اردو ناول اور ناول نگار

داستان میں جو قصہ ہوتا تھا اس میں حقیقت نہیں ہوتی وہی دیو، پریوں کی کہانی وغیرہ ہوتی تھی۔

قصہ، کہانی جب تک خواب و خیالات کی بھول بھلیوں میں گم تھی اسے داستان کہا گیا۔ جب یہی داستان حقیقت کی دنیا میں داخل ہوئی تو اس کا نام '' ناول '' پڑگیا۔

یہ کہا جاسکتا ہے داستان ترقی یافتہ شکل ہے، آج کا انسان ہر شے کو عقل کی کسوٹی پر پرکھتا ہے اور جو چیز عقل کی کسوٹی پر پوری نہ اترے تو وہ اسے رد کر دیتا ہے۔ داستان کی طوالت جو اس کا تقاضا ہے۔ طویل اور فوق الفطری عناصر جیسے دیو ، جن ، پری ، بادشاہ ، شہزادی ، راجہ ، رانی کو خیر باد کہہ دیا۔ لیکن اس کا جو بنیادی عنصر ہے یعنی قصہ وہ ناول میں بھی باقی رہا۔ کیونکہ اس کے بغیرکوئی چارہ نہیں، قصہ کے بغیر شعور نہیں ہے البتہ ایک تبدیلی یہ ہوئی کہ حقیقت کی ترجمانی کے لیے استعمال ہونے لگا۔

داستان میں جو قصہ ہوتا تھا اس میں حقیقت نہیں ہوتی وہی دیو، پریوں کی کہانی وغیرہ ہوتی تھی۔ ناول میں ایسے کردار استعمال ہوتے ہیں جو حقیقی زندگی کے ہوتے ہیں داستان کے بعد ناول میں یہ تبدیلی قصہ حقیقی ترجمانی کے لیے استعمال ہونے لگا وہ بدل کر ناول کہلایا، اس میں عام انسان نے جگہ لے لی۔

پیدائش سے موت تک کے تمام حالات ہوتے ہیں جو حالات کو تبدیل کرتے ہیں وہ ناول کا موضوع ہیں۔ ناول کے اجزائے ترکیبی درج ذیل ہیں۔قصہ بنیادی جز ہے قاری کو پڑھنے میں سچ معلوم دے ، مصنف کی مہارت اسی میں ہے کہ قصہ دلچسپی میں برقرار رہے ، کہانی آگے بڑھے ۔ قاری یہ جاننے کے لیے بے تاب رہے کہ اب کیا ہونے والا ہے۔ گویا کہانی برقرار رہے۔

پلاٹ:۔ مصنف واقعات ، قصہ کو تربیت دیتا ہے، وہ پلاٹ کو ذہن میں رکھتا ہے واقعات کو اس طرح ترتیب دیتا ہے جیسے موتی لڑی میں پروئے ہوں۔ منطقی تسلسل، دلائل کے ساتھ ہونے ضروری ہیں جوکہ بالکل فطری معلوم دے۔ پلاٹ مربوط یا گھٹا ہوا کہلائے ورنہ وہ ڈھیلا ڈھالا کہلائے گا۔ '' امراؤ جان ادا '' ناول کا پلاٹ گھٹا ہوا ہے جب کہ ''فسانہ آزاد'' دوسرا ناول جس کا پلاٹ ڈھیلا ڈھالا نہ کسا ہوا نہ گھٹا ہوا ہے۔ ناول میں قصہ ہو تو پلاٹ سادہ کہلائے گا ، ایک سے زیادہ ہوں تو وہ مرکب پلاٹ کہلائے گا جیسا کہ ناول ''امراؤ جان ادا'' میں ہے۔


کردار نگاری:۔ ناول میں جو کردار نظر آتے ہیں ان کے مرکز جاندار ہوتے ہیں۔ حقیقی قصہ کردار کہلاتے ہیں یہ جیسے حقیقی ہوں گے اسی قدر ناول اچھا ہوگا۔ کردار دو جانوں (حیات) میں پیش کیے جائیں۔ پیچیدہ ، سپاٹ۔ انسان حالات کے ساتھ تبدیل ہوتا ہے جن کرداروں کے ساتھ ارتقا ہوتا ہے پلاٹ کے ساتھ تبدیل ہوتے ہیں وہ کردار کہلاتے ہیں جیسے منشی پریم چند کا '' اوری'' امرناتھ کا ''مرزا بادی'' ان کے علاوہ '' سلطان مرزا'' اور مرزا محمد ہادی رسوا کی مشہور ناول ''امراؤ جان ادا'' ان کی ناول کے کردار ہیں۔ جو ارتقا سے محروم ہوتے ہیں یعنی ان میں تبدیلی نہیں ہوتی وہ ''سپاٹ'' کہلاتے ہیں۔ ناول میں الجھاؤ پیدا ہونے سے پیچیدہ ہو جاتا ہے۔

مکالمہ نگاری:۔ ناول کی کامیابی و ناکامی کا کسی حد تک مکالمہ نگاری پر دار و مدار ہوتا ہے۔ کردار جو ناول میں بات چیت کرتے ہیں ان کو مکالمہ کہتے ہیں۔ اسی بات چیت کے ذریعے ہم کرداروں کے دل کا حال جان سکتے ہیں۔ انھی کے سہارے قصہ آگے بڑھتا ہے۔ مکالمہ نگاری میں دو باتیں ضروری ہیں۔ مکالمہ غیر ضروری طور پر طویل نہ ہو، زیادہ طویل ہوگا تو قاری نہیں پڑھے گا۔ مکالمہ جس کردار کی زبان سے ادا ہو رہا ہو اس کے موافق ہو، مکالمے اچھے اور حسب حال ہوں۔ ڈپٹی نذیر احمد ، سرشار، منشی پریم چند یہ اچھے مکالمہ نگار ہیں۔

منظرکشی:۔ ناول کی دلکشی میں اضافہ منظرکشی سے ہوتا ہے۔ منظرکشی کامیاب ہو تو جھوٹا بھی سچا قصہ لگتا ہے۔ مرزا محمد ہادی رسوا نے ناول '' امراؤ جان ادا '' میں خانم کا قصہ ایسی کامیاب کے ساتھ کھینچا ہے کہ پورا ماحول ہمارے پیش نظر ہو جاتا ہے۔ عروس، میلے، نواب سلطان کی کوٹھی کا ذکر ایسا لگتا ہے کہ ہم خود وہاں جا پہنچے۔ منشی پریم چند کو منظر نگاری میں کمال حاصل تھا۔

نقطہ نظر:۔ مصنف کے قلم سے تحریرکی ہوئی ایک ایک بات جاری و ساری ہوتی ہے۔ ہر شخص اپنے اردگرد کی اشیا اپنی نظر سے دیکھتا ہے ہر معاملے پر ایک رائے رکھتا ہے۔ کسی بھی موضوع پر قلم اٹھاتا ہے اور اپنا نقطہ نظر واضح کرتا ہے یہ ناول نگارکی خصوصیت ہے۔

زبان و مکان:۔ اسے بھی ناقدوں نے ناول میں شامل کیا ہے۔ کہنا ہے قصہ کے لیے جاننا ضروری ہے کہ وہ کب اور کہاں ہوا کسی معرکے کی تصویر کھینچی ہو تو جدا جنگ پلاسی کی تصویرکشی کی گئی تو وہ انداز الگ ہے۔ ناول کی اجزائے ترکیبی میں زبان شامل نہیں چونکہ یہ بات اہم ہے اس لیے ایک قلم کارکی حیثیت سے اسے نظرانداز نہیں کرسکتا ، یہ صاف اور سادہ زبان میں ہو تو قاری کی توجہ اصل موضوع سے نہ ہٹے۔ناول کا ارتقا:۔ پہلا ناول 1829 میں ''مراۃ العروس'' ڈپٹی نذیر احمد کا شایع ہوا، یہ اردو کا پہلا ناول ہے اپنے ناول میں مولوی نذیر احمد نے اکبری اور اصغری دو بہنوں کا قصہ بیان کیا۔ ایک سلیقہ شعار دوسری بدسلیقہ۔ سلیقہ مند اچھی عادات و اطوار ، معمولی گھرکو جنت بنا دیتی ہے۔ دوسری اپنی بد زبانی اور بدسلوکی سے جہنم بناتی ہے۔بعد میں رتن ناتھ سرشار نے اس صفت کو بڑھایا بہت سے ناول لکھے گئے جس میں '' فسانہ آزاد'' کو سب سے زیادہ مقبولیت حاصل ہوئی۔ رتن ناتھ سرشار نے لکھنو کی تہذیب و معاشرت کی مرقع کشی کی، عبدالحلیم شرر اور محمد علی طیب کا زمانہ آیا، یہ تاریخی ناول کا دور ہے جس میں اسلام کی عظمت کے واقعات کو دہرایا گیا۔ سجاد حسین، ایڈیٹر اودھ پنچ کا زمانہ تقریباً یہی عبدالحلیم شرر اور طیب والا ہے سجاد حسین کے حاجی بغلول اورکایا پلٹ نے بہت شہرت پائی۔ مرزا محمد ہادی رسوا ان کا ناول تاریخ میں آب زر سے لکھا جائے گا کیونکہ انھوں نے زندہ جاوید ناول اردو ادب کو دیا جس کا نام امراؤ جان ادا ہے۔ اس کے بعد منشی پریم چند ہیں جنھوں نے اس کو نئے رنگ و آہنگ سے آشنا کیا۔ انھوں نے دیہاتی زندگی پیش کرکے ناول کے دامن کو وسعت دی۔ داؤداں، میدان عمل، بازار حسن،گوشہ عافیت، جوگا ن بیتی یہ منشی پریم چند کے مشہور ناول ہیں۔ منشی پریم چند کے زمانہ میں ہی ترقی پسند تحریک کا آغاز ہوگیا تھا اور اردو سے زندگی کا رشتہ مستحکم ہوگیا تھا۔ اس تحریک کے زیر اثر جو ناول لکھے گئے ان میں سجاد ظہیرکا ''لندن کی ایک رات'' قاضی عبدالغفار کا ''گلیلے کا خطوط'' عصمت چغتائی کا ''ٹیڑھی لکیر'' قرۃ العین حیدر کا ''آگ کا دریا''، کرشن چندر کا ''شکست''، عزیز احمد کا ''گریز''، قابل ذکر ہیں۔ عصمت چغتائی نے متوسط مسلمانوں کے گھرانوں کے لڑکے اور لڑکیوں کے جنسی مسائل کا ذکر کیا۔ کرشن چندر نے زیادہ جوش و خروش سے اشتراکیت کا پرچار کیا۔ عہد حاضرکے مصائب و مسائل ناول پر حاوی ہوگئے، انسانی رشتوں کی سنجیدگیاں رفتہ رفتہ اردو ناول میں زیادہ جگہ پانے لگیں جن میں زیادہ گہرائی آتی گئی۔ تقسیم ہند کے بعد کشت و خون کا بازار گرم ہوا اس نے ناول نگاروں کو ہلا کر رکھ دیا۔
Load Next Story