شاعر اور شاعری
جو کلام عدم صاحب نے سنایا، وہ لا جواب تھا ۔ سامعین داد دیتے تھک نہیں رہے تھے.
اگرچہ میں دسویں کلاس کا طالب علم تھا لیکن گورنمنٹ ہائی اسکول سیالکو ٹ ہال میں معروف شعراء کی آمد کا معلوم ہونے پر میں بھی سامعین میں جا بیٹھا۔ مشاعرہ شروع ہونے کا وقت رات 8بجے تھا۔ شعرا کلام سناتے اور دادا پاتے رہے۔
نو بجے ہوں گے کہ سامعین نے عبدالحمید عدم کو میزبانوں میں سے ایک شخص کے ہمراہ ایک کلاس روم کی طرف جاتے دیکھا ۔ ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد سامعین نے دیکھا کہ اب دو شخص عدم صاحب کو اسٹیج پر لا رہے تھے۔ جو کلام عدم صاحب نے سنایا، وہ لا جواب تھا ۔ سامعین داد دیتے تھک نہیں رہے تھے اور مکرر مکرر کی صدائیںبلند ہو رہی تھیں۔ میں نے اُس شب عدم صاحب کو پہلی بار دیکھا اور سُنا۔ اس رات کو یاد کرتے ہوئے عدم صاحب کے چند شعر اپنی نوٹ بک کی مدد سے پیش قارئین ہیں۔
میکدہ تھا چاندنی تھی میں نہ تھا
اک مجسم بے خودی تھی میں نہ تھا
بہکی ہوئی سیاہ گھٹائوں کے ساتھ ساتھ
جی چاہتا ہے شام ِ ابد تک تو جائیے
ان مست انکھڑیوں کو کنول کہہ گیا ہوں میں
محسوس ہو رہا ہے غزل کہہ گیا ہوں میں
مجھے آج اُن شعراء کا ذکر کرنا تھا لیکن سب سے پہلے عدم صاحب کا ذکر اس لیے کر نا ہوا کہ وہ پہلے شاعر تھے جن کو دیکھا اور وہ پہلا مشاعرہ تھا جسے سننے کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔
ڈاکٹر محمود ہمارے دُور کے رستہ دار تھے ۔ وہ میو اسپتال کے اہم حصّےAlbert Wictor Wing کے انچارج تھے۔ ایک روز کالج سے واپس جاتے ہوئے میں اُن سے ملنے چلا گیا، تب میں یونیورسٹی لاء کالج کا طالب علم تھا۔ وہ مجھے سامنے ہی مل گئے اور دروازے کے سامنے چھوٹے سے لان میں تین کرسیاں اور چھوٹی سی میز رکھوا کر مجھے بیٹھنے کے لیے کہا، ساتھ ہی ایک ملام سے کمرہ نمبر بتا کر مریض کو بلوایا۔ لاغر سا مریض آیا تو اسے کہا کہ میں نے آپ کے لیے چائے منگوائی ہے اور یہ یونیورسٹی اسٹوڈنٹ آپ کے مداحوں میں سے ایک میرا عزیز ہے۔ اب میں نے انھیں پہچان لیا تھا، سامنے آسمان پر ابھرتے چاند کو دیکھ کر میں نے شعر پڑھا۔
چاند نکلا تو ہم نے وحشت میں
جس کو دیکھا اسی کو چوم لیا
ناصر کاظمی میو اسپتال میں زیر ِ علاج تھے۔ مجھے اپنا شعر پڑھتے سُن کر کھلکھلا دیے۔ آدھنے گھنٹے سے زیادہ کی ملاقات میرے لیے ہی نہیں ، ان کے لیے بھی باعث مسرت تھی۔ میری فرمائش پر انھوں نے اپنے چند شعر سنائے:
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا
......
اے دوست ہم نے ترک ِ محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
......
دل میں اک لہر سی اُٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
......
گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
مجھے اور منیر نیازی کو کارٹونسٹ جاوید اقبال نے ایک شب کھانے کی دعوت دی ۔ چونکہ دونوں سے میرے دیرینہ اور گہرے تعلقات تھے، را ت دیر تک محفل جمی رہی۔ بارہ بج گئے تو محفل برخواست ہوئی۔ منیرنیازی نے شاید غیر محفوظ پا کر کہا، میں تو سبز نمبر پلیٹ والی گاڑی میں گھرجائوں گا۔ لہٰذا وہ میری کار میں آن بیٹھے اور میں نے نصف شب کے بعد انھیں گھر پہنچایا۔میرے لیے اس میں پریشانی والی کوئی بات نہ تھی کیونکہ منیرنیازی نے اپنے اشعار سے سفر کو گرمائے رکھا۔منیرنیازی کے چندشعر پڑھئے:۔
بستیوں کی زندگی میں بے زری کاظلم تھا
لوگ اچھے تھے وہاں کے اہل زر اچھے نہ تھے
......
انج وی راہواں اوکھیاں سَن
کُج گل وچ غم دا طوق وی سی
کُج شہر دے لوگ وی ظالم سنَ
کُج سانوںمرن داشوق وی سی
......
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیادیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
......
رات گئے جب آہٹ سی محسوس ہوئی
ہاتھ بڑھا کر برہن نے پٹ کھول دیے
آنے والا سرد ہوا کا جھونکا تھا
نو بجے ہوں گے کہ سامعین نے عبدالحمید عدم کو میزبانوں میں سے ایک شخص کے ہمراہ ایک کلاس روم کی طرف جاتے دیکھا ۔ ایک گھنٹہ گزرنے کے بعد سامعین نے دیکھا کہ اب دو شخص عدم صاحب کو اسٹیج پر لا رہے تھے۔ جو کلام عدم صاحب نے سنایا، وہ لا جواب تھا ۔ سامعین داد دیتے تھک نہیں رہے تھے اور مکرر مکرر کی صدائیںبلند ہو رہی تھیں۔ میں نے اُس شب عدم صاحب کو پہلی بار دیکھا اور سُنا۔ اس رات کو یاد کرتے ہوئے عدم صاحب کے چند شعر اپنی نوٹ بک کی مدد سے پیش قارئین ہیں۔
میکدہ تھا چاندنی تھی میں نہ تھا
اک مجسم بے خودی تھی میں نہ تھا
بہکی ہوئی سیاہ گھٹائوں کے ساتھ ساتھ
جی چاہتا ہے شام ِ ابد تک تو جائیے
ان مست انکھڑیوں کو کنول کہہ گیا ہوں میں
محسوس ہو رہا ہے غزل کہہ گیا ہوں میں
مجھے آج اُن شعراء کا ذکر کرنا تھا لیکن سب سے پہلے عدم صاحب کا ذکر اس لیے کر نا ہوا کہ وہ پہلے شاعر تھے جن کو دیکھا اور وہ پہلا مشاعرہ تھا جسے سننے کی سعادت نصیب ہوئی تھی۔
ڈاکٹر محمود ہمارے دُور کے رستہ دار تھے ۔ وہ میو اسپتال کے اہم حصّےAlbert Wictor Wing کے انچارج تھے۔ ایک روز کالج سے واپس جاتے ہوئے میں اُن سے ملنے چلا گیا، تب میں یونیورسٹی لاء کالج کا طالب علم تھا۔ وہ مجھے سامنے ہی مل گئے اور دروازے کے سامنے چھوٹے سے لان میں تین کرسیاں اور چھوٹی سی میز رکھوا کر مجھے بیٹھنے کے لیے کہا، ساتھ ہی ایک ملام سے کمرہ نمبر بتا کر مریض کو بلوایا۔ لاغر سا مریض آیا تو اسے کہا کہ میں نے آپ کے لیے چائے منگوائی ہے اور یہ یونیورسٹی اسٹوڈنٹ آپ کے مداحوں میں سے ایک میرا عزیز ہے۔ اب میں نے انھیں پہچان لیا تھا، سامنے آسمان پر ابھرتے چاند کو دیکھ کر میں نے شعر پڑھا۔
چاند نکلا تو ہم نے وحشت میں
جس کو دیکھا اسی کو چوم لیا
ناصر کاظمی میو اسپتال میں زیر ِ علاج تھے۔ مجھے اپنا شعر پڑھتے سُن کر کھلکھلا دیے۔ آدھنے گھنٹے سے زیادہ کی ملاقات میرے لیے ہی نہیں ، ان کے لیے بھی باعث مسرت تھی۔ میری فرمائش پر انھوں نے اپنے چند شعر سنائے:
کبھی خود پہ کبھی حالات پہ رونا آیا
بات نکلی تو ہر اک بات پہ رونا آیا
......
اے دوست ہم نے ترک ِ محبت کے باوجود
محسوس کی ہے تیری ضرورت کبھی کبھی
......
دل میں اک لہر سی اُٹھی ہے ابھی
کوئی تازہ ہوا چلی ہے ابھی
......
گو ذرا سی بات پر برسوں کے یارانے گئے
لیکن اتنا تو ہوا کچھ لوگ پہچانے گئے
مجھے اور منیر نیازی کو کارٹونسٹ جاوید اقبال نے ایک شب کھانے کی دعوت دی ۔ چونکہ دونوں سے میرے دیرینہ اور گہرے تعلقات تھے، را ت دیر تک محفل جمی رہی۔ بارہ بج گئے تو محفل برخواست ہوئی۔ منیرنیازی نے شاید غیر محفوظ پا کر کہا، میں تو سبز نمبر پلیٹ والی گاڑی میں گھرجائوں گا۔ لہٰذا وہ میری کار میں آن بیٹھے اور میں نے نصف شب کے بعد انھیں گھر پہنچایا۔میرے لیے اس میں پریشانی والی کوئی بات نہ تھی کیونکہ منیرنیازی نے اپنے اشعار سے سفر کو گرمائے رکھا۔منیرنیازی کے چندشعر پڑھئے:۔
بستیوں کی زندگی میں بے زری کاظلم تھا
لوگ اچھے تھے وہاں کے اہل زر اچھے نہ تھے
......
انج وی راہواں اوکھیاں سَن
کُج گل وچ غم دا طوق وی سی
کُج شہر دے لوگ وی ظالم سنَ
کُج سانوںمرن داشوق وی سی
......
کسی کو اپنے عمل کا حساب کیادیتے
سوال سارے غلط تھے جواب کیا دیتے
......
رات گئے جب آہٹ سی محسوس ہوئی
ہاتھ بڑھا کر برہن نے پٹ کھول دیے
آنے والا سرد ہوا کا جھونکا تھا