سماج
سمجھ میں یہ بات بالکل نہیں آتی کون سی اور تباہی، بربادی اور نئے المیے ہمارے سماج میں اور ہونے ہیں۔
لاہور:
وہ تمام ذلتیں جو کہانیوں ، قصوں میں پائی جاتی ہیں اور جو دنیا بھر میں ناپید ہوچکی ہیں اور جنھیں ہم انتہائی کراہت کے ساتھ پڑھتے اور سنتے ہیں اب وہ تمام کی تمام ہمارے سامنے ہمارے سماج میں موجود ہیں ان کے ساتھ ساتھ اس قدر بدبو دار غلاظتیں اور بھی پیدا ہوچکی ہیں جن کا ذکر کرنا اخلاقاً ممکن نہیں ہے۔ ہر گھر المیوں کا مسکن بن کے رہ گیا ہے۔
بربادی نے ہر آنگن پر قبضہ جما لیا ہے، ہر شخص اس طرح جی رہا ہے جیسے وہ کسی جنازے کے ساتھ ساتھ چل رہا ہو۔ ہمارے سماج میں تما م مسرتیں ، راحتیِں ، آزادی ، لذتیں گناہ قرار پا گئی ہیں ، سماج کے ٹھیکیدار عورت کو انسان ماننے کے لیے تیار نہیں ہیں، وہ اسے صرف وحشی جذبات کو پورا کر نے کی کوئی شے سمجھے بیٹھے ہیں۔ اقلیتیں خوف، دہشت ، و حشت ، ڈر میں اپنی زندگیاں تمام کرنے پر مجبور ہیں جب چاہیں جو چاہیں الزام لگا کر ان کا جینا حرام کردیتے ہیں۔ خدا کے خود ساختہ نمایندے ہر قسم کے سرٹیفکیٹ لیے دندناتے پھر رہے ہیں جنھیں دیکھ کر دستو فسکی کے ناول"The Possessed" کا ایک منظر یاد آجاتا ہے ۔
''اس عالم میں کہ پکڑ دھکڑ اور محاسبے کا سلسلہ جاری ہے اور بے دینوں کو دہکتی ہوئی آگ کے شعلوں میں پھینکا جا رہا ہے ، ایک بزرک ہستی زمین پر تشریف لاتے ہیں۔ وہ تشدد کے طریقوں کی کھلی مذمت کرتے ہیں۔ اس کے جواب میں دین سے انحراف کا الزام لگا کر خود انھیں محتسب اعلیٰ کے آگے پیش کیا جاتا ہے۔ ان سے کہا جاتا ہے کہ اپنا دفاع کرنے کے لیے دلائل پیش کریں ۔ وہ بزرگ شخصیت کہتے ہیں کہ تم مجھے نہیں جانتے میں ہی اس مذہب کا بانی ہوں۔ محتسب اعلیٰ اس بات پر مناسب تعظیم بجا لاتا ہے اور ان کا شکریہ ادا کرتا ہے لیکن ساتھ ہی انھیں متنبہ کرتا ہے کہ مذہب کے معنیٰ اب وہ ہیں جسے موجودہ مذہبی رہنما درست سمجھتے ہیں۔''
ہمارے سماج میں ایک بیماری سے چھٹکارا حاصل نہیں ہوتا تو دوسری بیماریاں گھر گھر آجاتی ہیں عظیم یونانی سوفیکلیز کے Thebes Plays میں سب سے اہم ڈرامہ جسے دنیا کا سب سے بڑا ڈرامہ قرار دیا جاتاہے وہ '' ایڈی پس ریکس '' ہے۔ اس میں Thebes شہر کے دروازے پر ایک بلا آکر بیٹھ جاتی ہے اور بیماریاں اور امراض اپنے سانسوں سے شہرکی طرف بھیجنا شروع کردیتی ہے اور شہر تباہ ہونے لگتا ہے۔
اسی طرح لگتا ہے کہ ہمارے سماج کے چاروں طرف بلائیں آکر بیٹھ گئی ہیں جو بیماریاں، امراض اور غلاظتیں اپنے سانسوں سے ہمارے سماج میں بھیج رہی ہیں۔ یہاں یہ بات یاد رکھنے کی ضرورت ہے کہ ان بلائوں کے خالق ہم لوگ ہیں ، اس لیے ہم سب قصور وار ہیں، سوچو ذرا ، سوچو ہم اپنے بچوں کو کیا دے کر جا رہے ہیں۔ کیا وہ اس سماج میں اچھے انسان بن پائیں گے۔ کیا وہ زندگی کی راحتوں اور لذتوں کے مزے لے پائیں گے، کیا وہ ایک خوشگوار ، مسرت بھری اور سکون بخش اور آزادی سے بھرپور زندگی جی پائیں گے کیا پھر وہ بھی ہمارے ہی طرح کڑھ کڑھ کر اذیتوں کے ساتھ مرجائیں گے۔ کیا وہ بھی ہماری طرح کوڑھی نہیں بن جائیں گے۔
آج بھی ہمارے سماج کے لوگ جاگنے کے لیے تیار نہیں ہیں، جن کے نزدیک ابھی تک مکمل تباہی اور بربادی نہیں آئی ہے۔ ڈرامہ نویس اور اداکار داریوفو 26 مارچ 1926کو اٹلی کے چھوٹے سے شہر لیگو میکیورے میں پیدا ہوا۔ داریو اپنے دور کے عظیم ڈراما نگاروں میں شمار کیا جاتا ہے ، اس نے بے شمار ڈرامے لکھے۔ دنیا کے سارے براعظموں کے اٹھاون ملکوں میں داریو کے کھیل اس کے ہم عصر لکھنے والوں کے مقابلے میں سب سے زیادہ اور مشہور تھیڑوں میں پیش کیے گئے ہیں۔
اس نے نوبیل انعام لیتے وقت اپنے خطبے میں کہا تھا '' جب داستان گویوں کا ذکر آتا ہے تو مجھے Lago Maggior جیسی چھوٹی بستی کے فن کاروں کو نہیں بھولنا چاہیے، جہاں میں پلا بڑھا تھا وہ پرانے داستان گو تھے ماہر شیشہ گر جیسے جنھوں نے مجھے اور دوسرے بچوں کو فن کے دھاگے بننے کا ہنر سکھا دیا تھا۔ آج بھی میر ے ذہن میں Rock of Calde کا قصہ بالکل تازہ ہے '' بہت برس گزرے '' شیشہ گر نے کہنا شروع کیا ، اس چوٹی کی ڈھلان پرجو جھیل میں سے نکلتی ہے Calde نام کی ایک بستی تھی۔
یہ بستی چٹان کے ایک ہلتے ہوئے ٹکڑے پر ٹکی ہوئی تھی جو روز بروز آہستہ آہستہ ڈھلان کی طرف سرک رہی تھی یہ ایک عظیم الشان بستی تھی جس میں ایک گھنٹہ گھر تھا قلعے جیسے مینار اور ایک کے بعد ایک گھروں کے جھنڈ کے جھنڈ تھے، یہ بستی جو اس جگہ تھی اب موجود نہیں رہی یہ پندرہویں صدی میں صفحہ ہستی سے مٹ گئی تھی '' او '' کسان اور مچھیروں نے آواز لگائی تھی تم بھی سرک رہے ہو اور وہاں سے نیچے آرہے ہو۔
مگر پہاڑی پر رہنے والوں نے سنی ان سنی کردی، انھوں نے ہنس کر ان کا مذاق اڑایا اور بولے '' تم خود کو بہت چالاک سمجھتے ہو ہم کو ڈرا رہے ہو کہ ہم اپنے گھر اور اپنی زمینیں چھوڑ کر بھاگ جائیں تاکہ تم ان پر قبضہ کر لو مگر ہم اتنے بے وقوف نہیں ہیں'' سو وہ سب شراب کشید کرتے رہے کھیے جوتتے بوتے رہے شادی بیاہ کرتے رہے اور بچے جنتے رہے عبادت کے لیے گرجا جاتے رہے۔
انھوں نے محسوس کیا کہ ان کے پیروں کے نیچے سے چٹان سرک رہی ہے مگر انھوں نے اس کی بالکل پروا نہیں کی بلکہ ایک دوسرے کو دلاسہ دینے کے لیے یہ کہتے رہے کہ ''دراصل یہ چٹان اپنی جگہ بنا رہی ہے کوئی نئی بات نہیں '' ... ''چٹان کا سب سے بڑا حصہ جھیل میں ڈوبنے والا تھا، ہوشیار پانی تمہارے ٹخنوں تک آپہنچا ہے کنارے پر موجود لوگ چلائے۔ بکواس یہ چشموں سے آنیوالا پانی ہے بس ذرا نمی زیادہ ہوگئی ہے بستی کے لوگوں نے جواب دیا اور پھر جھیل آہستہ آہستہ پوری بستی کو نکل گئی۔
شیشہ گر کہتا رہا آج بھی اگر آپ پانی پر جھکی ہوئی چٹان کے ٹکڑے پر نیچے جھانک کر دیکھیں اور اگر اسی لمحے طوفان برق وباراں آجائے اور اگر بجلی کی چمک میں جھیل کی تہہ کا منظر واضح ہوجائے تو آج بھی آپ دیکھ سکیں گے اگرچہ ناقابل یقین لگے گا کہ وہ ڈوبی ہوئی بستی اپنی سالم سڑکوں سمیت موجود ہے اور ان پر چلتے پھرتے وہاں کے باشندے ایک دوسرے سے شوخی میں کہتے نظر آئیں گے۔
''کچھ بھی نہیں ہوا'' اور ان کی آنکھوں کے سامنے تیرتی ان کے کانوں کے اندر آتی جاتی مچھلیاں جن کو وہ صرف ہاتھوں سے ہٹاتے کہتے ہیں ، کوئی پریشانی کی بات نہیں یہ کچھ اسی قسم کی مچھلیاں ہیں جو ہوائوں میں اڑنا سیکھ گئی ہیں'' سمجھ میں یہ بات بالکل نہیں آتی کون سی اور تباہی، بربادی اور نئے المیے ہمارے سماج میں اور ہونے ہیں کہ جب لوگ جاگیں گے ، اٹھ کھڑیں ہوں گے، اپنے لیے اور اپنے پیاروں کے لیے۔ اور اس غلیظ سماج کو جڑ سے اکھاڑ کر پھینک دیں گے اور ایک نئے روشن خیال سماج کی بنیاد رکھیں گے جہاں سب لوگ آزاد، خوشحال اور مسرت سے بھری زندگی گذاریں گے۔