مدعی بھی خود منصف بھی خود
جو کچھ قومی اسمبلی میں ہوا، اس نے پارلیمنٹیرینز کو بہت رسوا کیا۔
کب تک بکرے کی ماں خیر منائے گی؟کب تک یہ سب یونہی چلتا رہے گا ؟ ایک نئی روایت قائم ہوئی، حکمران خود ، دنگا فساد پر اتر آئے، وہ کام جو تاریخی اعتبار سے حزب اختلاف کا تھا ، حزب اقتدار نے کیا۔ قاتلٍ مقتول ہوا اور مقتول قاتل۔ ایوان کا تقدس جوگیا سو گیا ، وہ ایک علیحدہ بحث ہے۔
ہم دیکھ رہے تھے، اشارے مل رہے تھے کہ خان صاحب کا لب ولہجہ وہی ہے، جوکنٹینر کے زمانے میں تھا۔ اورکریں بھی توکیا کریں ، ایک رائے یہ بھی ہے کہ کارکردگی ہو تو اس کی بات کریں۔ کچھ یوں بھی کہا لوگوں نے کہ اگر الیکٹیڈ ہوتے تو ایسا نہیں کرتے ، مگر یہاں تو یہ دھبہ سب پر لگا ہے ، کسی پرکچھ زیادہ کسی پر کچھ کم ۔
جب تک الیکٹیبلز رہیں گے تب تک سیاسی پارٹیاں لمیٹڈ کمپنیاں رہیں گی۔ الیکٹیبلزکا ہونا جمہوریت کا زوال ہے، یہ موقع پرست اس کے ساتھ ہوتے ہیں ، یہ لوگ پہلے سے بھانپ لیتے ہیں اور پارٹیوں کو بھی پتا ہے ان کے بغیر اقتدار پانا محال ہے۔ بہت ایسے ہیں جو خان صاحب کے پاس تبدیلی کے نام سے آئے تھے، ان کی پارٹی کے منشورکا محور بھی یہی تھا ، لیکن اقتدار پانے کے بعد ان کے دور میں الیکٹیبلز ''شرفاء'' نے جوکمالات کیے، وہ پہلے کسی دور میں نہیں دیکھے گئے۔ کون کون سا اسکینڈل نہ ہوا۔ چینی ، آٹا ، پیٹرول ، دوائیاں ، راولپنڈی رنگ روڈ سے لے کے پشاور بی آر ٹی تک۔
معاملہ ، الیکٹیڈ اور سلیکٹیڈ کا بھی نہیں،جو چنائو کے ذریعے آتے ہیں وہ بھی کون سا کمال کرتے ہیں۔ ہمارے سندھیوں میں سے تو سندھ اسمبلی میں ایک بھی نہیں جو مڈل کلاس کا شخص ہو ، یا قومی اسمبلی میں۔ سینیٹ کا معاملہ الگ ہے ، وہاں انتخابات میں عام ووٹر نہیں ہوتے۔ ورنہ رضا ربانی یا شیری رحمان جیسے سیاستدان ایوان میں پہنچ ہی نہ پائیں۔ قومی اسمبلی میں جو بھی ہوا ، وہ بہت منظم انداز میں ہوا ، جنھوں نے ہنگامے میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا ، جیسا کہ مراد سعید و امین گنڈا پور وغیرہ۔
معاملہ در اصل ہے کیا ؟کیوں شہباز شریف سے حکومت خائف ہے؟ یہ کیا ہے کہ بلاول بھٹو مریم کے خلاف تو بولتے ہیں مگر شہباز شریف کے بہت قریب ہیں اور یہ کیا ہے کہ سینیٹ کے چیئرمین پیپلز پارٹی پر واری واری جاتے ہیں جب کہ قومی اسمبلی کے اسپیکرکا رویہ کچھ اورہے۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔
یہ جو سب ایک پیج پر تھے وہ پیج کہیں پھٹ گیا ہے۔ خان صاحب سنتے کم اور سناتے زیادہ ہیں، وہ جو مشیروں اور وزیروں کی طویل فہرست ہے، وہ بھی اپنی کارکردگی کی وجہ سے لوگوں میں رسوا ہوئے۔ کوئی لانگ بوٹ لے کے ٹاک شوز میں پہنچ جاتا تھا ،کروڑ وں ، نوکریوں کا وعدہ ، غریبوں کوگھر دینے کا وعدہ ۔ اس کے برعکس مہنگائی کے پہاڑ گرا دیے گئے ، بے روزگاری الگ۔ تین سال تو پورے ہوئے، اب حکومت کوئی گرائے بھی توکیوں گرائے ، لیکن یہ الگ بحث ہوگی ، حزب اختلاف کے بغیر حکومت گر بھی سکتی ہے۔
اس کے برعکس سوال یہ ہے کہ حکومت گرانے کی ضرورت کیا ہے۔ یوں باقی دو سالوں میں یہ حکومت جو رہی سہی اپنی مقبولیت بھی گنوا دے گی۔ حکومت گرانے کی ضرورت نہیں ، حکومت توگری ہوئی ہے۔ ادھر یہ بھی بالکل واضح انداز میں نظر آرہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور شہباز شریف کے طرف جھکی ہوئی مسلم لیگ نون ایک پیج پر ہے۔ ہوسکتا ہے اشارہ ملنے پہ جہانگیر ترین بھی فارورڈ بلاک بنا لے ، مگر پھر ہوگا کیا ؟ خان صاحب جس دو تہائی اکثریت کے لیے آنے والا الیکشن لڑنا چاہتے ہیں، وہ تو بالکل ہی زبردستی والا الیکشن ہوگا، 2018 سے بھی زیادہ متنازع۔ اگر ایسا ہوا تو اس سے حالات اور بھی خراب ہوں گے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ ہماری معیشت بیٹھ گئی ہے۔خان صاحب کو سمجھ آئے نہ آئے کہ چاہے اپوزیشن کچھ بھی نہ کر سکے ، لیکن ان کے نیچے سے زمین ہل گئی ہے۔ جوکام آپ کر رہے تھے، وہی کام اب شہباز شریف اور آصف زرداری اسٹبلشمنٹ کے لیے کرنے جا رہے ہیں۔ شاید اس سے بھی زیادہ سستے۔ جنرل (ر) عبدالقادراور ثناء اللہ زہری وغیرہ مسلم لیگ نون سے نکلے تو پیپلز پارٹی میں ان کے جانے کے لیے بہت گنجائش ہے۔
خان صاحب کے پاس سے یہ شرفاء اپنے مفادات کچھ لے اڑے اور غیر مقبولیت ان کے ہاتھ تھما دی۔ ویسے خان صاحب کو بھی کون سی یہ پارٹی اپنے بچوں کے حوالے کرنی ہے ۔ کون سے اس کے پاس مریم یا بلاول کی طرح کے جانشنین ہیں۔ سونامی کی طرح جو پارٹی آتی ہے، وہ سونامی کی طرح جا بھی سکتی ہے۔ روٹی کپڑا اور مکان والی پارٹی اب وہ نہ رہی تو خود اتنے بڑی تبدیلی کی بات کرنے والی پارٹی اپنی اس بات کے برعکس نکلی۔ خود میاں صاحب کی پارٹی سرمایہ داروں کی حفاظت کی بات کرنے والی پارٹی ہے۔
مڈل کلاس اور غریبوں کے مفادات کی بات کرنے والی پارٹی دور دور تک نظر نہیں آرہی اور اگر ہے بھی تو عوام میں مقبول نہیں اور اگر بہت کرکے الیکشن میں کھڑ ی بھی ہوجائے تو لاکھوں ،کروڑوں روپے اخراجات جوکہ الیکشن میں حقیقت ہے، کون کرے گا۔ بالکل بھی نہیں، یہ ملک اس طرح نہیں چل سکتا ہے، یہ جس جگہ اب پہنچاہے ، اس کو فطری انداز میںمزاحمت کا سامنا کرنا ہوگا۔ تاریخ خود بخود بنے گی۔ یہ جو سیاسی قیادت ہے، اپنی افادیت کھو بیٹھے گی۔ ہوسکتا ہے مریم نواز اس طوفان میں اپنے آپ کو بچا پائے لیکن چیلینجز بہت بڑے ہیں۔
جو کچھ قومی اسمبلی میں ہوا، اس نے پارلیمنٹیرینز کو بہت رسوا کیا۔غریبوں کی جھونپڑیوں کو تو مسمارکیا جا رہا ہے کہ وہ غیر قانونی ہیں ، مگر شرفا کے غیر قانونی طور پر بنے محلات کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ یہ سب عذاب اب کھلیں گے ، تاریخ اپنا راستہ خود بنائے گی ، اسے روکا نہیں جاسکتا۔ جو قومی اسمبلی میں ہوا، یہ ثابت کرتا ہے کہ حکومت نے اپوزیشن پہ حملہ کر دیا، یہ بات ووٹر تک محسوس ہوئی ہوگی۔ یہ جھگڑا اب دنگل کی شکل اختیارکرسکتا ہے ۔
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم وجاں بچا کے چلے
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں
ہم دیکھ رہے تھے، اشارے مل رہے تھے کہ خان صاحب کا لب ولہجہ وہی ہے، جوکنٹینر کے زمانے میں تھا۔ اورکریں بھی توکیا کریں ، ایک رائے یہ بھی ہے کہ کارکردگی ہو تو اس کی بات کریں۔ کچھ یوں بھی کہا لوگوں نے کہ اگر الیکٹیڈ ہوتے تو ایسا نہیں کرتے ، مگر یہاں تو یہ دھبہ سب پر لگا ہے ، کسی پرکچھ زیادہ کسی پر کچھ کم ۔
جب تک الیکٹیبلز رہیں گے تب تک سیاسی پارٹیاں لمیٹڈ کمپنیاں رہیں گی۔ الیکٹیبلزکا ہونا جمہوریت کا زوال ہے، یہ موقع پرست اس کے ساتھ ہوتے ہیں ، یہ لوگ پہلے سے بھانپ لیتے ہیں اور پارٹیوں کو بھی پتا ہے ان کے بغیر اقتدار پانا محال ہے۔ بہت ایسے ہیں جو خان صاحب کے پاس تبدیلی کے نام سے آئے تھے، ان کی پارٹی کے منشورکا محور بھی یہی تھا ، لیکن اقتدار پانے کے بعد ان کے دور میں الیکٹیبلز ''شرفاء'' نے جوکمالات کیے، وہ پہلے کسی دور میں نہیں دیکھے گئے۔ کون کون سا اسکینڈل نہ ہوا۔ چینی ، آٹا ، پیٹرول ، دوائیاں ، راولپنڈی رنگ روڈ سے لے کے پشاور بی آر ٹی تک۔
معاملہ ، الیکٹیڈ اور سلیکٹیڈ کا بھی نہیں،جو چنائو کے ذریعے آتے ہیں وہ بھی کون سا کمال کرتے ہیں۔ ہمارے سندھیوں میں سے تو سندھ اسمبلی میں ایک بھی نہیں جو مڈل کلاس کا شخص ہو ، یا قومی اسمبلی میں۔ سینیٹ کا معاملہ الگ ہے ، وہاں انتخابات میں عام ووٹر نہیں ہوتے۔ ورنہ رضا ربانی یا شیری رحمان جیسے سیاستدان ایوان میں پہنچ ہی نہ پائیں۔ قومی اسمبلی میں جو بھی ہوا ، وہ بہت منظم انداز میں ہوا ، جنھوں نے ہنگامے میں بڑھ چڑھ کے حصہ لیا ، جیسا کہ مراد سعید و امین گنڈا پور وغیرہ۔
معاملہ در اصل ہے کیا ؟کیوں شہباز شریف سے حکومت خائف ہے؟ یہ کیا ہے کہ بلاول بھٹو مریم کے خلاف تو بولتے ہیں مگر شہباز شریف کے بہت قریب ہیں اور یہ کیا ہے کہ سینیٹ کے چیئرمین پیپلز پارٹی پر واری واری جاتے ہیں جب کہ قومی اسمبلی کے اسپیکرکا رویہ کچھ اورہے۔ ابھی تو پارٹی شروع ہوئی ہے۔
یہ جو سب ایک پیج پر تھے وہ پیج کہیں پھٹ گیا ہے۔ خان صاحب سنتے کم اور سناتے زیادہ ہیں، وہ جو مشیروں اور وزیروں کی طویل فہرست ہے، وہ بھی اپنی کارکردگی کی وجہ سے لوگوں میں رسوا ہوئے۔ کوئی لانگ بوٹ لے کے ٹاک شوز میں پہنچ جاتا تھا ،کروڑ وں ، نوکریوں کا وعدہ ، غریبوں کوگھر دینے کا وعدہ ۔ اس کے برعکس مہنگائی کے پہاڑ گرا دیے گئے ، بے روزگاری الگ۔ تین سال تو پورے ہوئے، اب حکومت کوئی گرائے بھی توکیوں گرائے ، لیکن یہ الگ بحث ہوگی ، حزب اختلاف کے بغیر حکومت گر بھی سکتی ہے۔
اس کے برعکس سوال یہ ہے کہ حکومت گرانے کی ضرورت کیا ہے۔ یوں باقی دو سالوں میں یہ حکومت جو رہی سہی اپنی مقبولیت بھی گنوا دے گی۔ حکومت گرانے کی ضرورت نہیں ، حکومت توگری ہوئی ہے۔ ادھر یہ بھی بالکل واضح انداز میں نظر آرہا ہے کہ پیپلز پارٹی اور شہباز شریف کے طرف جھکی ہوئی مسلم لیگ نون ایک پیج پر ہے۔ ہوسکتا ہے اشارہ ملنے پہ جہانگیر ترین بھی فارورڈ بلاک بنا لے ، مگر پھر ہوگا کیا ؟ خان صاحب جس دو تہائی اکثریت کے لیے آنے والا الیکشن لڑنا چاہتے ہیں، وہ تو بالکل ہی زبردستی والا الیکشن ہوگا، 2018 سے بھی زیادہ متنازع۔ اگر ایسا ہوا تو اس سے حالات اور بھی خراب ہوں گے۔
بنیادی بات یہ ہے کہ ہماری معیشت بیٹھ گئی ہے۔خان صاحب کو سمجھ آئے نہ آئے کہ چاہے اپوزیشن کچھ بھی نہ کر سکے ، لیکن ان کے نیچے سے زمین ہل گئی ہے۔ جوکام آپ کر رہے تھے، وہی کام اب شہباز شریف اور آصف زرداری اسٹبلشمنٹ کے لیے کرنے جا رہے ہیں۔ شاید اس سے بھی زیادہ سستے۔ جنرل (ر) عبدالقادراور ثناء اللہ زہری وغیرہ مسلم لیگ نون سے نکلے تو پیپلز پارٹی میں ان کے جانے کے لیے بہت گنجائش ہے۔
خان صاحب کے پاس سے یہ شرفاء اپنے مفادات کچھ لے اڑے اور غیر مقبولیت ان کے ہاتھ تھما دی۔ ویسے خان صاحب کو بھی کون سی یہ پارٹی اپنے بچوں کے حوالے کرنی ہے ۔ کون سے اس کے پاس مریم یا بلاول کی طرح کے جانشنین ہیں۔ سونامی کی طرح جو پارٹی آتی ہے، وہ سونامی کی طرح جا بھی سکتی ہے۔ روٹی کپڑا اور مکان والی پارٹی اب وہ نہ رہی تو خود اتنے بڑی تبدیلی کی بات کرنے والی پارٹی اپنی اس بات کے برعکس نکلی۔ خود میاں صاحب کی پارٹی سرمایہ داروں کی حفاظت کی بات کرنے والی پارٹی ہے۔
مڈل کلاس اور غریبوں کے مفادات کی بات کرنے والی پارٹی دور دور تک نظر نہیں آرہی اور اگر ہے بھی تو عوام میں مقبول نہیں اور اگر بہت کرکے الیکشن میں کھڑ ی بھی ہوجائے تو لاکھوں ،کروڑوں روپے اخراجات جوکہ الیکشن میں حقیقت ہے، کون کرے گا۔ بالکل بھی نہیں، یہ ملک اس طرح نہیں چل سکتا ہے، یہ جس جگہ اب پہنچاہے ، اس کو فطری انداز میںمزاحمت کا سامنا کرنا ہوگا۔ تاریخ خود بخود بنے گی۔ یہ جو سیاسی قیادت ہے، اپنی افادیت کھو بیٹھے گی۔ ہوسکتا ہے مریم نواز اس طوفان میں اپنے آپ کو بچا پائے لیکن چیلینجز بہت بڑے ہیں۔
جو کچھ قومی اسمبلی میں ہوا، اس نے پارلیمنٹیرینز کو بہت رسوا کیا۔غریبوں کی جھونپڑیوں کو تو مسمارکیا جا رہا ہے کہ وہ غیر قانونی ہیں ، مگر شرفا کے غیر قانونی طور پر بنے محلات کو تحفظ دیا جاتا ہے۔ یہ سب عذاب اب کھلیں گے ، تاریخ اپنا راستہ خود بنائے گی ، اسے روکا نہیں جاسکتا۔ جو قومی اسمبلی میں ہوا، یہ ثابت کرتا ہے کہ حکومت نے اپوزیشن پہ حملہ کر دیا، یہ بات ووٹر تک محسوس ہوئی ہوگی۔ یہ جھگڑا اب دنگل کی شکل اختیارکرسکتا ہے ۔
نثار میں تری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں
چلی ہے رسم کہ کوئی نہ سر اٹھا کے چلے
جو کوئی چاہنے والا طواف کو نکلے
نظر چرا کے چلے جسم وجاں بچا کے چلے
بنے ہیں اہل ہوس مدعی بھی منصف بھی
کسے وکیل کریں، کس سے منصفی چاہیں