خطے کی سیاست کے چیلنجز
معروضی حقائق پل بھر میں نہیں بدلتے، سب جانتے ہیں۔
میڈیا کے مطابق بلوچستان اسمبلی کا احاطہ بالآخر میدان جنگ بن گیا، اپوزیشن نے صدر دروازے پر تالے لگا دیے، بکتر بند گاڑی سے گیٹ توڑا گیا، اسپیکر داخل نہ ہو سکے، پولیس سے جھڑپیں ہوئیں ،3 ارکان زخمی ہوئے۔
میڈیا کے مطابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان پر جوتے پھینکے گئے، گملا لگنے سے زخمی بھی ہوئے، بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود ایوان کو جانے والے راستے بند کر دیے گئے، کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا، 84 ارب 72 کروڑ روپے کا خسارہ دکھایا گیا، مختلف سرکاری محکموں میں 5 ہزار 854 نئی اسامیاں تخلیق کی گئیں، 2 ہزار سے زائد نئی ترقیاتی اسکیموں کے لیے 76 ارب روپے مختص کیے گئے، اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ہمارے حلقے نظرانداز کیے جا رہے ہیں۔ عوامی امنگوں کی ترجمانی کے وعدے پورے نہیں ہوئے، اضطراب اور مایوسی بڑھ گئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج، ہنگامہ آ رائی اور توڑ پھوڑ کے دوران صوبائی حکومت نے نئے مالی سال 22-2021 کا بجٹ ایوان میں پیش کر دیا، میڈیا کے مطابق سیاسی منظرنامہ عجیب تھا، اندر بجٹ اجلاس جب کہ باہر میدان جنگ سج چکا تھا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن ارکان نئے مالی سال کے بجٹ میں نظر انداز کیے جانے کے خلاف گزشتہ کئی روز سے سراپا احتجاج تھے۔
سیاسی حوالہ سے صورتحال اندوہ ناک رہی ، ایف سی کے خلاف فائرنگ، بم دھماکے اور فورسز پر حملے کے واقعات میں تیزی کے باعث صوبہ میں سیاسی کشیدگی میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ، گزشتہ روز اپوزیشن اراکین اسمبلی احتجاج کرتے رہے، جمعہ کو بجٹ اجلاس کے روز اپوزیشن اراکین اور ان کے حمایتیوں نے اسمبلی کے گیٹ کو تالے لگا دیے، وزیر اعلیٰ جام کمال خان اور حکومتی اراکین کو اسمبلی میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی تو پولیس ایکشن میں آگئی اس دوران ہونے والی ہنگامہ آرائی اور پولیس کی شیلنگ کے نتیجے میں3 اراکین اسمبلی زخمی ہوئے، اس موقع پر احتجاج کرنے والوں نے وہاں رکھے گملے توڑ دیے جب کہ وزیر اعلیٰ جام کمال پر جوتا بھی اچھال دیا اور گملا بھی مارا جس سے وہ زخمی ہوگئے۔
بلوچستان اسمبلی میں ایک جانب اپوزیشن کا بھرپور احتجاج جاری تھا تو دوسری جانب صوبائی وزیر خزانہ ظہور احمد بلیدی نے آیندہ مالی سال کے لیے 584 ارب روپے حجم کا ٹیکس فری بجٹ پیش کر دیا، بجٹ میں کل خسارہ84 ارب 72 کروڑ روپے ظاہر کیا گیا ہے۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کی مد میں 10 فیصد اضافے اور15فیصد ڈسپیریٹی ریڈکشن الاؤنس کا بھی اعلان کیا گیا، بجٹ میں مختلف سرکاری محکموں میں 5 ہزار 854 نئی آسامیاں بھی تخلیق کی گئی ہیں، وزیر خزانہ ظہور احمد بلیدی نے بتایا کہ صوبے بھر میں ہیلتھ کارڈ لایا جا رہا ہے۔
سرکاری اسپتالوں میں او پی ڈی کی پرچی ختم کر دی گئی ہے، دو ہزار سے زائد نئی ترقیاتی اسکیموں کے لیے 76 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، بلوچستان اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت میں وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے دنگا فساد کرنے اور توڑ پھوڑ پر حیرت ہوئی، ان چیزوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو کہ وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ اپوزیشن شاید یہ چیز بھول گئی کہ بلوچستان اسمبلی ایک مقدس جگہ ہے، آج کی صورتحال پر بہت سنگین کیسز بھی بن سکتے ہیں، اس بات کی تحقیقات کی جائے گی کہ کس نے اس آئینی ادارے کو نقصان پہنچایا۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا کہ حکومت نے ہمیشہ اپوزیشن کے ساتھ رعایت برتی ان کے مسائل سنے، تجاویز کو اہمیت دی، اپوزیشن نے حکومت کے خلاف بات کی اس کو بھی خندہ پیشانی سے سنا مگر اس کے باوجود اپوزیشن نے جو کچھ کیا وہ نامناسب تھا۔ بجٹ اجلاس میں ہنگامہ آرائی کے واقعہ کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے، گالم گلوچ، توڑ پھوڑ، بلیک میلنگ کرنے والوں سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہوںگے، بجٹ عوام دوست ہے جس سے خوشحالی کا نیا دور شروع ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ اپوزیشن نے صرف 8 سے10 کروڑ روپے کی اسکیمز کے لیے یہ کچھ کیا، بجٹ کے بعد صوبے کے ہر شخص کے پاس علاج کے لیے سالانہ 10لاکھ روپے ہوںگے، یہ ہمارے لیے نہیں بلکہ بلوچستان کی عوام کے لیے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اپوزیشن نے ''میں نہ مانوں'' کی رٹ لگا رکھی ہے، بجٹ میں جتنی بھی اسکیمیں ہیں وہ اپوزیشن کے حلقوں میں بھی ترقی کے لیے ہیں، اپوزیشن دیکھ لے کہ ان کے حلقوں میں حکومت نے کام کیا ہے یا نہیں، انھوں نے کہا کہ حکومت نے تمام حلقوں میں ضروریات اور جو مناسب سمجھا ان منصوبوں کو پی ایس ڈی پی میں شامل کیا۔
گزشتہ روز اپوزیشن رکن صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ کے حکومت کو مناظرے کے چیلنج پر ردعمل دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 21 ویں صدی میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے موجودہ ایم پی اے بلوچستان کے مستقبل کے معمار نوجوانوں کو روڈ بلاک کرنے کا طریقہ سکھا رہے ہیں۔ اس مائنڈ سیٹ پر کیا کہا جا سکتا ہے، جام کمال نے کہا کہ بلوچستان میں خواتین پولیس اسٹیشن کے قیام سے مسائل حل ہوں گے اور حکومت بلوچستان اس منصوبے کو مزید بھی وسعت دے گی۔ دوسری جانب اپوزیشن نے بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے حلقے نظرانداز کیے جا رہے ہیں، ہم اس عوام دشمن بجٹ کو نہیں مانتے۔
بلوچستان اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے موقع پر پیش آنے والے واقعے میں گنجینہ معنی کے طلسم میں غور و فکر کے بہت سے پہلو مضمر تھے، یہ محض ایک سیاسی حوالہ نہیں جس کے ڈانڈے سیاسی حالات سے مربوط ہیں، لیکن اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ حالات درست سمت میں نہیں جا رہے، بلوچستان میں سیاسی اضطراب پر مزید فوکس کرنے کی ضرورت ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ معاملہ اپوزیشن کے اجتماعی اضطراب کی تفہیم کا بھی ہے، بلوچستان میں سیاسی تقسیم نمایاں ہے، سیاست دانوں کے خیال میں اس برہمی اور حکمرانوں کے انداز سیاست پر سیاسی ماہرین کے معروضی تبصروں اور ماحول کی گرمی پر قیاس آرائیاں بھی بلا وجہ نہیں ہیں، بلوچستان کے عوام بجٹ سے ملنے والے ریلیف پر خفا ہیں، اور صوبہ کے بار ے میں کالونی کا تاثر ابھر رہا ہے، دریں اثنا چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بجٹ کو عوام پر معاشی حملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ خبردار، کسی نے نا اہل حکومت کے لیے ریاست مدینہ کا لفظ استعمال کیا، بجٹ میں امیروں کے لیے ریلیف، عام آدمیوں کے لیے تکلیف ہے۔
روایت ہے کہ بجٹ کے بعد پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہوتی ہے، لیکن عمومی سیاسی ماحول نے ملکی معاشی صورتحال ، بجٹ میں عوام کی سہولتوں، ہمہ جہتی ریلیف اور ٹیکس فری کے حکومتی دعوؤں کو یکسر فریب قرار دیا ہے، اب بحث ڈیروں، پتھاروں، چائے خانوں میں اس بات پر ہو رہی ہے کہ عوام کو وفاقی بجٹ سے ملا کچھ نہیں مگر ہر چیز پر ٹیکس لگ رہا ہے، مہنگائی کا ایک سرکاری اعلامیہ جاری ہوتا ہے ، جس میں کچھ اشیاء کی قیمتوں میں استحکام اور باقی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کی خبر عوام کے دل پر گھونسے کی طرح لگتی ہے۔
اپوزیشن چاہے کے پی کے کی ہو یا پنجاب اور سندھ کی ، سب کا perception یکساں ہے کہ حکومتی وزرا، مشیران کے مطابق معیشت سنبھلنے اور بہتری کی جانب سفر کرتی نظر آتی ہے اس کا حقیقت سے کتنا تعلق ہے، عوام جو مہنگائی اور غربت کی دلدل میں کمر کمر دھنس چکے ہیں وہ وزرا اور حکومتی ارکان اسمبلی سے سوال کرتے ہیں کہ مغرب میں ارکان اسمبلی اپنے ہیلتھ کیئر، سوشل سیکیورٹی، کورونا میں تخفیف بچوں کی تعلیم اور ٹرانسپورٹ کی سہولتوں پر اپنے سیاست دانوں اور اراکین اسمبلی سے جوابدہی کا جمہوری حق استعمال کرتے ہیں مگر ہماری قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ہمارے سیاست دان صرف تقریریں کرتے ہیں، عوام کی زندگیوں میں کوئی معنوی تبدیلی نظر نہیں آتی ، ایوانوں میں گالیوں کی سیاست ہو رہی ہے۔
سیاسی اخلاقیات اور جمہوریت کا جنازہ اٹھایا جا رہا ہے، فکری آوارگی، تخلیقی اور ادبی تربیت کے سارے سر چشمے خشک ہوتے جا رہے ہیں، اجتماعی قحط الرجال اور نظریاتی دیوالیہ پن کا زمانہ آ گیا ہے، ہمارے سنجیدہ سیاست دان پارلیمنٹ کو مچھلی بازار بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں، وزیر داخلہ فرماتے ہیں کہ اپوزیشن سے جوڈو کراٹے کا پروگرام نہیں، ساتھ لے کر چلنا ہے، وہ بیچاری تو پہلے سے مری ہوئی ہے، اندازہ کیجیے یہ طرز گفتگو کا لیول ہے، دراصل عوام ملکی سیاست کے حاشیوں پر بٹھا دیے گئے ہیں۔
وزیر خزانہ شوکت ترین نے گزشتہ دنوں میڈیا سے گفتگو میں ایک اہم اعلان کیا، ان کا کہنا تھا کہ ہم آج بھی عالمی مالیاتی ادارے IMF کو چھوڑنے کا سوچ نہیں سکتے اور کوئی جواب نہیں دیتا، ترین صاحب کا کہنا ہے کہ ادارہ ہماری معیشت کی بحالی کے عمل میں ہمارے ساتھ چلنے کو تیار ہے، پہلے ہم پر اس کی شرائط بہت سخت تھیں، مگر اب وقت بدل گیا ہے۔
عوام اور ماہرین اقتصادیات یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا حکومتی اقدامات سے معیشت خودکفالت اور غذائی پیداواریت کی نئی منزلوں کو چھو رہی ہے، اگر بجٹ نے معاشی حالات بہتر کرنے شروع کر دیے ہیں تو عوام کی دہلیز تک معاشی ثمرات کی رم جھم کیوں نظر نہیں آتی، مہنگائی کا شور تھم کر لوگ خوشیاں کیوں نہیں منا رہے؟ بیروزگاری اور غربت کا کشکول ٹوٹ کر زمین پر گرتا کیوں نہیں، ان بے ضرر سوالوں کا حکمرانوں کے پاس کوئی جواب نہیں۔
معروضی حقائق پل بھر میں نہیں بدلتے، سب جانتے ہیں ، مگر اس بات کا یقین عوام کے تمام طبقات کو ہے کہ معیشت اگر ایک بجٹ سے جنبش لے لے تو اقتصادی مسیحاؤں اور ترجمانوں کا حکومتی گروہ آخر اپنی تقریروں اور ستم ظریفانہ پیشگوئیوں سے معاشی انقلاب برپا کرنے کی مسلسل دستک کیوں دیتا ہے؟
میڈیا کے مطابق وزیر اعلیٰ جام کمال خان پر جوتے پھینکے گئے، گملا لگنے سے زخمی بھی ہوئے، بلوچستان ہائی کورٹ کے حکم کے باوجود ایوان کو جانے والے راستے بند کر دیے گئے، کوئی نیا ٹیکس نہیں لگایا گیا، 84 ارب 72 کروڑ روپے کا خسارہ دکھایا گیا، مختلف سرکاری محکموں میں 5 ہزار 854 نئی اسامیاں تخلیق کی گئیں، 2 ہزار سے زائد نئی ترقیاتی اسکیموں کے لیے 76 ارب روپے مختص کیے گئے، اپوزیشن کا کہنا ہے کہ ہمارے حلقے نظرانداز کیے جا رہے ہیں۔ عوامی امنگوں کی ترجمانی کے وعدے پورے نہیں ہوئے، اضطراب اور مایوسی بڑھ گئی ہے۔
تفصیلات کے مطابق بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن جماعتوں کے احتجاج، ہنگامہ آ رائی اور توڑ پھوڑ کے دوران صوبائی حکومت نے نئے مالی سال 22-2021 کا بجٹ ایوان میں پیش کر دیا، میڈیا کے مطابق سیاسی منظرنامہ عجیب تھا، اندر بجٹ اجلاس جب کہ باہر میدان جنگ سج چکا تھا۔ سیاسی مبصرین کے مطابق بلوچستان اسمبلی میں اپوزیشن ارکان نئے مالی سال کے بجٹ میں نظر انداز کیے جانے کے خلاف گزشتہ کئی روز سے سراپا احتجاج تھے۔
سیاسی حوالہ سے صورتحال اندوہ ناک رہی ، ایف سی کے خلاف فائرنگ، بم دھماکے اور فورسز پر حملے کے واقعات میں تیزی کے باعث صوبہ میں سیاسی کشیدگی میں بھی اضافہ دیکھنے میں آیا ، گزشتہ روز اپوزیشن اراکین اسمبلی احتجاج کرتے رہے، جمعہ کو بجٹ اجلاس کے روز اپوزیشن اراکین اور ان کے حمایتیوں نے اسمبلی کے گیٹ کو تالے لگا دیے، وزیر اعلیٰ جام کمال خان اور حکومتی اراکین کو اسمبلی میں داخل ہونے سے روکنے کی کوشش کی تو پولیس ایکشن میں آگئی اس دوران ہونے والی ہنگامہ آرائی اور پولیس کی شیلنگ کے نتیجے میں3 اراکین اسمبلی زخمی ہوئے، اس موقع پر احتجاج کرنے والوں نے وہاں رکھے گملے توڑ دیے جب کہ وزیر اعلیٰ جام کمال پر جوتا بھی اچھال دیا اور گملا بھی مارا جس سے وہ زخمی ہوگئے۔
بلوچستان اسمبلی میں ایک جانب اپوزیشن کا بھرپور احتجاج جاری تھا تو دوسری جانب صوبائی وزیر خزانہ ظہور احمد بلیدی نے آیندہ مالی سال کے لیے 584 ارب روپے حجم کا ٹیکس فری بجٹ پیش کر دیا، بجٹ میں کل خسارہ84 ارب 72 کروڑ روپے ظاہر کیا گیا ہے۔ بجٹ میں سرکاری ملازمین کی تنخواہوں اور پنشن کی مد میں 10 فیصد اضافے اور15فیصد ڈسپیریٹی ریڈکشن الاؤنس کا بھی اعلان کیا گیا، بجٹ میں مختلف سرکاری محکموں میں 5 ہزار 854 نئی آسامیاں بھی تخلیق کی گئی ہیں، وزیر خزانہ ظہور احمد بلیدی نے بتایا کہ صوبے بھر میں ہیلتھ کارڈ لایا جا رہا ہے۔
سرکاری اسپتالوں میں او پی ڈی کی پرچی ختم کر دی گئی ہے، دو ہزار سے زائد نئی ترقیاتی اسکیموں کے لیے 76 ارب روپے مختص کیے گئے ہیں، بلوچستان اسمبلی میں بجٹ اجلاس کے بعد میڈیا سے بات چیت میں وزیر اعلیٰ کا کہنا تھا کہ اپوزیشن کی جانب سے دنگا فساد کرنے اور توڑ پھوڑ پر حیرت ہوئی، ان چیزوں میں وہ لوگ بھی شامل تھے جو کہ وزیر اعلیٰ رہ چکے ہیں۔ انھوں نے کہا تھا کہ اپوزیشن شاید یہ چیز بھول گئی کہ بلوچستان اسمبلی ایک مقدس جگہ ہے، آج کی صورتحال پر بہت سنگین کیسز بھی بن سکتے ہیں، اس بات کی تحقیقات کی جائے گی کہ کس نے اس آئینی ادارے کو نقصان پہنچایا۔
وزیر اعلیٰ بلوچستان جام کمال خان نے کہا کہ حکومت نے ہمیشہ اپوزیشن کے ساتھ رعایت برتی ان کے مسائل سنے، تجاویز کو اہمیت دی، اپوزیشن نے حکومت کے خلاف بات کی اس کو بھی خندہ پیشانی سے سنا مگر اس کے باوجود اپوزیشن نے جو کچھ کیا وہ نامناسب تھا۔ بجٹ اجلاس میں ہنگامہ آرائی کے واقعہ کی تحقیقات کا حکم دے دیا ہے، گالم گلوچ، توڑ پھوڑ، بلیک میلنگ کرنے والوں سے کسی قسم کے مذاکرات نہیں ہوںگے، بجٹ عوام دوست ہے جس سے خوشحالی کا نیا دور شروع ہوگا۔
انھوں نے کہا کہ اپوزیشن نے صرف 8 سے10 کروڑ روپے کی اسکیمز کے لیے یہ کچھ کیا، بجٹ کے بعد صوبے کے ہر شخص کے پاس علاج کے لیے سالانہ 10لاکھ روپے ہوںگے، یہ ہمارے لیے نہیں بلکہ بلوچستان کی عوام کے لیے ہیں۔ انھوں نے کہا کہ اپوزیشن نے ''میں نہ مانوں'' کی رٹ لگا رکھی ہے، بجٹ میں جتنی بھی اسکیمیں ہیں وہ اپوزیشن کے حلقوں میں بھی ترقی کے لیے ہیں، اپوزیشن دیکھ لے کہ ان کے حلقوں میں حکومت نے کام کیا ہے یا نہیں، انھوں نے کہا کہ حکومت نے تمام حلقوں میں ضروریات اور جو مناسب سمجھا ان منصوبوں کو پی ایس ڈی پی میں شامل کیا۔
گزشتہ روز اپوزیشن رکن صوبائی اسمبلی ثناء بلوچ کے حکومت کو مناظرے کے چیلنج پر ردعمل دیتے ہوئے انھوں نے کہا کہ 21 ویں صدی میں بلوچستان نیشنل پارٹی کے موجودہ ایم پی اے بلوچستان کے مستقبل کے معمار نوجوانوں کو روڈ بلاک کرنے کا طریقہ سکھا رہے ہیں۔ اس مائنڈ سیٹ پر کیا کہا جا سکتا ہے، جام کمال نے کہا کہ بلوچستان میں خواتین پولیس اسٹیشن کے قیام سے مسائل حل ہوں گے اور حکومت بلوچستان اس منصوبے کو مزید بھی وسعت دے گی۔ دوسری جانب اپوزیشن نے بجٹ کو مسترد کرتے ہوئے کہا ہے کہ ہمارے حلقے نظرانداز کیے جا رہے ہیں، ہم اس عوام دشمن بجٹ کو نہیں مانتے۔
بلوچستان اسمبلی کے بجٹ اجلاس کے موقع پر پیش آنے والے واقعے میں گنجینہ معنی کے طلسم میں غور و فکر کے بہت سے پہلو مضمر تھے، یہ محض ایک سیاسی حوالہ نہیں جس کے ڈانڈے سیاسی حالات سے مربوط ہیں، لیکن اس حقیقت کی طرف اشارہ کرتے ہیں کہ حالات درست سمت میں نہیں جا رہے، بلوچستان میں سیاسی اضطراب پر مزید فوکس کرنے کی ضرورت ہے۔
تجزیہ کاروں کا کہنا ہے کہ معاملہ اپوزیشن کے اجتماعی اضطراب کی تفہیم کا بھی ہے، بلوچستان میں سیاسی تقسیم نمایاں ہے، سیاست دانوں کے خیال میں اس برہمی اور حکمرانوں کے انداز سیاست پر سیاسی ماہرین کے معروضی تبصروں اور ماحول کی گرمی پر قیاس آرائیاں بھی بلا وجہ نہیں ہیں، بلوچستان کے عوام بجٹ سے ملنے والے ریلیف پر خفا ہیں، اور صوبہ کے بار ے میں کالونی کا تاثر ابھر رہا ہے، دریں اثنا چیئرمین پیپلز پارٹی بلاول بھٹو زرداری نے بجٹ کو عوام پر معاشی حملہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ خبردار، کسی نے نا اہل حکومت کے لیے ریاست مدینہ کا لفظ استعمال کیا، بجٹ میں امیروں کے لیے ریلیف، عام آدمیوں کے لیے تکلیف ہے۔
روایت ہے کہ بجٹ کے بعد پارلیمنٹ میں اس پر بحث ہوتی ہے، لیکن عمومی سیاسی ماحول نے ملکی معاشی صورتحال ، بجٹ میں عوام کی سہولتوں، ہمہ جہتی ریلیف اور ٹیکس فری کے حکومتی دعوؤں کو یکسر فریب قرار دیا ہے، اب بحث ڈیروں، پتھاروں، چائے خانوں میں اس بات پر ہو رہی ہے کہ عوام کو وفاقی بجٹ سے ملا کچھ نہیں مگر ہر چیز پر ٹیکس لگ رہا ہے، مہنگائی کا ایک سرکاری اعلامیہ جاری ہوتا ہے ، جس میں کچھ اشیاء کی قیمتوں میں استحکام اور باقی اشیا کی قیمتوں میں اضافہ کی خبر عوام کے دل پر گھونسے کی طرح لگتی ہے۔
اپوزیشن چاہے کے پی کے کی ہو یا پنجاب اور سندھ کی ، سب کا perception یکساں ہے کہ حکومتی وزرا، مشیران کے مطابق معیشت سنبھلنے اور بہتری کی جانب سفر کرتی نظر آتی ہے اس کا حقیقت سے کتنا تعلق ہے، عوام جو مہنگائی اور غربت کی دلدل میں کمر کمر دھنس چکے ہیں وہ وزرا اور حکومتی ارکان اسمبلی سے سوال کرتے ہیں کہ مغرب میں ارکان اسمبلی اپنے ہیلتھ کیئر، سوشل سیکیورٹی، کورونا میں تخفیف بچوں کی تعلیم اور ٹرانسپورٹ کی سہولتوں پر اپنے سیاست دانوں اور اراکین اسمبلی سے جوابدہی کا جمہوری حق استعمال کرتے ہیں مگر ہماری قومی اور صوبائی اسمبلیوں میں ہمارے سیاست دان صرف تقریریں کرتے ہیں، عوام کی زندگیوں میں کوئی معنوی تبدیلی نظر نہیں آتی ، ایوانوں میں گالیوں کی سیاست ہو رہی ہے۔
سیاسی اخلاقیات اور جمہوریت کا جنازہ اٹھایا جا رہا ہے، فکری آوارگی، تخلیقی اور ادبی تربیت کے سارے سر چشمے خشک ہوتے جا رہے ہیں، اجتماعی قحط الرجال اور نظریاتی دیوالیہ پن کا زمانہ آ گیا ہے، ہمارے سنجیدہ سیاست دان پارلیمنٹ کو مچھلی بازار بنانے میں دلچسپی رکھتے ہیں، وزیر داخلہ فرماتے ہیں کہ اپوزیشن سے جوڈو کراٹے کا پروگرام نہیں، ساتھ لے کر چلنا ہے، وہ بیچاری تو پہلے سے مری ہوئی ہے، اندازہ کیجیے یہ طرز گفتگو کا لیول ہے، دراصل عوام ملکی سیاست کے حاشیوں پر بٹھا دیے گئے ہیں۔
وزیر خزانہ شوکت ترین نے گزشتہ دنوں میڈیا سے گفتگو میں ایک اہم اعلان کیا، ان کا کہنا تھا کہ ہم آج بھی عالمی مالیاتی ادارے IMF کو چھوڑنے کا سوچ نہیں سکتے اور کوئی جواب نہیں دیتا، ترین صاحب کا کہنا ہے کہ ادارہ ہماری معیشت کی بحالی کے عمل میں ہمارے ساتھ چلنے کو تیار ہے، پہلے ہم پر اس کی شرائط بہت سخت تھیں، مگر اب وقت بدل گیا ہے۔
عوام اور ماہرین اقتصادیات یہ پوچھنا چاہتے ہیں کہ کیا حکومتی اقدامات سے معیشت خودکفالت اور غذائی پیداواریت کی نئی منزلوں کو چھو رہی ہے، اگر بجٹ نے معاشی حالات بہتر کرنے شروع کر دیے ہیں تو عوام کی دہلیز تک معاشی ثمرات کی رم جھم کیوں نظر نہیں آتی، مہنگائی کا شور تھم کر لوگ خوشیاں کیوں نہیں منا رہے؟ بیروزگاری اور غربت کا کشکول ٹوٹ کر زمین پر گرتا کیوں نہیں، ان بے ضرر سوالوں کا حکمرانوں کے پاس کوئی جواب نہیں۔
معروضی حقائق پل بھر میں نہیں بدلتے، سب جانتے ہیں ، مگر اس بات کا یقین عوام کے تمام طبقات کو ہے کہ معیشت اگر ایک بجٹ سے جنبش لے لے تو اقتصادی مسیحاؤں اور ترجمانوں کا حکومتی گروہ آخر اپنی تقریروں اور ستم ظریفانہ پیشگوئیوں سے معاشی انقلاب برپا کرنے کی مسلسل دستک کیوں دیتا ہے؟