کالموں کا لنڈا بازار
شکسپیئرکا کہنا ہے تنقید جب آپ کو غصہ پر نہ اکسائے تو سمجھیں آپ ایک تعلیم یافتہ انسان ہیں
زیر نظر کالم پارٹ۔ ٹو ہے۔ اخبار مارکیٹ اس وقت بالی وڈ کی طرح عروج پر ہے اورکالم نگار اس کے اسٹارز اور میگا اسٹارز کی صورت اختیار کر چکے ہیں۔ بالی وڈ اسٹارز اپنے پروڈیوسر ز کو فلم کی نمائش کے پہلے 10دنوں میں200 کروڑ سے زیادہ منافع کما کر بھی دے رہے ہیںجب کہ کالم نگاروں کو اس شرط سے مکمل ''استثنیٰ'' حاصل ہے۔
گذشتہ روز ہم نے سدا بہار کالموں سے لے کر 'جھانجر دی پانواں جھنکارکالموں' کا ذکر ِخیر کیا۔ جھانجر یا کالموں میںکالم نگار اپنے سیاسی محب سے والہانہ محبت کرتے ہوئے اسے انسانی رفعتوں اور بلندیوں تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ کہنہ مشق اس میںایسی، ایسی خوبیاں دیکھتا ہے کہ محب خود پریشان ہو جاتا ہے کہ متذکرہ فیچرز اور آپشنز تو اس کے خاکی ماڈل میں شامل ہی نہیں ہیں۔
لیکن یہ مینوفیکچرر کے طور پر اپنی سیاسی پراڈکٹ کو مارکیٹ میںموجود دوسری commodities (اشیائے برائے فروخت) سے اعلیٰ ثابت کرنے کے لیے یہ جادو گری بکھیرتا ہے۔ ان کی چند ایک مثالیں کچھ یوں ہیں: پاکٹ منی کالم، منتھلی کالم، کک بیکس کالم، ایزی لوڈ کالم، ہم زلف کالم، ڈو مور کالم، پسینہ خشک ہونے سے پہلے محنتانہ کالم، کُول کالم، شاہ عالمی کالم، باڑا کالم، سستا اتوارا کالم، گول بوٹی کالم، سری پائے کالم، ہریسہ کالم، گرم حمام کالم، چکن ششلک کالم، ناشتہ کالم، عصرانہ کالم، عشائیہ کالم، کچن کیبنٹ کالم وغیرہ۔
شکسپیئرکا کہنا ہے تنقید جب آپ کو غصہ پر نہ اکسائے تو سمجھیںآپ ایک تعلیم یافتہ انسان ہیں، مگر ہمارے ہاںتو warrior (جنگجو ہیرو) بھائی لوگوں اور جذبات کے شہزادوںکو پڑھاکو خان سمجھ لیا گیا ہے۔ بعض تندوتیز اور تیزابی کالموں کی معروف اقسام ملاحظہ ہوں: انڈر ورلڈ کالم، سلطانہ کالم، کالم پتر ماںدا، کالم بدمعاش، کالم دا ویر، گجر کالم، کالم چنا، کالم شاہ پوریا، ناتھا والہ کالم، گجنی کالم، اگنی پتھ کالم، کانچا سیٹھ کالم، زندہ ہیںشان سے کالم، دبنگ کالم، میں ہوں ناکالم، قسم کالم کی، انصاف اورکالم، کالم تے قانون، پہلا کالم، آخری کالم، کالمی حسینہ، کبڑا کالم، ظلم رہے اور امن بھی ہوکالم، نیک پروین کالم، میںچپ رہوں گی کالم، نوکر تے مالک کالم، کو ن بنے گا کروڑ پتی کالم، بگ باس کالم، انٹر نیشنل کالم، خود کش کالم، پجاروگروپ کالم، فارم ہاوس کالم، ہاوسنگ اسکیم کالم، مولاجٹ کالم اور ایک تھا ٹائیگر کالم وغیرہ۔
سیاسی رہنماوںکے رومانس میںگم کچھ رومانوی کالموںکی اقسام کچھ یوں ہیں: کالم میں گم، میرے محبوب کالم، پیار کیا تو ڈرنا کیا کالم، جناں تیری مرضی نچا بیلیا کالم (ایسے کالموں میںراقم اپنے محب کی محبت میں یوں بال کھولے ناچتا ہے جیسے ایم اکرم کی فلم ''خان چاچا'' میںسلطان راہی کے سامنے اپنے زمانہ کی معروف آئیٹم گرل نگھو ناچی تھی)، ہمیںکھو کر بہت پچھتاو گے کالم، مرجھائے ہوئے پھولوں کی قسم کالم، جانم سمجھا کرو کالم، ہم تم اک کمرے میںبند ہوں کالم، سولہ برس کی بالی عمر کو سلام کالم، جھوٹ بولے کوا کاٹے کالم، دل والے دلہنیا لے جائیںگے کالم، ڈولی سجا کے رکھانا کالم، کچھ کچھ ہوتا ہے کالم، جانو سن ذرا کالم، مجھے چاند چاہیے کالم، انوکھا لاڈلہ کالم (پہلوٹھی کا کالم نگار ہوتا ہے جو پہلی اولاد کی طرح والدین کو تو عزیز ہوتا ہے۔
لیکن موصوف بعدمیںپیدا ہونے والے اپنے منجھلے اورسنجھلے بھائیوںکو بھی غیر بلکہ دشمن سمجھتا ہے اور سب محبتوں اور نعمتوں کے لیے جملہ حقوق صرف اپنے لیے محفوظ سمجھتا ہے) میرے خوابوں میں جو آئے کالم، توبہ تمہارے یہ اشارے کالم، میر ے دل کا چین کالم، میرے سپنوںکی رانی کالم، مجھے دل سے نہ بھلانا کالم۔ ایسے کالموں میںان احباب کا ذکر کیا جاتا ہے جو بیرونی دوروںمیںصاحب بہادر کی بورڈنگ لاجنگ کے ساتھ ساتھ دیگر سہولیات کا انتظام و انصرام کر رہے ہوتے ہیں۔
اس نوع کے کالم ایک طرف تو اظہار تشکر کا کام کرتے ہیں اور دوم وہ دوبارہ ایسا کرنے کی ترغیب بھی دے رہے ہوتے ہیں۔ آج تو غیر سہی کالم، متاع کوچہء اخبا ر کی طرح کالم، چھئی چھپا چھئی کالم۔ گذرے وقت میں کالم نگار اخبارات کی پہچان ہوا کرتا تھا، یہ کہنہ مشق اپنے، اپنے اخبار کے فیملی ممبر سمجھے جاتے تھے۔ ایک اخبار نسل در نسل پڑھا جاتا اور ایک کالم نگار کے مشاہدات اورتجربات کو دوسری نسل کے نوجوان بھی اپنی زندگی کی راہیں متعین کرنے میں مددگار پاتے۔ قارئین سے اب یہ سہولت چھین لی گئی ہے۔
ایسی صورت میں کہ جب ایک کالم نگار ایک سے دوسرے، تیسرے اور پھر چوتھے اخبار میں شفٹ کرتا ہے تو وہاںلکھے جانے والے شروعات کے کالموںکا عنوان کچھ یوں ہوتا ہے کہ ''چھوڑ آئے ہم وہ گلیاںکالم'' میرا ذاتی خیال ہے کہ وہ اپنی پیشہ وارانہ زندگی کی اس تبدیلی کو یوں بھی تعبیر کرتے ہوں گے کہ
جہاںمیںاہلِ ایماں صورت خورشید جیتے ہیں
ادِھر ڈوبے، اُدھر نکلے، اُدھر ڈوبے ادھر ِنکلے
فری مارکیٹ اکانومی کے اصولوں پر گامزن ہمارے اس معاشرے کی ہر اخلاقی روش (ڈیمانڈ اینڈ سپلائی) جیسے قول زریں کی غلام ہے۔ ایسے میں ہمارے دوست اور بڑے جب دوسرے اخبارات تشریف لے جاتے ہیں تو ان کی جدائی میں لکھے جانے والے کالموں کا عنوان کچھ یوں ہو سکتا ہے ۔۔۔ یہ کالم بلاتے ہیں پر تم ادھرِ نہیںآتے۔۔ جانے والے رے ٹھہرو ذرا رک جانا کالم، چل اُڑ جا رے پنچھی کالم وغیرہ۔ کچھ کالم بد سے زیادہ بدنام ہوتے ہیں، گناہوںکی نسبت زیادہ بدنام ہو جانے والے بعض کالموں کی اقسام کچھ یوں ہیں: آنٹی شمیم کالم، ثریا بھوپالی کالم، امراو جان ادا کالم، جلیبی بائی کالم، شیلاکی جوانی کالم، بیڑی جلائی لے کالم، غیرت بریگیڈ کالموں میں پارسا اور نیک کالم نگا ر اپنی کالمی رٹ میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کرتا ہے کہ ''سائل ڈان'' بے گناہ ہے۔
مگر زیادہ تر قاری ایمانداری اورپارسائی کالموںکے تعویز گنڈے کے اثرات سے باہر نکل آتے ہیں اور ان پر حقیقت عیاں ہونے لگتی ہے۔ کبیرے کالم، کوٹھا کالم، شرافت چھوڑ دی میں نے کالم، دل چیز ہے کیا آپ میری جان لیجیے کالم، چھڈ میری وینی نہ مروڑ کالم، اکھ لڑی بدوبدی کالم، پری پیڈ کالم، کسٹم پیڈ کالم، اورلائن مل گئی کالم، کک بیکس کالم، انڈر ہینڈ کالم وغیرہ۔ فیشن کی طرح بدلتے ہوئے جد ید اور پرانی وضع قطع کے ملے جلے کالم بھی ملاحظہ ہوں: اونچی ایڑی والا کالم (کالم نگاری کی دنیا میں اونچی ایڑی استعمال کرنے والے صاحبان فن اپنے پستہ قد کو چھپانے میںنہ صرف کامیاب رہتے ہیں۔
بلکہ اپنے آپ کو اس میدان کا کالم چنا بھی سمجھتے ہیں) باجھو بند کالم، تنگ موری والا کالم، بیل باٹم کالم، مغلئی کٹ کالم، زلف گرہ گیر کالم، گول گھیرے والا کالم، تھری پیس کالم، ریشمی کالم، چوڑی پاجامہ کالم، کڑھائی والا کالم، گول گلے والا کالم وغیرہ۔ علاقائی کالموں میں شنگریلا کالم، شکر پڑیاں کالم، فاٹاکالم، شمالی، سیف الملوک کالم، کوہ مری کالم اور کالم جبہ معروف ہیں۔ امپورٹیڈ کالموںمیںپٹی فٹنگ کالم، کمپیوٹرائزاڈ کالم، گوگل کالم، یو ٹیوب کالم، انٹر نیٹ کالم سرِ فہرست ہیں۔ انٹر نیٹ کالموں کے بانیان کا لوڈشیڈنگ کے اوقات میںدماغ بھی شٹ ڈاون ہی ملتا ہے۔
اس نوع کے دیگر کالموں میںصہیونی کالم، ٹیلی پیتھی کالم، بلیک بیری کالم، بلیو ٹوتھ کالم، برانڈڈ کالم اہم ہیں۔ کلاسیکی، نیم کلاسیکی اور ہلکی پھلکی موسیقی سے مشابہہ کالموں میں شام چوراسی کالم، پیٹالہ گھرانہ کالم، میاں کی ٹوڈی کالم، کانڑا کالم، تین تال کالم، گھڑولی کالم، ٹھاو دونی کالم، جگل بندی کالم اور ساڈا چڑیاں دا چنبہ کالم وغیرہ شامل ہیں۔
رنگا رنگ کالموں اورکالم نگاروںکے اس یوٹوپیا اور خوشحال دنیا کی حقیقت یہ ہے کہ یہاںعوام کے دکھ دردوں اورغموں پر سینہ کوبی کرنے والے نوحہ نگار تو چھوٹے، چھوٹے پیکٹوں میں بل گیٹس اورگولڈ اسمتھ بن جاتے جب کہ غریب عوام غربت کے سونامی میںغرق اپنا نام و نشان بھی کھو دیتے ہیں۔
(ختم شد)