زدپذیری کی طرف بڑھتا ہوا معاشرہ
لسانی آویزش میں اضافے کے بھی واضح اشارے مل رہے ہیں،جو کسی بھی وقت متشددتصادم میں تبدیل ہوسکتی ہے
BEIJING:
شاید میری تلخ نوائی سے بہت سے لوگوں کے ماتھے پر شکنیں پڑجائیں، لیکن اس حقیقت کو جھٹلانا اب ممکن نہیںہے کہ پاکستان تیزی کے ساتھ خانہ جنگی اورجغرافیائی انتشار کی طرف بڑھ رہاہے۔ معاشرے میں تیزی کے ساتھ پھیلتی بدامنی، تشدد اوربدانتظامی سماجی ڈھانچے کو تباہی کی طرف لے جانے کا سبب بن رہی ہے۔
ساتھ ہی مذہبی اقلیتوں کے ساتھ بڑھتا ہوا معاندانہ رویہ اور ان کی وحشیانہ قتل وغارت گری، پاکستانی سماج میںتیزی سے پھیلتے ذہنی تشنج، فکری انتشار اوراخلاقی دیوالیہ پن کا مظہر ہے۔ ریاست اپنے شہریوں بالخصوص معاشرے کے زد پذیر طبقات کو تحفظ فراہم کرنے میں مکمل طورپر ناکام ہوچکی ہے اور عوام اپنی حفاظت کی خاطر آتشیں اسلحہ اٹھانے پر مجبورہورہے ہیں۔
قابل غور پہلو یہ ہے کہ معاشرے میں پھیلنے والے متشدد رجحانات کثیر الجہتی ہیںاور ان کا دائرہ عمل تیزی کے ساتھ پھیلتا جارہاہے، جو کسی بھی وقت خانہ جنگی کی شکل اختیار کرکے پورے ریاستی ڈھانچے کو مسمارکرنے کا سبب بن سکتاہے۔
ایک طرف متشدد غیر ریاستی عناصر ہندو ،مسیحی اور احمدی عقائدسے تعلق رکھنے والے افراد کو مختلف طریقوں سے ہراساںکرکے ان کاحلقہ حیات تنگ کررہے ہیں،تودوسری طرف اہل تشیع کمیونٹی کے افراد کو بھی قتل کرنے کی وارداتیں ہورہی ہیںے۔جب کہ تیسری طرف لسانی آویزش میں اضافے کے بھی واضح اشارے مل رہے ہیں،جو کسی بھی وقت متشددتصادم میں تبدیل ہوسکتی ہے۔ ریاست اس صورتحال کو قابو میں لانے ، شہریوںکو تحفظ فراہم کرنے اورآیندہ روک تھام کے مناسب اقدام کرنے میں مکمل طورپرناکام ہے۔
ریاستی انتظامی ڈھانچہ تقریباً مفلوج ہوچکا ہے اورقانون نافذ کرنے کی اہلیت کھوچکاہے۔اس صورتحال کا المناک پہلو یہ ہے کہ ایک دو سیاسی جماعتوں کو چھوڑ کر باقی سبھی جماعتیں اپنے دوہرے معیاراور منافقانہ روش کی وجہ سے مجرمانہ خاموشی کا شکار ہیں،جس کی وجہ سے ان کے ذہن مائوف اور زبانیں لقوہ زدہ ہوچکی ہیں۔
دوسری طرف ایجنسیوں کے پروردہ دانشوروں کا وہ ٹولہ ہے، جوبابائے قوم کے تصور پاکستان کی غلط تاویلیں اور نظام حکمرانی کے بارے میں خود ساختہ دلائل وبراہین پیش کرکے شدت پسند عناصر کے حوصلے بلند کرنے کا سبب بن رہاہے۔لہٰذاحکومت کی نااہلی، سیاسی جماعتوں کی ضد ،ہٹ دھرمی اور انا پرستی اور اہل دانش کی خود غرضی نے اس خرابیِِ بسیار کے پھیلنے میں بنیادی کردار ادا کیا ہے،جو اب ایک ناسور کی شکل اختیار کرچکی ہے۔
اس صورتحال کا بغورجائزہ لیا جائے تو قیام پاکستان کے وقت کی فکری نرگسیت اپنی جگہ، لیکن1979 میں اس خطے میںرونماہونے والے دواہم واقعات،موجودہ صورتحال کا اصل سبب بنے ہیں۔جن میں سے ایک ایران میں مذہبی انقلاب اور دوسرا افغانستان میں روسی فوجوں کا داخل ہونا تھا۔ان دونوں واقعات نے پاکستان پاکستان جیسے فکری طورپر غیر واضح اور مبہم معاشرے کے سیاسی اور سماجی ڈھانچے پر گہرے اثرات مرتب کیے۔اس نئی صورتحال کی وجہ سے ایک طرف شدت پسند مذہبی عناصر کو مسلح ہوکرمضبوط ہونے کا موقع ملا،تو دوسری طرف انھیں طاقت کے زورپر اقتدار میں آنے کی ترغیب ملی۔
نتیجتاًمختلف مذہبی گروہوںنے عقیدے کی بنیادپرخودکوسیاسیانا(Politicise)شروع کیا۔جس کی وجہ سے مختلف عقائد رکھنے والوں کی تحقیر وتکفیر کے علاوہ انھیں طاقت کے بل بوتے پر دبانے کا رجحان پیداہوا۔یوں معاشرے میں نئے تضادات نے جنم لیا اور دائیں اور بائیں بازو کی روائتی تقسیم ، وسیع المشربی اور تنگ نظری کے درمیان جدل میں تبدیل ہوگئی ہے۔سیاسی، سماجی اور مذہبی بنیادوں پر وسیع المشربی کے تصورات رکھنے والے عناصر گو کہ اکثریت میں ہیں، مگر غیر منظم اور مناسب راہنمائی نہ ہونے کی وجہ سے تنگ نظر عناصر کو چیلنج کرنے کی پوزیشن میں نہیں ہیں۔
اس کے برعکس شدت پسند عناصر کا جال پورے ملک میں انتہائی منظم ہے، جنھیں بعض ریاستی اداروں اور ایجنسیوں کی سرپرستی حاصل ہونے کے علاوہ کچھ بیرونی ممالک سے مالی امداد بھی ملتی ہے۔اس لیے یہ پورے ملک میں جب چاہیں اور جہاں چاہیںباآسانی تخریبی کارروائی کرسکتے ہیں۔حکومت اور انتظامی ادارے ان کے سامنے بے بس اور لاچار ہوکر رہ گئے ہیں۔
جیسا کہ اوپر بیان کیا گیا ہے کہ عوام کی اکثریت مذہبی شدت پسندی سے لاتعلق اور اسے نا پسند کرتی ہے،لیکن وہ اس لیے گومگوکی کیفیت میں مبتلاہے، کیونکہ سیاسی جماعتوں کی اکثریت اور اہل دانش کا ایک بڑا حصہ خود اس مسئلے پر شدید کنفیوژن کا شکار ہونے کی وجہ سے کوئی واضح لائحہ عمل مرتب نہیں کرپا رہا۔اس صورتحال کی ایک وجہ یہ بھی ہے کہ دائیںبازوکے متحمل مزاج عناصر اپنے فکری جموداور بائیں بازوکے قدامت پسند عناصر سرد جنگ کی ذہنی کیفیت الجھے ہونے کے سبب تبدیل ہوتے عالمی رجحانات کو سمجھنے کی اہلیت سے محروم ہیں۔یوں دونوں ہی غلط سمت میں تیرنے کی کوشش کررہے ہیں،جس کا خمیازہ عوام بھگت رہے ہیں۔
پاکستان میں خرابی بسیارکا ایک سبب یہ بھی ہے کہ دوسری عالمی جنگ کے بعد سینہ ارض پر نمودار ہونے والی ریاستوں میں پاکستان،وہ واحد ملک ہے جواپنے قیام کے وقت ہی سے فکری و تہذیبی نرگسیت کا شکار چلا آرہا ہے۔دوسرا المیہ یہ ہواکہ سیاسی جماعتوں اور اہل دانش نے1971 میں سقوط ڈھاکہ کے اسباب وعوامل کا جائزہ لینے اور باقی ماندہ ملک کے لیے ایک نیاعمرانی معاہدہ ترتیب دینے کے بجائے ریاست کے منطقی جواز کی سابقہ نرگسی تفہیم ہی پر اصرار کیا۔
اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ ملک میں آئین سازی کے باوجود جمہوریت مخالف قوتوں کو کھل کر ریشہ دوانیاںکرنے کا موقع ملا،جو ایک نئی فوجی آمریت پر منتج ہوئیں۔ جنرل ضیاء کی فوجی آمریت اس لحاظ سے ایوب خان کی آمریت سے مختلف تھی کہ اس بار مذہبی قوتوں کی حمایت کی وجہ سے حکمران ٹولے کومذہب کو بطور آلہ کار استعمال کرنے کاکھل کرموقع ملا۔ جس نے اپنے اقتدار کو طول دینے کی غرض سے ایک مخصوص مسلک کی سرپرستی کرکے اسے متشدد فرقہ وارانہ اور لسانی تقسیم کی راہ پر لگادیا۔ جس کے نتیجے میں معاشرے کا روایتی سیاسی وسماجیFabricمکمل طورپر تبدیل ہوگیا۔ آج پورا معاشرہ فرقہ وارانہ اور لسانی تقسیم اور تعصب میں مبتلاہے،جس کا اظہار کسی نہ کسی شکل میں ہوتا رہتا ہے۔
یہ بات بھی غورطلب ہے کہ جن معاشروں میں علم کو محض ایک سرسری ضرورت سمجھاجاتا ہے،وہاں عقل وخرد کی بنیاد پر منطقی سوچ کا فقدان ایک عام سی بات بن جاتی ہے۔ایسے معاشرے اگر اپنی سرشت میں جذباتی ہوں تو جہل آمادگی اور جنون پرستی مزید گہری ہوجاتی ہے۔جہل بے شک بے علمی سے عبارت ہے، لیکن اصل میں جہل ایک ایسی ذہنی کیفیت ہے، جسکی بنیاد عقل کے بجائے جذبات اور منطقی استدلال کے بجائے ہٹ دھرمی پرہوتی ہے۔ اس لیے جہل آمادگی کے مظاہران لوگوں میں بھی دیکھنے میں آتے ہیں،جو بظاہر پڑھے لکھے متصورکیے جاتے ہیں۔
پاکستان میں حکمران طبقہ نے دانستہ فروغ ِعلم کا راستہ روک کرجہل آمادگی کو پروان چڑھانے میں نمایاں کردار ادا کیا ہے۔1979 ء کے بعد ایک طرف عصری تعلیم کے سرکاری ،نیم سرکاری اور نجی اداروں کے نصاب میں ایسے مضامین اور موضوعات شامل کیے گئے ،جو فرقہ وارانہ تقسیم کو گہرا کرنے کا سبب بنے۔دوسری طرف دینی مدارس کواپنا نصاب مرتب کرنے اورانتظام چلانے کی کھلی چھٹی دیدی گئی۔ جس کے نتیجے میں ان اداروں میں دو منفی رجحانات کو تقویت حاصل ہوئی ہے۔
اول تحقیق کی بنیاد پر ادیان اور فقہوں کاتقابلی جائزہ لینے کے بجائے دیگر مذاہب اور عقائد پردشنام طرازی اوران کی تکفیر۔ دوئم عسکریت پسندی کے رجحانات میں اضافہ ،جس نے مخالفین کی قتل وغارت گری اور انھیںطاقت کے زور پر دبانے کے رجحان کو تقویت دی۔
معاملہ صرف اس چھوٹے سے گروہ تک محدود نہیں ہے، جو مخالف نظریات کے حامل لوگوںکی جان کے درپئے ہے،خوفناک صورتحال یہ ہے کہ فرقہ وارانہ اور لسانی عصبیت کا زہر پورے معاشرے کی رگوں میںانجکٹ ہوچکاہے۔اس وقت لوگوں کو یہ سمجھانامشکل ہوتا جارہاہے کہ عقیدے کے فرق کایہ ہرگز مطلب نہیں کہ دیگر مذاہب اور عقائد کے لوگوں کو ان کی مذہبی رسومات(Rituals)کی ادائیگی سے جبراًروک دیا جائے یا ان کی عبادت گاہوں کو مسمارکردیا جائے۔ان پر روزگار کے راستے بند کردیے جائیں اور انھیں ملک چھوڑنے پر مجبور کردیا جائے۔
یہ بات کس طرح لوگوں کو سمجھائی جائے کہ ہندوئوںاور عیسائیوں کے ملک چھوڑجانے اور اہل تشیع کی سیاسی قوت ختم ہوجانے کے بعد کیا اہل سنت کے مختلف مسالک یعنی دیوبندی، بریلوی اور اہل حدیث ایک دوسرے سے دست وگریباں نہیں ہوں گے؟
عرض یہ ہے کہ اہل دانش اور قلم کاروں کا کام کسی نازک صورتحال میں فکری رہنمائی اور پیدا ہونے والے مسئلے کے حل کے لیے پیروی(Advocacy) کرنا ہوتاہے۔ عوام کو موبلائز کرنے کی ذمے داری سیاسی جماعتوں کی ہے،جو اس مخصوص مسئلے کے حل کو قبول کرنے پر عوام کو آمادہ کرتی ہیں۔ یہاں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ آیا سماج کے یہ دونوں شراکت دار اپنا کردار ہر قسم کی مصلحت سے بلند تر ہوکر ادا کررہے ہیں یا نہیں؟اگرایسا نہیںہے تو پھر اس ملک کو انتشار اورخانہ جنگی سے بچانا اور بکھرنے سے روکناممکن نظر نہیں آرہا۔