنا بہادر اور جی دار بیٹا اس دھرتی پر پیدا ہوا۔ بہرحال ایک دنیا میں ڈنکا بجتا رہا اعتزاز کے نام کا اور پڑوسیوں کے کان پر جوں بھی نہ رینگی اور پھر ان کے بگ باس نے کھلے عام ان کے کانوں کے قریب لاکر ایسے بم ہی پھوڑ دیا اور سب جیسے ہوش میں آگئے ہوں۔ چلیے! پچاس لاکھ روپے کا حقدار تو اس طرح اس شہید کو بنادیا گیا۔ خان جی نے اپنی پارٹی بندوں کی غلطی تسلیم کیا کرلی تو جیسے ادھر ادھر سے شکایتوں کا ایک پنڈورا بکس کھل گیا۔ ہمارے یہاں ایک یہی بڑی غلطی ہے کہ اگر کوئی اپنی غلطی تسلیم کرلے یا سچ بول دے تو لوگوں کو جیسے موقع مل جاتا ہے ہمیں اس روایت کو ضرور بدلنا چاہیے۔

آصف علی زرداری کے نام کے ساتھ جب سے صدر کا لفظ غائب ہوا ہے بلاول بھٹو سیاست میں خاصے ان ہوگئے ہیں اکثر ٹوئٹر پر ان کی چہچہاہٹ ٹی وی نیوز چینلز پر سنتے ہی رہتے ہیں۔ گویا پیپلز پارٹی والوں نے انھیں اپنا صدر منتخب کر ہی لیا ۔ بچے وقت کے ساتھ ساتھ سیکھ جاتے ہیں اور ویسے بھی انھوں نے ایک سیاست دان خاتون کی گود میں آنکھ کھولی گویا سیاست تو بلاول کی گھٹی میں پڑی ہے، لیکن خاندان در خاندان پیری مریدی کی مانند سیاسی گدی کی منتقلی کیا جمہوری عمل ہے؟ سننے میں آیا تھا کہ پہلے بلاول کو سیاست سے کوئی دلچسپی نہ تھی اور ان کی اپنی خالہ جان بھی ان کے سیاست میں آنے کے خلاف تھیں لیکن بالآخر آصف صاحب نے یہ معرکہ سر کر ہی لیا اور بلاول کے نام کے ساتھ بھٹو کا نام بھی جڑ گیا، سننے میں تو یہ بھی آیا ہے کہ زرداری صاحب اب اپنے نشیمن کی بتیاں بجھاتے رہتے ہیں کیونکہ ان کا اب یہ خیال ہے کہ توانائی کو بچانا ضروری ہے، گویا بجلی کم خرچ کریں اپنے لیے اور قوم کے لیے۔۔۔۔ویسے مجھے ذاتی طور پر زرداری صاحب کا یہ عمل برا نہیں لگا۔۔۔۔سیکھنے کے لیے کسی خاص عمر کی ضرورت نہیں ہوتی اور اچھی بات جب بھی سمجھ آجائے بہت اچھا ہے۔ کاش زرداری صاحب اپنے دور میں بھی ایسی مثالیں ذرا کھل کر پیش کرتے لیکن صدارتی کرسی سے اترنے کے بعد ہی کیوں۔۔۔؟ شاید اس لیے تو نہیں کہ صدر کے نام کے ساتھ تکبر کی کمانیں کسی ہوتی ہیں۔


گزشتہ دنوں ٹی وی پر ایک اشتہار چلتے دیکھا جہاں بلاول زرداری اپنے پیارے لوگوں کے لیے زمینیں بانٹے یعنی پلاٹ دینے کا چرچا کر رہے تھے یہ اچھی بات ہے لیکن اس اچھی بات کے ادھر ادھر کہیں ایسا تو نہیں ہو رہا کہ کسی دوسرے سیاسی عمل کی تکمیل میں آبادی کے تناسب کو بگاڑا جارہا ہو۔

ابھی کچھ عرصہ قبل اخبار میں کہیں ایک رپورٹ پڑھی تھی سندھ کے کسی گاؤں میں لوگوں کو پینے کے پانی کی سہولیات بھی دستیاب نہیں، اسی طرح دوسرے مسائل بھی آسیب کی طرح گاؤں کو جکڑ رہے ہیں یہاں تک کہ اکثر گاؤں کے مکین اپنے اپنے گھروں کو بندکرکے دوسرے شہروں کی جانب رخ کر رہے ہیں، اگر ذرا توجہ دی جائے تو لوگ اپنے گھر، اپنی زمین کو چھوڑ کر دوسرے شہروں کا رخ نہ کریں لیکن حکومت کی بے توجہی کی وجہ سے وہ گاؤں ویران ہو رہا ہے کچھ ایساہی اس وقت بھی ہوا تھا جب سیلاب کی طوفان خیزی نے سندھ کے کئی چھوٹے اضلاع اور گاؤں میں بری طرح تباہی پھیلائی تھی اور بہت سے متاثرین نے کراچی کے بیرونی علاقوں میں ڈیرے ڈالے تھے۔ وہ لوگ چاہتے تھے کہ واپس اپنے علاقے میں لوٹ جائیں لیکن حکومت کی بے توجہی نے ان علاقوں کو ویران کردیا، ایسا ہوتا ہی آیا ہے کہ دیہی آبادی ترقی کے مراحل سے گزرتی شہری علاقوں کی جانب رخ کرتی ہے لیکن اگر یہ تناسب ایک حد سے تجاوز نہ کرجائے تو مناسب رہتا ہے لیکن اگر حد سے بڑھ جائے تو یہ شہروں کے لیے ایک اضافی بوجھ بن جاتے ہیں جس سے نہ صرف معاشی بلکہ سندھ کے حوالے سے خاص طور پر کہا جاسکتا ہے کہ سیاسی مسائل پیدا کرسکتے ہیں۔

سندھ ایک قدیم علاقہ ہے دلچسپ بات یہ ہے کہ سندھ کے دور دراز کے علاقے پہلے آباد تھے جب کہ کراچی صرف مچھیروں کی آماجگاہ تھا، لیاری اسی زمانے کی ایک یادگار ہے۔ قیام پاکستان کے بعد مہاجرین کی آبادی نے اس ویران کراچی کو آباد کیا۔ ایک پرانے کراچی کے رہائشی کے مطابق پاکستان بننے سے پہلے ڈرگ کالونی کا علاقہ آباد تھا اور دور دور تک مٹی اڑا کرتی تھی، پاکستان بننے کے بعد ماڈل کالونی اور سعود آباد جیسے دور دراز علاقے آباد ہوئے جہاں مہاجرین کے لیے رہائشی کوارٹرز بنائے گئے تھے، ویران خاک اڑاتے بہت سے علاقے رفتہ رفتہ آباد ہوتے گئے یوں کراچی روشنیوں کا شہر بنتا گیا اور اس شہر کی جگ مگ دنیا بھر میں مشہور ہوگئی، گاؤں ایسے ہی بنتے ہیں۔

ہمارا سندھ اپنی قدیم روایات کے ساتھ بہت خوبصورت ہے، اس کی ایک پہچان ہے ایک شان ہے جہاں اب بھی ریت کے کسی اونچے ٹیلے کے اس پار سے شاہ بھٹائی کی شاعری فضا میں رقص کرتی ماروی جیسی کی داستان کو جنم دیتی ہے، یہ ایک قدرتی عمل ہے، سندھ قدرت کا ایک تحفہ ہے اس کی قدر کریں اسے بچائیے۔۔۔ویران نہ ہونے دیں۔۔۔وقت کی قدر کریں۔۔۔۔کہیں یہ آج سرک گیا تو۔۔۔۔!!
Load Next Story