لب و لہجہ

سنتے ہیں کہ انسان کی گفتگو اس کے کردار کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ جب کہ گفتگو کا آئینہ اس میں موجود لب و لہجہ ہوتاہے۔


راؤ سیف الزماں January 20, 2014

سنتے ہیں کہ انسان کی گفتگو اس کے کردار کی آئینہ دار ہوتی ہے۔ جب کہ گفتگو کا آئینہ اس میں موجود لب و لہجہ ہوتاہے۔ لیکن سوال یہ ہے کہ لب تو لب کو ہی کہتے ہیں۔ یہ لہجہ کیا ہوتا ہے۔ اس کی تعریف کیا ہے؟ آیا آواز کو لہجے کا نام دیا جاتاہے یا انداز کو۔ یا آواز کے زیر و بم کو لہجہ کہاجاتا ہے۔ بظاہر ایک سادہ سی تعریف تو یہ بھی کی جاسکتی ہے کہ کسی کی بول چال کے انداز کو لہجہ کہتے ہوں گے۔ لیکن اگر ایسا بھی نہیں ہے تو پھر کیا صورت حال نکالی جائے۔ لغات اردو سے مدد لی جائے یا کسی ماہر زبان سے۔

در اصل یہ خیال مجھے تب آیا جب 27دسمبر کو محترمہ بے نظیر بھٹو کی برسی کے موقعے پر میں نے ایک نوجوان اور ملک کے سیاسی افق پر بہت تیزی سے ابھرتے ہوئے ایک سیاسی رہنما کی تقریر سماعت کی۔ جس کے بعد سے مجھے گفتگو میں لب و لہجے کی اہمیت کا احساس بڑی شدت سے ہونے لگا۔ وہ نوجوان سیاسی رہنما ہیں ''بلاول بھٹو زرداری'' محترمہ بے نظیر بھٹو کے اکلوتے صاحبزادے، آصف علی زرداری کے ولی عہد اور پاکستان پیپلزپارٹی کے چیئرمین۔

جن کا جوش خطابت، فن تقریر اس دن آسمان سے باتیں کررہاتھا، اس دن میں نے اور پاکستان بھر کے لوگوں نے بڑے اشتیاق سے بلاول بھٹو زرداری کی تقریر سنی۔ یہ سوچ کر کہ ان کی تقریر مستقبل کے اور جذبوں سے بھرپور ایک ایسے نوجوان سیاسی رہنما کی تقریر ہوگی جس میں مسائل سے گھرے ہوئے ملک اور قوم کے لیے نت نئے منصوبے ہوںگے۔ ایک منفرد VISION ہوگا، توانائی کے بحران، دہشت گردی کے سدباب، مہنگائی اور بدامنی پر قابو پانے جیسے معاملات پر ایک سیر حاصل بحث ہوگی۔ وہ تقریر ایک ایسے نوجوان سیاسی قائد کی تقریر ہوگی جن کے نانا اور والدہ ملک کے دو مرتبہ منتخب وزیراعظم رہ چکے ہیں اور انھوں نے جمہوریت سمیت ملک کی ترقی و بہبود کے لیے اپنی جانیں تک دینے سے گریز نہیں کیا۔

لہٰذا یہ نوجوان اس جنگ کو مزید لڑنے کا اعلان کرے گا۔ اس جذبہ جنون کو از سر نو تازہ کرے گا گویا۔

'' یہی انداز ہے میرا سمندر فتح کرنے کا
میری کاغذ کی کشتی میں کئی جگنو بھی ہوتے ہیں ''

ابھی ہم یہی سب کچھ سننے کے منتظر تھے کہ بلاول نے تقریر کی ابتدا کی۔ اگرچہ دوران تقریر ان کا لہجہ ان کی عمر کے جوش و ولولے سے معمور تھا۔ لیکن ان کی تقریر کا متن ... محض تضادات کا ایک ایسا مجموعہ تھا جسے شروع سے لے کر ختم ہونے تک صرف وہ خود یا ان کے اہل خانہ ہی سمجھ سکے ہوں گے۔

ہم جیسے عام فہم اور ان پڑھ لوگ جو بہر حال ملک کی اکثریت میں شمار ہوتے ہیں اس پورے خطاب میں صرف چند باتیں ہی سمجھ سکے۔ جس میں کہیں وہ نواز شریف کو اپنا انکل مان کر ان کا ساتھ دینے کا ارادہ ظاہر کررہے تھے، کہیں پر وہ انھیں جنگل کے شیر کی درندگی سے مشابہ قرار دے رہے تھے۔ جو فطرتاً اپنی درندگی کے ہاتھوں مجبور رہ کر کسی کا حلیف یا ہمدرد نہیں ہوسکتا۔ یا تحریک انصاف کے چیئرمین عمران خان کے لیے وہ سخت الفاظ تھے جس میں انھیں ایک محدود یا رجعت پسند سوچ رکھنے والے طبقے کا لیڈر قرار دیا گیا تھا اور سابق صدر پرویز مشرف پرکڑی تنقید کرتے ہوئے صاحب تقریر نے ان پر آرٹیکل 6 کے نفاذ کا اصرار کیا۔ باقی انھوں نے کیا کچھ کہا سچ پوچھیے تو اس کا ایک لفظ تک اب یاد نہیں رہا۔ ہاں اس لہجے کی گونج اب تک کہیں کہیں یاداشت میں محفوظ ہے۔ جس میں باتیں کم تھیں، شور زیادہ تھا۔ لیکن بقول شاعر:

''خاموش بذات خود آواز کا صحرا ہے''

محترم بلاول بھٹو زرداری کی تقریر پر اس تبصرے یا تجزیے سے میرا مقصد ہرگز ان کی تضحیک یا توہین کا نہیں ہے بلکہ انھیں یہ صائب مشورہ دینا ہے کہ محترم ملک اس وقت جس گمبھیر صورت حال سے دو چار ہے جو سنگین مسائل اس گھڑی قوم کو درپیش ہیں، آپ بخوبی ان سے واقف ہیں۔ لوگ اس وقت کسی کی برائی یا کسی پر تنقید سے زیادہ یہ سننے کی خواہش رکھتے ہیں کہ آپ انھیں ان کے مسائل کے حل کے لیے اور ان کو درپیش تکالیف کو دورکرنے کے لیے کیا بہترین منصوبہ اور مشورہ دینے والے ہیں۔

حیدرآباد میں ایک جلسے سے خطاب کرتے ہوئے متحدہ قومی موومنٹ کے قائد الطاف حسین کے ایک خطاب کا کچھ حصہ بھی سننے کو ملا۔ ابھی خطاب سننے کا آغاز ہی کیا تھا کہ یک دم 27 دسمبر کو کی گئی بلاول بھٹو کی تقریر یاد آگئی۔ لب و لہجہ اگرچہ مختلف تھا لیکن خطاب میں موجود بلند و بانگ دعوے، آہنی ارادے، شکوے، شکایتیں کم و بیش یکساں تھیں۔ البتہ قائد تحریک نے دوران تقریر اول مہاجر صوبے، دوئم ملک اور سوئم برابری پر مبنی حقوق کا مطالبہ بھی کر ڈالا۔ جس کے بعد صوبے بھر میں بائیں بازو سے تعلق رکھنے والی مقامی تنظیموں کی جانب سے جلاؤ گھیراؤ اور ہڑتالوں کا سلسلہ جاری ہوگیا۔ ایک سے بڑھ کر ایک بیان سامنے آرہاہے۔ مثلاً

(1) مرسوں مرسوں سندھ نہ ڈے سوں۔
(2) سندھ دھرتی ماں ہے اور ماں کی تقسیم ممکن نہیں۔
(3) سندھ دھرتی کوئی سوئیٹ ڈش نہیں ہے جسے کوئی کھاجائے۔

اور نجانے کیا کیا۔ لیکن صوبے کے الطاف حسین کے مطالبے کے بعد سامنے آنے والا رد عمل اس امر کی غمازی کررہاہے کہ صاحب مطالبہ کوئی طاقتور ضرور ہے اور وہ جلد یا بدیر اپنے مطالبے پر اصرار کرسکتاہے۔ لہٰذا آنے والے طوفان کے پیش نظر بند باندھ لیا جائے کی جنگ جاری ہے۔ ان ہی دنوں مقررین کے درمیان سوشل میڈیا پر ایک دلچسپ مکالمہ بھی جاری ہے۔ یعنی ایک دفعہ الطاف حسین بیان دیتے ہیں اور فوری رد عمل کے طورپر بلاول بھٹو کا جواب سامنے آجاتاہے۔ اگرچہ صورت حال سے قارئین محظوظ ہو رہے ہیں لیکن میں اپنا مشورہ دونوں صائب الرائے سیاسی قائدین کے لیے جاری رکھوں گا کہ محترمین آپ دونوں کے بیانات، تقاریر بد ترین مسائل کا شکار پاکستانی قوم کے حالات سے قطعاً مطابقت نہیں رکھتے، نہ ہی ان کے درد کا کوئی درماں اس میں موجود ہے۔ براہ کرم، از راہ خدا وقت کی نزاکت کو سمجھیے، لوگ فاقہ کشی کا شکار ہوکر خودکشی کررہے ہیں۔ اپنے بچے بیچ رہے ہیں، مایوسی، نا امیدی اپنی انتہا کو چھورہی ہے، ایسے میں آپ کیا کہہ رہے ہیں، کیا حل تجویز کررہے ہیں، قطع نظر اس کے کہ کس کی حکومت ہے، قطع نظر اس کے کہ وہ آپ کا دوست ہے یا دشمن۔ یہ وقت صرف ملک کو مضبوط سے مضبوط تر کرنے کا ہے، یہ وقت دکھوں کو بانٹنے کا ہے بڑھانے کا نہیں۔ سیاست کا کیا ہے وہ تو پھر بھی ہوتی رہے گی۔ معذرت کے ساتھ۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں