جانبدار ملکوں کی غیر جانبدار کانفرنس

جب مغربی بلاک نے سوشلسٹ بلاک کو پسپا کر دیا تو معنوی اور منطقی طور پر غیر جانبدار بلاک کا خاتمہ ہو گیا تھا


Zaheer Akhter Bedari September 09, 2012
[email protected]

OTTAWA: ایران کے شہر تہران میں منعقد ہونے والی، جانبدار ملکوں کی غیر جانبدار کانفرنس اختتام کو پہنچی۔ دنیا کے اہلِ فکر اس غیر جانبدار کانفرنس پر حیران ہیں کہ سوشلسٹ بلاک کی ٹوٹ پھوٹ کے بعد غیر جانبداری کا جواز کہاں رہا۔ دوسری عالمی جنگ کے خاتمے کے بعد جب امریکا نے نو آبادیاتی سامراجیت کا خلا پُر کیا تو دنیا دو بلاکوں میں تقسیم ہو چکی تھی۔

ایک امریکا کی سرپرستی میں مغربی بلاک جو سرمایہ دارانہ نظام کی نمایندگی کرتا تھا، دوسرا سوشلسٹ بلاک جو روس کی قیادت میں سوشلزم کی نمایندگی کرتا تھا۔ دونوں بلاکوں میں تصادم کو روکنے، طاقت کے توازن کو برقرار رکھنے اور پس ماندہ ملکوں کو سرد جنگ سے الگ رکھنے کے لیے دنیا کے کچھ سیاسی رہنماؤں نے غیر جانبدار تنظیم کی بنیاد رکھی تھی، جس کا بنیادی مقصد ان دونوں میں سے کسی ایک بلاک کی حمایت سے یا مخالفت سے الگ رہنا تھا۔ بھارت، انڈونیشیا، مصر، شام، لیبیا سمیت کئی ملک اس غیر جانبدار تنظیم کے رکن تھے اور عالمی سطح پر اس تنظیم کی اہمیت کو تسلیم کیا جاتا تھا۔

لیکن جب مغربی بلاک نے سوشلسٹ بلاک کو پسپا کر دیا تو معنوی اور منطقی طور پر غیر جانبدار بلاک کا خاتمہ ہو گیا تھا۔ کیونکہ دو نظریاتی طور پر متصادم بلاکوں میں سے ایک بلاک نہ صرف ختم ہو گیا تھا بلکہ اس بلاک میں شامل ملکوں نے سرمایہ دارانہ معیشت کی راہ اپنالی تھی۔ اس تبدیلی کے بعد غیر جانبداری کا تصور ایک دھوکے اور پُرفریب سیاسی اصطلاح کے علاوہ کچھ نہیں۔

اصل میں غیر جانبدار بلاک نے غیر جانبداری کی نقاب اوڑھ کر بالواسطہ طور پر مغرب کے سرمایہ دارانہ نظام کی حمایت کی تھی، کیونکہ سرمایہ دارانہ نظام کی تاریخ میں سوشلسٹ نظام پہلے اور طاقتور متبادل کے طور پر سامنے آیا تھا۔ غیر جانبدارانہ تنظیم میں شامل ملک سرمایہ دارانہ استحصالی اور جارحانہ فطرت کے نظام کو پسند تو نہیں کرتے تھے اور انھیں اس حقیقت کا ادراک بھی تھا کہ تیسری دنیا کے اربوں عوام جو سرمایہ دارانہ لوٹ کھسوٹ سے تنگ آ گئے تھے، تیزی سے سوشلسٹ نظام کی طرف راغب ہو رہے تھے۔

اس زمینی حقیقت کا تقاضا یہ تھا کہ سرمایہ دارانہ استحصال اور اس کی جارحانہ فطرت کے پیشِ نظر غیر جانبدار ملک سوشلسٹ معیشت کو قبول کر لیتے، اگر یہ رویہ اپنایا جاتا تو نہ صرف دنیا سے اقتصادی ناانصافی کا خاتمہ ممکن ہو جاتا بلکہ امریکا کی جارحانہ پالیسیوں کے آگے ایک مضبوط دیوار کھڑی ہو جاتی لیکن غیر جانبدارانہ منافقت نے امریکا کی سپر پاوری کا راستہ ہموار کر دیا۔

اب جب کہ دنیا امریکا کی عالمی حکمرانی کے شکنجے میں پھنسی ہوئی ہے اور غیر جانبداری اپنی موت آپ مر چکی ہے تو اس کی لاش کو اُٹھائے پھرنا کہاں کی عقل مندی ہے؟ بھارت، انڈونیشیا جیسے بڑے ملکوں کے بعد مشرق وسطیٰ کے کئی ملک اس بے معنی بلکہ منافقانہ غیر جانبداری کے رکن تھے لیکن اب صورتِ حال یہ ہے کہ بھارت ایشیا میں امریکا کا سب سے بڑا اتحادی ہے اور مشرق وسطیٰ کی عوامی تحریکوں کی گنگا نہانے والے ملکوں کے تازہ دم اوتار اسلامسٹوں کا نقاب اوڑھ کر امریکا اور اس کے استحصالی نظام کی سرپرستی میں آ رہے ہیں۔

اس خطے میں امریکا عربوں کے تیل کی دولت پر اپنا قبضہ برقرار رکھنے کے لیے اسرائیل کی شکل میں عربوں پر جس عفریت کو مسلط کر رکھا ہے، نہ ماڈرن مسلم ممالک سے اس کو خطرہ ہے نہ مشرق وسطیٰ کی عوامی تحریکوں کے خون میں نہائے اسلامسٹ ملکوں سے اسرائیل اور امریکی مفادات کو کوئی خطرہ ہے۔ خطرہ صرف اس ایک شرارتی بچّے سے ہے جسے ہم ایران کے نام سے جانتے ہیں، کیونکہ ایران کے رہنما کھلے بندوں اسرائیل کو تباہ کرنے کی باتیں کرتے رہتے ہیں۔

امریکا کو ایران کی ان دھمکیوں سے تو کوئی تشویش نہیں تھی لیکن جب سے ایران نے ایٹمی تیاریوں کی راہ اپنائی ہے، امریکا سخت تشویش میں مبتلا ہے۔ ایران کو ایٹمی ہتھیار بنانے سے روکنے کے لیے امریکا مسلسل سخت ترین اقتصادی پابندیاں عاید کر رہا ہے اور دنیا کو یہ باور کرانے کی احمقانہ کوششیں کر رہا ہے کہ ایٹمی ایران ساری دنیا کے لیے ایک زبردست خطرہ بن جائے گا۔

ایران نے غیر جانبدار 120 ملکوں کے وفود کی یہ کانفرنس اس لیے بلائی تھی کہ اس کے ذریعے وہ امریکا کی بڑھتی ہوئی پابندیوں کو روک سکے لیکن بدقسمتی سے غیر جانبدار ملکوں کی بھاری اکثریت آج بھی امریکا کی تابعدار ہے، حتیٰ کہ مصر کی اخوانی اور ''رول ماڈل'' مسلم ملک ترکی بھی امریکا کے ساتھ کھڑا ہے۔ امریکا ایران کو ایٹمی ملک بننے سے روکنا چاہتا ہے اور شام سے بشار الاسد کا خاتمہ چاہتا ہے اور ہمارے الٹرا ماڈرن مسلم ملک اس حوالے سے اس غیر جانبدار کانفرنس میں امریکا اور اس کی لے پالک اقوام متحدہ کی ہاں میں ہاں ملاتے نظر آتے ہیں۔ کسی ملک نے نہ امریکا کی عالمی حکمرانی کے دعوے کو چیلنج کیا نہ ایران اور شام کے حوالے سے امریکی پالیسیوں کی مخالفت کی۔

بلاشبہ انقلاب ایران نے اس خطے میں امریکی مفادات کی چولیں ہلا دی تھیں لیکن حالیہ تاریخ کے اس بے مثال انقلاب کو فقہی بھول بھلیوں میں دھکیل کر مسلم ملکوں میں فقہی قتل و غارت کی راہ پر اس طرح آگے بڑھایا گیا اور مسلم ملکوں میں فقہی تقسیم اور اس کی سرپرستی کے کلچر کو اس طرح فروغ دیا گیا کہ آج یہ وبا مذہبی انتہا پسندی اور فرقہ وارانہ قتل و غارت کی شکل میں ساری دنیا کے لیے ایک ایسا خطرہ بن گئی ہے جس کے خلاف ساری دنیا متحد نظر آتی ہے۔

جب ہم اس تناظر میں تہران میں ہونے والی اس نام نہاد غیر جانبدار کانفرنس پر نظر ڈالتے ہیں تو یہی احساس ہوتا ہے کہ ایران وہ مقاصد حاصل کرنے میں ناکام رہا جس کے لیے اس نے اس کانفرنس کا اہتمام کیا تھا۔ اس کانفرنس میں شریک 120 ملکوں کے دوغلے کردار کی وجہ ہی سے ایران، امریکا اور مغربی ملکوں کو یہ تاثر دینے میں ناکام رہا کہ یہ غیر جانبدار کانفرنس اس کی سفارتی فتح اور امریکی پابندیوں کے خلاف 120 ملکوں کی حمایت ہے۔

دنیا کے ان 120 ملکوں پر غیر جانبداری کا لیبل ایک بہتان کے سوا اور کچھ نہیں کیونکہ ماضی میں اس تحریک کی پہچان سردِ جنگ میں ملوث دونوں بلاکوں کے حوالے سے نام نہاد غیر جانبداری تھی۔ اب جب کہ پوری دنیا پر ایک ہی استحصالی نظام مسلط ہے تو غیر جانبداری کا لفظ بے معنی ہو کر رہ گیا ہے۔ ان غیر جانبدار ملکوں کے اوتار یہ اخلاقی فرض ادا کرنے سے بھی قاصر رہے کہ امریکا کو بہ حیثیت سپرپاور یہ امتیازی اور شرم ناک پالیسی نہیں اپنانی چاہیے کہ وہ ایران کو ایک طرف پُر امن ایٹمی طاقت بننے سے روکے اور دوسری طرف اسرائیل کو نہ صرف ایٹمی طاقت رہنے دے بلکہ اس کی حفاظت کی ذمے داری بھی لے۔

اس دو روزہ غیر جانبدار کانفرنس کے دوران یہی دیکھا گیا کہ اس میں شرکت کرنے والوں کو ایران پر امریکا کی طرف سے عاید کی جانے والی اقتصادی پابندیوں پر کوئی تشویش نہ تھی۔ اگر تھی بھی تو محض رسمی ورنہ ان مہاتمائوں نے اپنا بیشتر وقت اپنے ''قومی مفادات'' کی سرگرمیوں میں گزارا اور غریب ایران کی میزبانی کا بھرپور لطف اٹھاتے رہے۔

تبصرے

کا جواب دے رہا ہے۔ X

ایکسپریس میڈیا گروپ اور اس کی پالیسی کا کمنٹس سے متفق ہونا ضروری نہیں۔

مقبول خبریں