ہمیں بنیادی سہولیات فراہم کرنے والا طبقہ اپنے بنیادی حقوق سے محروم کیوں

’’انٹرنیشنل ڈومیسٹک ورکرز ڈے ‘‘ کے موقع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ


’’انٹرنیشنل ڈومیسٹک ورکرز ڈے ‘‘ کے موقع پر منعقدہ ’’ایکسپریس فورم‘‘ کی رپورٹ

پاکستان میں 85 لاکھ ڈومیسٹک ورکرز ہیں جو اپنے بنیادی انسانی حقوق سے محروم ہیںا ور ان کا استحصال ہورہا ہے۔

ڈومیسٹک ورکرز کے حقوق و تحفظ کو یقینی بنانے اور ان کیلئے بھرپور انداز میںآواز اٹھانے کیلئے 16 جون کو ڈومیسٹک ورکرز کا عالمی دن منایا جاتا ہے۔ اس دن کے موقع پر ''ایکسپریس فورم'' میں ایک خصوصی مذاکرہ کا اہتمام کیا گیا جس میں ماہر قانون، حکومت اور سول سوسائٹی کے نمائندوں نے اپنے خیالات کا اظہار کیا۔ فورم کی رپورٹ نذر قارئین ہے۔

بابر عباس خان
(ڈائریکٹر پیسی )

دنیا 'آئی ایل او' کے کنونشن 189(c) کے دس سال منا رہی ہے جو ڈومیسٹک ورکرز کے حوالے سے ہے اور اس میں ان کے حقوق و تحفظ کا احاطہ کیا گیا ہے۔ پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019 ء اسی کنونشن کی روشنی میں بنایا گیا جس میں سوشل سکیورٹی، میڈیکل، کم از کم اجرت،مصالحتی کمیٹیاں و دیگر معاملات شامل ہیں۔

ڈومیسٹک ورکرز کوکام کے معاوضے کے حوالے سے بدترین استحصال کا سامنا ہے،ان کی کم از کم اجرت مقرر کرنے کیلئے لیبر ڈیپارٹمنٹ نے کمیٹی بنا دی ہے ، جلد اس میں پیشرفت ہوگی۔ ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ کے تحت ان ملازمین کے میڈیکل اور ہیلتھ کیئر کی ذمہ داری سوشل سکیورٹی ڈیپارٹمنٹ کے پاس ہے، ادارے کے پاس ان کا ڈیٹا موجود نہیں تھا لہٰذا ہم نے موبائل ایپ تیار کرکے ان کی رجسٹریشن کا آغاز کیا، ہم نے مختلف علاقوں میں آگہی ڈیسک لگائے جس کا فائدہ یہ ہوا کہ کورونا کی وباء سے پہلے تک ہمارے پاس 30 ہزار ملازمین کی رجسٹریشن ہوچکی تھی۔

ان ملازمین کی رجسٹریشن کا دوبارہ سے آغاز کر دیا گیا ہے، ہم مختلف ہاؤسنگ سوسائٹیوں میں سٹالز لگا کر ڈومیسٹک ورکرز کی رجسٹریشن کرنے جا رہے ہیں،ا س میں ہمیں ڈومیسٹک ورکرز کی تنظیموں، این جی اوز، سول سوسائٹی و دیگر طبقات کا تعاون بھی حاصل ہے۔ کورونا وباء کی وجہ سے معاملات سست روی کا شکار ہوئے، اب دوبارہ سے کام کا آغاز ہوگیا ہے، ڈومیسٹک ورکرز کا ڈیٹا مرتب اور کم از کم اجرت مقرر ہونے کے بعد ان کی ویلفیئر کیلئے فنڈز کا تعین ہوجائے گا اور ورکرز ویلفیئر فنڈ میں ان کا حصہ مقرر کیا جائے گا۔

ہمارے پاس پنجاب میں 271 کے قریب میڈیکل آؤٹ لیٹس ہیں جن میں 19 ہسپتال اور ڈسپنسریاں ہیں۔ ہم نے محکمے کا سارا نظام آن لائن کر دیا ہے، محکمانہ معاملات آٹومیشن پر چلے گئے ہیں جس سے کارکردگی بہتر ہوئی ہے، اب رجسٹریشن پورٹل کے ذریعے ورکرز کی آن لائن رجسٹریشن ہوتی ہے، جبکہ فنڈز کا حصہ بھی آن لائن ہی جمع ہوتا ہے، ورکرز گھر بیٹھے کلیم کر سکتے ہیں اور رقم ان کے بینک اکاؤنٹ میں ٹرانسفر کر دی جاتی ہے۔ ڈومیسٹک ورکرز کی رجسٹریشن اور ان کی سہولیات کے حوالے سے میکنزم بننے سے مزید آسانیاں پیدا ہونگی۔

بشریٰ خالق
(نمائندہ سول سوسائٹی )

''آئی ایل او'' کے مطابق پاکستان میں 85 لاکھ ڈومیسٹک ورکرز ہیں جن میں زیادہ تر خواتین اور بچے ہیں۔ ایک محتاط اندازے کے مطابق 90 فیصد ڈومیسٹک ورکرز خواتین، بچے اور بچیاں ہیں جن کا کوئی پرسان حال نہیں ہے۔ مرد ملازمین تو گھر سے باہر کام کرتے ہیں مگر خواتین اور بچے گھروں کے اندر کام کرتے ہیں جہاں چار دیواری میں ان کے ساتھ تشدداور نارووا سلوک ہوتا ہے۔

ان سے سارا دن کام لیا جاتا ہے، یہ اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہیں اور انہیں نامناسب معاوضہ دیا جاتا ہے جو افسوسناک ہے۔ ڈومیسٹک ورکرز کے حقوق و تحفظ کے حوالے سے پنجاب نے لیڈ لی اور تمام تر مخالفت کے باوجود 2019ء میں ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ منظور کیا جس پر اراکین اسمبلی و دیگر سٹیک ہولڈرز مبارکباد کے مستحق ہیں مگر افسوس ہے کہ دو برس گزرنے کے باجود اس ایکٹ کے رولز آف بزنس نہیں بن سکے جس کی وجہ سے اس کا فائدہ نہیںا ٹھایا جاسکا۔

یہ بل خوش آئند ہے کیونکہ اس میں ڈومیسٹک ورکرز کے ہر طرح کے حقوق کا مکمل خیال رکھا گیا ہے۔ انہیں 'ورکر' قرار دیا گیا ہے، اب انہیں نوکر وغیرہ نہیں کہا جاسکتا تاکہ ان کی عزت نفس مجروح نہ ہو۔ جو بھی شخص کام کرتا ہے تووہ ملازم ہے اور جس جگہ کام کرتا ہے وہ اس کی ورک پلیس ہے لہٰذا ڈومیسٹک ورکرز سے بھی اسی طرح ہی سلوک کیا جانا چاہیے جس طرح دیگر ملازمین سے کیا جاتا ہے۔

اس ایکٹ کے مطابق خواتین ڈومیسٹک ورکرزکیلئے 45 میٹرنٹی لیوز جبکہ تمام ڈومیسٹک ورکرز کے لیے ہفتہ وار چھٹی، سرکاری چھٹیاں، ملازمت کا لیٹر و دیگر سہولیات کو یقینی بنایا گیا ہے، اگر کوئی فل ٹائم ملازم ہے تو اس کے لیے مناسب رہائش کا بندوبست بھی آجر کی ذمہ داری ہے، اس کے علاوہ کمپلینٹ اینڈ ڈسپیوٹ ریزولوشن کا میکنزم بھی طے کیا گیا ہے۔

اس کے لیے لوکل گورنمنٹ کی سطح پر کمیٹیاں قائم کی جائیں گی۔ اس ایکٹ کے مطابق 15 سال سے کم عمر بچے کو گھر پر ملازم نہیں رکھا جاسکتا، کم عمر بچے اتنے سمجھدار نہیں ہوتے، انہیں جنسی تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے، سوال یہ ہے کہ ان کا تحفظ کیسے یقینی بنایا جائے گا؟ مطالبہ ہے کہ عمر کی حد کو بڑھا کر 18 برس کیا جائے۔

کورونا کی مشکل صورتحال میں سب سے زیادہ استحصال ڈومیسٹک ورکرز کا ہوا، انہیں قانونی تحفظ حاصل نہیں تھا، بغیر کوئی پیسے دیے ملازمت سے فارغ کروا دیا گیا، انہیں ہر سطح پر نظرانداز کر دیا گیا،البتہ مخیر حضرات، این جی اوز و سول سوسائٹی نے ان کی راشن و دیگر ضروریات کو پورا کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے، حالیہ بجٹ میں بھی ان کیلئے کچھ نہیں رکھا گیا، ڈومیسٹک ورکرز کی حالت دیکھتے ہوئے ان کے لیے زیادہ بجٹ مختص کرکے ہنگامی بنیادوں پر کام کیا جائے۔ ڈومیسٹک ورکرز کے حوالے سے ورکرز ویلفیئر فنڈ کی بھی بات کی گئی ہے۔

حکومت نے 50ہزار ڈومیسٹک ورکرز کو پیسی کے ساتھ رجسٹر کرواکر سوشل سکیورٹی کارڈ جاری کرنے کا کہا تھا، اب تک 30 ہزار سے زائد ورکرز رجسٹرڈ ہوئے ہیں، ہم نے بھی بے شمار خواتین کو رجسٹر کرایا مگر تاحال اس میں کوئی پیش رفت نہیں ہوسکی، اب یہ خواتین ہم سے سوال کر رہی ہیں، اس طرح لوگوں کا سسٹم سے اعتماد اٹھ جائے گا۔ میری رائے ہے کہ حکومت پائلٹ پراجیکٹ کے طور پر تاحال رجسٹر ہونے والے ملازمین کو سوشل سکیورٹی کارڈ جاری کرے، اس سے نہ صرف ان کی حوصلہ افزائی ہوگئی بلکہ مزید ورکرز بھی اپنی رجسٹریشن کرائیں گے۔

پاکستان میں مزدوروں کے حوالے سے قوانین موجود ہیں، لیبر پالیسی موجود ہے، ہم نے عالمی وعدے اور کنونشن دستخط کر رکھے ہیں، پائیدار ترقی کے اہداف کے حوالے سے بھی 2030ء میں ہم نے اپنی رپورٹ پیش کرنی ہے لہٰذا تندہی کے ساتھ ہر پہلو پر کام کرنا ہوگا۔ ILO کی قرارداد189 کو 10 برس مکمل ہوچکے ہیں مگر پاکستان نے ابھی تک اس کی توثیق نہیں کی، یہ قرار داد ڈومیسٹک ورکرز کے حوالے سے ہے، ہمیں اس کی توثیق کرنی چاہیے اور دنیا کو یہ بھی بتانا چاہیے کہ ہم نے خود ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ منظور کر رکھا ہے اور ہم ان کی فلاح و بہبود اور حقوق و تحفظ کیلئے کام کر رہے ہیں۔

افسوس ہے کہ ہمیں بنیادی سہولیات دینے والا طبقہ خود اپنے بنیادی حقوق سے محروم ہے۔ عام مزدور کیلئے تو حکومت نے کم از کم اجرت 20 ہزار روپے ماہانہ مقرر کی ہے مگر ڈومیسٹک ورکرز کیلئے کوئی حد مقرر نہیں ہے، ان کا استحصال ہورہا ہے، اس پر فوری توجہ دی جائے۔ حکومت نے تمام شہریوں کو صحت انصاف کارڈ فراہم کرنے کا اعلان کیا ہے، میرے نزدیک پہلے مرحلے میں ڈومیسٹک ورکرز کو ہنگامی بنیادوں پر کارڈ جاری کیے جائیں، اس سے انہیں بہت بڑا ریلیف ملے گا۔

سحر بندیال ایڈووکیٹ
(ماہر قانون )

ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ کے ذریعے پنجاب حکومت نے ایک ایسے طبقے کو ریگولیٹ کرنے کی طرف قدم اٹھایا جو ہماری معیشت میں اپنا حصہ تو ڈالتا ہے مگر منظر عام سے غائب ہے، یہ ڈومیسٹک ورکرز ہمارے گھروں کا خیال رکھتے ہیں اور ان کی وجہ سے ہی ہماری زندگیوں میں سکون ۔ اس ایکٹ کا کریڈٹ لاہور ہائی کورٹ اور اراکین اسمبلی کو جاتا ہے جن کی کاوشوں سے ان ورکرز کو حقوق ملنے جا رہے ہیں۔

ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ میں ڈومیسٹک ورکرز کی کم از کم اجرت کے حوالے سے ابہام ہے، جسے دور کرنے اور ان کی کم از کم اجرت طے کرنے پر کام کرنا ہوگا۔ اس ایکٹ کے مطابق 15 سال سے کم عمر بچے کو ملازمت پر نہیں رکھا جاسکتا جبکہ آئین کا آرٹیکل 25(A) حکومت کو پابند کرتا ہے کہ وہ 16 سال تک کے بچوں کو مفت اور لازمی تعلیم دے لہٰذا یہاں دونوں قوانین میں تضاد ہے ، سوال یہ ہے کہ ان بچوں کی تعلیم کا کیا ہوگا؟ کیا ملازمت پر رکھنے والا شخص انہیں تعلیم دے گا؟ میرے نزدیک یہ لازم ہونا چاہیے کہ آجر ان بچوں کی تعلیم کا خیال رکھے۔

وفاقی حکومت نے بھی ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ اسلام آباد منظور کیا ہے جس میں ایک سال بڑھا دیا گیا اور ملازمت کیلئے کم از کم عمر 16 سال سے رکھی ہے۔ پنجاب ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ 2019ء میںان ملازمین کی صحت کا بھی خیال رکھا گیا ہے۔

ان کی میڈیکل کیئر کے اخراجات ڈومیسٹک ورکرز فنڈ سے کیے جائیں گے، سوال یہ ہے کہ کیا یہ گرانٹس کے ذریعے ہوگا یا آجر بھی کچھ رقم ادا کرے گا؟ اس ایکٹ میں ڈومیسٹک ورکرز کے حقوق کے تحفظ کو یقینی بنایا گیا ہے، کوئی بھی ورکر دباؤ یا کسی اور وجہ سے آجر کے ساتھ معاہدے میں اپنے حقوق کو نہیں چھوڑ سکے گا بلکہ قانون کے مطابق اسے لازمی حقوق دیے جائیں گے اور اس کے مطابق ہی معاہدہ ہوگا۔

اس کے علاوہ کسی بھی ملازم کو ملازمت سے فارغ کرنے کیلئے ایک ماہ قبل نوٹس دینا ہوگا یا ایک ماہ کی تنخواہ دینا ہوگی۔ کورونا کی وباء کے دوران ڈومیسٹک ورکرز کو شدید مشکلات کا سامنا کرنا پڑا، انہیں بے یارو مددگار چھوڑ دیا گیا۔

ان کی صحت کے حوالے سے بھی معاملات پریشان کن تھے۔ اس ایکٹ میں ڈومیسٹک ورکرز کی صحت کا خیال رکھنے کیلئے آجر کو ان کے سالانہ ٹیسٹ، ویکسی نیشن و غیرہ لازمی کرانے کا پابندبھی کیا گیا ہے۔ ہائی کورٹ کے فیصلے کی روشنی میں ڈومیسٹک ورکرز ایکٹ بنایا گیا جسے دو برس گزر چکے ہیں لیکن اس کے رولز آف بزنس نہیں بن سکے لہٰذا اب جلد از جلد رولز آف بزنس بنا کر ڈومیسٹک ورکرز کو ریلیف دینا ہوگا۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں