فوم اور پلاسٹک کی کرسیاں متعارف بید کی کرسیاں استعمال کرنے کے رجحان میں کمی

بید کی کرسیاں تیار کر نے والے کاریگروں کی آخری نسل اس پیشے سے وابستہ ہے، چند سالوں میں یہ کرسیاں ناپید ہو جائیں گی

لیاقت آباد کی فرنیچر مارکیٹ میں کاریگر بید کی کرسیاں بنانے میں مصروف ہیں(فوٹو ایکسپریس)

جدید ڈیزائن کی فوم، پلاسٹک اور دیگر طرح کی کرسیاں متعارف ہونے کے بعد قدیم طرز کی تیار ہونے والی بید کی کرسیوں کے استعمال کے رجحان میں کمی واقع ہو گئی ہے اور اب یہ کرسیاں صرف سرکاری دفاتر میں نظر آتی ہیں۔

ان کرسیوں کے تیار کر نے والے کاریگروں کی آخری نسل اس پیشے سے وابستہ ہے ، کاریگروں کا کہنا ہے کہ آئندہ چند سالوں میں یہ کرسیاں ناپید ہو جائیں گی ، ایکسپریس نے بید سے کرسیاں تیار کرنے والے کاریگروں پر ایک تفصیلی سروے کیا، لیاقت آباد میں اس قدیم ترین پیشے سے منسلک کاریگروں بشیر احمد اور مسرور حسین نے ایکسپریس کو بتایا کہ بید کی مدد سے تیار کرنے والی کرسیوں کو کین چیئر بھی کہا جاتا ہے، یہ کرسیاں شیشم کی لکڑی اور بید سے تیار کی جاتی ہیں، کراچی میں یہ کرسیاں آرام باغ ، لیاقت آباد ، سندھی ہوٹل ، منظور کالونی اور سولجر بازار میں تیار کی جاتی ہیں ،کراچی میں آج سے 10برس قبل اس پیشے سے وابستہ کاریگروں کی تعداد 1500 سے زائد تھی ، جو اب گھٹ کر 200 تک محدود ہو گئی ہے ۔




انھوں نے بتایا کہ اس پیشے سے 70 فیصد اردو کمیونٹی اور 30 فیصد دیگر قوموں کے لوگ وابستہ ہیں اور کراچی میں اب اس پیشے سے منسلک دکانوں کی تعداد 30 تک ہو گی، انھوں نے بتایا کہ 2005تک بید والی کرسیوں کی فروخت بڑے پیمانے پر ہوتی تھی ،کمرشل استعمال کے علاوہ گھروں میں بھی یہ کرسیاں استعمال کے لیے خریدی جاتی تھیں تاہم اب فوم اور پلاسٹک کی کرسیوں کے جدید ڈیزائن متعارف ہونے کے بعد ان کرسیوں کی فروخت میں تیزی سے کمی واقع ہوگئی ہے ، کچھ برس قبل کراچی میں سالانہ یہ کرسیاں 40 ہزار تک تیار کی جاتی تھیں ، جن کی تعداد اب کم ہو کر سالانہ 7 سے 8 ہزار رہ گئی ہے، انھوں نے بتایا کہ اب یہ کرسیاں صرف سرکاری دفاتر میں استعمال ہوتی ہیں تاہم کچھ نجی ادارے بھی ان کرسیوں کو خریدتے ہیں، انھوں نے بتایا کہ یہ محنت طلب کام ہے اور اس میں معاوضہ کم ملتا ہے ، جس کی وجہ سے اب نئی نسل یہ پیشہ اختیار نہیں کررہی ہے اور ان کرسیوں کے کاریگروں کی آخری نسل یہ کام کر رہی ہے ۔
Load Next Story