پاک چین دوستی کا سفر
سات دہائیوں پر مشتمل باہمی تعلقات کی مختصر کہانی
عوامی جمہوریہ چین کی خارجہ پالیسی کا منفرد پہلو یہ ہے کہ اس مملکت نے ہمیشہ بیرونی تعلقات میں قومی مفاد کے علاوہ اصولوں کو فوقیت دی ہے اور موجودہ دور میں دنیا کی ترقی یافتہ ترین ممالک میں شامل ہونے کے باوجود خود کو ترقی پذیر ممالک کے مفادات کے ساتھ وابستہ رکھا ہے۔
چین کی خارجہ پالیسی کا نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ وہ بین الاقوامی تعلقات میں پرامن بقائے باہمی اور ایک دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول پر بھی کاربند رہتا ہے۔ مذکورہ اصول انڈونیشیا کے شہر بنڈوم میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں وضع کیے گئے تھے۔
کانفرنس کی قیادت کی دوڑ میں چو این لائی، جواہر لعل نہرو پر بازی لے گئے تھے۔ اس کانفرنس کے نتیجے میں غیروابستہ تحریک اور افروایشیائی عوامی استحکام کی تنظیم کا قیام عمل میں آیا تھا۔ پاکستان اور چین میں دوستی کے سفر کے آغاز کا سہرا وزیراعظم لیاقت علی خان کے سر ہے جنہوں نے چین کی نوزائیدہ ریاست کے قیام کے بعد نہ صرف اسے تسلیم کیا بلکہ سفارتی تعلقات بھی استوار کیے۔
امسال پاکستان اور چین اپنے سفارتی تعلقات کی سات دہائیوں کی تکمیل کا جشن منار ہے ہیں۔ پاکستان، عوامی جمہوریہ چین کی ریاست کو تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں شامل ہے۔ اکتوبر1949 میں چین کی آزادی کے اعلان کے بعد سرد جنگ کے دور میں، جب مغربی ممالک خصوصاً امریکا اشتراکیت کے خلاف ہر محاذ پر نہایت زورشور کے ساتھ صف آرا تھا، شہید ملت کی حکومت کی جانب سے اس شدید مخالفت کے باوجود چین کو تسلیم کرنا اور بعدازآں دونوں ممالک کے مابین سفارت خانوں کا تبادلہ وہ اقدام تھے۔
جنہوں نے پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کی مضبوط بنیاد قائم کی، جس کا سفر آج بھی جاری ہے بلکہ اس میں روز بروز باہمی روابط کے فروغ کے نئے در کھلتے جا رہے ہیں۔ پاکستان چین اقتصادی راہ داری CPECان مشترکہ اقدامات کی روشن مثال ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کسی بھی عمارت کی مستحکم بنیاد اس کی پائے داری کی علامت ہوتی ہے جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ1950ء کی دہائی کے اولین سال میں جب مغرب نے عوامی جمہوریہ چین کی حقیقی ریاست کے بجائے چیانگ کائی شیک کی قوم پرست حکومت کو جو فارموسا یا تائیوان تک محدود تھی، کو متبادل کی حیثیت سے تسلیم کر رکھا تھا اور نام نہاد قوم پرست چین کو اقوام متحدہ کی سیکوریٹی کونسل میں ویٹو پاور کے ساتھ مستقل نمائندگی دی ہوئی تھی جس کا اختتام اس وقت ہوا جب1971ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستانی وفد کے قائد محمود علی نے عوامی جموریہ چین کی رکنیت کی قرارداد پیش کرکے منظور کرائی۔
قبل ازیں عوامی جمہوریہ چین کے امریکی قیادت کے ساتھ مکالمے کی ابتدا میں بھی پاکستان کا اہم کردار ہے جب امریکا وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے پاکستان کے راستے چینی قیادت سے گفتگو کے لیے سفر اختیار کیا تھا۔ بعدازآں اس کا اعادہ امریکی صدر رچرڈ نکسن نے کیا۔
تاریخ کے حقیقی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکا چین کے درمیان تلخی کی فضا میں کمی آنے لگی تھی جب چین اور سوویت یونین میں اشتراکی نظریات کی یگانگت کے باجود مارکسزم کی تشریح میں اختلاف شروع ہوگیا تھا اور چین کی کمیونسٹ پارٹی نے نظریے میں ترمیم پسندی کا سوویت یونین کو طعنہ دینا شروع کردیا تھا۔
عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد سے ہی پاک چین دوستی کا سفر رکاوٹوں کے باجود بتدریج جاری رہا۔1957ء میں پاکستان امریکا کا باقاعدہ حلیف تھا لیکن وزیراعظم حسین شہید سہروردی اور وزیراعظم چو این لائی نے ایک دوسرے کے ممالک کے سرکاری دورے کیے، جو سردجنگ کے ماحول میں بظاہر ایک مشکل اقدام تھا۔ 1960ء کی دہائی کے وسط میں پاکستان اور چین کے درمیان سیاسی روابط میں مزید اضافہ ہوا، جب الجزائر کی نوآزاد ریاست کے سربراہ احمد بن بلا کی دعوت پر چو این لائی، ڈاکٹر سوئیکارنو اور ایوب خان کو جمال الدین ناصر کے ساتھ تیسری دنیا کی کانفرنس میں شرکت کے لیے الجزائر جانا تھا۔
اس کانفرنس کے ایجنڈے میں تیسری دنیا کے ترقی پذیر اور غیروابستہ ممالک کی علیحدہ تنظیم کے قیام کا مقصد شامل تھا۔ انڈونیشیا کے صدر ڈاکٹرسوئیکارنو پہلے ہی اقوام متحدہ کو خیرباد کہہ چکے تھے۔ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ تیسری دنیا اپنی علیحدہ اقوام متحدہ تشکیل دے گی۔ چو این لائی، ڈاکٹر سوئیکارنو اور ایوب خان مصر پہنچے تاکہ جمال عبدالناصر کے ہمراہ مذکورہ کانفرنس میں شرکت اور اس کے ایجنڈے کو بروئے کار لانے کے لیے الجزائر پہنچیں، مگر ابھی وہ روانہ ہوئے ہی نہ تھے کہ اس دوران اچانک الجزائر میں احمد بن بلا کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور اس طرح تیسری دنیا کی اقوام متحدہ کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ صدر احمد بن بلا کی حکومت کو ہٹانے کے لیے بیرونی آشیرباد کے ذریعے اندرونی عناصر کو استعمال کیا گیا۔
تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ میں برسراقتدار مستقل ممالک جن کو اس ادارے کی کسی بھی کاروائی یا اقدام کے طور پر مسترد کرنے کا یک طرفہ اختیار حاصل تھا، یہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ ایک اور اقوام متحدہ کے قیام کی وجہ سے ان کے اقتدار میں کمی واقع ہو۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ عوامی جمہوریہ چین اس وقت تک اقوام متحدہ کا رکن نہیں بنا تھا بلکہ اس وقت سلامتی کونسل میں ویٹو پاور کے حامل مستقل اراکین، دوسری جنگ عظیم میں ایک دوسرے کے اتحادی رہے تھے، ان ممالک کا غیرمرئی گٹھ جوڑ مشترکہ مفادات کے لیے جاری تھا۔
پاکستان اور چین کے مابین گہرے سیاسی تعلقات کے ساتھ ساتھ بامعنی اقتصادی تعلقات کا سفر بھی تاریخ کا نمایاں باب ہے۔ چین نے پاکستان کی اقتصادی ترقی میں قابل قدر کردار انجام دیا ہے ۔خاص طور پر صنعتی شعبے میں چین کا تعاون انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ہیوی مکینیکل کمپلیکس اس کی ایک بڑی مثال ہے جب کہ دفاعی شعبے میں بھی چین کا تعاون نمایاں ہے۔ پاک فضائیہ میںJF تھنڈر کی شمولیت اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
اب جب کہ پاک چین اقتصادی راہ داری پر تیزی کے ساتھ کام جاری ہے توقع ہے کہ جوں جوں راہ داری کے مراحل طے ہوتے جائیں گے پاکستان اور چین کے تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جائیں گے۔
مضمون کے آغازمیں عوامی جمہوریہ چین کی بین الاقوامی تعلقات میں جس اصولی پسندی کا ذکر کیا گیا ہے، جموں و کشمیر کے بین الاقوامی تنازعے میں چین کا تعمیری کردار اس کی ایک روشن مثال ہے، جب کہ حال ہی میں فلسطین میں اسرائیلی بربریت کے خلاف چین کی سفارتی پیش رفت بھی اس امر کا بین ثبوت ہے کہ چین ہر مشکل وقت میں تیسری دنیا کی اقوام کے ساتھ پامردی کے ساتھ کھڑا رہتا ہے۔
پاک چین دوستی کا ذکر ہو مگر پروفیسر احمد علی کے اس تناظر میں کلیدی کردار کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ سخت ناانصافی ہوگی۔ لیاقت علی خان نے بیجنگ میں پاکستانی سفارت خانہ کھولنے کے لیے جس شخصیت کا انتخاب کیا وہ پروفیسر احمد علی تھے۔ وہ چین کی آزادی سے ایک سال قبل1946سے1948 تک نیوچائنا سینٹرل یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے پروفیسر کی حیثیت سے کام کرتے رہے تھے جس کی وجہ سے چین کے دانش وروں میں نہ صرف جانے پہچانے جاتے تھے بلکہ سیاسی سطح پر بھی ان کے روابط وسیع تھے۔ انہوں نے قدیم چینی زبان کی شاعری کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا جو شاہ کار کی حیثیت رکھتا ہے۔ پروفیسر احمد علی کو کمیونزم کے نظریات کا بھر پور ادراک تھا۔ وہ برصغیر میں ترقی پسند ادب کی تحریک کے بانیوں میں شامل تھے۔
پروفیسر احمد علی نے چین کے دارالحکومت میں پاکستانی سفارت خانے میں بحیثیت ناظم الامور اپنے غیرمعمولی سفارتی کیریئر کا آغاز کیا۔ ان کی کاوشوں سے پاکستان اور چین کے دوستانہ تعلقات کو ایک مستحکم بنیاد فراہم ہوئی جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ بیجنگ میں پاکستانی سفارت خانے میں منعقد ہونے والی یوم آزادی پاکستان کی پہلی تقریب میں چین کے وزیراعظم چو این لائی بطور خاص شریک ہوئے تھے۔
چین کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کے فروغ میں پاکستان کی شراکت بھی اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستان نے کبھی امریکا کے دو چین نظریے کو تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز ان اولین فضائی کمپنیوں میں شامل ہے جنہوں نے عوامی جمہوریہ چین کے مختلف شہروں میں اپنی پروازوں کا اہتمام کیا تھا جس کے ذریعے سردجنگ کے انتہائی کٹھن دور میں چین کو بیرونی دنیا خاص طور پر افریقی ممالک سے اپنے تعلقات استوار کرنے کا موقع ملا تھا۔
پاکستان اور چین کے مابین دوستانہ مراسم کے سفر میں تواتر کے ساتھ آنے والی حکومتیں جن میں ذوالفقار علی بھٹو، میاں نواز شریف، محترمہ بے نظیر بھٹو کے علاوہ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف کی غیرجمہوری حکومتیں بھی شامل تھیں، لیکن چین کے حوالے سے سب کی پالیسی یکساں تھی اور آج بھی ملک کی سیاسی جماعتیں، ان کی قیادت اور مقتدر ادارے سب اس حوالے سے ایک پیج پر ہیں۔
چین کی خارجہ پالیسی کا نمایاں پہلو یہ بھی ہے کہ وہ بین الاقوامی تعلقات میں پرامن بقائے باہمی اور ایک دوسرے ممالک کے اندرونی معاملات میں عدم مداخلت کے اصول پر بھی کاربند رہتا ہے۔ مذکورہ اصول انڈونیشیا کے شہر بنڈوم میں منعقد ہونے والی کانفرنس میں وضع کیے گئے تھے۔
کانفرنس کی قیادت کی دوڑ میں چو این لائی، جواہر لعل نہرو پر بازی لے گئے تھے۔ اس کانفرنس کے نتیجے میں غیروابستہ تحریک اور افروایشیائی عوامی استحکام کی تنظیم کا قیام عمل میں آیا تھا۔ پاکستان اور چین میں دوستی کے سفر کے آغاز کا سہرا وزیراعظم لیاقت علی خان کے سر ہے جنہوں نے چین کی نوزائیدہ ریاست کے قیام کے بعد نہ صرف اسے تسلیم کیا بلکہ سفارتی تعلقات بھی استوار کیے۔
امسال پاکستان اور چین اپنے سفارتی تعلقات کی سات دہائیوں کی تکمیل کا جشن منار ہے ہیں۔ پاکستان، عوامی جمہوریہ چین کی ریاست کو تسلیم کرنے والے اولین ممالک میں شامل ہے۔ اکتوبر1949 میں چین کی آزادی کے اعلان کے بعد سرد جنگ کے دور میں، جب مغربی ممالک خصوصاً امریکا اشتراکیت کے خلاف ہر محاذ پر نہایت زورشور کے ساتھ صف آرا تھا، شہید ملت کی حکومت کی جانب سے اس شدید مخالفت کے باوجود چین کو تسلیم کرنا اور بعدازآں دونوں ممالک کے مابین سفارت خانوں کا تبادلہ وہ اقدام تھے۔
جنہوں نے پاکستان اور چین کے درمیان دوستی کی مضبوط بنیاد قائم کی، جس کا سفر آج بھی جاری ہے بلکہ اس میں روز بروز باہمی روابط کے فروغ کے نئے در کھلتے جا رہے ہیں۔ پاکستان چین اقتصادی راہ داری CPECان مشترکہ اقدامات کی روشن مثال ہے۔
یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ کسی بھی عمارت کی مستحکم بنیاد اس کی پائے داری کی علامت ہوتی ہے جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ1950ء کی دہائی کے اولین سال میں جب مغرب نے عوامی جمہوریہ چین کی حقیقی ریاست کے بجائے چیانگ کائی شیک کی قوم پرست حکومت کو جو فارموسا یا تائیوان تک محدود تھی، کو متبادل کی حیثیت سے تسلیم کر رکھا تھا اور نام نہاد قوم پرست چین کو اقوام متحدہ کی سیکوریٹی کونسل میں ویٹو پاور کے ساتھ مستقل نمائندگی دی ہوئی تھی جس کا اختتام اس وقت ہوا جب1971ء میں اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں پاکستانی وفد کے قائد محمود علی نے عوامی جموریہ چین کی رکنیت کی قرارداد پیش کرکے منظور کرائی۔
قبل ازیں عوامی جمہوریہ چین کے امریکی قیادت کے ساتھ مکالمے کی ابتدا میں بھی پاکستان کا اہم کردار ہے جب امریکا وزیرخارجہ ہنری کسنجر نے پاکستان کے راستے چینی قیادت سے گفتگو کے لیے سفر اختیار کیا تھا۔ بعدازآں اس کا اعادہ امریکی صدر رچرڈ نکسن نے کیا۔
تاریخ کے حقیقی مطالعے سے معلوم ہوتا ہے کہ امریکا چین کے درمیان تلخی کی فضا میں کمی آنے لگی تھی جب چین اور سوویت یونین میں اشتراکی نظریات کی یگانگت کے باجود مارکسزم کی تشریح میں اختلاف شروع ہوگیا تھا اور چین کی کمیونسٹ پارٹی نے نظریے میں ترمیم پسندی کا سوویت یونین کو طعنہ دینا شروع کردیا تھا۔
عوامی جمہوریہ چین کے قیام کے بعد سے ہی پاک چین دوستی کا سفر رکاوٹوں کے باجود بتدریج جاری رہا۔1957ء میں پاکستان امریکا کا باقاعدہ حلیف تھا لیکن وزیراعظم حسین شہید سہروردی اور وزیراعظم چو این لائی نے ایک دوسرے کے ممالک کے سرکاری دورے کیے، جو سردجنگ کے ماحول میں بظاہر ایک مشکل اقدام تھا۔ 1960ء کی دہائی کے وسط میں پاکستان اور چین کے درمیان سیاسی روابط میں مزید اضافہ ہوا، جب الجزائر کی نوآزاد ریاست کے سربراہ احمد بن بلا کی دعوت پر چو این لائی، ڈاکٹر سوئیکارنو اور ایوب خان کو جمال الدین ناصر کے ساتھ تیسری دنیا کی کانفرنس میں شرکت کے لیے الجزائر جانا تھا۔
اس کانفرنس کے ایجنڈے میں تیسری دنیا کے ترقی پذیر اور غیروابستہ ممالک کی علیحدہ تنظیم کے قیام کا مقصد شامل تھا۔ انڈونیشیا کے صدر ڈاکٹرسوئیکارنو پہلے ہی اقوام متحدہ کو خیرباد کہہ چکے تھے۔ انہوں نے اعلان کیا تھا کہ تیسری دنیا اپنی علیحدہ اقوام متحدہ تشکیل دے گی۔ چو این لائی، ڈاکٹر سوئیکارنو اور ایوب خان مصر پہنچے تاکہ جمال عبدالناصر کے ہمراہ مذکورہ کانفرنس میں شرکت اور اس کے ایجنڈے کو بروئے کار لانے کے لیے الجزائر پہنچیں، مگر ابھی وہ روانہ ہوئے ہی نہ تھے کہ اس دوران اچانک الجزائر میں احمد بن بلا کی حکومت کا تختہ الٹ دیا گیا اور اس طرح تیسری دنیا کی اقوام متحدہ کا خواب شرمندۂ تعبیر نہ ہوسکا۔ صدر احمد بن بلا کی حکومت کو ہٹانے کے لیے بیرونی آشیرباد کے ذریعے اندرونی عناصر کو استعمال کیا گیا۔
تاریخ کے مطالعہ سے معلوم ہوتا ہے کہ اقوام متحدہ میں برسراقتدار مستقل ممالک جن کو اس ادارے کی کسی بھی کاروائی یا اقدام کے طور پر مسترد کرنے کا یک طرفہ اختیار حاصل تھا، یہ برداشت نہیں کر سکتے تھے کہ ایک اور اقوام متحدہ کے قیام کی وجہ سے ان کے اقتدار میں کمی واقع ہو۔ یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ عوامی جمہوریہ چین اس وقت تک اقوام متحدہ کا رکن نہیں بنا تھا بلکہ اس وقت سلامتی کونسل میں ویٹو پاور کے حامل مستقل اراکین، دوسری جنگ عظیم میں ایک دوسرے کے اتحادی رہے تھے، ان ممالک کا غیرمرئی گٹھ جوڑ مشترکہ مفادات کے لیے جاری تھا۔
پاکستان اور چین کے مابین گہرے سیاسی تعلقات کے ساتھ ساتھ بامعنی اقتصادی تعلقات کا سفر بھی تاریخ کا نمایاں باب ہے۔ چین نے پاکستان کی اقتصادی ترقی میں قابل قدر کردار انجام دیا ہے ۔خاص طور پر صنعتی شعبے میں چین کا تعاون انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ ہیوی مکینیکل کمپلیکس اس کی ایک بڑی مثال ہے جب کہ دفاعی شعبے میں بھی چین کا تعاون نمایاں ہے۔ پاک فضائیہ میںJF تھنڈر کی شمولیت اس کا جیتا جاگتا ثبوت ہے۔
اب جب کہ پاک چین اقتصادی راہ داری پر تیزی کے ساتھ کام جاری ہے توقع ہے کہ جوں جوں راہ داری کے مراحل طے ہوتے جائیں گے پاکستان اور چین کے تعلقات مضبوط سے مضبوط تر ہوتے جائیں گے۔
مضمون کے آغازمیں عوامی جمہوریہ چین کی بین الاقوامی تعلقات میں جس اصولی پسندی کا ذکر کیا گیا ہے، جموں و کشمیر کے بین الاقوامی تنازعے میں چین کا تعمیری کردار اس کی ایک روشن مثال ہے، جب کہ حال ہی میں فلسطین میں اسرائیلی بربریت کے خلاف چین کی سفارتی پیش رفت بھی اس امر کا بین ثبوت ہے کہ چین ہر مشکل وقت میں تیسری دنیا کی اقوام کے ساتھ پامردی کے ساتھ کھڑا رہتا ہے۔
پاک چین دوستی کا ذکر ہو مگر پروفیسر احمد علی کے اس تناظر میں کلیدی کردار کا ذکر نہ کیا جائے تو یہ سخت ناانصافی ہوگی۔ لیاقت علی خان نے بیجنگ میں پاکستانی سفارت خانہ کھولنے کے لیے جس شخصیت کا انتخاب کیا وہ پروفیسر احمد علی تھے۔ وہ چین کی آزادی سے ایک سال قبل1946سے1948 تک نیوچائنا سینٹرل یونیورسٹی میں انگریزی ادب کے پروفیسر کی حیثیت سے کام کرتے رہے تھے جس کی وجہ سے چین کے دانش وروں میں نہ صرف جانے پہچانے جاتے تھے بلکہ سیاسی سطح پر بھی ان کے روابط وسیع تھے۔ انہوں نے قدیم چینی زبان کی شاعری کا انگریزی میں ترجمہ کیا تھا جو شاہ کار کی حیثیت رکھتا ہے۔ پروفیسر احمد علی کو کمیونزم کے نظریات کا بھر پور ادراک تھا۔ وہ برصغیر میں ترقی پسند ادب کی تحریک کے بانیوں میں شامل تھے۔
پروفیسر احمد علی نے چین کے دارالحکومت میں پاکستانی سفارت خانے میں بحیثیت ناظم الامور اپنے غیرمعمولی سفارتی کیریئر کا آغاز کیا۔ ان کی کاوشوں سے پاکستان اور چین کے دوستانہ تعلقات کو ایک مستحکم بنیاد فراہم ہوئی جس کا اندازہ اس امر سے لگایا جا سکتا ہے کہ بیجنگ میں پاکستانی سفارت خانے میں منعقد ہونے والی یوم آزادی پاکستان کی پہلی تقریب میں چین کے وزیراعظم چو این لائی بطور خاص شریک ہوئے تھے۔
چین کے ساتھ دو طرفہ تعلقات کے فروغ میں پاکستان کی شراکت بھی اہمیت کی حامل ہے۔ پاکستان نے کبھی امریکا کے دو چین نظریے کو تسلیم نہیں کیا۔ پاکستان کی قومی فضائی کمپنی پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز ان اولین فضائی کمپنیوں میں شامل ہے جنہوں نے عوامی جمہوریہ چین کے مختلف شہروں میں اپنی پروازوں کا اہتمام کیا تھا جس کے ذریعے سردجنگ کے انتہائی کٹھن دور میں چین کو بیرونی دنیا خاص طور پر افریقی ممالک سے اپنے تعلقات استوار کرنے کا موقع ملا تھا۔
پاکستان اور چین کے مابین دوستانہ مراسم کے سفر میں تواتر کے ساتھ آنے والی حکومتیں جن میں ذوالفقار علی بھٹو، میاں نواز شریف، محترمہ بے نظیر بھٹو کے علاوہ جنرل ضیاء الحق اور جنرل پرویزمشرف کی غیرجمہوری حکومتیں بھی شامل تھیں، لیکن چین کے حوالے سے سب کی پالیسی یکساں تھی اور آج بھی ملک کی سیاسی جماعتیں، ان کی قیادت اور مقتدر ادارے سب اس حوالے سے ایک پیج پر ہیں۔