صہیونیوں اور حماس کا ایک اور محاذِ جنگ۔۔۔۔ سوشل میڈیا

اسرائیلی فوج فلسطینی تنظیم کے خلاف پروپیگنڈے میں بھرپور طریقے سے سرگرم۔


Sana Ghori January 21, 2014
حماس کو سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کی طرف سے مخاصمت کا سامنا، اکاؤنٹس بند کردیے گئے۔ فوٹو : فائل

اسرائیل سے داغا جانے والا ڈرون احمد جباری کی کار پر آکر لگا اور یہ فلسطینی مجاہد بھڑکتی آگ میں شہید ہوگیا۔

اسرائیل اور اس کے ہم نواؤں کی نظر میں دہشت گرد قرار پانے والا ارض فلسطین کا بہادر سپوت اور حماس کا راہ نما احمد جباری اسرائیلیوں کی آنکھوں میں کانٹے کی طرح کھٹکتا تھا، لہٰذا نومبر 2012 میں حماس کے کچلنے کے لیے کیے جانے والے فضائی اور زمینی حملوں کے دوران ہی یہ کارروائی انجام دی گئی۔



احمد جباری کی شہادت کے فوراً بعد اس کام یابی پر بغلیں بجاتے ہوئے اسرائیلی فوج نے اس واقعے کی وڈیو یوٹیوب پر اپ لوڈ کردی، جس کے بعد یہ وڈیو ٹوئٹر اور فیس بُک پر لائی گئی۔ اسرائیلیوں کے سوشل میڈیا پر متحرک ہونے کے بعد فریقِ ثانی بھی حرکت میں آگیا اور حماس سے تعلق رکھنے والے الاقسام بریگیڈ کے ٹوئٹر اکاؤنٹ سے یہ ٹوئٹ کیا گیا،''ہمارے ہاتھ تمھارے راہ نماؤں اور سپاہیوں تک پہنچیں گے، چاہے وہ جہاں بھی ہوں۔ تم اپنے لیے جہنم کے دروازے کھول لو۔



اس کے ساتھ ہی سوشل میڈیا پر دو دیرینہ دشمنوں اسرائیلی فوج اور فلسطینیوں کی تنظیم حماس کے درمیاں جنگ کا سلسلہ شروع ہوگیا۔ یہ سلسلہ اب بھی زور شور سے جاری ہے، جس کے ذریعے سوشل ویب سائٹس استعمال کرنے والوں کو فریقین کے موقف اور مشرق وسطیٰ کی صورت حال جاننے کا موقع ملتا ہے۔

اگرچہ دنیا کے دیگر خطوں، جیسے شام، بحرین، لیبیا، مصر، کینیا اور صومالیہ وغیرہ میں باہم متحارب فریقین بھی سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے خلاف جنگ جاری رکھے رہے ہیں یا رکھے ہوئے ہیں، مگر دنیا کے اس مسلسل گرم محاذ یعنی فلسطین اور اسرائیل سے دنیا کو خاص دل چسپی ہے اور فلسطینیوں اور اسرائیلیوں کی بھی یہی کوشش ہوتی ہے کہ وہ دنیا تک اپنا موقف تیزی سے اور زیادہ سے زیادہ پہنچائیں، چناں چہ سوشل میڈیا کی صورت میں انھیں بہت موزوں ذریعہ میسر آگیا ہے۔ یہ پہلی بار ہوا ہے کہ ایک دوسرے کے خلاف عملاً مصروفِ جنگ گروہ اپنے حق میں لوگوں کے دل اور دماغ جیتنے کے لیے ''سائبر معرکوں'' میں بھی مصروف ہیں۔



اس جنگ میں اسرائیلی فوج کی سوشل میڈیا پر ہونے والی سرگرمیاں ایک خاتون Avital Leibovich کی زیرقیادت جاری ہیں۔ وہ اسرائیلی فوج کی طرف سے سوشل ویب سائٹس پر متحرک پینتیس رکنی ٹیم کی قائد ہے، جس کی قیادت میں یہ ٹیم ٹوئٹر پر ٹوئٹس کرتی ہے اور فیس بک، Instagrams، گوگل پلس اور مختلف بلاگز پر تصاویر اور وڈیوز اپ لوڈ اور اپ کرتی ہے۔ اس کے علاوہ اس ٹیم کے ارکان اپنے مقاصد کی تکمیل کے لیے مختلف ایپلی کیشنز بھی بناتے ہیں۔ اسرائیلی فوج کے سوشل میڈیا سے متعلق شعبے نے 2009 میں اپنے کام کا آغاز یوٹیوب پر کچھ وڈیوز اپ لوڈ کرکے کیا تھا اور اب وہ اپنی کارکردگی کا دائرہ کہیں وسیع کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے تیس پلیٹ فارمز استعمال کر رہا ہے، جب کہ یہ ٹیم اپنا پیغام اور پوسٹس چھے زبانوں میں لوگوں تک پہنچارہی ہے، جن میں عبرانی، عربی، انگریزی، اسپینش، فرنچ اور رشین شامل ہیں۔



Avital Leibovich کا کہنا ہے،''یہ سلسلہ اس لیے شروع کیا گیا کہ ہمیں اس حقیقت کا احساس ہوگیا کہ دنیا میں میڈیا کا ایک نیا شعبہ تشکیل پارہا ہے۔ ہم اسے شعبے سے منسلک ہونا، اس پر موثر کردار ادا کرنا اور اس کے ذریعے اپنا اثرو نفوذ چاہتے تھے۔'' Avital Leibovich کا یہ بھی کہنا ہے کہ فوج ایک ''بند'' ادارہ ہے، جو اپنے معاملات دوسرے لوگوں سے شیئر نہیں کرتی اور ممکن ہے کہ ایسا کرتے ہوئے وہ سخت زبان استعمال کرے، ''مگر ہم اس کے یکسر مختلف ہیں۔ ہم تخلیقی صلاحیت کے حامل، کھلے ڈُلے، لوگوں سے تبادلۂ خیال کرنے والے اور اپنے معاملات شیئر کرنے والے ہیں۔''



صہیونی ریاست کا دفاعی ادارہ اپنی روایتی عیارانہ ذہنیت کا مظاہرہ کرتے ہوئے سوشل میڈیا کے ذریعے دنیا کو یہ باور کرانے میں مصروف ہے کہ فلسطینی خاص طور پر حماس صہیونی ریاست کے لیے خطرہ ہیں۔ اس مقصد کے لیے تصاویر اور وڈیوز پر مبنی پوسٹس استعمال کی جاتی ہیں۔ اس طرح فلسطینیوں پر ظلم ڈھانے میں مصروف اسرائیلی فوج سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس کے یوزرز کی ہم دردیاں حاصل کرنے اور عالمی رائے عامہ اپنے حق میں ہموار کرنے کے لیے تن دہی سے کوشاں ہے، تاکہ غزہ اور حماس پر کیے جانے والے حملے اور فلسطینیوں پر ڈھائے جانے مظالم کو اسرائیل کی دفاعی کارروائی سمجھا جائے۔

دوسری طرف وسائل سے محروم حماس سوشل میڈیا پر اپنے موقف کے حق میں رائے ہموار کرنے میں مصروف ہے۔ حماس کے عسکری شعبے القسام بریگیڈ نے اس سلسلے میں اپنا فیس بک پیج بنایا تھا اور اور اپنے یوٹیوب چینل کے ذریعے بھی مصروفِ عمل تھی، مگر یہ دونوں ذرائع زیادہ عرصے تک برقرار نہ رہ سکے۔ تاہم القسام بریگیڈ کا انگریزی میں ایک بلاگ انٹرنیٹ پر موجود ہے، جو متحرک کردار ادا کر رہا ہے۔ اس تنظیم کی موثر موجودگی ٹیوٹر پر نظر آتی ہے، جہاں القسام بریگیڈ کی متعلقہ ٹیم کے ارکان ہر روز درجنوں ٹوئٹس کرتے رہے ہیں۔ تاہم اس سال 9 جنوری کو القسام بریگیڈ کا ٹوئٹر اکاؤنٹ، جو انگریزی میں تھا، معطل کردیا گیا۔ ٹوئٹر انتظامیہ نے یہ نہیں بتایا کہ اس نے یہ اقدام کیوں کیا، تاہم صاف ظاہر ہے کہ مغرب سے تعلق رکھنے والی اس سائٹ کی انتظامیہ کو اسرائیل کی خوش نودی عزیز ہے۔ اب القسام بریگیڈ ایک متبادل ٹوئٹر اکاؤنٹ استعمال کر رہی ہے، جو عربی میں ہے۔



حماس کو یہ مشکل درپیش ہے کہ اسے امریکا، کینیڈا اور یورپی یونین نے دہشت گرد تنظیم قرار دے رکھا ہے، چناں چہ امریکا بیسڈ فیس بک اور اس جیسی دیگر سوشل نیٹ ورکنگ سائٹس پر اکاؤنٹ بنانا، برقرار رکھنا اور ان کے ذریعے اپنا موقف سامنے لانا حماس کے لیے ایک نہایت مشکل ہدف ہے۔ ان سائٹس کے منتظمین کا مخاصمانہ رویہ بھی حماس کے راہ کی رکاوٹ ہے، جیسے یوٹیوب پر قائم القسام بریگیڈ کا اکاؤنٹ ہٹا دیا گیا۔

ان مشکل حالات اور ناموافق فضا کے باوجود القسام بریگیڈ سوشل ویب سائٹس پر کسی نہ کسی طور اپنی سرگرمیاں جاری رکھے ہوئے ہے۔ وہی کچھ جو فلسطین کی سرزمین پر ہورہا ہے وہی سوشل میڈیا کی دنیا میں بھی دکھائی دیتا ہے۔ ایک طرف طاقت سے لیس اسرائیل ہے جسے دنیا بھر کے صہیونی فکر کے یہودیوں، امریکا اور مغرب کی حمایت حاصل ہے اور دوسری طرف مظلوم اور ہر وسیلے سے محروم فلسطینی، ایسے میں سوشل میڈیا سے وابستہ ہر مظلوم دوست اور خاص طور پر مسلمان یوزرز کی ذمے داری ہے کہ وہ فلسطینیوں کے موقف کو زیادہ سے زیادہ دنیا میں پھیلائیں، اگر ایسا ہوا تو اسرائیل تمام تر وسائل کے باوجود سوشل میڈیا پر یہ جنگ ہار جائے گا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں