وہی اہل وفا کی صورت حال
آج کے یزیدیوں کے خلاف آگے بڑھ کر قربانی دینا ہوگی۔
لاہور:
چاروں طرف سے گھیراؤ میں زندگی بسر ہو رہی ہے۔ پوری دنیا تباہ ہو رہی ہے، برباد ہو رہی ہے۔
یونیورسٹیاں، بلند و بالا درسگاہیں، قدیم و جدید علوم ، ستاروں پرکمندیں، ماضی بعید و قریب کے تجربات ، قصے کہانیاں ، ترقی کی انتہاؤں کو چھوتے زمانے، بلندیوں کو زیرکرتے، سمندروں کو فتح کرتے، تباہ کن ہتھیاروں کے ڈھیر اور نتیجہ صفر بٹا صفر۔ یہ دنیا سانس لیتے انسان، جانور، درخت، پودے، انھی سب کی دنیا ہے مگر یہ سب سانس لیتے تباہ ہو رہے ہیں اور وقت بے بسی کی تصویر بنا سب کچھ دیکھتے ہوئے تیزی سے گزر رہا ہے، اور جیسے ہر شے اپنے اچھے یا برے انجام کا انتظارکر رہی ہے۔
اب تو ایسا لگتا ہے کہ سب کہنا سننا بے کار ہے۔ دنیا تباہ ہو رہی ہے اور دنیا میں رہنے بسنے والے ٹس سے مس نہیں ہو رہے وہ تمام '' برے کام '' جو ہو رہے تھے مٹتی دنیا ، ختم ہوتی دنیا میں '' زیادہ '' ہونے لگے ہیں۔ میں اپنے وطن کا کیا ذکر کروں ! یہاں مال ودولت سے مالا مال جنھیں ترقی یافتہ ممالک کہا جاتا ہے، وہاں انسانیت دم توڑ رہی ہے، انسان انسان کو مار رہے ہیں، گولیاں چلا کے، چاقو زنی کرکے، انسانوں پر ٹرک چڑھا کے، بم دھماکے، کہیں مذہب، کہیں زبان، کہیں صوبائیت اور انسان مر رہا ہے، انسانیت مر رہی ہے۔ ''ہمی قتل ہو رہے ہیں' ہمی قتل کر رہے ہیں'' عبید اللہ علیم کے دو شعر لکھے دیتا ہوں:
میں یہ کس کے نام لکھوں، جو عذاب اتر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں ، مرے لوگ مر رہے ہیں
کوئی اور تو نہیں ہے ، پس خنجر آزمائی
ہمی قتل ہو رہے ہیں' ہمی قتل کر رہے ہیں
اساطیر کے عذاب سامنے ہیں ،کیا کیا عذاب جہان پر آئے۔ یہ کورونا بھی ایک عذاب الٰہی ہے۔ ان دیکھا عذاب۔ جس نے پوری دنیا کو دہلا کر رکھ دیا۔ مہلک ہتھیاروں کے ڈھیر پڑے ہیں اورکورونا ان ہتھیاروں پر بھی اچھل کود کر رہا ہے، ہنس کھیل رہا ہے اورکورونا میں مبتلا مریض تڑپ تڑپ کے جان دے رہے ہیں۔
اس عذاب کے باوجود بڑے طاقتور ممالک کے ''لے پالک'' اسرائیل نے فلسطین پر وحشیانہ بمباری کرکے تباہی مچا دی، بچے بوڑھے، عورتیں سیکڑوں کی تعداد میں مارے گئے، عمارتیں لوگوں کے گھر زمین بوس کردیے گئے اور بلند کاخ زریں عظیم بارگاہیں خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہے۔
ہمارا ''پاکستان'' بھی تو اسی دنیا کا حصہ ہے۔ یہاں بھی عذاب الٰہی ''کورونا'' نے گھیرا ڈالا ہوا ہے۔ کیسے کیسے قابل ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، جوان، بوڑھے کورونا کی نذر ہوگئے اور ہمارے امیر کبیر، زمیندار، سیاست کار عذاب الٰہی سے ذرہ برابر خوف زدہ نہیں ہیں۔ لوٹ مار جاری و ساری ہے، بندوقیں اٹھائے ''طاقت والے'' گھروں میں گھس کر عزتیں پامال کر رہے ہیں، لاشیں۔۔۔۔ یہ سب ہو رہا ہے۔ خدا ، قبر، قیامت۔
ماضی بعید کی طرف جاتا ہوں۔ ''انکاری'' حضور کے وصال کے ساٹھ سال بعد حضرت امام حسینؓ کے سامنے تلواریں اور لائو لشکر لے کر آگئے۔ حسینؓ کہہ رہے تھے ''اسلام یہ نہیں جو یزید کہہ رہا ہے'' یزید کا مطالبہ تھا ''میری بیعت کرو اور دنیا کے عیش و آرام تمہارے'' مگر حسین نے ہر قربانی دینا قبول کرلیا۔ بیعت یزید قبول نہیں کی۔ جالب نے حق سچ پر قربان ہو جانے والوں کو یوں خراج عقیدت پیش کیا ہے:
سچ کی راہوں میں جو مرگئے ہیں
فاصلے مختصر کر گئے ہیں
حضرت حسینؓ نے زمانے کو درس دیا ہے کہ باطل کے خلاف اس حد تک قربانی دی جاسکتی ہے۔
آج کے یزیدیوں کے خلاف آگے بڑھ کر قربانی دینا ہوگی۔ یہ جو حق داروں کا حق دبائے بیٹھے ہیں، یہ جو کھلم کھلا جدید اسلحے سے خوشی میں ہوائی فائرنگ کرتے ہیں، افسوس کہ وکلا بھی اس ہوائی فائرنگ کا حصہ ہیں۔ دولت والوں کے شہزادے بیٹے اپنے گارڈوں کے ساتھ نشے میں دھت نکلتے ہیں اور پولیس وین کے سامنے کھڑے ہو کر ہوائی فائرنگ کرتے ہیں، اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے للکارے مارتے ہیں اور بے بس پولیس خاموش تماشہ دیکھتی ہے۔ قانون کن کے لیے ہے؟ میرے وطن کو اس درندگی تک لانے میں بہت وقت لگا ہے اور اب اسے ''ٹھیک'' کرنے میں بھی ''وقت'' لگے گا۔
یزید کو برا کہنے والو! آج کے یزیدوں کے خلاف حسینی لشکر بن جاؤ۔
ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ''وہی'' پھرکہہ رہے ہیں کہ ہم اقتدار میں آکر روٹی، کپڑا، مکان، دوا، اسکول، سب دے دیں گے جو اقتدار میں رہے اور یہ سب عوام کو نہ دے سکے۔ آج بھی پاکستان رو رہا ہے، غریب مر رہا ہے، فی حال تو بقول جالب:
وہی اہل وفا کی صورت حال
وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے
چاروں طرف سے گھیراؤ میں زندگی بسر ہو رہی ہے۔ پوری دنیا تباہ ہو رہی ہے، برباد ہو رہی ہے۔
یونیورسٹیاں، بلند و بالا درسگاہیں، قدیم و جدید علوم ، ستاروں پرکمندیں، ماضی بعید و قریب کے تجربات ، قصے کہانیاں ، ترقی کی انتہاؤں کو چھوتے زمانے، بلندیوں کو زیرکرتے، سمندروں کو فتح کرتے، تباہ کن ہتھیاروں کے ڈھیر اور نتیجہ صفر بٹا صفر۔ یہ دنیا سانس لیتے انسان، جانور، درخت، پودے، انھی سب کی دنیا ہے مگر یہ سب سانس لیتے تباہ ہو رہے ہیں اور وقت بے بسی کی تصویر بنا سب کچھ دیکھتے ہوئے تیزی سے گزر رہا ہے، اور جیسے ہر شے اپنے اچھے یا برے انجام کا انتظارکر رہی ہے۔
اب تو ایسا لگتا ہے کہ سب کہنا سننا بے کار ہے۔ دنیا تباہ ہو رہی ہے اور دنیا میں رہنے بسنے والے ٹس سے مس نہیں ہو رہے وہ تمام '' برے کام '' جو ہو رہے تھے مٹتی دنیا ، ختم ہوتی دنیا میں '' زیادہ '' ہونے لگے ہیں۔ میں اپنے وطن کا کیا ذکر کروں ! یہاں مال ودولت سے مالا مال جنھیں ترقی یافتہ ممالک کہا جاتا ہے، وہاں انسانیت دم توڑ رہی ہے، انسان انسان کو مار رہے ہیں، گولیاں چلا کے، چاقو زنی کرکے، انسانوں پر ٹرک چڑھا کے، بم دھماکے، کہیں مذہب، کہیں زبان، کہیں صوبائیت اور انسان مر رہا ہے، انسانیت مر رہی ہے۔ ''ہمی قتل ہو رہے ہیں' ہمی قتل کر رہے ہیں'' عبید اللہ علیم کے دو شعر لکھے دیتا ہوں:
میں یہ کس کے نام لکھوں، جو عذاب اتر رہے ہیں
مرے شہر جل رہے ہیں ، مرے لوگ مر رہے ہیں
کوئی اور تو نہیں ہے ، پس خنجر آزمائی
ہمی قتل ہو رہے ہیں' ہمی قتل کر رہے ہیں
اساطیر کے عذاب سامنے ہیں ،کیا کیا عذاب جہان پر آئے۔ یہ کورونا بھی ایک عذاب الٰہی ہے۔ ان دیکھا عذاب۔ جس نے پوری دنیا کو دہلا کر رکھ دیا۔ مہلک ہتھیاروں کے ڈھیر پڑے ہیں اورکورونا ان ہتھیاروں پر بھی اچھل کود کر رہا ہے، ہنس کھیل رہا ہے اورکورونا میں مبتلا مریض تڑپ تڑپ کے جان دے رہے ہیں۔
اس عذاب کے باوجود بڑے طاقتور ممالک کے ''لے پالک'' اسرائیل نے فلسطین پر وحشیانہ بمباری کرکے تباہی مچا دی، بچے بوڑھے، عورتیں سیکڑوں کی تعداد میں مارے گئے، عمارتیں لوگوں کے گھر زمین بوس کردیے گئے اور بلند کاخ زریں عظیم بارگاہیں خاموش تماشائی بنے دیکھتے رہے۔
ہمارا ''پاکستان'' بھی تو اسی دنیا کا حصہ ہے۔ یہاں بھی عذاب الٰہی ''کورونا'' نے گھیرا ڈالا ہوا ہے۔ کیسے کیسے قابل ڈاکٹر، انجینئر، پروفیسر، جوان، بوڑھے کورونا کی نذر ہوگئے اور ہمارے امیر کبیر، زمیندار، سیاست کار عذاب الٰہی سے ذرہ برابر خوف زدہ نہیں ہیں۔ لوٹ مار جاری و ساری ہے، بندوقیں اٹھائے ''طاقت والے'' گھروں میں گھس کر عزتیں پامال کر رہے ہیں، لاشیں۔۔۔۔ یہ سب ہو رہا ہے۔ خدا ، قبر، قیامت۔
ماضی بعید کی طرف جاتا ہوں۔ ''انکاری'' حضور کے وصال کے ساٹھ سال بعد حضرت امام حسینؓ کے سامنے تلواریں اور لائو لشکر لے کر آگئے۔ حسینؓ کہہ رہے تھے ''اسلام یہ نہیں جو یزید کہہ رہا ہے'' یزید کا مطالبہ تھا ''میری بیعت کرو اور دنیا کے عیش و آرام تمہارے'' مگر حسین نے ہر قربانی دینا قبول کرلیا۔ بیعت یزید قبول نہیں کی۔ جالب نے حق سچ پر قربان ہو جانے والوں کو یوں خراج عقیدت پیش کیا ہے:
سچ کی راہوں میں جو مرگئے ہیں
فاصلے مختصر کر گئے ہیں
حضرت حسینؓ نے زمانے کو درس دیا ہے کہ باطل کے خلاف اس حد تک قربانی دی جاسکتی ہے۔
آج کے یزیدیوں کے خلاف آگے بڑھ کر قربانی دینا ہوگی۔ یہ جو حق داروں کا حق دبائے بیٹھے ہیں، یہ جو کھلم کھلا جدید اسلحے سے خوشی میں ہوائی فائرنگ کرتے ہیں، افسوس کہ وکلا بھی اس ہوائی فائرنگ کا حصہ ہیں۔ دولت والوں کے شہزادے بیٹے اپنے گارڈوں کے ساتھ نشے میں دھت نکلتے ہیں اور پولیس وین کے سامنے کھڑے ہو کر ہوائی فائرنگ کرتے ہیں، اپنی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے للکارے مارتے ہیں اور بے بس پولیس خاموش تماشہ دیکھتی ہے۔ قانون کن کے لیے ہے؟ میرے وطن کو اس درندگی تک لانے میں بہت وقت لگا ہے اور اب اسے ''ٹھیک'' کرنے میں بھی ''وقت'' لگے گا۔
یزید کو برا کہنے والو! آج کے یزیدوں کے خلاف حسینی لشکر بن جاؤ۔
ہمارا ایک المیہ یہ بھی ہے کہ ''وہی'' پھرکہہ رہے ہیں کہ ہم اقتدار میں آکر روٹی، کپڑا، مکان، دوا، اسکول، سب دے دیں گے جو اقتدار میں رہے اور یہ سب عوام کو نہ دے سکے۔ آج بھی پاکستان رو رہا ہے، غریب مر رہا ہے، فی حال تو بقول جالب:
وہی اہل وفا کی صورت حال
وارے نیارے ہیں بے ضمیروں کے