استعماری دور کا خاتمہ
دنیا کے تمام ممالک اہم ہیں ، اب کسی ایک ملک کا حکم پوری دنیا پر نہیں تھوپا جاسکتا۔
''چھوٹے ممالک کے گروہ دنیا کی قسمت کا فیصلہ نہیں کرسکتے۔کوئی ملک چھوٹا ہو یا بڑا طاقتور ہو یا کمزور، امیر ہو یا غریب سب برابر ہیں۔ عالمی معاملات پر فیصلے تمام ممالک کی مشاورت سے ہونے چاہئیں۔''
یہ بیان چین کی جانب سے جی سیون کے اجلاس کے موقع پر امریکا اور اس کے حواری ممالک کو انتباہ کرتے ہوئے دیا گیا ہے کہ اب وہ دنیا کو اپنی ملکیت اور عوام کو اپنا غلام سمجھنا چھوڑ دیں۔ دنیا بدل چکی اب استعماری اور استحصالی دورکا خاتمہ ہو چکا ہے، اب نہ کوئی حاکم ہے اور نہ کوئی محکوم۔ دنیا کے تمام ممالک اہم ہیں ، اب کسی ایک ملک کا حکم پوری دنیا پر نہیں تھوپا جاسکتا۔
اس وقت پوری دنیا میں امریکا کے خلاف سخت نفرت پائی جاتی ہے ، اس لیے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی تباہی و بربادی اور خانہ جنگی جاری ہے ، اس کا ذمے دار امریکا ہے۔ اس نے خصوصاً اسلامی ممالک کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ لیبیا سے لے کر افغانستان تک تمام بربادی امریکی ایما پر ہو رہی ہے۔ عراق ، لیبیا اور شام کو آخرکس لیے تباہ کیا گیا؟
صرف اس لیے کہ وہاں کے حکمران امریکا کی مرضی کے مطابق نہیں چل رہے تھے۔ آج بھی لیبیا اور شام میں خانہ جنگی جاری ہے۔ لیبیا میں قذافی کے دور میں وہاں کے عوام جتنے خوشحال تھے اور مطمئن زندگی بسر کر رہے تھے آج وہ ہر وقت خطرے میں گھرے ہوئے دانے دانے کو محتاج ہیں۔ وہاں کی قوم کو کئی گروپوں میں بانٹ دیا گیا ہے وہاں کوئی مرکزی حکومت نہیں ہے۔
اس صورتحال سے امریکا اور اس کے حواری بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ لیبیا میں تو وہ معمر قذافی کو اپنی نافرمانی کی سزا دینے کے لیے اسے اس کے لوگوں سے ہی موت کے گھاٹ اتروا چکے ہیں مگر شام میں وہ ایسا نہ کرسکے اس لیے کہ ایران اور روس بشار الاسد کو بچانے کے لیے سینہ سپرہو گئے۔
صدام حسین کے بارے میں جھوٹا پروپیگنڈا کرکے کہ عراق میں تباہی کے مہلک ہتھیار موجود ہیں، امریکا اس بہانے اپنے 32 اتحادیوں کے ساتھ عراق پر حملہ آور ہوا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا کر نہ صرف وہاں قابض ہوگیا بلکہ صدام کو بھی ٹھکانے لگا دیا، پھر وہاں داعش کے نام سے ایک دہشت گرد تنظیم کو جنم دیا اور اسے پوری اسلامی دنیا میں پھیلا دیا ، آج داعش صرف اسلامی ممالک میں دہشت گردی میں مصروف ہے۔ امریکا نے پہلے القاعدہ کو خود بنایا تھا پھر اپنے حکم پر نہ چلنے پر اسے دہشت گرد تنظیم قرار دے کر منتشر کردیا تھا۔
افغانستان پر وہ القاعدہ سے نائن الیون کا بدلہ لینے کے لیے حملہ آور ہوا لیکن وہاں طالبان سے الجھ گیا۔ پورے بیس سال طالبان کو شکست دینے میں لگا رہا مگر آخر خود طالبان سے شکست کھا کر اب افغانستان سے ذلیل و خوار ہوکر بوریا بستر گول کر رہا ہے۔ امریکا نے مسلم ملکوں کو ہی نہیں دوسرے ممالک کو بھی اپنے مفادات میں استعمال کیا اور یہ اس کا وتیرہ ہے کہ جب اس کا مطلب نکل جاتا ہے تو آنکھیں پھیرلیتا ہے۔
پاکستان نے اپنے قیام کے بعد سے لے کر ابھی تک امریکا سے دوستی نبھائی ہے، مگر افسوس کہ اس نے پاکستان سے وہ بے وفائی کی ہے جو تاریخ کا حصہ بن کر امریکا کے لیے کلنک کا ٹیکہ بن چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکیوں کی مدد کرنے میں پاکستان نے مثالی کردار ادا کیا ہے۔ اب افغانوں کے ہاتھوں شرم ناک شکست کھا کر وہ وہاں سے جا تو رہا ہے مگر اپنی شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے کہ اسے پاکستان کی وجہ سے شکست ہوئی ہے ۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے لیے خطرات پیدا ہوئے، اس جنگ میں الجھنے سے پاکستان کا وہ نقصان ہوا ہے جس کی برسوں بھرپائی نہیں ہو پائے گی۔ یہ دہشت گردی پورے 21 سال چلتی رہی ملک کا جو کباڑہ ہوا وہ الگ، بھارت نے اس دوران پاکستان میں کراچی سے پشاور تک اپنی خفیہ ایجنسی ''را'' کے ذریعے خودکش دھماکوں سے ملک کو ہلا کر رکھ دیا اسی دوران بلوچستان کو وطن عزیز سے کاٹنے کے لیے وہاں دہشت گردی کو عروج پر پہنچا دیا گیا وہ تو خیر ہوگئی کہ ہمارے خفیہ اداروں نے کلبھوشن کو وہاں رنگے ہاتھوں گرفتار کرلیا۔
اب امریکا کے افغانستان سے نکلنے سے یہ امید پیدا ہو چلی تھی کہ اب ملک دہشت گردی سے پاک ہو جائے گا مگر افغانستان سے نکلنے سے پہلے ہی وہ فوجی اڈے مانگ رہا ہے گویا کہ وہ ابھی بھی پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے مگر اب پاکستانی حکمران امریکی حکمرانوں کی جبلت سے اچھی طرح واقف ہو چکے ہیں چنانچہ اس کے لاکھ اصرار اور دھمکیوں کے باوجود بھی اسے یہاں کوئی فوجی اڈہ نہیں دیا جا رہا ہے دراصل وہ یہ فوجی اڈے بڑی حکمت عملی کے تحت مانگ رہا ہے کہ پاکستان پھر سے دہشت گردی میں پھنس جائے ساتھ ہی چین اور روس سے اس کے تعلقات خراب ہو جائیں۔ اس طرح پاکستان نہ گھر کا رہے گا نہ گھاٹ کا چنانچہ وہ پھر امریکا کے رحم و کرم پر خود کو چھوڑ دے اور یوں ہی مر مر کر جیتا رہے۔
امریکا کو سی پیک کا منصوبہ ایک آنکھ نہیں بھا رہا ہے وہ اسے ختم کرا کے ایک طرف پاکستان کی خوشحالی کے لیے کھلنے والے دروازوں کو بند کرانا چاہتا ہے تو دوسری طرف چین کو کم فاصلے والی محفوظ راہداری سے محروم کرنا چاہتا ہے ، تاہم اب امریکا کی کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہوسکے گی۔
سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ وہ چین کی دشمنی میں اتنا اندھا ہوگیا ہے کہ اس کے قابل رشک غریب پرور ''بیلٹ اینڈ روڈ'' منصوبے کے مقابلے میں اپنے '' بلڈ بیک بیٹر ورلڈ '' (بی بی ڈبلیو) منصوبے کو لانچ کرنے کی تیاری کر رہا ہے ، مگر اس کا یہ منصوبہ کسی طرح بھی کامیاب نہیں ہو سکے گا کیونکہ اب تمام ممالک اس کی خودغرضانہ اور استحصالی فطرت سے واقف ہوچکے ہیں کہ وہ مدد کے بہانے غریب ممالک کو اپنا غلام بنا لیتا ہے۔
چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ اس وقت ایشیا ، افریقہ ہی نہیں جنوبی امریکا کے ممالک تک پھیل چکا ہے اورکامیابی سے جاری و ساری ہے۔ چین ان تمام ممالک کے ترقیاتی منصوبوں میں بھرپور مدد کر رہا ہے اورکسی بھی ملک کو چین سے کسی بھی قسم کی شکایت نہیں۔ افسوس کہ امریکا کو اس منصوبے سے خاص مخاصمت ہے کہ اس کے ذریعے چین پوری دنیا پر چھا جائے گا اور یوں امریکا کی عالمی اجارہ داری کے ساتھ ساتھ خودساختہ سپرپاور کی حیثیت بھی ختم ہو جائے گی۔
خوش قسمتی سے چین معاشی اور حربی میدان میں امریکا سے آگے نکل چکا ہے، اس طرح امریکا کا چین کے سپرپاور بننے کا خدشہ اب خدشہ ہی نہیں رہا ہے بلکہ حقیقی شکل اختیارکرچکا ہے۔
یہ بیان چین کی جانب سے جی سیون کے اجلاس کے موقع پر امریکا اور اس کے حواری ممالک کو انتباہ کرتے ہوئے دیا گیا ہے کہ اب وہ دنیا کو اپنی ملکیت اور عوام کو اپنا غلام سمجھنا چھوڑ دیں۔ دنیا بدل چکی اب استعماری اور استحصالی دورکا خاتمہ ہو چکا ہے، اب نہ کوئی حاکم ہے اور نہ کوئی محکوم۔ دنیا کے تمام ممالک اہم ہیں ، اب کسی ایک ملک کا حکم پوری دنیا پر نہیں تھوپا جاسکتا۔
اس وقت پوری دنیا میں امریکا کے خلاف سخت نفرت پائی جاتی ہے ، اس لیے کہ دنیا میں جہاں کہیں بھی تباہی و بربادی اور خانہ جنگی جاری ہے ، اس کا ذمے دار امریکا ہے۔ اس نے خصوصاً اسلامی ممالک کو تباہ کرنے میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ہے۔ لیبیا سے لے کر افغانستان تک تمام بربادی امریکی ایما پر ہو رہی ہے۔ عراق ، لیبیا اور شام کو آخرکس لیے تباہ کیا گیا؟
صرف اس لیے کہ وہاں کے حکمران امریکا کی مرضی کے مطابق نہیں چل رہے تھے۔ آج بھی لیبیا اور شام میں خانہ جنگی جاری ہے۔ لیبیا میں قذافی کے دور میں وہاں کے عوام جتنے خوشحال تھے اور مطمئن زندگی بسر کر رہے تھے آج وہ ہر وقت خطرے میں گھرے ہوئے دانے دانے کو محتاج ہیں۔ وہاں کی قوم کو کئی گروپوں میں بانٹ دیا گیا ہے وہاں کوئی مرکزی حکومت نہیں ہے۔
اس صورتحال سے امریکا اور اس کے حواری بھرپور فائدہ اٹھا رہے ہیں۔ لیبیا میں تو وہ معمر قذافی کو اپنی نافرمانی کی سزا دینے کے لیے اسے اس کے لوگوں سے ہی موت کے گھاٹ اتروا چکے ہیں مگر شام میں وہ ایسا نہ کرسکے اس لیے کہ ایران اور روس بشار الاسد کو بچانے کے لیے سینہ سپرہو گئے۔
صدام حسین کے بارے میں جھوٹا پروپیگنڈا کرکے کہ عراق میں تباہی کے مہلک ہتھیار موجود ہیں، امریکا اس بہانے اپنے 32 اتحادیوں کے ساتھ عراق پر حملہ آور ہوا اور اس کی اینٹ سے اینٹ بجا کر نہ صرف وہاں قابض ہوگیا بلکہ صدام کو بھی ٹھکانے لگا دیا، پھر وہاں داعش کے نام سے ایک دہشت گرد تنظیم کو جنم دیا اور اسے پوری اسلامی دنیا میں پھیلا دیا ، آج داعش صرف اسلامی ممالک میں دہشت گردی میں مصروف ہے۔ امریکا نے پہلے القاعدہ کو خود بنایا تھا پھر اپنے حکم پر نہ چلنے پر اسے دہشت گرد تنظیم قرار دے کر منتشر کردیا تھا۔
افغانستان پر وہ القاعدہ سے نائن الیون کا بدلہ لینے کے لیے حملہ آور ہوا لیکن وہاں طالبان سے الجھ گیا۔ پورے بیس سال طالبان کو شکست دینے میں لگا رہا مگر آخر خود طالبان سے شکست کھا کر اب افغانستان سے ذلیل و خوار ہوکر بوریا بستر گول کر رہا ہے۔ امریکا نے مسلم ملکوں کو ہی نہیں دوسرے ممالک کو بھی اپنے مفادات میں استعمال کیا اور یہ اس کا وتیرہ ہے کہ جب اس کا مطلب نکل جاتا ہے تو آنکھیں پھیرلیتا ہے۔
پاکستان نے اپنے قیام کے بعد سے لے کر ابھی تک امریکا سے دوستی نبھائی ہے، مگر افسوس کہ اس نے پاکستان سے وہ بے وفائی کی ہے جو تاریخ کا حصہ بن کر امریکا کے لیے کلنک کا ٹیکہ بن چکی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں امریکیوں کی مدد کرنے میں پاکستان نے مثالی کردار ادا کیا ہے۔ اب افغانوں کے ہاتھوں شرم ناک شکست کھا کر وہ وہاں سے جا تو رہا ہے مگر اپنی شکست کا ملبہ پاکستان پر ڈال رہا ہے کہ اسے پاکستان کی وجہ سے شکست ہوئی ہے ۔
دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان کے لیے خطرات پیدا ہوئے، اس جنگ میں الجھنے سے پاکستان کا وہ نقصان ہوا ہے جس کی برسوں بھرپائی نہیں ہو پائے گی۔ یہ دہشت گردی پورے 21 سال چلتی رہی ملک کا جو کباڑہ ہوا وہ الگ، بھارت نے اس دوران پاکستان میں کراچی سے پشاور تک اپنی خفیہ ایجنسی ''را'' کے ذریعے خودکش دھماکوں سے ملک کو ہلا کر رکھ دیا اسی دوران بلوچستان کو وطن عزیز سے کاٹنے کے لیے وہاں دہشت گردی کو عروج پر پہنچا دیا گیا وہ تو خیر ہوگئی کہ ہمارے خفیہ اداروں نے کلبھوشن کو وہاں رنگے ہاتھوں گرفتار کرلیا۔
اب امریکا کے افغانستان سے نکلنے سے یہ امید پیدا ہو چلی تھی کہ اب ملک دہشت گردی سے پاک ہو جائے گا مگر افغانستان سے نکلنے سے پہلے ہی وہ فوجی اڈے مانگ رہا ہے گویا کہ وہ ابھی بھی پاکستان کو دہشت گردی کے حوالے کرنے کا ارادہ رکھتا ہے مگر اب پاکستانی حکمران امریکی حکمرانوں کی جبلت سے اچھی طرح واقف ہو چکے ہیں چنانچہ اس کے لاکھ اصرار اور دھمکیوں کے باوجود بھی اسے یہاں کوئی فوجی اڈہ نہیں دیا جا رہا ہے دراصل وہ یہ فوجی اڈے بڑی حکمت عملی کے تحت مانگ رہا ہے کہ پاکستان پھر سے دہشت گردی میں پھنس جائے ساتھ ہی چین اور روس سے اس کے تعلقات خراب ہو جائیں۔ اس طرح پاکستان نہ گھر کا رہے گا نہ گھاٹ کا چنانچہ وہ پھر امریکا کے رحم و کرم پر خود کو چھوڑ دے اور یوں ہی مر مر کر جیتا رہے۔
امریکا کو سی پیک کا منصوبہ ایک آنکھ نہیں بھا رہا ہے وہ اسے ختم کرا کے ایک طرف پاکستان کی خوشحالی کے لیے کھلنے والے دروازوں کو بند کرانا چاہتا ہے تو دوسری طرف چین کو کم فاصلے والی محفوظ راہداری سے محروم کرنا چاہتا ہے ، تاہم اب امریکا کی کوئی بھی سازش کامیاب نہیں ہوسکے گی۔
سب سے تشویش ناک بات یہ ہے کہ وہ چین کی دشمنی میں اتنا اندھا ہوگیا ہے کہ اس کے قابل رشک غریب پرور ''بیلٹ اینڈ روڈ'' منصوبے کے مقابلے میں اپنے '' بلڈ بیک بیٹر ورلڈ '' (بی بی ڈبلیو) منصوبے کو لانچ کرنے کی تیاری کر رہا ہے ، مگر اس کا یہ منصوبہ کسی طرح بھی کامیاب نہیں ہو سکے گا کیونکہ اب تمام ممالک اس کی خودغرضانہ اور استحصالی فطرت سے واقف ہوچکے ہیں کہ وہ مدد کے بہانے غریب ممالک کو اپنا غلام بنا لیتا ہے۔
چین کا بیلٹ اینڈ روڈ منصوبہ اس وقت ایشیا ، افریقہ ہی نہیں جنوبی امریکا کے ممالک تک پھیل چکا ہے اورکامیابی سے جاری و ساری ہے۔ چین ان تمام ممالک کے ترقیاتی منصوبوں میں بھرپور مدد کر رہا ہے اورکسی بھی ملک کو چین سے کسی بھی قسم کی شکایت نہیں۔ افسوس کہ امریکا کو اس منصوبے سے خاص مخاصمت ہے کہ اس کے ذریعے چین پوری دنیا پر چھا جائے گا اور یوں امریکا کی عالمی اجارہ داری کے ساتھ ساتھ خودساختہ سپرپاور کی حیثیت بھی ختم ہو جائے گی۔
خوش قسمتی سے چین معاشی اور حربی میدان میں امریکا سے آگے نکل چکا ہے، اس طرح امریکا کا چین کے سپرپاور بننے کا خدشہ اب خدشہ ہی نہیں رہا ہے بلکہ حقیقی شکل اختیارکرچکا ہے۔